وہ جو قائداعظم تھا
محمد علی جناح کی اس سے بڑی توہین اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ اسے پاکستان بنانے کے جرم میں سیکولر کہا جائے
چھوٹی سی عمر میں کسی کام سے نہیں بس سیر سپاٹے کے لیے میں سرگودھے آیا ہوا تھا۔
سرگودھا ہمارا ضلع بھی تھا اور اس علاقے کا بڑا شہر بھی۔ میرے لیے سرگودھے آنا جانا اس لیے آسان تھا کہ میرے ماموں خان بہادر ملک نور محمد یہاں وکالت کرتے تھے۔ میرے ماموں زاد بھائی میری اوپر تلے کی عمر کے تھے۔ میری بڑی تفریح اسی شہر کا چکر لگانا تھی۔
کوئی دس گیارہ بجے کا وقت تھا اور میں کمپنی باغ سے متصل سڑک سے گزر رہا تھا کہ لوگ دکانوں پر ریڈیو کے سامنے چپ چاپ کھڑے ہو گئے۔ میں سڑک کی جس سمت میں تھا، اس کے قریب باغ تھا ،کوئی دکان وغیرہ نہیں تھی لیکن تجسس کی وجہ سے میں سڑک کی اس طرف ہی کھڑا ہو گیا۔
تھوڑی دیر بعد ریڈیو سننے والے رونے لگے، ان میں کچھ اونچی اونچی آواز میں اور جب مجھے پتہ چلا کہ لوگ کس کو رو رہے ہیں تو میں رونے نہیں چیخنے لگا اور اپنے آپ سے کہنے لگا، میرا باپ مر گیا، میرا باپ مر گیا اور میرے قریب کے دوسرے لوگ بھی سب اونچی اونچی آواز میں اپنے باپ کی وفات کا ماتم کرنے لگے۔
ہم سب کے ہمارے ملک کے بانی اور باپ حضرت قائداعظم وفات پا گئے تھے۔ آج سوچتا ہوں کہ ہر طرف جس طرح ماتم برپا تھا اسے ہی صف ماتم کہا جاتا ہے۔ 1947ء میں پاکستان بنا اور 1948ء میں اس کا بنانے والا چلا گیا۔ آنحضرت ﷺ کی امت کو ایک نیا ملک دینے کے بعد، پہلا ملک جو اس سر زمین پر خدا اور رسول کے نام پر بنایا گیا تھا۔
اس حیرت انگیز شخصیت نے تعلیم مغرب میں حاصل کی، اسی مغربی تہذیب میں پلا بڑھا، اسی کی زبان انگریزی اس کی زبان تھی۔ وہ مشرق میں پیدا ہونے والا ایک انگریز تھا لیکن قدرت کے کرشمے اور تماشے دیکھیے کہ اس شخص کو مسلمانوں کا ایک منفرد فرد بنا دیا، ایک اکلوتا مسلمان جس نے دنیا کی تاریخ بھی بدل ڈالی اور مسلمانوں کی تاریخ بھی اور یوں ان کے دین کے نام پر ان کی تاریخ میں پہلی بار ایک نیا ملک بنا ڈالا اور نام رکھا پاکستان۔ پاک سر زمین اور پاک و صاف لوگوں کا ملک۔ اتنی بڑی اور ناقابل تصور سعادت کسی انسانی جدوجہد کا ثمر نہیں تھی۔
یہ اﷲ تبارک تعالیٰ کی منشا اور اس کے پیغمبر آخر زماں کی آرزو تھی جو مسلمانوں کے لیے ایک اجنبی شکل و صورت والے شخص محمد علی جناح کی صورت میں سامنے آئی پھر جب یہ ملک بن گیا تو اس کے سربراہ کی زندگی دیانت و امانت کا ایک نمونہ اور پیکر بن کر سامنے آئی۔
سچی بات یہ ہے اور میں جب بھی موقع ملتا ہے لکھ دیتا ہوں کہ قُرونِ اُولیٰ کے مسلمانوں کو پیغمبر کی براہ راست تعلیمات نے جو اخلاقی دولت اور جو دیانت و امانت عطا کی تھی مدینہ کی گلیوں میں پھرنے والی ایک روح بھی اس سے سیراب ہوتی رہی تھی جس نے چودہ سو برس بعد انسان کی مجسم شکل اختیار کی۔ ریاستی امور میں دیانت کے بعض دوسرے نمونے بھی مل سکتے ہیں لیکن اس شخص کے دل و دماغ کو اللہ نے جس ایمانی طاقت سے بھر دیا تھا وہ ناقابل بیان تھی اور اس کی دیانت و امانت بے مثال۔
اپنی محبوب بیوی کی ایک ہی اولاد۔ جو پاپا کے سینے سے لگ کر سوتی تھی اور جسے دیکھ دیکھ کر اس کا عظیم المرتبت باپ زندہ تھا لیکن یہ باپ ایک عجیب و غریب مسلمان باپ تھا۔ یہ کہانی آپ نے بار بار پڑھی ہو گی کہ بیٹی دینا نے کسی پارسی سے شادی کی تو باپ نے اسے آخری مرتبہ دیکھا اور پھر بیٹی کا یہ دیدار آخری ثابت ہوا۔
کسی باپ سے پوچھیں کہ کیا وہ اپنی بیٹی کو اس طرح اپنی زندگی سے نکال سکتا ہے۔ میں ایک بیٹی کا باپ ہوں اور اعتراف کرتا ہوں کہ میں بہت ناراض ہو سکتا تھا اور اس کی کسی ایسی حرکت پر اس سے قطع تعلق بھی کر سکتا تھا لیکن دیکھنے تک کا روادار نہ ہونا کیسے ممکن ہے مگر اس کے ملازم بتاتے ہیں کہ بیٹی سے قطع تعلق کے بعد صاحب رات بھر اپنے کمرے میں گھومتا رہا، روتا رہا یا چپ چاپ یہ غم اپنی بیمار جان پر سہتا رہا ۔
کوئی بھی کچھ اندازہ کر سکتا ہے لیکن اس کی حیرت گم نہیں ہو سکتی وہ تصور نہیں کر سکتا کہ کوئی باپ اس قدر ''سنگدل'' بھی ہو سکتا ہے لیکن یہ سب ایک تاریخی حقیقت ہے، ایک واقعہ ہے کوئی اسے تسلیم کرنے کی جرات کرے یا نہ کرے۔
کسی باپ کو یہ طاقت اور صبر صرف اﷲ تبارک تعالیٰ کی کرمفرمائی سے ہی مل سکتا ہے اور یہ اس لیے کہ اس شخص نے آگے چل کر مسلمانوں کی تاریخ بدلنی تھی، قدرت کاملہ اس کارنامے کے لیے اس شخص کو تیار کر رہی تھی اور اس شخص نے اﷲ تبارک تعالی کے اس انعام کو قبول کرنے کا حق ادا کر دیا، کسی قسم کے دعوے کے بغیر اور کسی قسم کی دنیاوی خواہش کے بغیر۔
آج ہمارے بعض بدبخت دانشور اس شخص کو کبھی سیکولر کہتے ہیں اور کبھی کچھ اور 'یعنی ایک سیکولر شخص نے' اسلامی تاریخ کا ایک ایسا کارنامہ سر انجام دے دیا جس کا تصور بھی ممکن نہیں۔ ہم تو اس کارنامے پر اسے سزا دینا چاہتے ہیں لیکن اﷲ و رسول کی مہربانی اور منظوری سے بننے والے اس ملک کے حکمران اپنے آپ کو سیکولر کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں ایوب خان نے اپنے آپ کو سیکولر کہا اور اب ہماری نئی حکومت بھی یہی دعویٰ کرتی ہے اس سے پہلے حکومت کی کتوں والی سرکار بھی یہی دعویٰ رکھتی تھی۔
محمد علی جناح کی اس سے بڑی توہین اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ اسے پاکستان بنانے کے جرم میں سیکولر کہا جائے۔ یہ زبان تو بھارتیوں کی ہے جو اس ملک کو برداشت نہیں کرتے۔
قائد اعظم نے اپنی قوم کو آزاد چھوڑ دیا اس کے سامنے اپنا نمونہ پیش کر کے اسے حالات کے حوالے کر دیا، اس دوران اسلام کا نام لینے والے علماء تھے جو آپس میں لڑتے بھڑتے رہے اور لڑ بھڑ رہے ہیں جو لوگ قرآن و حدیث سے حاصل ہونے والی تعلیمات پر متفق نہیں ہو سکے، ان کا کوئی لیڈر اگر کہے کہ شکر ہے، ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے تو اس کا گلہ کس سے کیا جائے۔
اگر مسلمانوں کے اس ملک کو اس کی شایان شان قیادت مل جاتی جو اس قوم کی تربیت کر سکتی تو کون ہوتا جو محمد علی جناح کو سیکولر کہہ سکتا۔ سیکولرزم کے تاریخی معنی تو کچھ اور ہیں لیکن پاکستان کے ان پڑھ اور بے دین لوگوں نے گھبرا کر ملک کے بانی کو ہی اپنے جیسا بے دین بنا دیا ہے تا کہ وہ اس ملک میں پھل پھول سکیں جو بلاشبہ خدا و رسول کے نام پر بنایا گیا تھا اور جس میں ان جیسوں کی گنجائش نہیں تھی۔
یہ لوگ اپنی اس مہم میں تنہا نہیں ہیں انھیں دنیا بھر کی اسلام دشمن اور پاکستان دشمن قوموں کی امداد حاصل ہے۔ مشکل یہ ہے کہ پاکستانی قوم میں ایسا جوہر موجود ہے جو اس کے دشمنوں کے لیے ایک خطرہ ہے۔ پاکستان جیسے مغرب اور خصوصاً امریکا کے محتاج ملک کا چپکے چپکے ایٹم بم بنا لینا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔
بھٹو نے اپنی تباہ کن خرابیوں کے باوجود یہ استادی کر دکھائی کہ مغرب کو اپنی اس کاریگری سے بے خبر رکھا۔ مجھے یاد ہے کہ جب دھماکہ ہوا تو امریکا کے ایک نائب وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کا ایٹم بم امریکا کے لیے ناقابل برداشت ہے چنانچہ یہ ناقابل برداشت کارروائی جاری ہے۔
قائداعظم کے کردار کی برکت یہ قوم اپنی زندگی کے حیران کن ثبوت دیتی رہی ہے اور یہی کیا کم ہے آج اس کی سیاسی قیادت پاکستان کے مقاصد سے بے خبر یا لاتعلق ہونے کے باوجود زندہ ہے۔ قائد کا یہ ملک اس کے لیڈروں کے ہاتھوں سے اگر بچ بھی گیا تو کوئی نیا محمد علی جناح اسے زندہ رکھے گا اور پاکستان بنائے گا ورنہ ہمارے لیڈر تو اسے ادھ موا کر دیں گے۔
اب اقوام متحدہ کی تفتیشی ٹیم کی آمد کیا کم سانحہ ہے۔ اسے ہماری حکومت ہی برداشت کر سکتی ہے۔ عرض ہے کہ قائد کو سال میں ایک دن ہی نہیں ہر روز یاد کریں تا کہ ان کے ملک کو ہر روز لاحق ہونے والے خطروں سے بچاتے رہیں۔
پروف ریڈنگ کی غلطیاں ہوتی ہی رہتی ہیں۔ اخبار میں یہ ایک معمول ہے لیکن گزشتہ کالم کی سرخی میں سرمد کی جگہ سرحد چھپ جانا تعجب خیز ہے۔ سرمد شہید اور سرحد کو ایک ہی سمجھ لینے کی داد کس کو دیں۔
سرگودھا ہمارا ضلع بھی تھا اور اس علاقے کا بڑا شہر بھی۔ میرے لیے سرگودھے آنا جانا اس لیے آسان تھا کہ میرے ماموں خان بہادر ملک نور محمد یہاں وکالت کرتے تھے۔ میرے ماموں زاد بھائی میری اوپر تلے کی عمر کے تھے۔ میری بڑی تفریح اسی شہر کا چکر لگانا تھی۔
کوئی دس گیارہ بجے کا وقت تھا اور میں کمپنی باغ سے متصل سڑک سے گزر رہا تھا کہ لوگ دکانوں پر ریڈیو کے سامنے چپ چاپ کھڑے ہو گئے۔ میں سڑک کی جس سمت میں تھا، اس کے قریب باغ تھا ،کوئی دکان وغیرہ نہیں تھی لیکن تجسس کی وجہ سے میں سڑک کی اس طرف ہی کھڑا ہو گیا۔
تھوڑی دیر بعد ریڈیو سننے والے رونے لگے، ان میں کچھ اونچی اونچی آواز میں اور جب مجھے پتہ چلا کہ لوگ کس کو رو رہے ہیں تو میں رونے نہیں چیخنے لگا اور اپنے آپ سے کہنے لگا، میرا باپ مر گیا، میرا باپ مر گیا اور میرے قریب کے دوسرے لوگ بھی سب اونچی اونچی آواز میں اپنے باپ کی وفات کا ماتم کرنے لگے۔
ہم سب کے ہمارے ملک کے بانی اور باپ حضرت قائداعظم وفات پا گئے تھے۔ آج سوچتا ہوں کہ ہر طرف جس طرح ماتم برپا تھا اسے ہی صف ماتم کہا جاتا ہے۔ 1947ء میں پاکستان بنا اور 1948ء میں اس کا بنانے والا چلا گیا۔ آنحضرت ﷺ کی امت کو ایک نیا ملک دینے کے بعد، پہلا ملک جو اس سر زمین پر خدا اور رسول کے نام پر بنایا گیا تھا۔
اس حیرت انگیز شخصیت نے تعلیم مغرب میں حاصل کی، اسی مغربی تہذیب میں پلا بڑھا، اسی کی زبان انگریزی اس کی زبان تھی۔ وہ مشرق میں پیدا ہونے والا ایک انگریز تھا لیکن قدرت کے کرشمے اور تماشے دیکھیے کہ اس شخص کو مسلمانوں کا ایک منفرد فرد بنا دیا، ایک اکلوتا مسلمان جس نے دنیا کی تاریخ بھی بدل ڈالی اور مسلمانوں کی تاریخ بھی اور یوں ان کے دین کے نام پر ان کی تاریخ میں پہلی بار ایک نیا ملک بنا ڈالا اور نام رکھا پاکستان۔ پاک سر زمین اور پاک و صاف لوگوں کا ملک۔ اتنی بڑی اور ناقابل تصور سعادت کسی انسانی جدوجہد کا ثمر نہیں تھی۔
یہ اﷲ تبارک تعالیٰ کی منشا اور اس کے پیغمبر آخر زماں کی آرزو تھی جو مسلمانوں کے لیے ایک اجنبی شکل و صورت والے شخص محمد علی جناح کی صورت میں سامنے آئی پھر جب یہ ملک بن گیا تو اس کے سربراہ کی زندگی دیانت و امانت کا ایک نمونہ اور پیکر بن کر سامنے آئی۔
سچی بات یہ ہے اور میں جب بھی موقع ملتا ہے لکھ دیتا ہوں کہ قُرونِ اُولیٰ کے مسلمانوں کو پیغمبر کی براہ راست تعلیمات نے جو اخلاقی دولت اور جو دیانت و امانت عطا کی تھی مدینہ کی گلیوں میں پھرنے والی ایک روح بھی اس سے سیراب ہوتی رہی تھی جس نے چودہ سو برس بعد انسان کی مجسم شکل اختیار کی۔ ریاستی امور میں دیانت کے بعض دوسرے نمونے بھی مل سکتے ہیں لیکن اس شخص کے دل و دماغ کو اللہ نے جس ایمانی طاقت سے بھر دیا تھا وہ ناقابل بیان تھی اور اس کی دیانت و امانت بے مثال۔
اپنی محبوب بیوی کی ایک ہی اولاد۔ جو پاپا کے سینے سے لگ کر سوتی تھی اور جسے دیکھ دیکھ کر اس کا عظیم المرتبت باپ زندہ تھا لیکن یہ باپ ایک عجیب و غریب مسلمان باپ تھا۔ یہ کہانی آپ نے بار بار پڑھی ہو گی کہ بیٹی دینا نے کسی پارسی سے شادی کی تو باپ نے اسے آخری مرتبہ دیکھا اور پھر بیٹی کا یہ دیدار آخری ثابت ہوا۔
کسی باپ سے پوچھیں کہ کیا وہ اپنی بیٹی کو اس طرح اپنی زندگی سے نکال سکتا ہے۔ میں ایک بیٹی کا باپ ہوں اور اعتراف کرتا ہوں کہ میں بہت ناراض ہو سکتا تھا اور اس کی کسی ایسی حرکت پر اس سے قطع تعلق بھی کر سکتا تھا لیکن دیکھنے تک کا روادار نہ ہونا کیسے ممکن ہے مگر اس کے ملازم بتاتے ہیں کہ بیٹی سے قطع تعلق کے بعد صاحب رات بھر اپنے کمرے میں گھومتا رہا، روتا رہا یا چپ چاپ یہ غم اپنی بیمار جان پر سہتا رہا ۔
کوئی بھی کچھ اندازہ کر سکتا ہے لیکن اس کی حیرت گم نہیں ہو سکتی وہ تصور نہیں کر سکتا کہ کوئی باپ اس قدر ''سنگدل'' بھی ہو سکتا ہے لیکن یہ سب ایک تاریخی حقیقت ہے، ایک واقعہ ہے کوئی اسے تسلیم کرنے کی جرات کرے یا نہ کرے۔
کسی باپ کو یہ طاقت اور صبر صرف اﷲ تبارک تعالیٰ کی کرمفرمائی سے ہی مل سکتا ہے اور یہ اس لیے کہ اس شخص نے آگے چل کر مسلمانوں کی تاریخ بدلنی تھی، قدرت کاملہ اس کارنامے کے لیے اس شخص کو تیار کر رہی تھی اور اس شخص نے اﷲ تبارک تعالی کے اس انعام کو قبول کرنے کا حق ادا کر دیا، کسی قسم کے دعوے کے بغیر اور کسی قسم کی دنیاوی خواہش کے بغیر۔
آج ہمارے بعض بدبخت دانشور اس شخص کو کبھی سیکولر کہتے ہیں اور کبھی کچھ اور 'یعنی ایک سیکولر شخص نے' اسلامی تاریخ کا ایک ایسا کارنامہ سر انجام دے دیا جس کا تصور بھی ممکن نہیں۔ ہم تو اس کارنامے پر اسے سزا دینا چاہتے ہیں لیکن اﷲ و رسول کی مہربانی اور منظوری سے بننے والے اس ملک کے حکمران اپنے آپ کو سیکولر کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں ایوب خان نے اپنے آپ کو سیکولر کہا اور اب ہماری نئی حکومت بھی یہی دعویٰ کرتی ہے اس سے پہلے حکومت کی کتوں والی سرکار بھی یہی دعویٰ رکھتی تھی۔
محمد علی جناح کی اس سے بڑی توہین اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ اسے پاکستان بنانے کے جرم میں سیکولر کہا جائے۔ یہ زبان تو بھارتیوں کی ہے جو اس ملک کو برداشت نہیں کرتے۔
قائد اعظم نے اپنی قوم کو آزاد چھوڑ دیا اس کے سامنے اپنا نمونہ پیش کر کے اسے حالات کے حوالے کر دیا، اس دوران اسلام کا نام لینے والے علماء تھے جو آپس میں لڑتے بھڑتے رہے اور لڑ بھڑ رہے ہیں جو لوگ قرآن و حدیث سے حاصل ہونے والی تعلیمات پر متفق نہیں ہو سکے، ان کا کوئی لیڈر اگر کہے کہ شکر ہے، ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے تو اس کا گلہ کس سے کیا جائے۔
اگر مسلمانوں کے اس ملک کو اس کی شایان شان قیادت مل جاتی جو اس قوم کی تربیت کر سکتی تو کون ہوتا جو محمد علی جناح کو سیکولر کہہ سکتا۔ سیکولرزم کے تاریخی معنی تو کچھ اور ہیں لیکن پاکستان کے ان پڑھ اور بے دین لوگوں نے گھبرا کر ملک کے بانی کو ہی اپنے جیسا بے دین بنا دیا ہے تا کہ وہ اس ملک میں پھل پھول سکیں جو بلاشبہ خدا و رسول کے نام پر بنایا گیا تھا اور جس میں ان جیسوں کی گنجائش نہیں تھی۔
یہ لوگ اپنی اس مہم میں تنہا نہیں ہیں انھیں دنیا بھر کی اسلام دشمن اور پاکستان دشمن قوموں کی امداد حاصل ہے۔ مشکل یہ ہے کہ پاکستانی قوم میں ایسا جوہر موجود ہے جو اس کے دشمنوں کے لیے ایک خطرہ ہے۔ پاکستان جیسے مغرب اور خصوصاً امریکا کے محتاج ملک کا چپکے چپکے ایٹم بم بنا لینا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔
بھٹو نے اپنی تباہ کن خرابیوں کے باوجود یہ استادی کر دکھائی کہ مغرب کو اپنی اس کاریگری سے بے خبر رکھا۔ مجھے یاد ہے کہ جب دھماکہ ہوا تو امریکا کے ایک نائب وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کا ایٹم بم امریکا کے لیے ناقابل برداشت ہے چنانچہ یہ ناقابل برداشت کارروائی جاری ہے۔
قائداعظم کے کردار کی برکت یہ قوم اپنی زندگی کے حیران کن ثبوت دیتی رہی ہے اور یہی کیا کم ہے آج اس کی سیاسی قیادت پاکستان کے مقاصد سے بے خبر یا لاتعلق ہونے کے باوجود زندہ ہے۔ قائد کا یہ ملک اس کے لیڈروں کے ہاتھوں سے اگر بچ بھی گیا تو کوئی نیا محمد علی جناح اسے زندہ رکھے گا اور پاکستان بنائے گا ورنہ ہمارے لیڈر تو اسے ادھ موا کر دیں گے۔
اب اقوام متحدہ کی تفتیشی ٹیم کی آمد کیا کم سانحہ ہے۔ اسے ہماری حکومت ہی برداشت کر سکتی ہے۔ عرض ہے کہ قائد کو سال میں ایک دن ہی نہیں ہر روز یاد کریں تا کہ ان کے ملک کو ہر روز لاحق ہونے والے خطروں سے بچاتے رہیں۔
پروف ریڈنگ کی غلطیاں ہوتی ہی رہتی ہیں۔ اخبار میں یہ ایک معمول ہے لیکن گزشتہ کالم کی سرخی میں سرمد کی جگہ سرحد چھپ جانا تعجب خیز ہے۔ سرمد شہید اور سرحد کو ایک ہی سمجھ لینے کی داد کس کو دیں۔