مصباح سے دوستی اپنی جگہ لیکن فیصلے میرٹ پر ہی ہوتے ہیں محمد حفیظ

کامیابیاں و ناکامیاں چلتی رہتی ہیں البتہ ٹیم کے لیے واٹمور نے اپنے 2سالہ دور میں خاصی کوششیں کیں،قومی ٹی 20 قائد


سلیم خالق February 16, 2014
میں سلیکشن کمیٹی کے کام میں مداخلت نہیں کرتا، محمد حفیظ فوٹو: گیٹی امیجز/فائل

محمد حفیظ نے کیریئر میں کئی اتار چڑھائو دیکھنے کے بعد بالآخر 2011ء میں اپنی افادیت ثابت کر دی۔

انہوں نے اس سال 2 ٹیسٹ، 3 ون ڈے سنچریوں اور ٹوئنٹی 20 میں دو ففٹیز سمیت 10 مقابلوں میں مین آف دی میچ کا اعزاز حاصل کیا، اس کے بعد پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ شاندار ڈرائیوز، پرفریب آف اسپن بولنگ اور عمدہ فیلڈنگ کی بدولت پاکستان کی کئی فتوحات میں اہم کردار ادا کرنے والے آل رائونڈر بدقسمتی سے ٹیسٹ اسکواڈ میں جگہ برقرار نہیں رکھ پائے لیکن دیگر دونوں فارمیٹ میں انہیں ٹیم کی ضرورت سمجھا جاتا ہے، ٹوئنٹی 20 ورلڈ کپ کے لیے بھی ان کی قیادت پر اعتماد برقرار رکھا گیا ہے۔ محمد حفیظ کا خصوصی انٹرویو کا احوال نذر قارئین ہے۔

ایکسپریس: آپ کو دوسری بار ورلڈ ٹوئنٹی 20میں پاکستان کی قیادت کا موقع مل رہا ہے، اس دوران بطور کپتان خود میں کیا تبدیلیاں محسوس کرتے ہیں،ایونٹ کے لیے ٹیم کی تیاریاں کیسی ہیں؟

محمد حفیظ: گذشتہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کو ڈیڑھ،2سال گذر چکے، اس دوران میں نے کئی میچز میں کپتانی کی،حاصل شدہ یہ تجربہ اب میرے کام آئے گا اور پلیئرز سے ان کی صلاحیتوں کے مطابق کام لینے میں کامیاب رہوں گا،ایونٹ کی تیاریوں کا ہمیں ڈومیسٹک ایونٹ کھیل کر ہی موقع میسر آیا،نوجوان پلیئرز نے بھی اپنے اچھے کھیل سے سلیکٹرز کو متاثر کیا، ٹورنامنٹ میں تقریباً تمام اہم کھلاڑی شریک ہوئے، اب ٹیم کو ایشیا کپ کھیلنے بنگلہ دیش جانا ہے، مختصر طرز کے میگا ایونٹ سے قبل وارم اپ میچز کھیل کر ہمیں ردھم حاصل کرنے کا موقع مل جائے گا، مجھے امید ہے کہ ٹیم شائقین کو مایوس نہیں کرے گی۔

ایکسپریس: اسکواڈ کے انتخاب میں آپ کی مشاورت شامل رہی؟

حفیظ: بورڈ کے سیٹ اپ میں تبدیلی کے سبب سلیکٹرز سے پہلے تو ملاقات کا موقع نہیں مل سکا تھا، البتہ راولپنڈی، اسلام آباد میں ڈومیسٹک ایونٹ کے دوران انھوں نے مشاورت ضرور کی تھی۔

ایکسپریس: ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں پاکستان کا پہلا میچ بھارت سے ہونا ہے، ماضی میں آئی سی سی ایونٹس کے دوران روایتی حریف سے میچز میں ٹیم کی کارکردگی اتنی اچھی نہیں رہی، اس کی وجہ سے اب کوئی دبائو تو نہیں ہو گا؟

حفیظ:اچھا ہو یا بُرا ہر دن گذرنے کے بعد تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے، ماضی میں بھارت کیخلاف میچز کے نتائج کیا رہے اب وہ اہمیت نہیں رکھیں گے، ہم میدان میں جا کر سو فیصد پرفارم کرنے کی کوشش کریں گے،امید ہے کہ مثبت نتیجہ سامنے آئے گا، ٹیم کا کمبی نیشن اچھا لگ رہا ہے یقیناً پلیئرز بھی اس میچ میں جان لڑا دیں گے، البتہ اگر عرفان ان فٹ نہ ہوتے تو ہمارے لیے زیادہ اچھا ہوتا، وہ ٹی ٹوئنٹی کے بہترین بولر ہیں، ان کی ٹیم میں موجودگی حریفوں پر خاصا اثر ڈالتی ہے، وہ ایونٹ میں ہمارا اہم ہتھیار ثابت ہو سکتے تھے۔

ایکسپریس: ''گروپ آف ڈیتھ'' قرار پانے والے پول میں پاکستان کے ساتھ آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز بھی موجود ہیں،اس سے کوئی پریشانی تو محسوس نہیں کر رہے؟

حفیظ: اگر ہم اپنی مکمل صلاحیتوں کے مطابق کھیلے تو کوئی بھی حریف سامنے ہو اسے قابو کر سکتے ہیں، ٹیم ایونٹ میں سخت مقابلوں کے لیے مکمل تیار ہے، اچھی سوچ کے ساتھ میدان میں اتریں گے، ان ٹیموں کیخلاف ماضی میں بھی فتوحات حاصل کر چکے اور اب بھی ایسا کرنے کی کوشش کریں گے۔

ایکسپریس: ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کا بنگلہ دیش میں انعقاد ہو رہا ہے، وہاں گذشتہ دنوں سیکیورٹی کے خاصے مسائل رہے، ٹیم کو دورے میں کوئی تشویش تو نہیں ہوگی؟

حفیظ: بنگلہ دیشی سیکیورٹی انتظامات کو آئی سی سی نے کلیئر کیا ہے یقیناً اس نے ہر لحاظ سے اپنا اطمینان کیا ہو گا، معاملے پر حکومت پاکستان کی بھی گہری نظر رہی اس لیے ہم مطمئن ہیں، ہمیں سیکیورٹی کے حوالے سے کوئی خدشات لاحق نہیں، ہم صرف اپنی کرکٹ پر توجہ دیتے ہوئے اچھا کھیل پیش کریں گے، بنگلہ دیشی کنڈیشنز میں کھیلنے کا ہمیں خاصا تجربہ ہے،ڈھاکا میں کنڈیشنز بیٹنگ کے لیے سازگار ہوتی ہیں، دیکھنا ہو گا کہ اس بار کیسی پچز بنائی جاتی ہیں، ویسے کوئی ایونٹ چاہے ایشیائی یا کسی اور ملک کی کنڈیشنز میں ہو اگر تیاریاں اچھی ہوں تو نتائج بھی ویسے ہی سامنے آتے ہیں، پاکستان ٹی ٹوئنٹی کی بہت اچھی سائیڈ ہے، باصلاحیت پلیئرز کا انتخاب کیا گیا جو یقیناً مکمل صلاحیتوں کا اظہار کریں گے۔

ایکسپریس: معین خان نے اب پاکستانی ٹیم کے کوچ کی ذمہ داری سنبھال لی ہے، اس سے قبل وہ ٹیم منیجر بھی رہ چکے، ان کے ساتھ تو اب پلیئرز کی اچھی ہم آہنگی ہو چکی ہو گی؟

حفیظ: معین خان کئی ماہ سے اسکواڈکے ساتھ ہیں البتہ اب انھیں نئی ذمہ داری سونپی گئی ہے، ہم انھیں خوش آمدید کہتے ہوئے امید کرتے ہیں کہ وہ ٹیم میں مثبت تبدیلی لائیں گے، ہر کوچ کے اپنے منصوبے ہوتے ہیں یقیناً معین خان نے بھی بہتری کے لیے کافی کچھ سوچا ہو گا، ٹیم انھیں مکمل سپورٹ کرے گی۔

ایکسپریس: بطور کوچ ڈیو واٹمور کو آپ نے کیسا پایا؟

حفیظ: واٹمور اچھے کوچ تھے، کامیابیاں و ناکامیاں تو ساتھ چلتی رہتی ہیں البتہ ٹیم میں بہتری کے لیے واٹمور نے اپنے 2سالہ دور میں خاصی کوششیں کیں، اس دوران سلیکشن کمیٹی سے ان کے اختلافات بھی ہوئے لیکن ہم نے انھیں ہمیشہ مکمل سپورٹ کیا،واٹمورکے ساتھ ہمارا اچھا وقت گزرا اور اب ہم مستقبل میں ان کی کامیابیوںکے لیے دعاگو ہیں۔

ایکسپریس: سلیکٹرز نے اب ٹیم میں اسپیشلسٹ وکٹ کیپر شامل کیا ہے، یوں عمر اکمل دہری ذمہ داری سے آزاد ہو گئے، آپ کے خیال میں کیا ایسا کرنا درست ہے؟

حفیظ: عمراکمل چند ماہ سے ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میں دہرا کردار نبھا رہے ہیں، ٹی ٹوئنٹی میں دنیا کی ہر ٹیم کا وکٹ کیپر ٹاپ کلاس بیٹسمین بھی ہے، ایسے پلیئر کا ساتھ میسر آنے سے کپتان کو ٹیم میں اضافی بیٹسمین، بولر یا آل رائونڈر شامل کرنے کا موقع مل جاتا ہے، میں سلیکشن کمیٹی کے کام میں مداخلت نہیں کرتا، انھوں نے اس بارے میں سوچ کر ٹیم کے مفاد میں فیصلہ کیا ہوگا۔

ایکسپریس: اس وقت آپ کسے ملک کا بہترین وکٹ کیپر بیٹسمین سمجھتے ہیں؟

حفیظ:کامران اکمل گذشتہ کئی برس سے اچھا کھیل پیش کر رہے ہیں، بدقسمتی سے کبھی بیٹنگ یا پھر وکٹ کیپنگ میں مسائل کے سبب انھیں ٹیم سے ڈراپ ہونا پڑا مگر حالیہ ڈومیسٹک سیزن میں وہ اچھا پرفارم کر کے کم بیک میں کامیاب ہوئے، عدنان اکمل بھی اچھے پلیئر ہیں، سرفراز احمد نے ٹیسٹ میں عمدہ پرفارم کیا،پشاور کے رضوان بھی باصلاحیت ہیں۔

ایکسپریس: آپ نے حال ہی میں آسٹریلوی ڈومیسٹک ٹی ٹوئنٹی ایونٹ بگ بیش میں بھی مختصر وقت تک حصہ لیا، وہ تجربہ کیسا رہا؟

حفیظ: بہت زبردست، وہاں کی کرکٹ میں بہت پروفیشنل ازم ہے، کوچنگ و دیگر معاملات بھی بہترین ہیں، مجھے بڑا افسوس ہوتا ہے کہ ہماری ڈومیسٹک کرکٹ اس معیار تک نہیں پہنچ سکی،اب نجم سیٹھی بطور چیئرمین پی سی بی واپس آئے ہیں، انھیں بہتری کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں،کم فرسٹ کلاس میچز اور مقابلہ سخت ہو، اس سے پلیئر جب انٹرنیشنل کرکٹ میں آئے گا تو اس کی تیاری مکمل ہوگی۔ مشکل فرسٹ کلاس کرکٹ ہو گی تو باصلاحیت کھلاڑی ہی اس میں حصہ لے سکے گا، باقی پلیئرز گریڈٹواور انڈر 23 مقابلوں سے صلاحیتیں نکھار سکتے ہیں، اس سے ڈومیسٹک کرکٹرز کی پرفارمنس پر کسی کو شک بھی نہیں رہے گا، ابھی تو کوئی رنز بنائے تو یہ کہا جاتا ہے کہ سامنے فلاں ٹیم کا اوسط درجے کا بولنگ اٹیک تھا اس لیے کامیاب رہا، مقابلے سے بھرپور ڈومیسٹک سیزن میں شریک پلیئرز کو اچھا معاوضہ بھی دیں، جو اچھا پرفارم نہ کرے اسے باہر کر دیں اس سے ہر کھلاڑی پر یہ دبائو رہے گا کہ عمدہ کھیل پیش نہ کیا تو باہر ہو جائوں گا یوں وہ سہل پسندی کا شکار نہیں ہو سکتا، ڈائریکٹر ڈومیسٹک کے پاس بھی یقیناً اس حوالے سے منصوبے ہوں گے انھیں ان پر عمل کرنا چاہیے۔

ایکسپریس: آپ ڈومیسٹک کرکٹ میں کن تبدیلیوں کی تجاویز دیںگے؟

حفیظ: میں چاہتا ہوں کہ کم مگر مقابلے سے بھرپور میچز ہو، اس سال آپ دیکھیں ریجنز اور ڈپارٹمنٹس کے ایونٹس ایک ساتھ کرا دیے گئے، اب اتنے زیادہ ٹاپ پلیئرز کہاں سے آئیں گے، ایسے میں کم صلاحیت والے بھی کھیل جاتے ہیں جو درست نہیں، اس کی مثال میں یہ دوں گا کہ اگر کسی ملک میں ایم بی بی ایس ڈاکٹرز کی کمی ہے تو آپ میٹرک پاس کو تو ڈاکٹر نہیں بنا دیں گے، اسی اتنا ہی پڑھنا اور محنت کرنا ہوگی جتنی ڈگری کے لیے درکار ہوتی ہے، سسٹم میں بہتری سے ہی باصلاحیت کرکٹرز سامنے آئیںگے۔

ایکسپریس:آپ ٹیسٹ میں ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کی طرح کامیاب ثابت نہیں ہو سکے، اس کی کیا وجہ ہے؟

حفیظ: یہ آپ کی سوچ ہے میں کیا کہہ سکتا ہوں، درحقیقت 2013 ء کے سوا میری ٹیسٹ میں کارکردگی اچھی ہی رہی ہے، میں تین سال تک تینوں فارمیٹس میں پرفارم کرتا رہا، البتہ گذشتہ برس5میچز میں زیادہ اسکور نہ بنا اس وجہ سے ڈراپ ہو گیا،پھر ون ڈے میں اچھا پرفارم کر کے ٹیسٹ ٹیم میں واپس آیا، ایک میچ میں کامیاب نہ رہا تو ٹیم کی ضرورت کے تحت باہر بٹھا دیا گیا، اس پر مجھے کوئی شکایت نہیں، کسی پلیئر کے لیے ایسی صورتحال ایک چیلنج ہوتی ہے اور میں بھی سخت محنت سے اپنا مقام دوبارہ حاصل کروں گا۔

ایکسپریس: بطور کپتان آپ کی ترجیح کیا ہوتی ہے نوجوان یا تجربہ کار پلیئرز؟

حفیظ: سینئرز ٹیم کی ضرورت ہوتے ہیں اسی کے ساتھ میری کوشش ہوتی ہے کہ ینگسٹرز کو مواقع دوں تاکہ وہ ٹی ٹوئنٹی سے ون ڈے پھر ٹیسٹ ٹیم میں جگہ بنائیں اور ٹیم کے کام آتے رہیں، میں نے 2سال میں 12 سے 13 نوجوانوں کو پروموٹ کیا، ٹی 20میں محمد عرفان، ذوالفقار بابر،عمر امین، حارث سہیل، رضا حسن اور صہیب مقصود کو لایا، ناصر جمشید اوراحمد شہزاد کا کم بیک کرایا،آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رکھوں گا۔

ایکسپریس: ماضی میں اکثر بڑے ایونٹس سے قبل پی سی بی ماہر نفسیات کے لیکچرز کا اہتمام کرتا ہے، کیا ورلڈٹی ٹوئنٹی سے قبل بھی ایسا کرنا چاہیے؟

حفیظ: کرکٹرز عموماً ذہنی طور پر مضبوط شخصیت کے مالک ہوتے ہیں،اسی لیے مشکل کنڈیشنز میں بھی اچھا کھیل پیش کرتے ہیں، ذاتی طور پر مجھے تو ضرورت نہیں لیکن اگر بورڈ سمجھتا ہے کہ ٹیم کے ایسے سیشنز ہونے چاہئیں تو میں اسے بُرا نہیں سمجھوں گا۔

ایکسپریس: گذشتہ عرصے پروٹیز پیسر ڈیل اسٹین نے مسلسل کئی بار آپ کو آئوٹ کیا، اس کی وجہ کیا سمجھتے ہیں؟

حفیظ: اس میں کوئی غیر معمولی بات نہیں، ایسا کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے، کرکٹ میں کبھی بیٹسمین تو کبھی بولر کا پلہ بھاری رہتا ہے، پچھلے دنوں اسٹین کو کامیابیاں ملیں مستقبل میں معاملہ الٹ ہو سکتا ہے، یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ اسٹین کا سامنا کرتے ہوئے مجھے کوئی دشواری ہوتی ہے۔

ایکسپریس: کیا یہ درست ہے کہ پاکستان کی نمائندگی کے لیے ابتدا میں حالیہ بگ بیش کا معاہدہ ختم کرنے پر آپ نے پی سی بی سے زرتلافی طلب کیا تھا؟

حفیظ: میں نے بورڈ سے ایسی کوئی بات نہیں کی تھی۔

ایکسپریس:گذشتہ دنوں آئی پی ایل کی نیلامی میں کھلاڑیوں کی بھاری رقوم کے عوض فروخت ہوئی، کیا اس کا حصہ نہ بن کرافسوس ہوا؟

حفیظ: چونکہ ہم انڈین لیگ کا حصہ نہیں اس لیے میں نے اس نیلامی میں دلچسپی نہیں لی۔

ایکسپریس:پاکستانی پلیئرز آئی پی ایل سے باہر ہیں، اس پر کیسا محسوس کرتے ہیں؟

حفیظ: میری رائے کے مطابق کھیلوں کو سیاست سے الگ رکھنا چاہیے، بھارتی لیگ میں ہمارے سوا پوری دنیا کے کرکٹرز کھیل رہے ہوتے ہیں، اس میں پاکستانی کھلاڑیوں کو بھی موقع دینا چاہیے، کئی برس سے ایسا ہو رہا ہے اب بورڈز مسئلے کا حل سوچیں، آئی پی ایل میں مقابلے سے بھرپور ورلڈکلاس کرکٹ ہوتی ہے، دنیا کے معروف کھلاڑیوں کے ساتھ آپ کو ڈریسنگ روم شیئر کرنے کا موقع ملتا ہے، میں نے پہلے سیزن میں کولکتہ نائٹ رائیڈرز کی جانب سے حصہ لیا تو رکی پونٹنگ اورسارو گنگولی جیسے سینئرز ساتھ تھے، ان سے پلیئر سیکھتا بھی ہے،بڑی تعداد میں کرائوڈ کی موجودگی کھیلنے کا لطف بڑھا دیتی ہے، مجھے چانس ملے تو ایونٹ میں شرکت کر کے خوشی محسوس کروں گا۔

ایکسپریس: بطور آل رائونڈر آپ کو بیٹنگ زیادہ پسند ہے یا بولنگ؟

حفیظ: میں دونوں سے ہی لطف اندوز ہوتا مگر بیٹنگ زیادہ پسند ہے اور اس پر سخت محنت کرتا ہوں، نیٹ پر بھی میری کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ دیر تک بیٹنگ کروں، بولنگ سے سوتیلے بیٹے جیسا سلوک کرتے ہوئے چند ہی گیندیں کرتا ہوں،خداداد صلاحیت مجھے میچز بھی کامیابی دلاتی ہے، میں اپنے آپ کو جزوقتی نہیں بلکہ کُل وقتی بولر سمجھتا ہوں۔

ایکسپریس: جس طرح سعید اجمل فیصل آباد میں کرکٹ اکیڈمی بنا رہے ہیں، آپ کا ایسا کوئی ارادہ ہے؟

حفیظ: میں نے ایسا نہیں سوچا البتہ سعید اجمل کو مجھ سمیت تمام کھلاڑیوں کی مکمل سپورٹ حاصل ہے، وہ ایک، ڈیڑھ سال سے اس پروجیکٹ پر محنت کر رہے ہیں اور میں ان کی کامیابی کے لیے دعاگو ہوں،میری دلی تمنا ایک فائونڈیشن کا قیام ہے جس کے تحت ایسے مستحق فرسٹ کلاس کرکٹرز جو 100،150میچز کھیلنے کے باوجود ملک کی نمائندگی سے محروم رہے ان کی مدد کریں گے،اس سے انھیں گذر بسر میں مدد ملے گی۔

ایکسپریس: مصباح الحق سے دوستی کی وجہ سے بعض اوقات آپ تنقید کی زد میں بھی آتے ہیں کہ کپتان حد سے زیادہ سپورٹ کرتے ہیں، اس حوالے سے کیا کہیں گے؟

حفیظ: مصباح اور میں 14برس سے ایک ساتھ کرکٹ کھیل رہے ہیں، ہم میں اچھی انڈراسٹینڈنگ ہو چکی، اسی طرح شاہدآفریدی کے ساتھ کھیلتے ہوئے بھی 8،10سال گذر چکے لہذا اچھی دوستی ہے،مصباح نے میری نہ میں نے ان کی کبھی بے جا حمایت کی،ہم ہمیشہ میرٹ پر فیصلے کرتے ہیں، ہم میں کبھی کسی بات پر اختلاف بھی نہیں ہوا البتہ ماضی میں اس حوالے سے جب باتیں کی گئیں تو ہمیں ایک ساتھ پریس کانفرنس کر کے وضاحت دینا پڑی، اس قسم کی باتوں کا ہمارے اہل خانہ پر بُرا اثر پڑتا ہے،جیسے دورئہ جنوبی افریقہ میں ایک دن میں اور مصباح ٹیم ہوٹل میں ساتھ بیٹھے چائے پی رہے تھے کہ اچانک پاکستان سے میری اہلیہ کا فون آیا، انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ ''کیا آپ کی مصباح بھائی سے لڑائی ہوئی ہے'' میرا نفی میں جواب سن کر انھوں نے کہا کہ یہاں ٹیلی ویژن چینلز پر اس حوالے سے خبریں چل رہی ہیں، ہمیں اس کا بڑا افسوس ہوا،مصباح میرے بھائیوں جیسا ہے اور اس سے دوستی پر مجھے فخر ہے۔

ایکسپریس: آپ کو کرکٹ حلقوں میں ''پروفیسر'' کہا جاتا ہے ، اچھا لگتا ہے یا بُرا؟

حفیظ: مجھے رمیز راجہ نے یہ لقب دیا اور ٹی وی کمنٹری سے شائد یہ عوام تک پہنچا، میں چونکہ احمقانہ باتیں نہیں کرتا اس لیے ''پروفیسر'' کہا جاتا ہے اور مجھے اس پر بُرا نہیں لگتا۔

ایکسپریس: ملک میں ان دنوں انٹرنیشنل کرکٹ نہیں ہو رہی، ہوم گرائونڈ پر نہ کھیلنے کا افسوس تو ہوتا ہوگا؟

حفیظ: بہت زیادہ افسوس ہوتا ہے،ہم گذشتہ کئی برس سے مشکل حالات میں کھیل رہے ہیں،اس دوران کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا،بعض تنازعات سے متاثرملکی کرکٹ کا وقار بحال ہو چکا، اب انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی ہو جائے تو عوام کو بھی میچز سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملے گا۔ ملک سے باہر کھیلنے کے سبب سال ہمیں کئی ماہ ہمیں اہل خانہ سے دور رہنا پڑتا ہے جوآسان نہیں ہوتا،اس کے باوجود ٹیم نے اپنی کارکردگی کا معیار برقرار رکھا ہے۔

ایکسپریس: قومی ٹیم کی قیادت کا تجربہ تاحال آپ کے لیے کیسا رہا ہے؟

حفیظ: میں اس ذمہ داری سے بیحد انجوائے کررہا ہوں، پوری ٹیم کی سپورٹ مجھے حاصل جبکہ مینجمنٹ بھی حوصلہ افزائی کرتی ہے،اسی وجہ سے اچھے نتائج سامنے آتے ہیں۔

ایکسپریس:ٹیسٹ اور ون ڈے میں کپتانی کے بارے میں سوچتے ہیں؟

حفیظ: میں اس حوالے سے نہیں سوچتا،قیادت کی اضافی ذمہ داری سونپنے کا فیصلہ بورڈ کرتا ہے، اس نے ٹی ٹوئنٹی کا مجھے کپتان بنایا، میں سو فیصد کمٹمنٹ سے فرائض انجام دے رہا ہوں،میری کوشش ہے کہ ٹیم اچھا کھیل پیش کرے ساتھ ہی مستقبل کے لیے نیا ٹیلنٹ بھی فراہم کرنا چاہتا ہوں۔

ایکسپریس: بعض اوقات فیلڈ میں آپ کپتان مصباح الحق پر حاوی ہو کر مشورے دیتے دکھائی دیتے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟

حفیظ: بطور نائب یہ میری ذمہ داری ہوتی ہے، مصباح کو بھی جب کوئی مشورہ درکارہوتا ہے تو پوچھتے ہیں، جب شاہد آفریدی کپتان تھے تو میں ان سے بھی بات چیت کرتے رہتا تھا اس میں کوئی قباحت نہیں ہے، اگر آپ کے ذہن میں کوئی اچھی بات ہے تو ضرور دوسرے تک پہنچانی چاہیے۔

ایکسپریس: بعض ناقدین کہتے ہیں کہ آپ صرف چھوٹی ٹیموں کے خلاف سازگار کنڈیشنز میں ہی زیادہ رنز بناتے ہیں؟

حفیظ: میں کسی کی سوچ پر پابندی نہیں لگا سکتا مگر ایسا بالکل نہیں ہے، میں 2 فارمیٹس کا نمبر ون آل رائونڈر اور ہر کنڈیشنز میں اچھا پرفارم کرنے کا اہل ہوں، اگر ایک، دو ٹیموں کے خلاف ریکارڈ اچھا نہیں تو یہ کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہے، میں نے نیوزی لینڈ اور انگلینڈ میں بڑی اننگز کھیلیں،جنوبی افریقہ میں بدقسمتی سے بڑا اسکور نہ بنا سکا مگر بعض اننگز میں بہتر کھیل پیش کیا تھا۔

[email protected]

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں