کہیں ایک اور ممبئی نہ ہوجائے
’’عبوری‘‘ وزیر اعظموں سے سنجیدہ اور طویل تر معاملات طے کرنے والے مذاکرات نہیں کیے جاتے
21سال بڑا لمبا عرصہ ہوتا ہے اور میں نے 1984 سے 2005تک کا وقت پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات کے بارے میں مسلسل رپورٹنگ کرنے میں گزار دیا۔ اپنی رپورٹنگ میں کچھ گہرائی پیدا کرنے کی خاطر میں نے بھارت کے بارہا دورے بھی کیے۔ میں جان بوجھ کر یہ دورے سیمیناروں میں جانے کے بہانے نہیں کیا کرتا تھا۔ اپنے اخباروالوں کو قائل کرتا کہ صحافی اور سیاح میں فرق ہوا کرتا ہے۔
ہمارے ہاں اخباری اداروں کو اپنے ملازموں کو غیر ملک بھیجنے کی عادت نہیں ہے۔ میں کسی نہ کسی طور اپنے سینئرز کو قائل کرنے کے بعد بڑے ہی محدود وسائل کے ساتھ بھارت کا سفر کیا کرتا۔ وہاں پیش آنے والی روزمرہ کی مشکلات جوانی کے دنوں میں محسوس ہی نہیں ہوتی تھیں۔
شادی اور بچوں کے بعد نسبتاََ درمیانے درجے کے ہوٹلوں میں رہنا، ریل میں سفر کرنا اور بسوں میں دھکے کھانا کچھ زیادہ ہی تکلیف دہ محسوس ہونا شروع ہو گیا۔ شاید میں اب بھی ان تمام تکالیف کو برداشت کرنے کو تیار رہتا۔ مگر 2005کے بعد سے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان معاملات کو مشقتی اور آزادانہ رپورٹنگ کے ذریعے بہتر بنانے کی امید رکھنا رائیگاں سفر پر روانہ ہو جانے کے مترادف ہے۔
ویسے بھی اب ٹیلی وژن کی نذر ہو چکا ہوں۔ اس کی اسکرین پر کسی بھی طرح کی محنت کیے بغیر روز کا سیاپا اور پھکڑپن کرنا پیسے بھی زیادہ دیتا ہے اور لوگوں میں مشہور بھی کر دیتا ہے۔
گزشتہ ہفتے بھارت کے وزیر خارجہ پاکستان کے تین روزہ دورے پر آئے۔ میں نے اس دورے کے بارے میں چھپی خبروں کو بس سرسری نظر سے دیکھا ہے۔ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس دورے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان سفر کرنے والوں کے لیے آسانیاں پیدا ہوں گی۔
میں اپنے تجربے کی بناء پر اصرار کرتا ہوں کہ ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ ہاں دونوں طرف کے سیٹھ اپنے مال کو دونوں ممالک میں بیچنے کے زیادہ اور بہتر مواقعے ضرور حاصل کر لیں گے۔ بالی ووُڈ کو بھی ان پاکستانی فن کاروں کو اپنی فلموں اور ٹی وی پروگراموں میں استعمال کرنے کی زیادہ آسانی ہو گی جن کی انھیں ضرورت ہے۔ پاکستان کا ایک عام سا متوسط آدمی فرض کریں اپنی بیوی اور ایک دو بچوں کے ساتھ بھارت جا کر چھٹیاں گزارنا چاہتا ہے تو اسے ویزا مل جانے کی کوئی ٹھوس امید پیدا نہیں ہوئی ہے۔
یہی صورت عام بھارتیوں کے ضمن میں بھی موجود رہے گی۔ تاہم "People to People Contacts" کے نام پر دونوں ممالک کی نام نہاد ''سول سوسائٹی'' کے کرتا دھرتائوں کا ایک دوسرے کے ہاں جا کر سیمینار وغیرہ کرنے کا دھندا چلتا رہے گا۔
برسوں تک پھیلی مناقشوں اور تلخیوں کے مارے ہوئے کسی بھی دو ملکوں کے درمیان تعلقات کو بہتر نہ سہی معمول کے ہمسائیگی والے بنانے کے لیے ان رہ نمائوں کی ضرورت ہوتی ہے جن کے پاس ریاستی اختیار اور قوت ہو۔ ان رہنمائوں کے پاس ریاستی قوت کا ہونا ہی کافی نہیں۔
اس سے کہیں زیادہ ضرورت ارادے کی ہے اور اپنے ریاستی اختیار کو استعمال کرنے کی جرأت کی بھی۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ پاکستان اور بھارت کی حالیہ تاریخ میں صرف اٹل بہاری واجپائی اور میاں نواز شریف ہی دو ایسے رہنما تھے جنہوں نے پوری نیک نیتی اور ہمت کے ساتھ پاک ۔ بھارت تعلقات کو ایک نیارُخ دینے کی کوشش کی۔ دونوں ملکوں نے ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد امن کی باتیں کرتے ہوئے دنیا کو حیران کر دیا۔ اور یہ محض باتیں ہی نہ تھیں۔
بھارتی وزیر اعظم بس میں بیٹھ کر واہگہ بارڈر پار کر کے لاہور پہنچے۔ لاہور میں اپنے قیام کے دوران انھوں نے مینارِ پاکستان کا دورہ بھی کیا۔ اپنی نوجوانی میں ایک کٹرجن سنگھی کی شہرت رکھنے والے واجپائی کا وہاں جانا اس امر کا اعتراف تھا کہ پاکستان اور بھارت اب دو جداگانہ مملکتیں ہیں۔ ان کے درمیان بچھی سرحد، سرحد ہے ''لکیر'' نہیں کہ جسے کسی وقت بھی مٹایا جا سکتا ہے۔
واجپائی کا پاکستان آنا مگر اس وقت لاحاصل ٹھہرا جب جنرل پرویز مشرف کارگل کی چوٹیوں پر جا بیٹھے۔ ایمانداری کی بات ہے کہ مشرف کے احمقانہ ایڈونچر سے پیدا ہونے والی تلخیوں کے باوجود اسی واجپائی نے مناسب وقت لینے کے بعد مشرف کو آگرے بلوایا۔ بات پھر بھی نہ بنی۔ مگر تلخیوں اور لاحاصلی کے تمام تر سفر کے باوجود اسی واجپائی نے 2004ء میں پاکستان کا ایک اور دورہ بھی کر ڈالا۔
مگر پھر واجپائی انتخاب ہار گئے۔ من موہن سنگھ ان کی جگہ آئے۔ سیاچن کو ''امن کا پہاڑ'' بنانے اور ناشتہ دلی میں کرنے کے بعد لاہور میں دوپہر کا کھانا کھانے اور پھر کابل میں رات کا کھانا تناول کرنے کے خواب تو ضرور دیکھے لیکن کوئی ٹھوس پیش قدمی نہ کرپائے۔ معاملات شاید پھر بھی بہتر ہو جاتے مگر اب جنرل مشرف نے پاکستانی عدلیہ سے ٹکر لے لی تھی۔ اس جنگ میں شکست کھا جانے کے بعد فارغ ہوئے تو ان کی جگہ آصف علی زرداری آ گئے۔
ہمارے بھارتی اخبار نویس ساتھیوں اور دانشوروں کو ایمان داری سے اعتراف کر لینا چاہیے کہ من موہن سنگھ کے لیے سوچنے اور پالیسیاں بنانے والے سفارتکاروں اور قومی سلامتی امور سے تعلق رکھنے والے افسران نے مشرف کے زوال اور پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بن جانے کے عمل کو سمجھ کر ہی نہ دیا۔
وہ مصر رہے کہ پاکستان میں فوجی اشرافیہ ہی قطعی فیصلے کیا کرتی ہے۔ من موہن سنگھ حکومت کی غیر حقیقی سوچ اور روایتی سست روی کو مزید جلا دینے کے لیے ''بمبئی'' ہوگیا۔ من موہن سنگھ کے پاس کافی وقت تھا کہ وہ اس سے بالاتر ہو کر آگے بڑھنے کے راستے سوچ پاتے۔ مگر انھوں نے وہ وقت گنوا دیا۔ اب من موہن سنگھ ایک کمزور وزیر اعظم ہیں۔
ان کی اپنی ذات ابھی بھی کرپشن کے دھبوں سے بچی ہوئی ہے۔ مگر ان کی حکومت کی اخلاقی قوت اور ساکھ باقی نہیں رہی ہے۔ بھارت میں قبل از وقت انتخابات کی باتیں شروع ہو گئی ہیں اور بال ٹھاکرے نے لاہور کے دھرم پورہ میں پیدا ہونے والی شسما سوراج کو اپنے تئیں آیندہ کا وزیر اعظم بھی نامزد کر دیا ہے۔
یاد رہے کہ واجپائی کی وزیر اطلاعات ہوتے ہوئے ان ہی شسما سوراج کا تعلق طاقتور وزراء کے اس گروہ سے جوڑا جاتا ہے جن پر مشرف اور واجپائی کے درمیان آگرے میں ہونے والے مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کا الزام لگا تھا۔ ان حالات میں من موہن سنگھ کا کوئی''تاریخی قدم'' اُٹھانا مجھے تو بڑا مشکل نظر آ رہا ہے۔
اپنی حکومت کے حالات بھی کچھ اتنے خوش گوار نہیں ہیں۔ بھارتی وزیر خارجہ سے میرے پاکستانی اخبار نویس یہ تو پوچھتے رہے کہ من موہن سنگھ پاکستان کب تشریف لائیں گے۔ مگر ایسا کرتے ہوئے انھوں نے یہ سوچنے کا تردد ہی نہ کیا کہ اگر بھارتی وزیر اعظم ہمارے ملک آ گئے تو ان سے معاملات کون طے کرے گا۔
راجہ پرویز اشرف کو 18 ستمبر کے دن سپریم کورٹ کے روبرو پیش ہونا ہے۔ انپے وزیر قانون فاروق نائیک کی تمام تر ''پھرتیوں'' کے باوجود وہ ابھی تک ''وہ چٹھی'' لکھنے پر آمادہ نظر نہیں آ رہے۔ ان کا انجام واضح طور پر گیلانی صاحب کی طرح ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ وہ فارغ ہوئے تو آصف علی زرداری کو سوچنا ہو گا کہ کیا انھیں ایک اور وزیر اعظم کو بلی چڑھانے کے لیے آگے کر دینا چاہیے یا نئے انتخابات کی تیاری۔ فیصلہ نئے انتخابات کرانے کا ہوا تو ہمارے ہاں 2012ء کے باقی مہینوں میں ایک عبوری وزیر اعظم آ جائے گا۔
اور ''عبوری'' وزیر اعظموں سے سنجیدہ اور طویل تر معاملات طے کرنے والے مذاکرات نہیں کیے جاتے۔ دونوں طرف کی حکومتیں اور ان کی خارجہ اور قومی سلامتی امور کے بارے میں قطعی فیصلے کرنے والی افسر شاہی انتظار کرنے پر مجبور ہے۔ فی الحال دونوں ملکوں کے سیٹھوں اور فن کاروں کو ایک دوسرے کے ہاں جا کر مال بنانے دیجیے اور خدا سے بس یہ اُمید رکھئے کہ کوئی اور ''ممبئی'' نہ ہو جائے۔