یاور مہدی
یاور بھائی اور ریڈیو پاکستان کا معاملہ بھی ایسا ہی تھا، یوں لگتا تھا کہ وہ گویا پیدا ہی ریڈیو پاکستان کے لیے ہوئے تھے
کراچی:
جن کے دم سے تھی بزم کی رونق وہ لوگ اٹھتے جاتے ہیں۔ ابھی ریڈیو پاکستان کے پرانے ساتھی عظیم سرورکے انتقال پر ملال کی خبرکی سیاہی خشک نہیں ہونے پائی تھی کہ بھائی یاور مہدی کے سانحہ ارتحال کی اطلاع پاکر دل کو بڑا زبردست دھچکا لگا۔
میں آج کل اپنی اہلیہ اور چھوٹی بیٹی کے ہمراہ وطن عزیز سے دور دبئی میں اپنے صاحبزادے اور اس کی فیملی کے ساتھ قیام پذیر ہوں۔ یاور بھائی کے ملک عدم روانہ ہونے کی اطلاع بھی بڑی صاحبزادی کی زبانی ملی جو کہ مسقط میں مقیم ہے۔
اناللہ و انا الیہ راجعون۔
ریڈیو پاکستان محض ایک ادارہ نہیں بلکہ جواہرات کی کان ہے، جس میں ایک سے بڑھ کر ایک ہیرا موجود ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ جواہرات کا خزانہ خالی ہوتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ میر کے بقول:
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
چل چلاؤ کی اس کیفیت کو بیان کرنے کے لیے اپنے ہی اس شعرکا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔
بجھ رہے ہیں محبتوں کے چراغ
رفتہ رفتہ بچھڑ رہے ہیں دوست
یاور بھائی سے دوستی ایک قصہ پارینہ ہے۔ ان سے پہلی ملاقات کب ہوئی تھی کچھ ٹھیک سے یاد نہیں لیکن یہ لو ایٹ فرسٹ سائٹ والا معاملہ ہے جسے ایجاب و قبول کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب ریڈیو پاکستان میں ہم دونوں کے شعبے الگ الگ تھے۔ ان کا شعبہ ملکی نشریات کا تھا جسے مخصوص اصطلاح میں ہوم سروس کہا جاتا ہے جب کہ میرا شعبہ بیرونی نشریات سے متعلق تھا جو ایکسٹرنل سروسزکہلاتا ہے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب ریڈیو پاکستان ہی الیکٹرانک میڈیا ہونے کا واحد ادارہ تھا چنانچہ اسے پرنٹ میڈیا پر فوقیت حاصل تھی اور اس سے وابستگی بڑے اعزازکی بات تھی اور ریڈیو پروڈیوسر توکجا ریڈیو فنکارکو معاشرے میں ایک بلند مقام حاصل ہوا کرتا تھا۔ شعبہ خواہ کوئی بھی ہو مگر اس میں کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ اور نمایاں وغیر معمولی کامیابی حاصل کرنے میں افتاد طبع کا یعنی بہت زیادہ عمل دخل ہوتا ہے۔
یاور بھائی اور ریڈیو پاکستان کا معاملہ بھی ایسا ہی تھا۔ یوں لگتا تھا کہ وہ گویا پیدا ہی ریڈیو پاکستان کے لیے ہوئے تھے۔ دفتری اوقات کی پابندی سے بالکل قطع نظر ان کا بیشتر وقت بس وہیں گزرتا تھا۔ نہ آنے کا کوئی وقت تھا اور نہ جانے کا۔ بس ریڈیو ہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ ان کے کمرے میں ہر وقت ایک میلہ سا لگا رہتا تھا۔ سادگی ، ملنساری، خوش اخلاقی اور شگفتہ مزاجی ان کی شخصیت کے اجزاء ترکیبی تھے جنھوں نے ان کی شخصیت میں ایک مقناطیسی کشش پیدا کردی تھی۔
یوں تو بحیثیت پروڈیوسر ان کا پیش کردہ ہر پروگرام مقبول عام ہوا لیکن انھیں سب سے زیادہ شہرت و مقبولیت جس پروگرام سے حاصل ہوئی وہ ہے کالجوں اور یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کا خصوصی پروگرام '' بزم طلبا ''سچ پوچھیے تو اس پروگرام نے ان کی اور ریڈیو پاکستان کراچی کی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ اس پروگرام میں شریک ہونے والے طلبا و طالبات میں مختلف شعبہ جات زندگی سے تعلق رکھنے والے بڑے بڑے نام شامل ہیں۔ مثلاً سلطانہ صدیقی، خوش بخت شجاعت، پروین شاکر اور اسد اشرف ملک۔ یہ فہرست بہت طویل ہے۔
مردم شناسی یاور مہدی کی شخصیت کا ایک خاص وصف تھا اور ٹیلنٹ کی تلاش میں ان کو ملکہ حاصل تھا جو ان کی غیر معمولی کامیابی اور مقبولیت کا سب سے بڑا راز ہے۔ خوب سے خوب ترکی جستجو ان کی شخصیت کا جزو لاینفک تھا۔ ہر وقت کوئی نہ کوئی ادھیڑ بن ان کے سر پر سوار رہتی تھی اور ٹک کر بیٹھنا ان کے مزاج کے خلاف تھا۔ کراچی آرٹس کونسل کا وجود میں آنا بھی ان کی اسی مزاجی کیفیت کا ایک نتیجہ ہے جس نے آج ایک عالمگیر شہرت و شناخت حاصل کرلی ہے۔ یاور مہدی کو اگر کراچی کا بابائے ثقافت بھی کہا جائے تو شاید چنداں مبالغہ آرائی نہ ہو۔
سچ پوچھیے تو کراچی ایک روکھا پھیکا سا صنعتی و تجارتی شہر ہوا کرتا تھا جہاں تفریح طبع کا شدید فقدان تھا اور انٹرٹینمنٹ کا کوئی خاص ذریعہ نہ تھا۔ ایسے حالات میں چند ہم خیال اور با ذوق احباب کے تعاون سے کراچی آرٹس کونسل جیسے ثقافتی ادارے کا قیام یاور بھائی کا ایک لافانی اور عظیم الشان کارنامہ ہے جس نے ان کو ہمیشہ کے لیے امر کر دیا ہے۔
اس کے علاوہ اسی نوعیت کے اور بھی کئی کارنامے ہیں جن کے تذکرے کا یہ کالم متحمل نہیں ہو سکتا۔ انھوں نے بھرپور عرصہ حیات گزارا تھا۔ انھوں نے ریڈیو کی ملازمت کو محض ملازمت کبھی نہیں سمجھا کیونکہ یہ کام ان کے مزاج کے عین مطابق تھا۔ یاور بھائی ایک فقیر منش اور درویش صفت انسان تھے جس کی وجہ سے ان سے ملاقات کرکے آدمی ان کا گرویدہ ہوجاتا تھا۔ ان کا حلقہ احباب انتہائی وسیع بلکہ لامحدود تھا اور لگتا یوں تھا جیسے پورا شہر ان کا گھر تھا۔ ان کی وفات سے پورے شہر پر سناٹا طاری ہوگیا۔ بقول شاعر:
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا