تحریک آزادی کا ایک الف لیلوی کردار پہلا حصہ

ظالمانہ عمل میں اکثر ولن کو ہیرو اور اصل ہیرو کو ولن بناکر پیش کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا

zahedahina@gmail.com

RAWALPINDI:
تاریخ میں مکمل سچ بہت وقت گزرنے کے بعد بیان کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومتیں اور ریاستیں وہ تاریخ لکھواتی ہیں ، جو ان کے بیانیے ، نظریات ، عقائد اور مفادات کے تقاضوں کو پورا کرتی ہیں۔

اس ظالمانہ عمل میں اکثر ولن کو ہیرو اور اصل ہیرو کو ولن بناکر پیش کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ جب تک معلومات اور علم تک رسائی کے ذرایع محدود تھے، تاریخ کے اصل حقائق کو سامنے آنے میں کافی وقت لگ جایاکرتا تھا۔ اب ڈیجیٹل اور اطلاعاتی انقلاب نے تاریخی دستاویزات تک رسائی کو بہت آسان بنا دیا ہے۔ لہٰذا تاریخ کے وہ کردار اپنی حقیقی شکل میں سامنے آ رہے ہیں جنھیں ماضی میں نظر اندازکیا جاتا رہا تھا۔ ان کرداروں میں سبھاش چندر بوس اور ان کے بعض ساتھی بھی شامل ہیں۔ بوس اگرگاندھی کے ناقد نہ ہوتے تو شاید ہندوستان میں ان کی اتنی بے قدری نہ ہوتی۔

ہماری نئی نسل کے بہت کم لوگ سبھاش چندر بوس کے نام سے واقف ہیں۔ وہ ان لوگوں میں سے ہیں جو اپنی زندگی میںکہانی ہوتے ہیں اور اپنی موت کے بعد داستان کا رنگ اختیار کر لیتے ہیں۔ سبھاش چندر بوس 23 جنوری 1897 میں پیدا ہوئے ۔ وہ طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے، ان کے والد اپنے علاقے کے نامی گرامی وکیل تھے، خاندان کے دیگر افراد بھی کسی نہ کسی طور تاجِ برطانیہ سے وابستہ تھے اور انگریزی لباس، انگریزی بودوباش ان کا روزمرہ تھا۔

انھوں نے اعلیٰ اسکولوں میں تعلیم حاصل کی جہاں ان کے استاد انگریز تھے۔ ان استادوں کا ہندوستانی طالب علموں کے ساتھ رویہ عمومی طور سے توہین آمیز تھا۔ یہیں سے ان کے اندر اس قوم پرست نے جنم لیا جس کی ساری زندگی وطن کو غلامی سے آزاد کرانے کی جدوجہد میں بسر ہوئی۔

ان کے والد کے خیال میں کسی تعلیم یافتہ ہندوستانی نوجوان کی زندگی کی معراج یہ تھی کہ وہ انڈین سول سروس کے امتحان میں کامیاب ہوجائے اور پھر اپنے ہم وطنوں پر حکومت کرے اور تاجِ برطانیہ کے مفادات کا ہر ہر قدم پر تحفظ کرے۔ سبھاش بابو کے خیالات کچھ اور تھے، وہ اپنے وطن کے پیروں میں پڑی ہوئی غلامی کی زنجیروں کو کاٹنا چاہتے تھے لیکن دوسری طرف یہ بھی تھا کہ انھیں اپنے باپ سے محبت تھی اور وہ ان کی آرزوؤں کا خون نہیں کرسکتے تھے۔

آخرکار انھوں نے باپ کی فرمائش کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور کیمبرج روانہ ہوگئے جہاں آئی سی ایس کے امتحان کی انھیں تیاری کرنی تھی۔ کیمبرج یونیورسٹی نے ان کی زندگی پرگہرے اثرات مرتب کیے، وہاں اگر انھوں نے وقت کی پابندی اور زندگی کا نظم و ضبط سیکھا تو اس کے ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی دیکھا کہ آزاد قومیں کس طرح زندگی بسر کرتی ہیں اور ان کے لوگ دنیا میں کس اعتماد سے جیتے ہیں۔

ان کے والد کا خیال ہوگا کہ وہ کیمبرج جا کر سماجی خدمات اور سیاسی سرگرمیوں سے تائب ہوجائیں گے اور طبقۂ اشرافیہ کے ایک اہم فرد کے طور پر ہندوستان واپس آئیں گے ، لیکن سبھاش چندر بوس کو آئی سی ایس کی تیاری اور اس کے امتحان کے دوران شدت سے اس بات کا احساس ہوا کہ انگریزوں نے ان کے ملک اور ہم قوموں کو کس ذلت آمیز زندگی سے دوچار کررکھا ہے۔

آٹھ مہینوں کی تیاری کے بعد وہ امتحان میں بیٹھے اور اس اعزاز سے کامیاب ہوئے کہ وہ چوتھے نمبر پر آئے تھے۔ ان کے ساتھ امتحان دینے والے انگریز نوجوانوں کے لیے یہ حیرت کی بات تھی کہ سبھاش چندر بوس نے اتنے اچھے نمبروں سے اس امتحان میں کامیابی حاصل کی تھی جس میں اکثر برطانوی بھی ناکام ہوجاتے تھے۔

سبھاش بابو کی کامیابی کی خبر ان کے گھر پہنچی تو ان کے والد اور خاندان کے دوسرے افراد خوشی سے پھولے نہ سمائے لیکن سبھاش بابو ایک مسلسل عذاب میں گرفتار تھے۔ آخر کار ہندوستان آنے کے بعد انھوں نے آئی سی ایس سے استعفیٰ دے دیا۔

سبھاش کی روح آزادی کے لیے بے تاب و بے قرار تھی۔ انھوں نے کانگریس میں شمولیت اختیار کی اور اس کے اعلیٰ ترین عہدوں پر منتخب ہوئے لیکن گاندھی جی کو ان کی سیاست کے طریقۂ کار سے اختلاف تھا۔ سبھاش کے سیاسی اختلافات گاندھی جی اور ان کے ساتھیوں سے بڑھتے چلے گئے۔


1931 میں ارون گاندھی پیکٹ نے ان کو بری طرح مشتعل کردیا۔ اس سے پہلے وہ بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کی پھانسی کے معاملے پر گاندھی جی اور کانگریس کی قیادت سے ناراض تھے ، وہ چاہتے تھے کہ کانگریس ان لوگوں کی پھانسی رکوانے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے لیکن گاندھی جی نے ان لوگوں کے ساتھ قطعاً ہمدردی نہیں کی بلکہ کانگریسی حلقے انھیں '' دہشت گرد '' کہتے رہے۔

1931 میں ارون گاندھی پیکٹ کے بعد کراچی میں کانگریس کا کنونشن ہوا۔ اس میں شرکت کے لیے سبھاش بابو اورگاندھی جی دونوں پہنچے۔ نوجوان گاندھی جی سے اس قدر ناراض تھے کہ کراچی کے ریلوے اسٹیشن پر گاندھی جی کا استقبال سیاہ جھنڈیوں سے ہوا اور ان کے گلے میں (رنگے ہوئے) سیاہ پھولوں کا ہار ڈالا گیا۔

گاندھی جی اپنی اس توہین کو پی گئے لیکن ان کے اور گاندھی جی کے درمیان خلیج بڑھتی گئی یہاںتک کہ 1939میں جب کہ سبھاش کانگریس کے منتخب صدر تھے، انھوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور تحریک آزادی کے اس اہم رہنما نے اپنی جدوجہد کا نیا راستہ اختیار کیا۔

جنوری 1941 سے اگست 1945 تک کی سبھاش بابو کی زندگی کسی ایڈونچر ناول کے ابواب لگتی ہے۔ وہ اپنے گھر میں تقریباً نظر بندی کی زندگی گزار رہے تھے، اسی دوران انھوں نے داڑھی بڑھائی اور پھر انگریز محکمۂ خفیہ کی نگرانی کے باوجود ایک پٹھان کے روپ میں گھر سے نکلے، ریلوے اسٹیشن پہنچے، وہاں سے پشاور کا رخ کیا اور پھر کابل پہنچ کر دم لیا جہاں انھوں ے اپنا نام ضیاء الدین بتایا۔ وہاں انھوں نے روس اور اٹلی کے سفارت کاروں سے ملاقاتیں کیں۔

دوسری جنگ عظیم شروع ہوچکی تھی۔ سبھاش بابو کا خیال تھا کہ ہندوستان کی آزادی کے لیے اس سے مناسب وقت نہیں آسکتا۔ انھوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ انھیںجرمنی اور جاپان سے اس آزادی کے لیے تعاون مانگنا چاہیے۔

یہی وجہ تھی کہ ہٹلر کے فاشسٹ نظریات سے اختلاف رکھنے کے باوجود انھوں نے ہندوستان کی آزادی کے لیے جرمنی سے مدد چاہی۔ برلن میں ہی انھوں نے ''آزاد ہند فوج'' کی بنیاد رکھی۔ وہاں سے انھوں نے ہندوستانیوں کے لیے آزاد ہند ریڈیو کی نشریات کا سلسلہ شروع کیا جس نے ہندوستان میں تہلکہ مچادیا اور برطانوی حکومت زچ ہو کر رہ گئی۔

جرمنی میں انھیں احساس ہوا کہ ہٹلر کے افکار و خیالات سے ہم آہنگی ممکن نہیں لہٰذا انھوں نے جاپان کی مدد سے برطانوی تسلط کے خاتمے کی حکمت عملی اختیارکی۔ کئی برس جرمنی میں گزارنے کے بعد وہ آخر کار ٹوکیو پہنچے۔ ٹوکیو پہنچ کر انھوں نے وزیراعظم ٹوجو سے ملاقات کی، جاپانی پارلیمنٹ سے ہندوستان کی آزادی کے لیے تعاون کا وعدہ لیا،جہاں سے وہ سنگا پور چلے آئے اور آزاد ہند فوج کی تنظیم نو کرکے اسے ایک زبردست طاقت بنادیا۔

مشرقی ایشیا کے کئی ملکوں پر برطانیہ کا قبضہ تھا۔ جنگ عظیم کے دوران برطانیہ نے ہزاروں ہندوستانی فوجیوں کو ان ممالک میں جاپان کے خلاف لڑنے کے لیے بھیجا تھا۔ جاپان کی فوجوں کو فتح حاصل ہوئی اور اس نے برطانوی فوج کے ہندوستانی فوجیوں کو قیدی بنالیا۔

بوس نے ان فوجیوں کو آزاد ہندوستان فوج میں شامل ہونے کی ترغیب دی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں فوجی ہندوستان کی آزادی اور برطانیہ کے خلاف لڑنے کے لیے ان کے ساتھ ہوگئے۔یہ وہ ہندوستانی تھے جو ملایا (ملائشیا) برما (میانمار) اور تھائی لینڈ میں تھے اور ہندوستان کو انگریزوں کے تسلط سے آزاد کرانا چاہتے تھے۔ سبھاش چندر بوس کی سنگا پور میں ایک ہندوستانی فوجی قیدی کیپٹن شاہ نواز خان سے ملاقات ہوئی۔ شاہ نواز خان کا تعلق راولپنڈی کے ایک گاؤں مٹور سے تھا ، وہ انتہائی باصلاحیت فوجی تھے۔

بوس سے متاثر ہوکر وہ ان کی فوج میں شامل ہوگئے جہاں انھیں میجر جنرل کے عہدے تک ترقی دی گئی۔ شاہ نواز خان جنجوعہ راجپوت تھے۔ جب جنگ عظیم ختم ہوئی اور جاپان کی افواج پسپا ہوئیں تو برطانیہ نے آزاد ہند فوج کے ہزاروں فوجیوں کو قیدی بنا لیا۔ جنرل شاہ نواز اور ان کے دو ساتھیوں کے خلاف لال قلعہ میں کورٹ مارشل کاآغاز کردیا گیا۔

(جاری ہے)
Load Next Story