دبئی چلیں

ابتدا میں دبئی کے لوگ موتیوں کی تجارت کرتے تھے

S_afarooqi@yahoo.com

لاہور:
جب امریکا کی ریاست جورجیا کے ایک چھوٹے سے قصبے سے تعلق رکھنے والی نکول اسمتھ لڈوک نے دنیا کی سب سے اونچی عمارت برج خلیفہ کی چوٹی پہ جا کر یہ کہا کہ ''ہائے مام آئی ایم ایٹ دی ٹاپ آف دی ورلڈ'' (ہائے ماں میں دنیا کی چوٹی پر ہوں) تو وہ صرف برج خلیفہ کی اونچائی کی بات نہیں کر رہی تھیں، یہ اونچائی دبئی کی بھی تھی جو بہت ہی تھوڑے عرصے میں ترقی کرتے کرتے ''برج خلیفہ'' بن گیا ہے اور اس میں مزید منزلوں کا اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

اسکائی ڈائیور اور ایکسٹریم اسپورٹس کی کھلاڑی نکول اسمتھ برطانیہ کی طرف سے متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کو سفری پابندیوں کی ریڈ لسٹ سے نکالے جانے پر قومی ایئر لائن الامارات یا ایمرٹس کے ایک اشتہار میں کام کر رہی تھیں۔ اس سے پہلے دنیا میں کوئی بھی اشتہار اتنی بلندی (828 میٹر) پر نہیں فلمایا گیا تھا ، لیکن اس سے پہلے کسی ملک نے اتنے کم برسوں میں اتنی زیادہ ترقی بھی تو نہیں کی۔

صرف 30 سال پہلے تک جہاں صرف دھول اڑتی نظر آتی تھی وہاں اب دنیا کی اعلیٰ ترین سڑکیں اور جدید ترین میٹرو چلتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ جہاں ایک ایک دو منزلہ چیدہ چیدہ مکان نظر آتے تھے وہاں اب شاندار فلک بوس عمارتیں کھڑی ہیں اور پوری دنیا کے سیاح اور بزنس مین جن کی ترجیح لندن، پیرس اور نیو یارک ہوا کرتے تھے اب دبئی کا رخ کرتے نظر آتے ہیں۔

دبئی میں تقریباً سو سال پہلے علاقے کے تاجر، چاہے وہ ہندوستان کے ہوں، فارس یا عراق کے، سب یہاں آ کے آہستہ آہستہ جمع ہوئے اور یہ تجارت کا گڑھ بن گیا۔ جب برطانیہ نے یہاں تیل دریافت کیا تو ابو ظہبی کے حکمراں شیخ زید بن سلطان النھیان اور دبئی کے شیخ راشد بن سعید المکتوم اور امارات کے دوسرے رہنماؤں کو آمدنی آنے لگی۔ بعد میں شیخ زید متحدہ عرب امارات کے پہلے صدر اور شیخ راشد پہلے نائب صدر بنے۔

ابتدا میں دبئی کے لوگ موتیوں کی تجارت کرتے تھے اور آس پاس کے علاقوں میں جا کر انھیں بیچتے تھے۔ اسی طرح دوسرے تاجر بھی یہاں آتے اور اپنی اشیا بیچتے۔ اس علاقے میں تجارت کا ایک نیٹ ورک بن چکا تھا، اور تاجر چاہے کویت سے ہوں یا بصرہ سے وہ ہندوستان کے شہر گجرات یا کیرالہ یا زینزیبار جاتے ہوئے دبئی میں ضرور رکتے تھے۔ موتیوں کی تجارت سے اماراتی باشندوں کو بہت فائدہ ہوا، لیکن جب جاپانیوں نے مصنوعی طریقے سے موتی بنانے کا طریقہ دریافت کیا تو آہستہ آہستہ اماراتی موتیوں کی مانگ کم ہونے لگی اور یہ صنعت سکڑتے سکڑتے تقریباً ختم ہو گئی۔

تیل کی دریافت کے بعد بہت سے اماراتی باشندوں نے موتیوں کی صنعت کو چھوڑ کر تیل کے سیکٹر میں تجارت شروع کر دی، اور جب 1971 میں انھیں برطانیہ سے آزادی ملی تو اس کے بعد تیل کی پیداوار اچانک بڑھ گئی جس سے علاقے کی معیشت کو بھی سہارا ملا اور دبئی تجارت کا گڑھ بن گیا۔

پاکستانی فلم رائٹر ریاض بٹالوی کو اس بات کا کریڈٹ ضرور دینا چاہیے کہ انھیں 1979 میں ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ دبئی آگے جا کر دنیا میں اپنا ایک ایسا مقام بنانے والا ہے کہ دنیا اس کی طرف کھنچتی چلی آئے گی۔ انھوں نے دبئی کی آزادی کے صرف آٹھ سال بعد ہی سپرہٹ فلم ''دبئی چلو'' بنائی جسے آج تک پاکستان کی کامیاب ترین فلموں میں گردانا جاتا ہے۔ دبئی چلو' نے پاکستان اور انڈیا کے عوام کو ایسی راہ دکھائی کہ اب بھی متحدہ عرب امارات میں سب سے زیادہ تعداد میں انڈین اور پاکستانی ہی رہتے ہیں۔

2021 میں کیے گئے مختلف جائزوں کے مطابق متحدہ عرب امارات کی کل نوے لاکھ 99 ہزار کی آبادی میں تقریباً 28 لاکھ انڈین اور تقریباً 13 لاکھ پاکستانی ہیں جوکہ کل آبادی کا تقریباً 40 فیصد بنتا ہے ، جس ملک میں 1979-80 تک دھول اڑتی تھی، جہاں صرف ایک یا دو اسٹوری کے گھر ہوتے تھے جنھیں مقامی طور پر گراؤنڈ پلس ون اور گراؤنڈ پلس ٹو کے اپارٹمنٹس کہا جاتا تھا ، اب وہاں پوری دنیا کی تقریباً 200 کے قریب قومیتیں آباد ہیں۔

آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ دبئی میں جس کسی سے بھی پوچھیں تو جواب ملتا ہے کہ یہ دبئی اور ابو ظہبی کے حکمرانوں کے وژن کا نتیجہ ہے۔ انھوں نے آزادی کے فوراً بعد ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ ملک کو کہاں لے کر جانا ہے۔ دبئی میں وژن شیخ راشد کا تھا جسے شرمندۂ تعبیر شیخ محمد نے کیا اور یہ عمل ابھی بھی جاری ہے۔ اگر شیخ زید نے اماراتی ریاستوں کو متحدہ کرنے اور تیل کی دولت کے ذریعے انھیں خوشحال بنانے میں کردار ادا کیا، تو دوسری طرف شیخ راشد نے تیل سے آگے کے مستقبل کا سوچا۔ ان کی اس سوچ کو ان کی اولاد مزید آگے لے کر چلی اور دبئی کو تیل پر انحصار کرنے والی ریاست سے دنیا کا ایک بڑا تجارتی گڑھ بنا دیا۔


متحدہ عرب امارات کی سب سے زبردست بات اس کے رہنماؤں کا وژن ہے۔ دوسرے ممالک میں بھی بڑے لیڈر ہوتے ہیں، وہ سوچتے ہیں لیکن یہاں سوچنے کے ساتھ ساتھ کام بھی کیا جاتا ہے۔ جس طرح دبئی کی نئی نسل کو تیار کیا جا رہا ہے وہ اگلے پچاس برسوں میں ملک کو مزید بلندیوں پر لے جائے گی۔ دبئی میں لوگ محفوظ ہیں، بزنس محفوظ ہیں اور یہاں کی سیکیورٹی کا شمار دنیا کی بہترین سیکیورٹی میں ہوتا ہے۔

دبئی کی سیکیورٹی کے مثالی نظام کا اندازہ صرف اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ رات کے کسی بھی پہر عام شاہراہ پر سونا اچھالتے ہوئے چلے جائیے مگر کیا مجال جو پرندہ بھی آپ کے پاس پَر مار سکے۔ آپ دبئی میں خواتین کو تن تنہا کسی بھی لباس میں بلا خوف و خطر مکمل آزادی سے گھومتا پھرتا ہوا دیکھ سکتے ہیں اور مجال نہیں کہ کوئی آنکھ بھرکر بھی دیکھ سکے۔ امریکا کی طرح متحدہ عرب امارات نے دنیا کے سب سے بہترین ٹیلنٹ کو بلایا اور اپنے ملک میں بسایا۔ وہ اچھے لوگوں کو بلاتے ہیں اور ان سے کام کرواتے ہیں جو ملک کی ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔

دبئی کی ترقی کے پیچھے صرف اور صرف شیخ راشد المکتوم کا وژن ہے ، کیونکہ دبئی کے پاس تیل بہت کم ہے اور وہ سمجھتے تھے کہ اگر وہ کاروبار میں ریڈیکل تبدیلیاں لائیں گے، دوسرے ممالک کے بزنس مینوں کو سہولیات دیں گے تو وہ اپنے فائدے کے لیے یہاں ضرور آئیں گے۔ وہ ہر نئی چیزکا تجربہ کرنا چاہتے تھے کہ ایسا کرنے سے کس حد تک اس کا فائدہ ہو گا۔

ذرا دنیا کو ہلا کے رکھ دینے والی عالمی وبا کووڈ-19 سے نمٹنے کی ہی مثال لیجیے کہ دبئی نے اس سے کیسے نمٹا ہے۔ جب پوری دنیا نے اس موذی وبا کی وجہ سے ایک دوسرے کے لیے اپنے دروازے بند کیے ہوئے تھے تو دبئی ان ممالک میں شامل تھا جس نے پہلا موقع ملتے ہی مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔

جب دنیا کوئی بھی بڑا ایونٹ کرنے سے گریزاں ہے تو دبئی میں ایکسپو 2020 اپنی پوری شان سے جاری ہے۔ 2020 میں دبئی کی معیشت 11 فیصد سکڑ گئی، لیکن اس کے باوجود اس نے باؤنس بیک کیا اور اب سبھی سیکٹرز بہتری کی طرف جا رہے ہیں۔

اس وقت متحدہ عرب امارات کی تقریباً 90 فیصد آبادی کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ویکسین لگوا چکی ہے اور دبئی، جہاں ملک کی تقریباً 50 فیصد آبادی رہتی ہے، اس میں پیش پیش ہے۔ دبئی کی ترقی کا اندازہ اس کے کووڈ کے بحران سے ہنگامی بنیادوں پر نمٹنے سے لگایا جا سکتا ہے۔ جس طرح دبئی نے کووڈ کے بحران سے نمٹا ہے وہ بہت متاثر کن ہے۔ باقی دنیا کی طرح انھوں نے اسے ایک مالیاتی یا معاشی بحران کی طرح نہیں بلکہ صحت کے ایک بحران کی طرح ڈیل کیا۔ انھوں نے ایسے طریقے اپنائے کہ پہلے اسے صحت کے بحران کی طرح نمٹا جائے۔

جب دنیا کے سب مالیاتی حب بند تھے یا مشکلات میں تھے تو صرف دبئی ایسی جگہ تھی جو بزنس کے لیے کھلی ہوئی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے دبئی کووڈ سے نمٹنے کے لیے تیار تھا۔ یہ اْس کی لیڈرشپ اور اْس بصیرت کا کمال ہے کہ کتنے لوگ یہاں آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں اسے اپنا نیا گھر بناؤں گا۔ یہاں لیڈرز نے صرف وہ نہیں کیا جو اسے خیال آیا بلکہ اس نے وہ کیا جس کی کمیونٹی کو ضرورت تھی۔

دبئی کی لیڈرشپ نے بالکل پروفیشنل طریقے سے پہلے اس بحران کو سمجھا اور پھر اس سے نمٹا۔ انھوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ دبئی بزنس کے لیے کھلا رہے، بلکہ وہ دو قدم آگے گئے اور ایک ایسا ویزہ سسٹم متعارف کرایا جس کے تحت دنیا بھر سے لوگ دبئی آ کر یہاں سے اپنے گھروں میں بیٹھے اپنے اپنے دفاتر اور کاروبار کے لیے کام کر سکتے تھے۔ دبئی ایسی جگہ ہے جہاں سے لوگ ورک فرام ہوم کر سکتے ہیں۔

لوگ یہاں آئیں، رہیں، گھر سے کام کریں۔ حکومت نے ایسا کیا ہے کہ اگر آپ 5000 ڈالر سے زیادہ ماہانہ کماتے ہیں تو آپ کو ایک سال کا ویزا مل سکتا ہے اور آپ دبئی سے کام کر سکتے ہیں۔ حکومت نے سوچا کیونکہ کووڈ کی وجہ سے زیادہ تر لوگ گھروں سے کام کر رہے ہوں گے تو کیوں نہ انھیں خوبصورت دھوپ والے دبئی کی آفر کی جائے، جہاں ہائی اسپیڈ انٹرنیٹ اور ڈیٹا اور سسٹمز کی مکمل سیکیورٹی ہو۔
Load Next Story