امریکا میں ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت پر ’فوجی ڈولفنز‘ تعینات ہیں
یہ دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے جس کی نگرانی سیکڑوں فوجی تربیت یافتہ ڈولفنز کے سپرد ہے
ISLAMABAD:
امریکا میں ایٹمی ہتھیاروں کے سب سے بڑے ذخیرے کی حفاظت پر فوجیوں کے ساتھ ساتھ فوجی تربیت یافتہ ڈولفنز بھی تعینات ہیں اور یہ سلسلہ کم از کم پچھلے 50 سال سے جاری ہے۔
امریکی ویب سائٹ ''ملٹری ڈاٹ کام'' کے مطابق، فوجی مقاصد کے تحت ڈولفنز کو تربیت دینے کا سلسلہ 1967 میں شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔
ان ڈولفنوں کو سمندری تہہ میں چھپائی گئی بارودی سرنگیں شناخت کرنے سے لے کر فوجیوں کی حفاظت اور امدادی کارروائیوں تک کی تربیت دی جاتی ہے۔
اس مقصد کےلیے ''یو ایس نیوی میرین میمل پروگرام'' کے تحت ڈولفنوں کے علاوہ دوسرے سمندری جانور بھی سدھائے جاتے ہیں تاکہ وہ عسکری تقاضوں سے مخصوص کام کرسکیں۔
واضح رہے کہ ڈولفنز قدرتی طور پر طاقتور سونار سے لیس ہوتی ہیں جو انہیں زیرِ آب رہتے ہوئے دور دراز کی آوازیں سننے اور آواز کی مدد سے سمندر کی تاریک گہرائیوں میں موجود چیزوں کو دیکھنے اور شناخت کرنے کے قابل بناتے ہیں۔
آواز کی مدد سے 'دیکھنے' اور ارد گرد کی اشیاء کو شناخت کرنے کی یہ صلاحیت 'ایکولوکیشن' (صوتی سمت بندی) کہلاتی ہے جو ڈولفنز کے علاوہ چمگادڑوں میں بھی زبردست ہوتی ہے۔
فوجی تربیت یافتہ ڈولفنیں جیسے ہی کسی نامعلوم غوطہ خور یا دوسرے زیرِ آب خطرے کی شناخت کرتی ہیں تو فوراً اپنے نگراں کے پاس پہنچتی ہیں جو انہیں لائف جیکٹ جیسا ایک آلہ دیتا ہے۔
اس آلے کو لے کر وہ تیزی سے تیرتی ہوئی واپس آتی ہیں اور اس فرد یا چیز کو آلے میں جکڑ دیتی ہیں جو سمندر کی گہرائی میں موجود شخص یا چیز کو سطح پر لے آتا ہے۔
امریکی بحریہ (یو ایس نیوی) کے تحت درجنوں ساحلی اور سمندری تنصیبات کی حفاظت پر سیکڑوں ڈولفنیں مامور ہیں البتہ ان میں سے ایک خاص دستہ بینگر، واشنگٹن کی تنصیبات پر پہرہ دے رہا ہے۔
یہ نہ صرف امریکا بلکہ دنیا بھر میں ایٹمی ہتھیاروں کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے جہاں تقریباً 2,500 ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم رکھے گئے ہیں جو امریکی ایٹمی ہتھیاروں کا 25 فیصد حصہ بناتے ہیں۔ (امریکی ایٹمی ہتھیاروں کی مجموعی تعداد تقریباً دس ہزار ہے، یعنی دنیا میں سب سے زیادہ ایٹمی ہتھیار امریکا کے پاس ہیں۔)
ڈولفنوں کا یہ خصوصی دستہ بینگر، واشنگٹن تنصیبات کے اردگرد سمندر میں گشت پر رہتا ہے اور غیر معمولی صورتِ حال کا سامنا ہونے پر فوجیوں کو فوری خبردار کرتا ہے یا پھر ازخود کارروائیاں بھی کرتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ سابق سوویت یونین نے بھی اسی طرح کا ایک پروگرام شروع کر رکھا تھا جس میں مختلف سمندری جانوروں کو فوجی تربیت دی جاتی تھی۔
البتہ 1991 میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سے موجودہ روس نے اس پروگرام کو آگے بڑھایا لیکن مالی مسائل کی وجہ سے یہ منصوبہ ترک کرنا پڑا اور سوویت یونین کی تربیت یافتہ ڈولفنیں مبینہ طور پر سن 2000 میں ایران کو فروخت کردی گئیں۔
امریکا میں ایٹمی ہتھیاروں کے سب سے بڑے ذخیرے کی حفاظت پر فوجیوں کے ساتھ ساتھ فوجی تربیت یافتہ ڈولفنز بھی تعینات ہیں اور یہ سلسلہ کم از کم پچھلے 50 سال سے جاری ہے۔
امریکی ویب سائٹ ''ملٹری ڈاٹ کام'' کے مطابق، فوجی مقاصد کے تحت ڈولفنز کو تربیت دینے کا سلسلہ 1967 میں شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔
ان ڈولفنوں کو سمندری تہہ میں چھپائی گئی بارودی سرنگیں شناخت کرنے سے لے کر فوجیوں کی حفاظت اور امدادی کارروائیوں تک کی تربیت دی جاتی ہے۔
اس مقصد کےلیے ''یو ایس نیوی میرین میمل پروگرام'' کے تحت ڈولفنوں کے علاوہ دوسرے سمندری جانور بھی سدھائے جاتے ہیں تاکہ وہ عسکری تقاضوں سے مخصوص کام کرسکیں۔
واضح رہے کہ ڈولفنز قدرتی طور پر طاقتور سونار سے لیس ہوتی ہیں جو انہیں زیرِ آب رہتے ہوئے دور دراز کی آوازیں سننے اور آواز کی مدد سے سمندر کی تاریک گہرائیوں میں موجود چیزوں کو دیکھنے اور شناخت کرنے کے قابل بناتے ہیں۔
آواز کی مدد سے 'دیکھنے' اور ارد گرد کی اشیاء کو شناخت کرنے کی یہ صلاحیت 'ایکولوکیشن' (صوتی سمت بندی) کہلاتی ہے جو ڈولفنز کے علاوہ چمگادڑوں میں بھی زبردست ہوتی ہے۔
فوجی تربیت یافتہ ڈولفنیں جیسے ہی کسی نامعلوم غوطہ خور یا دوسرے زیرِ آب خطرے کی شناخت کرتی ہیں تو فوراً اپنے نگراں کے پاس پہنچتی ہیں جو انہیں لائف جیکٹ جیسا ایک آلہ دیتا ہے۔
اس آلے کو لے کر وہ تیزی سے تیرتی ہوئی واپس آتی ہیں اور اس فرد یا چیز کو آلے میں جکڑ دیتی ہیں جو سمندر کی گہرائی میں موجود شخص یا چیز کو سطح پر لے آتا ہے۔
امریکی بحریہ (یو ایس نیوی) کے تحت درجنوں ساحلی اور سمندری تنصیبات کی حفاظت پر سیکڑوں ڈولفنیں مامور ہیں البتہ ان میں سے ایک خاص دستہ بینگر، واشنگٹن کی تنصیبات پر پہرہ دے رہا ہے۔
یہ نہ صرف امریکا بلکہ دنیا بھر میں ایٹمی ہتھیاروں کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے جہاں تقریباً 2,500 ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم رکھے گئے ہیں جو امریکی ایٹمی ہتھیاروں کا 25 فیصد حصہ بناتے ہیں۔ (امریکی ایٹمی ہتھیاروں کی مجموعی تعداد تقریباً دس ہزار ہے، یعنی دنیا میں سب سے زیادہ ایٹمی ہتھیار امریکا کے پاس ہیں۔)
ڈولفنوں کا یہ خصوصی دستہ بینگر، واشنگٹن تنصیبات کے اردگرد سمندر میں گشت پر رہتا ہے اور غیر معمولی صورتِ حال کا سامنا ہونے پر فوجیوں کو فوری خبردار کرتا ہے یا پھر ازخود کارروائیاں بھی کرتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ سابق سوویت یونین نے بھی اسی طرح کا ایک پروگرام شروع کر رکھا تھا جس میں مختلف سمندری جانوروں کو فوجی تربیت دی جاتی تھی۔
البتہ 1991 میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سے موجودہ روس نے اس پروگرام کو آگے بڑھایا لیکن مالی مسائل کی وجہ سے یہ منصوبہ ترک کرنا پڑا اور سوویت یونین کی تربیت یافتہ ڈولفنیں مبینہ طور پر سن 2000 میں ایران کو فروخت کردی گئیں۔