کرپشن کا بیانیہ
موجودہ حکومت اکثر و بیشتر دعویٰ کرتی رہی ہے کہ وہ ملک سے بدعنوانی کے خاتمے کی سر توڑ کوششیں کر رہی ہے
لاہور:
بدعنوانی کے خلاف عالمی سطح پر جدوجہد کرنے والی تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی طرف سے سال 2021 کے لیے گلوبل کرپشن انڈکس جاری کردیا گیا ہے ، جس کے مطابق پاکستان ایک سو اسی ممالک میں ایک سو چالیس ویں نمبر پر ہے ، رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کرپشن بڑھی ہے۔
یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں جاری ہوئی ہے جب کہ پاکستان میں وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں پی ٹی آئی کی حکومت کو مہنگائی، بے روزگاری اور اپوزیشن کی تحریک سمیت کئی طرح کے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ موجودہ حکومت اکثر و بیشتر دعویٰ کرتی رہی ہے کہ وہ ملک سے بدعنوانی کے خاتمے کی سر توڑ کوششیں کر رہی ہے لیکن پاکستان کی سی پی آئی درجہ بندی گزشتہ تین سالوں میں مسلسل نیچے گئی ہے۔
سال 2019 میں پاکستان 120 ویں نمبر پر تھا۔ اگلے سال 124ویں نمبر پر چلا گیا تھا۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے جاری کردہ اپنی سالانہ رپورٹ میں متعدد ممالک میں کی جانے والی بدعنوانیوں کی نشاندہی اور اُن کی درجہ بندی کی تھی، تاہم پاکستان کے حوالے سے جو رپورٹ جاری کی گئی، اُس کے مطابق پاکستان میں ہر سال کرپشن میں اضافہ ہو رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی صورت حال انتہائی مایوس کن ہے۔ مقام افسوس ہے کہ ہم ہر شعبے میں تنزلی کا شکار ہو رہے ہیں ۔
کرپشن کے حوالے سے ٹرانسپیرنسی کا انڈکس پی ٹی آئی کے لیے سب سے بڑا دھچکا ہے ، کیونکہ اس پارٹی نے بدعنوانی کے خلاف جنگ کا اعلان کر کے ہی سیاست میں حصہ لیا اور عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔
موجودہ وزیراعظم عمران خان اپنی تقاریر اور بیانات میں سابق وزیر اعظم نواز شریف، سابق صدر آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان کو کرپٹ سیاست دانوں کا ٹولہ قرار دیتے رہے ہیں اور ماضی میں ان پر کرپشن کے سنگین الزامات بھی لگاتے اور معاملات درست کرنے کی یقین دہانی کراتے رہے ہیں۔ کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت میں کرپشن کوئی انہونی بات نہیں اور یہی کرپشن تو دوسری حکومتوں میں بھی ہوتی رہی ہے۔
کرپشن کا لفظ وسیع مفہوم رکھتا ہے۔ اُردو میں اس کے معنی بد عملی، بدعنوانی، بد اخلاقی، بگاڑ اور بدکاری استعمال ہوتے ہیں ۔ کرپشن کا لفظ ہر زبان، ہر ملک اور ہر معاشرے میں گھناؤنے اور منفی کاموں کے لیے بولا جاتا ہے اور ناپسندیدگی کے ساتھ اس کا اظہار کیا جاتا ہے، کیونکہ یہ کسی صورت بھی اچھا عمل نہیں ہے۔
دنیا کے کسی بھی ملک میں بد عنوانی حکومت کو معاشی گرداب کا شکار کردیتی ہے اور اُس کے عوام کو بنیادی وسائل اور خدمات کی فراہمی کی صلاحیت کم کردیتی ہے اور ایسے میں ملک میں سرمایہ کاری خاص کر غیر ملکی سرمایہ کاری کا عمل قدرِ محدود ہو جاتا ہے، کیونکہ اقوام متحدہ کے آفس برائے ڈرگز اینڈ کرائم کے مطابق ''کسی بدعنوان ملک میں سرمایہ کاری بد عنوانی سے پاک ملک میں سرمایہ کاری کی نسبت 20 فیصد زائد مہنگی پڑتی ہے ۔ ''
حصولِ پاکستان کا مقصد ہی کرپشن سے پاک معاشرہ تھا۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے تو 11 اگست 1947 کی تقریر میں بڑے واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ ''ہمارا سب سے بڑا مسئلہ رشوت اور کرپشن ہے، اسمبلی کو اس زہر کے خاتمے کے لیے موثر اقدامات کرنے ہیں۔'' لیکن قائد کے فرمان کے برعکس قیام پاکستان کے بعد ہی ملک میں کرپشن کا باقاعدہ آغاز جھوٹے کلیموں کی صورت میں ہوا، جب بھارت سے ہجرت کرکے آنے والے افراد نے ہندؤوں اور سکھوں کی چھوڑی ہوئی جائیدادوں کے حصول کے لیے جھوٹے کلیم داخل کیے ۔
قدرت اللہ شہاب نے اپنی شہرہ آفاق کتاب''شہاب نامہ'' میں لکھا ہے کہ ایک صاحب لال قلعہ کی ملکیت کا دعویٰ لے کر سامنے آگئے ، جنھوں نے اپنی ساری زندگی متحدہ ہندوستان کے بڑے شہروں میں بسر کی تھی ، انھوں نے بھی کھیتوں اور پودینے کے باغ کے دعویٰ داخل کیے اور یوں بیوروکریسی کے تعاون سے سرکاری اراضی پر قبضے کے لیے سفارش اور اقربا پروری کا سلسلہ شروع ہوگیا ، اس کے بعد سرکاری ملازمتوں میں تعیناتی کے سلسلے میں بدعنوانی کا آغاز ہوا، یہ عہدے میرٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے من پسند افراد کو دیے گئے۔
ہمارے وزیراعظم عمران خان صدر ایوب خان کے دور حکومت کو مثالی دور قرار دیتے ہوئے، اس کے کارناموں کا ذکر تواتر کے ساتھ اپنی تقاریر میں کرتے ہیں ، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے اس دور میں بھی کرپشن اپنے عروج پر رہی ہے ، سرکاری زمینوں کی اونے پونے داموں الاٹمنٹ نے کرپشن کی بنیاد رکھی ۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومتیں دو دو بار کرپشن کے الزامات کے تحت برطرف کی گئیں ، صدر غلام اسحق اور صدر فاروق لغاری نے آئین کی شق اٹھاؤن ٹو بی کا استعمال کرکے جمہوری حکومتوں کو مدت پوری نہ کرنے دی۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نصف سے زائد عرصہ غیر سول حکومتیں قائم رہیں ، افسوس ان کے ادوار میں بھی کرپشن پر قابو نہ پایا جاسکا۔
ملک میں کرپشن کا آغاز پرچی سسٹم سے شروع ہوا، پہلے پہل کوئی بھی بااختیار بندہ کسی اپنے دوست رشتے دار کو پرچی لکھ کر دیتا اور اسی پرچی کے اوپر اس کا کام ہو جایا کرتا تھا، اس کے بعد کا دور ٹیلی فون کا آیا جب پرچی کو چھوڑ کر دور جدید کی ایجاد ٹیلی فون کا سہارا لیا جاتا اور اقربا پروری کرتے ہوئے کوئی آفیسر یا با اختیار آدمی اپنے زیر اثر کام کرنے والے سے اپنے عزیز واقارب کے کام کروا لیے کرتے تھے، یہی اقرباء پروری بڑھتے بڑھتے نوٹوں کی صورت اختیار کر گئی جس میں سائل کا کام اسی صورت میں ہوتا جب وہ اپنے کام کے لیے کام کرنیوالے کو مٹھائی کے پیسے دیا کرتے۔ ہم بحیثیت قوم لالچ میں ایسی ڈگر پر چل نکلے کہ اب مہنگائی اور اپنی ایک نا ختم ہونے والی پیٹ کی آگ کو بجھانے کے لیے نوٹوں کا سہارا ہی لیتے دکھائی دیتے ہیں۔
اور اس مٹھائی کے نام پر ناجائز کمائی سے کسی قسم کی شرم محسوس نہیں کرتے۔ بلکہ کھلے عام مٹھائی طلب کرتے ہیں اور پھر اس کو جمع کرتے کرتے پورے دن کے آخر پر اسی ڈیپارٹمنٹ میں موجود دوسرے کام کرنیوالوں میں برابر برابر تقسیم بھی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، اس معاشرے کو کوئی فکر نہیں کہ اس قسم کی تمام حرکات پر ملک کی عزت و وقار کو کیا فرق پڑ رہا ہے، وہ تو اپنے ذہن میں یہی سوچتے دکھائی دیتے ہیں کہ آج کی دیہاڑی لگی کہ نہیں۔
چھوٹے عہدوں پر کام کرنیوالے افراد کے حصے میں تو اتنا ہی مٹھائی کا حصہ آتا ہے جتنا وہ ایک روز میں ہی کھائی پی جاتے ہیں اور پھر اگلی صبح ایک نئے جوش و جذبے سے جاگتے ہیں اور اپنے نئے دن کی دیہاڑی کے چکر میں گھر سے نکل پڑتے ہیں لیکن بڑے بڑے سیاست دان اور بیورو کریٹس کی دیہاڑیاں بھی بڑی بڑی ہوتی ہیں جو لمبے لمبے ہاتھ مارتے ہوئے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرتے جا رہے ہیں اور کوئی بھی ان کو پوچھنے والا نہیں۔ اس ساری کرپشن کی کہانی کو جتنا بھی سوچتے اور لکھتے جاؤ، یہ ختم ہونے والا نہیں کیونکہ اس کرپشن کی کتاب کے کسی بھی ورق کو پلٹو اس میں کرپشن اور لوٹ مار کی ایک سے ایک نئی غضب کہانی چھپی ہے۔
ہمارے یہاں ایف بی آر ، نیب، اینٹی کرپشن ، پبلک اکاؤنٹس کمیٹیاں ، آئی بی ، ایف آئی اے اور نجانے کون کون سے ادارے اور کون سی ایجنسیاں موجود ہیں لیکن ان کی مثال خربوزوں کے کھیت کے گیدڑ رکھوالے والی ہے۔ کسی بھی ملک و قوم کی تباہی میں کرپشن کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ جب ذاتی مفادات ملک و قوم سے مقدم ہو جاتے ہیں تو تباہی یقینی ہوتی ہے۔ اسی لیے کرپشن کو ''ام الخبائث'' بھی کہا جا سکتا ہے۔
کرپشن ، بد عنوانی پاکستان کا مسئلہ ہی نہیں ہے، بلکہ یہ بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ کیونکہ برائیاں اس کی کوکھ سے جنم لیتی ہیں۔ کرپشن اعلیٰ اقدار کی دشمن ہے، جو معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ کر اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے۔ چاہے یہ کسی بھی صورت میں ہو، جس قوم میں جتنی زیادہ کرپشن ہو وہ قوم اتنی ہی جلدی بربادی کے گڑھے میں جا گرتی ہے، اگر کسی قوم کے رگ و پے میں کرپشن سرایت کرجائے تو وہ اپنی شناخت و ساخت اور مقام و مرتبے سے یوں ہاتھ دھو بیٹھتی ہے، جیسے کوئی بلند مقام کبھی اس قوم کو ملا ہی نہیں تھا۔
اگر حکومتی سطح پر سنجیدہ حکمت عملی نہ بنائی گئی تو 2025 تک ملک کا شمار اخلاقی، سیاسی، اقتصادی اور سماجی لحاظ سے دنیا کے سب سے زیادہ تباہ حال ممالک کی اوّل صف میں ہوجائے گا۔ کرپشن کے خاتمہ کا بہترین حل خوفِ خدا ہے، ہم میں سے ہر ایک اپنا احتساب کرے اور اپنی اصلاح کر لے۔ باقی اقوام اگر بتوں کو سامنے رکھ کر اپنے فرائض منصبی میں کوتاہی نہیں کرتے تو ہم کیوں خوف خدا سے عاری ہیں۔ اس حوالہ سے تقریبات، سیمینارز اور میڈیا کے ذریعہ سے کرپشن کے نقصانات کے حوالہ سے شعور بیدار کرنا وقت کا اہم ترین تقاضہ ہے۔
بدعنوانی کے خلاف عالمی سطح پر جدوجہد کرنے والی تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی طرف سے سال 2021 کے لیے گلوبل کرپشن انڈکس جاری کردیا گیا ہے ، جس کے مطابق پاکستان ایک سو اسی ممالک میں ایک سو چالیس ویں نمبر پر ہے ، رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کرپشن بڑھی ہے۔
یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں جاری ہوئی ہے جب کہ پاکستان میں وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں پی ٹی آئی کی حکومت کو مہنگائی، بے روزگاری اور اپوزیشن کی تحریک سمیت کئی طرح کے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ موجودہ حکومت اکثر و بیشتر دعویٰ کرتی رہی ہے کہ وہ ملک سے بدعنوانی کے خاتمے کی سر توڑ کوششیں کر رہی ہے لیکن پاکستان کی سی پی آئی درجہ بندی گزشتہ تین سالوں میں مسلسل نیچے گئی ہے۔
سال 2019 میں پاکستان 120 ویں نمبر پر تھا۔ اگلے سال 124ویں نمبر پر چلا گیا تھا۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے جاری کردہ اپنی سالانہ رپورٹ میں متعدد ممالک میں کی جانے والی بدعنوانیوں کی نشاندہی اور اُن کی درجہ بندی کی تھی، تاہم پاکستان کے حوالے سے جو رپورٹ جاری کی گئی، اُس کے مطابق پاکستان میں ہر سال کرپشن میں اضافہ ہو رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی صورت حال انتہائی مایوس کن ہے۔ مقام افسوس ہے کہ ہم ہر شعبے میں تنزلی کا شکار ہو رہے ہیں ۔
کرپشن کے حوالے سے ٹرانسپیرنسی کا انڈکس پی ٹی آئی کے لیے سب سے بڑا دھچکا ہے ، کیونکہ اس پارٹی نے بدعنوانی کے خلاف جنگ کا اعلان کر کے ہی سیاست میں حصہ لیا اور عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔
موجودہ وزیراعظم عمران خان اپنی تقاریر اور بیانات میں سابق وزیر اعظم نواز شریف، سابق صدر آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان کو کرپٹ سیاست دانوں کا ٹولہ قرار دیتے رہے ہیں اور ماضی میں ان پر کرپشن کے سنگین الزامات بھی لگاتے اور معاملات درست کرنے کی یقین دہانی کراتے رہے ہیں۔ کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت میں کرپشن کوئی انہونی بات نہیں اور یہی کرپشن تو دوسری حکومتوں میں بھی ہوتی رہی ہے۔
کرپشن کا لفظ وسیع مفہوم رکھتا ہے۔ اُردو میں اس کے معنی بد عملی، بدعنوانی، بد اخلاقی، بگاڑ اور بدکاری استعمال ہوتے ہیں ۔ کرپشن کا لفظ ہر زبان، ہر ملک اور ہر معاشرے میں گھناؤنے اور منفی کاموں کے لیے بولا جاتا ہے اور ناپسندیدگی کے ساتھ اس کا اظہار کیا جاتا ہے، کیونکہ یہ کسی صورت بھی اچھا عمل نہیں ہے۔
دنیا کے کسی بھی ملک میں بد عنوانی حکومت کو معاشی گرداب کا شکار کردیتی ہے اور اُس کے عوام کو بنیادی وسائل اور خدمات کی فراہمی کی صلاحیت کم کردیتی ہے اور ایسے میں ملک میں سرمایہ کاری خاص کر غیر ملکی سرمایہ کاری کا عمل قدرِ محدود ہو جاتا ہے، کیونکہ اقوام متحدہ کے آفس برائے ڈرگز اینڈ کرائم کے مطابق ''کسی بدعنوان ملک میں سرمایہ کاری بد عنوانی سے پاک ملک میں سرمایہ کاری کی نسبت 20 فیصد زائد مہنگی پڑتی ہے ۔ ''
حصولِ پاکستان کا مقصد ہی کرپشن سے پاک معاشرہ تھا۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے تو 11 اگست 1947 کی تقریر میں بڑے واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ ''ہمارا سب سے بڑا مسئلہ رشوت اور کرپشن ہے، اسمبلی کو اس زہر کے خاتمے کے لیے موثر اقدامات کرنے ہیں۔'' لیکن قائد کے فرمان کے برعکس قیام پاکستان کے بعد ہی ملک میں کرپشن کا باقاعدہ آغاز جھوٹے کلیموں کی صورت میں ہوا، جب بھارت سے ہجرت کرکے آنے والے افراد نے ہندؤوں اور سکھوں کی چھوڑی ہوئی جائیدادوں کے حصول کے لیے جھوٹے کلیم داخل کیے ۔
قدرت اللہ شہاب نے اپنی شہرہ آفاق کتاب''شہاب نامہ'' میں لکھا ہے کہ ایک صاحب لال قلعہ کی ملکیت کا دعویٰ لے کر سامنے آگئے ، جنھوں نے اپنی ساری زندگی متحدہ ہندوستان کے بڑے شہروں میں بسر کی تھی ، انھوں نے بھی کھیتوں اور پودینے کے باغ کے دعویٰ داخل کیے اور یوں بیوروکریسی کے تعاون سے سرکاری اراضی پر قبضے کے لیے سفارش اور اقربا پروری کا سلسلہ شروع ہوگیا ، اس کے بعد سرکاری ملازمتوں میں تعیناتی کے سلسلے میں بدعنوانی کا آغاز ہوا، یہ عہدے میرٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے من پسند افراد کو دیے گئے۔
ہمارے وزیراعظم عمران خان صدر ایوب خان کے دور حکومت کو مثالی دور قرار دیتے ہوئے، اس کے کارناموں کا ذکر تواتر کے ساتھ اپنی تقاریر میں کرتے ہیں ، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے اس دور میں بھی کرپشن اپنے عروج پر رہی ہے ، سرکاری زمینوں کی اونے پونے داموں الاٹمنٹ نے کرپشن کی بنیاد رکھی ۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومتیں دو دو بار کرپشن کے الزامات کے تحت برطرف کی گئیں ، صدر غلام اسحق اور صدر فاروق لغاری نے آئین کی شق اٹھاؤن ٹو بی کا استعمال کرکے جمہوری حکومتوں کو مدت پوری نہ کرنے دی۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نصف سے زائد عرصہ غیر سول حکومتیں قائم رہیں ، افسوس ان کے ادوار میں بھی کرپشن پر قابو نہ پایا جاسکا۔
ملک میں کرپشن کا آغاز پرچی سسٹم سے شروع ہوا، پہلے پہل کوئی بھی بااختیار بندہ کسی اپنے دوست رشتے دار کو پرچی لکھ کر دیتا اور اسی پرچی کے اوپر اس کا کام ہو جایا کرتا تھا، اس کے بعد کا دور ٹیلی فون کا آیا جب پرچی کو چھوڑ کر دور جدید کی ایجاد ٹیلی فون کا سہارا لیا جاتا اور اقربا پروری کرتے ہوئے کوئی آفیسر یا با اختیار آدمی اپنے زیر اثر کام کرنے والے سے اپنے عزیز واقارب کے کام کروا لیے کرتے تھے، یہی اقرباء پروری بڑھتے بڑھتے نوٹوں کی صورت اختیار کر گئی جس میں سائل کا کام اسی صورت میں ہوتا جب وہ اپنے کام کے لیے کام کرنیوالے کو مٹھائی کے پیسے دیا کرتے۔ ہم بحیثیت قوم لالچ میں ایسی ڈگر پر چل نکلے کہ اب مہنگائی اور اپنی ایک نا ختم ہونے والی پیٹ کی آگ کو بجھانے کے لیے نوٹوں کا سہارا ہی لیتے دکھائی دیتے ہیں۔
اور اس مٹھائی کے نام پر ناجائز کمائی سے کسی قسم کی شرم محسوس نہیں کرتے۔ بلکہ کھلے عام مٹھائی طلب کرتے ہیں اور پھر اس کو جمع کرتے کرتے پورے دن کے آخر پر اسی ڈیپارٹمنٹ میں موجود دوسرے کام کرنیوالوں میں برابر برابر تقسیم بھی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، اس معاشرے کو کوئی فکر نہیں کہ اس قسم کی تمام حرکات پر ملک کی عزت و وقار کو کیا فرق پڑ رہا ہے، وہ تو اپنے ذہن میں یہی سوچتے دکھائی دیتے ہیں کہ آج کی دیہاڑی لگی کہ نہیں۔
چھوٹے عہدوں پر کام کرنیوالے افراد کے حصے میں تو اتنا ہی مٹھائی کا حصہ آتا ہے جتنا وہ ایک روز میں ہی کھائی پی جاتے ہیں اور پھر اگلی صبح ایک نئے جوش و جذبے سے جاگتے ہیں اور اپنے نئے دن کی دیہاڑی کے چکر میں گھر سے نکل پڑتے ہیں لیکن بڑے بڑے سیاست دان اور بیورو کریٹس کی دیہاڑیاں بھی بڑی بڑی ہوتی ہیں جو لمبے لمبے ہاتھ مارتے ہوئے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرتے جا رہے ہیں اور کوئی بھی ان کو پوچھنے والا نہیں۔ اس ساری کرپشن کی کہانی کو جتنا بھی سوچتے اور لکھتے جاؤ، یہ ختم ہونے والا نہیں کیونکہ اس کرپشن کی کتاب کے کسی بھی ورق کو پلٹو اس میں کرپشن اور لوٹ مار کی ایک سے ایک نئی غضب کہانی چھپی ہے۔
ہمارے یہاں ایف بی آر ، نیب، اینٹی کرپشن ، پبلک اکاؤنٹس کمیٹیاں ، آئی بی ، ایف آئی اے اور نجانے کون کون سے ادارے اور کون سی ایجنسیاں موجود ہیں لیکن ان کی مثال خربوزوں کے کھیت کے گیدڑ رکھوالے والی ہے۔ کسی بھی ملک و قوم کی تباہی میں کرپشن کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ جب ذاتی مفادات ملک و قوم سے مقدم ہو جاتے ہیں تو تباہی یقینی ہوتی ہے۔ اسی لیے کرپشن کو ''ام الخبائث'' بھی کہا جا سکتا ہے۔
کرپشن ، بد عنوانی پاکستان کا مسئلہ ہی نہیں ہے، بلکہ یہ بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ کیونکہ برائیاں اس کی کوکھ سے جنم لیتی ہیں۔ کرپشن اعلیٰ اقدار کی دشمن ہے، جو معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ کر اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے۔ چاہے یہ کسی بھی صورت میں ہو، جس قوم میں جتنی زیادہ کرپشن ہو وہ قوم اتنی ہی جلدی بربادی کے گڑھے میں جا گرتی ہے، اگر کسی قوم کے رگ و پے میں کرپشن سرایت کرجائے تو وہ اپنی شناخت و ساخت اور مقام و مرتبے سے یوں ہاتھ دھو بیٹھتی ہے، جیسے کوئی بلند مقام کبھی اس قوم کو ملا ہی نہیں تھا۔
اگر حکومتی سطح پر سنجیدہ حکمت عملی نہ بنائی گئی تو 2025 تک ملک کا شمار اخلاقی، سیاسی، اقتصادی اور سماجی لحاظ سے دنیا کے سب سے زیادہ تباہ حال ممالک کی اوّل صف میں ہوجائے گا۔ کرپشن کے خاتمہ کا بہترین حل خوفِ خدا ہے، ہم میں سے ہر ایک اپنا احتساب کرے اور اپنی اصلاح کر لے۔ باقی اقوام اگر بتوں کو سامنے رکھ کر اپنے فرائض منصبی میں کوتاہی نہیں کرتے تو ہم کیوں خوف خدا سے عاری ہیں۔ اس حوالہ سے تقریبات، سیمینارز اور میڈیا کے ذریعہ سے کرپشن کے نقصانات کے حوالہ سے شعور بیدار کرنا وقت کا اہم ترین تقاضہ ہے۔