وہ ہستی کیا ہے
اس کائنات میں جو کچھ ہے وہی ہے اور اس کے وجود کے علاوہ اور کوئی وجود موجود نہیں ہے
دراصل انسان کو خدا کی ہستی کے بارے میں نہ تو کوئی فیصلہ دینا چاہیے اور نہ ہی کوئی نظریہ قائم کرنا چاہیے۔
کیوں کہ انسان کے پاس وہ ظرف ہی نہیں جو اس عظیم ہستی کا احاطہ کر سکے۔کتنے مذاہب آئے، کتنی کتابیں اتریں، کتنے برگزیدہ لوگوں نے اس کی رہنمائیاں کیں لیکن اس کے باوجود انسان آج بھی وہیں کھڑا ہے جہاں تھا' انسان اگر آج اپنے موجودہ تمام تر علم اور ذہن سے کام لے کر بھی اس کا تصور قائم کرنا چاہیے تو نہیں کر سکتا۔
چنانچہ اکثر مذاہب میں ہم دیکھتے ہیں کہ دیوتا کا خاکہ اپنے ہی اردگرد کی دیکھی بھالی چیزوں کو لے کر بناتا ہے چنانچہ وہاں اکثر دیوی دیوتا انسانوں ہی کی طرح بنائے جاتے ہیں، زیادہ سے زیادہ ان کو کئی ہاتھ دے دیں گے، کئی سر لگا دیں گے بلکہ انسان کی مذہبی تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں کہ اس نے جب خاندان بنا لیا تو خدا کو ایک خاندان کے بزرگ جیسا سمجھا، جب قبیلوی دور میں آیا تو خدا کو ایک سردار قبیلہ جیسا سمجھا، پھر بادشاہت کا آغاز ہوا تو اسے بھی بادشاہ سمجھ لیا گیا۔
کہا جا سکتا ہے کہ انسان کتنا ہی دوڑے اپنی ناک سے آگے نہیں نکل سکتا، اس طرح انسان کیسا بھی تصور و تخیل قائم کرے اپنے ذہن اور اپنے ماحول سے باہر نہیں نکل سکتا، کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر تمام حیوانات کو سوچ اور قوت گویائی مل جائے اور ان سب سے خدا کا تصور قائم کرنے کو کہا جائے تو سب کے سب اسے اپنی طرح ہی بتائیں گے،استاد اور طالب کی مثال پہلے ہی دی جا چکی ہے ایک طالب علم کو اتنا ہی بتایا جا سکتا تھا۔
جتنا وہ سمجھ سکے پرائمری کے طالب علم کو پرائمری سطح کا نصاب پڑھایا جاتا ہے اور آگے بھی ہر سطح کے مطابق تعلیم دی جاتی ہے حتیٰ کہ اگر کوئی ایم اے اور پی ایچ ڈی بھی کر لے تب بھی وہ ''سارا علم'' اخذ نہیں کر پاتا کیوں کہ علم انسان کی سطح سے بہت زیادہ وسیع بہت زیادہ بڑا ہے چناں چہ وحی و الہام کے ذریعے آسمانی کتابوں کے ذریعے اور برگزیدہ ہستیوں کے ذریعے انسان کو بہت کچھ بتایا گیا ہے لیکن یہ بہت کچھ تو ہے مگر سب کچھ نہیں ہے کیوں کہ سب کچھ اس کی استعداد سے باہر ہے۔
چناں چہ اس عظیم ہستی اس وراء الورا ذات اور اس سپریم پاور کے بارے میں مکمل جانکاری کسی کو بھی نہیں ہے سوائے خود اس کے، انسان خواہ سائنس دان ہوں یا مذہب کو ماننے والے انسان ہی ہوتے ہیں اور اتنا ہی ظرف رکھتے ہیں جتنا وہ خود ہے اس کی ہستی ہے اس کی استعداد ہے، سائنس اور طبیعات والوں کو عام طور پر خدا کا منکر کہا جاتا ہے لیکن حقیقت ایسی نہیں ہے سائنس اور طبیعات والے نہ خدا کے منکر ہیں اور نہ ماننے والے کیوں کہ ان کے نظریات کی بنیاد تجربے اور مشاہدے پر ہوتی ہے اور تجربات و مشاہدات ابھی تک اس ہستی کا اثبات حاصل نہیں کر پائے ہیں مطلب یہ کہ وہ اسے پائے نہیں ہیں لیکن کسی چیز کا نہ ''پا سکنا'' اس کے وجود کی نفی یا انکار نہیں بل کہ کھوج کرنے والے کی نارسائی ہوتی ہے۔
اصولی طور پر وہ اس بات کے منکر نہیں ہیں کہ اس پورے سلسلہ موجودات و مخلوقات کی کوئی ''بنیاد'' تو یقیناً ہے لیکن وہ بنیاد کیا ہے یہ نہیں جانتے اور اسی کو کھوجنے میں لگے ہوئے ہیں، ایسے میں سوال یہ رہ جاتا ہے کہ انسان کرے تو کیا کرے یعنی پس چہ بائد کرد ۔۔۔۔ کیا مانے اور کیا نہ مانے تو اس کے لیے بہتر راستہ وہی ہے جو وحدت الوجود کا ہے ۔۔۔ یعنی اس کائنات میں جو کچھ ہے وہی ہے اور اس کے وجود کے علاوہ اور کوئی وجود موجود نہیں ہے۔
شیخ اکبر محی الدین ابن عربی نے اس کی مثال دیتے ہوئے کہا ہے کہ میرے ہاتھ میں یہ قلم ہے اس میں خدا ہے اب اگر اس قلم کے جتنے بھی ٹکڑے کیے جائیں دو دس سو ہزار لاکھ کروڑ ارب ان سب میں وہی موجود ہوتا ہے، ایک اور مثال آئینوں کی ہے اگر کوئی ہزار لاکھ کروڑ ارب یا اس سے بھی زیادہ آئینے بنائے اور اسے اس ترتیب سے لگائے کہ سب کے سب ایک دوسرے کو منعکس کریں تو ایک چہرہ ان سب میں نظر آئے گا لیکن اس کا اصل چہرہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا وہ ویسا ہی رہے گا اس پر ایک عام سا شعر بل کہ گیت بھی ہے کہ
آئینے کے سو ٹکڑے کر کے ہم نے دیکھے ہیں
ایک میں بھی ''تنہا'' ہیں سو میں بھی اکیلے ہیں
منصور نے ''اناالحق'' کہا تھا تو وہ غلط نہیں تھا لیکن وہ پوری بات نہیں کہہ پایا تھا ... پوری بات یہ نہ تھی کہ میں خدا ہوں ... بلکہ پوری بات یہ تھی میں بھی خدا میں سے ہوں ... ''میں'' اور ''میں بھی'' دو قطعی الگ الگ باتیں ہیں ... منصور سے چوک ہو گئی تھی اور اس چوک کی سزا اسے بھگتنا پڑی، علامہ اقبال نے اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے
اقبال نے منبر پر اک راز نہاں کھولا
''ناپختہ'' ہی اٹھ آیا از محفل رندانہ
چنانچہ ایسے حالات میں ایک سیدھے سادے انسان کے لیے سب سے بہتر راستہ یہ ہے کہ وہ بہت دور جانے اور اسے تلاش کرنے کی کوشش نہ کرے بلکہ خود اپنے اندر جھانکے اور جو کچھ اس کے بارے میں سمجھ پائے وہ مانے۔ کوئی گڈریا ہے تو وہ اسے اپنی طرح پھٹے پرانے لباس ،جوتوں اور بھوک پیاس کا مارا گڈریا سمجھے ۔۔۔۔ اور کوئی موسیٰ ہے تو وہ اسے وہی سمجھے جو اس نے کوہ طور پر دیکھا تھا کیوں کہ ''وہ'' ۔۔۔۔ وہ بھی ہے اور وہ ''یہ'' بھی ہے اور یہ کوشش بالکل بھی نہ کرے کہ وہ اس کی پوری حقیقت کو پا لے گا۔