تماشا نہ کیجئے
ایسے تماشے تو ہم ہر حکومت میں دیکھتے آئے ہیں۔ آپ بھی ایسا ہی کریں گے تو آپ میں اور ان میں فرق کیا رہ جائے گا؟
PESHAWAR:
بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
ہم یہ تو نہیں جانتے کہ مرزا غالب نے یہ شعر کب، کیوں اور کس کےلیے کہا تھا لیکن ہم ان کے اس شعر کے دوسرے مصرعے ''ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے'' کے کئی عملے نمونے اپنی زندگی میں دیکھ رہے ہیں۔
کپتان عمران خان نے 23 جنوری بروز اتوار اپنے عوام سے براہ راست بات کی، جس کے دوران مختلف لوگوں نے مختلف طریقوں سے اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کی کوشش کی۔ مگر وہ اس میں زیادہ کامیاب اس لیے نہیں ہوسکے کہ وزیراعظم عوام سے بات کم اور اپنا خطاب زیادہ کرتے ہیں اور اس بار بھی ایسا ہی ہوا کہ ان کا عوام سے براہ راست مکالمہ ان کے خطاب میں بدل گیا۔ جس کےلیے زیادہ موزوں طریقہ یہ تھا کہ وہ ٹیلی فون کالز لینے کے بجائے ڈائریکٹ ہی ٹی وی اور ریڈیو کے ذریعے عوام سے خطاب کرلیتے۔ کیونکہ اس کی اہمیت زیادہ ہوتی کہ ملک کے وزیراعظم کے عوام سے خطاب پر نہ صرف ملکی بلکہ انٹرنیشنل میڈیا اور بیرونی طاقتوں کی نظر ہوتی ہے۔ وزیراعظم کا خطاب گویا ملکی پالیسی سمجھا جاتا ہے۔ خیر جو طریقہ انہوں نے بہتر سمجھا وہ استعمال کیا اور ان لوگوں کو مبارکباد جن کی کوششیں رنگ لائیں اور وہ اپنے ہر دلعزیز وزیراعظم سے آمنے سامنے نہ سہی ٹیلی فون کے ذریعے ہی بات کرنے میں کامیاب ہوئے۔
وزیراعظم نے اس دوران بتایا کہ یہ باتیں تو دراصل پارلیمنٹ میں کرنے والی ہیں لیکن کیا کریں وہ ان کو بولنے نہیں دیا جاتا کیوں کہ جب کوئی بول رہا ہو اور دوسرے اس کو سن نہ رہے ہوں تو ایسے بولنے کا فائدہ بھی کیا ہے۔
وزیراعظم نے اپوزیشن کو یہ بھی باور کرایا کہ ان کےلیے بہتر یہ ہے کہ انہیں وزیراعظم کے آفس میں ٹک کر رہنے دیں۔ کیوں کہ اس طرح وہ آرام سے بیٹھ کر اپوزیشن اور ان کے حامیوں کے تماشے دیکھتے رہتے ہیں لیکن اگر انہیں کسی بھی طریقے سے وزیراعظم کے آفس سے باہر نکالا گیا تو وہ زیادہ خطرناک روپ دھار لیں گے اور پھر ان کے مخالفوں کو چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔ گویا ان کے باہر نکلنے سے ایسے تماشے شروع ہوں گے کہ پورا ملک دیکھے گا۔ اس کے علاوہ اس خطاب میں وزیراعظم نے اپنے اور اپنے حمایتی لوگوں کے علاوہ، مطلب اپنے مخالفین کو مافیاز قرار دیا جو کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اپنے آپ کو وزیراعظم سمجھتے ہیں مگر اپوزیشن لیڈر کو صرف ایک مجرم سمجھتے ہیں اور ایک مجرم سے ملنے کو وہ عوام سے غداری سمجھتے ہیں۔ گویا جن لوگوں سے وہ ملتے ہیں وہ سارے دودھ کے دھلے ہیں اور عوام کی آنکھوں کا تارا ہیں۔ وزیراعظم اس بار بھی ملک میں ہونے والی مثالی ترقی کی روداد سنائے بغیر نہ رہ سکے۔ سو باتوں کی ایک بات کہ ملک کی ساری تباہی کے ذمے دار گزشتہ حکمران اور ساری ترقی اور خوشحالی کی وجہ موجودہ حکومت اور اس کے وزیراعظم ہیں۔
جس وزیراعظم کے یہ خیالات اور ارادے ہوں، اس سے کیا امید لگائی جاسکتی ہے۔ 2014 کے دھرنے میں تو مسائل کے مارے عوام کو ان کی باتیں قدرے دل کو لگتی تھیں، کیوں کہ ابھی انہوں نے ان صاحب کی حکومت دیکھی نہیں تھی مگر آج 2022 میں جب یہ حکومت عمران خان کی حکمرانی میں تقریباً چار سال مکمل کرنے جارہی ہے اس دوران عوام کی جو درگت بنی، اس کے بعد کون بھولا شخص ہوگا جو ایسی باتوں پر کان دھرے گا۔ سوائے اس کے کہ وہ ایسی باتوں کو ایک لطیفہ سمجھ کر ہنس دے۔ اور واقعی ایسا ہو بھی رہا ہے۔
ان کی حکومت میں 'سوال گندم جواب چنا' والی صورتحال بن چکی ہے۔ کسی چیز کے بارے میں پوچھیں یہ اس میں نوازشریف اور بے نظیر اور زرداری کو لے آتے ہیں۔ بندہ پوچھے کہ جو بھی چور ہیں، ڈاکو ہیں، مافیاز ہیں، بھلے وہ کسی بھی پارٹی میں ہیں، ان کو پکڑیں، ان کو سزا دلوائیں اور عوام کی جان چھڑوائیں اور آپ اپنا کام ٹھیک کریں اور عوام کو ریلیف دیں تاکہ وہ واقعی آپ کی باتوں پر یقین کرنے کی پوزیشن میں آسکیں۔
ہم کہتے ہیں مہنگائی بہت ہوگئی۔ آپ کہتے ہیں وہ لوٹ کر لے گئے۔ ہم کہتے ہیں ڈالر بہت اوپر چلا گیا۔ آپ کہتے ہیں یہ اسحاق ڈار کی وجہ سے ہوا۔ کچھ اور پوچھیں تو جواب بے نظیر اور زرداری۔ ہمیں یہ راگ سنانے کا کیا فائدہ؟ آپ تو آئے ہی مافیاز کا احتساب کرنے تھے، آپ تو آئے ہی چوروں اور ڈاکوؤں کو پکڑ کر سزا دلوانے تھے، آپ تو آئے ہی ملک کے پاسپورٹ کی توقیر کو بڑھانے تھے، آپ تو آئے ہی ملک کے غریب طبقے کو اوپر اٹھانے تھے۔ مگر جب ان میں کچھ نہیں ہوا تو ہر بات کو گزشتہ حکومت پر ڈال کر آپ اپنا سینہ چوڑا کرلیتے ہیں۔
جن کو آپ مافیاز، چور، ڈاکو، کرپٹ اور غدار تک کہہ کر نہیں تھکتے، وہ تو سب مزے میں ہیں، اچھا کھا رہے ہیں، اچھا پہن رہے ہیں، گھوم پھر رہے ہیں، جیلوں سے اسپتال اور اسپتالوں سے باہر چلے جاتے ہیں۔ پس تو عوام رہے ہیں۔ ہم کب کہہ رہے ہیں وہ سارے اچھے تھے بلکہ وہ تو اب بھی سارے اچھے ہیں، حالت تو عوام کی خراب ہوگئی ہے۔
وزیراعظم کی اب تک کارکردگی سے لگتا ہے کہ انہوں نے تمام تر خرابیوں کا ذمے دار اپنے مخالفین کو ٹھہرانے اور اپنی حکومت کی ہر نااہلی اپوزیشن کے سر تھوپنے کا وتیرہ اپنا لیا ہے۔ ہمیں ان کے مخالفوں سے بطور خاص کسی قسم کی کوئی ہمدردی نہیں لیکن ان سب کے نام سن سن کر ہمارے کان پک گئے ہیں۔ اب ہم ان کے نام سننے کے بجائے اپنی حکومت کے ایسے اقدامات سننا اور دیکھنا چاہتے ہیں جن سے ہمیں سکھ کا سانس لینا نصیب ہو۔
ہم تو آپ سے دست بدستہ عرض کرتے ہیں کہ جس نے ملک کو لوٹا، کرپشن کی، چوری کی، ڈاکا ڈالا اور ملک کو نقصان پہنجایا، اس کے ساتھ جو کرنا ہے وہ کیجئے لیکن محض اپنی تقریروں میں باقی سب کو مجرم اور اپنے آپ کو نجات دہندہ بنا کر نہ پیش کیجئے۔ صرف اسی صورت میں عوام کی نظر میں آپ کی گرتی ہوئی ساکھ بحال ہوگی، ورنہ ایسے تماشے تو ہم ہر حکومت میں دیکھتے آئے ہیں۔ اگر آپ بھی ایسا ہی کریں گے تو آپ میں اور ان میں فرق کیا رہ جائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
ہم یہ تو نہیں جانتے کہ مرزا غالب نے یہ شعر کب، کیوں اور کس کےلیے کہا تھا لیکن ہم ان کے اس شعر کے دوسرے مصرعے ''ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے'' کے کئی عملے نمونے اپنی زندگی میں دیکھ رہے ہیں۔
کپتان عمران خان نے 23 جنوری بروز اتوار اپنے عوام سے براہ راست بات کی، جس کے دوران مختلف لوگوں نے مختلف طریقوں سے اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کی کوشش کی۔ مگر وہ اس میں زیادہ کامیاب اس لیے نہیں ہوسکے کہ وزیراعظم عوام سے بات کم اور اپنا خطاب زیادہ کرتے ہیں اور اس بار بھی ایسا ہی ہوا کہ ان کا عوام سے براہ راست مکالمہ ان کے خطاب میں بدل گیا۔ جس کےلیے زیادہ موزوں طریقہ یہ تھا کہ وہ ٹیلی فون کالز لینے کے بجائے ڈائریکٹ ہی ٹی وی اور ریڈیو کے ذریعے عوام سے خطاب کرلیتے۔ کیونکہ اس کی اہمیت زیادہ ہوتی کہ ملک کے وزیراعظم کے عوام سے خطاب پر نہ صرف ملکی بلکہ انٹرنیشنل میڈیا اور بیرونی طاقتوں کی نظر ہوتی ہے۔ وزیراعظم کا خطاب گویا ملکی پالیسی سمجھا جاتا ہے۔ خیر جو طریقہ انہوں نے بہتر سمجھا وہ استعمال کیا اور ان لوگوں کو مبارکباد جن کی کوششیں رنگ لائیں اور وہ اپنے ہر دلعزیز وزیراعظم سے آمنے سامنے نہ سہی ٹیلی فون کے ذریعے ہی بات کرنے میں کامیاب ہوئے۔
وزیراعظم نے اس دوران بتایا کہ یہ باتیں تو دراصل پارلیمنٹ میں کرنے والی ہیں لیکن کیا کریں وہ ان کو بولنے نہیں دیا جاتا کیوں کہ جب کوئی بول رہا ہو اور دوسرے اس کو سن نہ رہے ہوں تو ایسے بولنے کا فائدہ بھی کیا ہے۔
وزیراعظم نے اپوزیشن کو یہ بھی باور کرایا کہ ان کےلیے بہتر یہ ہے کہ انہیں وزیراعظم کے آفس میں ٹک کر رہنے دیں۔ کیوں کہ اس طرح وہ آرام سے بیٹھ کر اپوزیشن اور ان کے حامیوں کے تماشے دیکھتے رہتے ہیں لیکن اگر انہیں کسی بھی طریقے سے وزیراعظم کے آفس سے باہر نکالا گیا تو وہ زیادہ خطرناک روپ دھار لیں گے اور پھر ان کے مخالفوں کو چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔ گویا ان کے باہر نکلنے سے ایسے تماشے شروع ہوں گے کہ پورا ملک دیکھے گا۔ اس کے علاوہ اس خطاب میں وزیراعظم نے اپنے اور اپنے حمایتی لوگوں کے علاوہ، مطلب اپنے مخالفین کو مافیاز قرار دیا جو کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اپنے آپ کو وزیراعظم سمجھتے ہیں مگر اپوزیشن لیڈر کو صرف ایک مجرم سمجھتے ہیں اور ایک مجرم سے ملنے کو وہ عوام سے غداری سمجھتے ہیں۔ گویا جن لوگوں سے وہ ملتے ہیں وہ سارے دودھ کے دھلے ہیں اور عوام کی آنکھوں کا تارا ہیں۔ وزیراعظم اس بار بھی ملک میں ہونے والی مثالی ترقی کی روداد سنائے بغیر نہ رہ سکے۔ سو باتوں کی ایک بات کہ ملک کی ساری تباہی کے ذمے دار گزشتہ حکمران اور ساری ترقی اور خوشحالی کی وجہ موجودہ حکومت اور اس کے وزیراعظم ہیں۔
جس وزیراعظم کے یہ خیالات اور ارادے ہوں، اس سے کیا امید لگائی جاسکتی ہے۔ 2014 کے دھرنے میں تو مسائل کے مارے عوام کو ان کی باتیں قدرے دل کو لگتی تھیں، کیوں کہ ابھی انہوں نے ان صاحب کی حکومت دیکھی نہیں تھی مگر آج 2022 میں جب یہ حکومت عمران خان کی حکمرانی میں تقریباً چار سال مکمل کرنے جارہی ہے اس دوران عوام کی جو درگت بنی، اس کے بعد کون بھولا شخص ہوگا جو ایسی باتوں پر کان دھرے گا۔ سوائے اس کے کہ وہ ایسی باتوں کو ایک لطیفہ سمجھ کر ہنس دے۔ اور واقعی ایسا ہو بھی رہا ہے۔
ان کی حکومت میں 'سوال گندم جواب چنا' والی صورتحال بن چکی ہے۔ کسی چیز کے بارے میں پوچھیں یہ اس میں نوازشریف اور بے نظیر اور زرداری کو لے آتے ہیں۔ بندہ پوچھے کہ جو بھی چور ہیں، ڈاکو ہیں، مافیاز ہیں، بھلے وہ کسی بھی پارٹی میں ہیں، ان کو پکڑیں، ان کو سزا دلوائیں اور عوام کی جان چھڑوائیں اور آپ اپنا کام ٹھیک کریں اور عوام کو ریلیف دیں تاکہ وہ واقعی آپ کی باتوں پر یقین کرنے کی پوزیشن میں آسکیں۔
ہم کہتے ہیں مہنگائی بہت ہوگئی۔ آپ کہتے ہیں وہ لوٹ کر لے گئے۔ ہم کہتے ہیں ڈالر بہت اوپر چلا گیا۔ آپ کہتے ہیں یہ اسحاق ڈار کی وجہ سے ہوا۔ کچھ اور پوچھیں تو جواب بے نظیر اور زرداری۔ ہمیں یہ راگ سنانے کا کیا فائدہ؟ آپ تو آئے ہی مافیاز کا احتساب کرنے تھے، آپ تو آئے ہی چوروں اور ڈاکوؤں کو پکڑ کر سزا دلوانے تھے، آپ تو آئے ہی ملک کے پاسپورٹ کی توقیر کو بڑھانے تھے، آپ تو آئے ہی ملک کے غریب طبقے کو اوپر اٹھانے تھے۔ مگر جب ان میں کچھ نہیں ہوا تو ہر بات کو گزشتہ حکومت پر ڈال کر آپ اپنا سینہ چوڑا کرلیتے ہیں۔
جن کو آپ مافیاز، چور، ڈاکو، کرپٹ اور غدار تک کہہ کر نہیں تھکتے، وہ تو سب مزے میں ہیں، اچھا کھا رہے ہیں، اچھا پہن رہے ہیں، گھوم پھر رہے ہیں، جیلوں سے اسپتال اور اسپتالوں سے باہر چلے جاتے ہیں۔ پس تو عوام رہے ہیں۔ ہم کب کہہ رہے ہیں وہ سارے اچھے تھے بلکہ وہ تو اب بھی سارے اچھے ہیں، حالت تو عوام کی خراب ہوگئی ہے۔
وزیراعظم کی اب تک کارکردگی سے لگتا ہے کہ انہوں نے تمام تر خرابیوں کا ذمے دار اپنے مخالفین کو ٹھہرانے اور اپنی حکومت کی ہر نااہلی اپوزیشن کے سر تھوپنے کا وتیرہ اپنا لیا ہے۔ ہمیں ان کے مخالفوں سے بطور خاص کسی قسم کی کوئی ہمدردی نہیں لیکن ان سب کے نام سن سن کر ہمارے کان پک گئے ہیں۔ اب ہم ان کے نام سننے کے بجائے اپنی حکومت کے ایسے اقدامات سننا اور دیکھنا چاہتے ہیں جن سے ہمیں سکھ کا سانس لینا نصیب ہو۔
ہم تو آپ سے دست بدستہ عرض کرتے ہیں کہ جس نے ملک کو لوٹا، کرپشن کی، چوری کی، ڈاکا ڈالا اور ملک کو نقصان پہنجایا، اس کے ساتھ جو کرنا ہے وہ کیجئے لیکن محض اپنی تقریروں میں باقی سب کو مجرم اور اپنے آپ کو نجات دہندہ بنا کر نہ پیش کیجئے۔ صرف اسی صورت میں عوام کی نظر میں آپ کی گرتی ہوئی ساکھ بحال ہوگی، ورنہ ایسے تماشے تو ہم ہر حکومت میں دیکھتے آئے ہیں۔ اگر آپ بھی ایسا ہی کریں گے تو آپ میں اور ان میں فرق کیا رہ جائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔