جسٹس عائشہ ملک سے جسٹس نصرت جہاں چوہدری تک
خوشی کی بات ہے کہ مسلمان خواتین میں بھی انقلابی تبدیلی پیدا ہو رہی ہے
QUETTA:
بانیِ پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے اپنے قول و فعل سے ہمیشہ یہ ثابت کیا کہ پاکستانی خواتین کو چاہیے کہ وہ مردوں کے شانہ بشانہ رہ کر مملکتِ خداداد کی تعمیرو ترقی میں یکساں کردار ادا کریں۔ اِس ضمن میں ہمیں اُن کے کئی دلکش اور جاں افروزارشاداتِ گرامی دکھائی دیتے ہیں۔
مثال کے طور پر آپ نے 17اپریل 1946 کومسلم لیگ کے کنونشن (منعقدہ دہلی) میں ارشاد فرمایا تھا: ''خوشی کی بات ہے کہ مسلمان خواتین میں بھی انقلابی تبدیلی پیدا ہو رہی ہے۔ یہ تبدیلی بہت اہمیت رکھتی ہے۔
دُنیا میں کوئی قوم اُس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک اُس قوم کے مردوں کے ساتھ ساتھ عورتیں بھی آگے نہ بڑھیں۔''جناب قائد اعظم ؒ نے ہمیشہ ہر میدان اور ہر شعبہ حیات میں خواتین کی حوصلہ افزائی فرمائی۔
یہاں تک کہ مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی میں بیگم محمد علی جوہر کو رُکنیت عطا کیے رکھی۔ جناب قائد اعظم ؒ کا یہ ایک غیر معمولی اقدام تھا۔ بانی پاکستان جس طرح اپنی عظیم ہمشیرہ ، محترمہ فاطمہ جناح، اور بیگم رعنا لیاقت علی خان پر اعتبار اور اعتماد کرتے تھے ، یہ بھی اس امر کا ثبوت ہے کہ قائد اعظم کی یہ شدید خواہش تھی کہ خواتین کو سماج میں برابر کا کردار ادا کرنے کے آزادانہ مواقعے فراہم کیے جانے چاہئیں۔
محترمہ بے نظیر بھٹو نے پاکستان اور عالمِ اسلام کی پہلی منتخب وزیر اعظم بن کر درحقیقت حضرت قائد اعظمؒ کے آدرشوں اور خوابوں کو عملی تعبیر بخشی۔ محترمہ فاطمہ جناحؒ نے پاکستان کے ایک طاقتور آمر حکمران کو انتخابات کے میدان میں للکارا ۔ الحمد للہ آج پاکستان کے ہر میدان اور ہر شعبے میں اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین اعلیٰ اور نمایاں کردار ادا کرکے دراصل قائد اعظم ؒ کی تمناؤں کی عملی صورت گری کررہی ہیں ۔
جنوری 2022کے تیسرے ہفتے جب عزت مآب جسٹس محترمہ عائشہ ملک نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج کی حیثیت میں حلف اُٹھایا تو یہ پاکستان کے لیے تاریخ ساز لمحہ تھا۔ انھیں ہماری تاریخ میں یہ منفرد اعزاز نصیب ہُوا ہے کہ وہ پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ کی پہلی خاتون جج بنی ہیں۔
بلا شبہ یہ ایک غیر معمولی اعزاز ہے۔یہ بھی امکانات ہیں کہ جسٹس عائشہ ملک صاحبہ کبھی سپریم کورٹ آف پاکستان کی چیف جسٹس بن جائیں اور اگر ایسا ہُوا تو یہ پاکستانی خواتین کے لیے ایک اور عظیم اعزاز ہوگا۔
یہ عجب اتفاق ہے کہ رواں جنوری میں ہی ایسا ہی حیران کن فیصلہ امریکا میں بھی ایک مسلمان خاتون کے حق میں ہُوا۔ 20جنوری 2022کو امریکی صدر نے امریکی سپریم کورٹ میں پہلی بار ایک مسلمان خاتون کو فیڈرل جج تعینات کرکے تاریخ رقم کی ہے ۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکی ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک مسلمان خاتون ماہرِ قانون کو وفاقی عدالت کی جج کے عہدے کے لیے نامزد کر دیا ہے۔ یہ خاتون 44سالہ بنگلہ دیشی نژاد امریکی مسلمان شہری، نصرت جہاں چوہدری، ہیں۔
صدر جو بائیڈن کی طرف سے نامزد کردہ نصرت جہاں صاحبہ مجموعی طور پر ان 8امریکی ماہرین قانون میں سے ایک ہیں، جن کے نام فیڈرل ججوں کے طور پر تعیناتی سے پہلے توثیق کے لیے امریکی سینیٹ کو بھیجے گئے ہیں۔پیدائشی طور پر بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والی 44 سالہ نصرت جہاں چوہدری صاحبہ امریکا شہری حقوق کے تحفظ کی سب سے بڑی امریکی تنظیم امریکن سول لبرٹیز یونین (ACLU) سے وابستہ ہیں اور الینوئے میں اس تنظیم کے قانونی اُمور کی ڈائریکٹر رہی ہیں۔
الینوئے میں اے سی ایل یو کے لیے اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران دیگر امور کے علاوہ محترمہ نصرت جہاں چوہدری نے قانونی ماہرین کی اس ٹیم کی سربراہی بھی کی جس کا کام شکاگو میں پولیس کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے تجاویز تیار کرنا تھا۔ انھوں نے ممتاز ترین امریکی تعلیمی ادارے Yala Law Schoolاور کولمبیا یونیورسٹی سے ڈگریاں حاصل کررکھی ہیں ۔
محترمہ نصرت جہاں چوہدری کا امریکی سپریم کورٹ تک پہنچنا اس امر کا ثبوت ہے کہ امریکا میں بھی مسلمان خواتین شاندار اور قابلِ فخر کامیابیاں حاصل کررہی ہیں ۔ سچ یہ ہے کہ امریکی مسلمان خواتین ، خواہ وہ پاکستانی یا بنگلہ دیشی نژاد ہوں ، کسی بھی طرح امریکی تعلیم یافتہ خواتین سے کم یا پیچھے نہیں ہیں۔ نصرت جہاں چوہدری صاحبہ کا امریکی فیڈرل جج تعینات ہونا درحقیقت امریکا میں آباد پوری بنگلہ دیشی اور مسلمان کمیونٹی کے لیے باعثِ اعزاز ہے ۔
یہ بات پورے تیقن کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ امریکا میں کوئی بھی ادارہ کسی لائق اور میرٹ پر پورا اترنے والے مسلمان مرد یا خاتون کو پیچھے نہیں دھکیل سکتا۔ امریکی انصاف پسند اور غیر سفارشی ماحول میں لا تعداد مسلمان خواتین اور مسلمان حضرات بلند ترین عہدوں پر فائز ہو رہے ہیں ۔ اور کوئی اُن کی طرف انگشت نمائی نہیں کر سکتا۔اس ضمن میں بھی کئی حوصلہ افزا مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔
مثال کے طور پر : ہما عابدین صاحبہ۔ محترمہ ہما عابدین پاکستانی نژاد امریکی مسلمان خاتون ہیں۔ اُن کی والدہ کا نام صالحہ محموداور والد کا اسمِ گرامی سید زین العابدین ہے۔ ہما عابدین ایک ایسی اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانی نژاد خاتون ہیں جو سابق امریکی وزیر خارجہ ، ہیلری کلنٹن، کی ڈپٹی چیف آف اسٹاف کے عہدے تک پہنچیں۔ امریکی وزارتِ خارجہ میں انھوں نے نام اور احترام کمایا۔ ہیلری کلنٹن انھیں اپنی دوسری بیٹی کے نام سے یاد کرتی تھیں۔
افسوس یہ ہے کہ پاکستانی وزارتِ خارجہ نے محترمہ ہما عابدین سے خاطر خواہ استفادہ نہیںکیا۔ ابھی حال ہی میں ہما عابدین کی سیاسی و تعلیمی یادداشتوں پر مشتمل کتاب Both End: A Life in Many Worldsمنصہ شہود پر آئی ہے ۔
اس کتاب میں پاکستان کے حوالے سے کئی اہم انکشافات کیے گئے ہیں ۔ مثال کے طور پر ہما عابدین لکھتی ہیں: '' اسامہ بن لادن کے خلاف ایبٹ آباد میں امریکی فوجی آپریشن کے بعد جب مَیں امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کے ساتھ پاکستان کے دَورے پر آئی تو ہم نے مشاہدہ کیا کہ یہاں کی قیادت کے چہروں پر تناؤ تھا اور انھوں نے ہمیں جو چائے پیش کی ، وہ بھی نیم گرم تھی۔''45سالہ ہما عابدین جارج واشنگٹن یونیورسٹی کی فارغ التحصیل ہیں۔ہما عابدین کی یہ کتاب نئے پاک امریکا تعلقات سمجھنے میں بھی خاصی معاون ثابت ہو سکتی ہے ۔
بانیِ پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے اپنے قول و فعل سے ہمیشہ یہ ثابت کیا کہ پاکستانی خواتین کو چاہیے کہ وہ مردوں کے شانہ بشانہ رہ کر مملکتِ خداداد کی تعمیرو ترقی میں یکساں کردار ادا کریں۔ اِس ضمن میں ہمیں اُن کے کئی دلکش اور جاں افروزارشاداتِ گرامی دکھائی دیتے ہیں۔
مثال کے طور پر آپ نے 17اپریل 1946 کومسلم لیگ کے کنونشن (منعقدہ دہلی) میں ارشاد فرمایا تھا: ''خوشی کی بات ہے کہ مسلمان خواتین میں بھی انقلابی تبدیلی پیدا ہو رہی ہے۔ یہ تبدیلی بہت اہمیت رکھتی ہے۔
دُنیا میں کوئی قوم اُس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک اُس قوم کے مردوں کے ساتھ ساتھ عورتیں بھی آگے نہ بڑھیں۔''جناب قائد اعظم ؒ نے ہمیشہ ہر میدان اور ہر شعبہ حیات میں خواتین کی حوصلہ افزائی فرمائی۔
یہاں تک کہ مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی میں بیگم محمد علی جوہر کو رُکنیت عطا کیے رکھی۔ جناب قائد اعظم ؒ کا یہ ایک غیر معمولی اقدام تھا۔ بانی پاکستان جس طرح اپنی عظیم ہمشیرہ ، محترمہ فاطمہ جناح، اور بیگم رعنا لیاقت علی خان پر اعتبار اور اعتماد کرتے تھے ، یہ بھی اس امر کا ثبوت ہے کہ قائد اعظم کی یہ شدید خواہش تھی کہ خواتین کو سماج میں برابر کا کردار ادا کرنے کے آزادانہ مواقعے فراہم کیے جانے چاہئیں۔
محترمہ بے نظیر بھٹو نے پاکستان اور عالمِ اسلام کی پہلی منتخب وزیر اعظم بن کر درحقیقت حضرت قائد اعظمؒ کے آدرشوں اور خوابوں کو عملی تعبیر بخشی۔ محترمہ فاطمہ جناحؒ نے پاکستان کے ایک طاقتور آمر حکمران کو انتخابات کے میدان میں للکارا ۔ الحمد للہ آج پاکستان کے ہر میدان اور ہر شعبے میں اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین اعلیٰ اور نمایاں کردار ادا کرکے دراصل قائد اعظم ؒ کی تمناؤں کی عملی صورت گری کررہی ہیں ۔
جنوری 2022کے تیسرے ہفتے جب عزت مآب جسٹس محترمہ عائشہ ملک نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج کی حیثیت میں حلف اُٹھایا تو یہ پاکستان کے لیے تاریخ ساز لمحہ تھا۔ انھیں ہماری تاریخ میں یہ منفرد اعزاز نصیب ہُوا ہے کہ وہ پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ کی پہلی خاتون جج بنی ہیں۔
بلا شبہ یہ ایک غیر معمولی اعزاز ہے۔یہ بھی امکانات ہیں کہ جسٹس عائشہ ملک صاحبہ کبھی سپریم کورٹ آف پاکستان کی چیف جسٹس بن جائیں اور اگر ایسا ہُوا تو یہ پاکستانی خواتین کے لیے ایک اور عظیم اعزاز ہوگا۔
یہ عجب اتفاق ہے کہ رواں جنوری میں ہی ایسا ہی حیران کن فیصلہ امریکا میں بھی ایک مسلمان خاتون کے حق میں ہُوا۔ 20جنوری 2022کو امریکی صدر نے امریکی سپریم کورٹ میں پہلی بار ایک مسلمان خاتون کو فیڈرل جج تعینات کرکے تاریخ رقم کی ہے ۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکی ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک مسلمان خاتون ماہرِ قانون کو وفاقی عدالت کی جج کے عہدے کے لیے نامزد کر دیا ہے۔ یہ خاتون 44سالہ بنگلہ دیشی نژاد امریکی مسلمان شہری، نصرت جہاں چوہدری، ہیں۔
صدر جو بائیڈن کی طرف سے نامزد کردہ نصرت جہاں صاحبہ مجموعی طور پر ان 8امریکی ماہرین قانون میں سے ایک ہیں، جن کے نام فیڈرل ججوں کے طور پر تعیناتی سے پہلے توثیق کے لیے امریکی سینیٹ کو بھیجے گئے ہیں۔پیدائشی طور پر بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والی 44 سالہ نصرت جہاں چوہدری صاحبہ امریکا شہری حقوق کے تحفظ کی سب سے بڑی امریکی تنظیم امریکن سول لبرٹیز یونین (ACLU) سے وابستہ ہیں اور الینوئے میں اس تنظیم کے قانونی اُمور کی ڈائریکٹر رہی ہیں۔
الینوئے میں اے سی ایل یو کے لیے اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران دیگر امور کے علاوہ محترمہ نصرت جہاں چوہدری نے قانونی ماہرین کی اس ٹیم کی سربراہی بھی کی جس کا کام شکاگو میں پولیس کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے تجاویز تیار کرنا تھا۔ انھوں نے ممتاز ترین امریکی تعلیمی ادارے Yala Law Schoolاور کولمبیا یونیورسٹی سے ڈگریاں حاصل کررکھی ہیں ۔
محترمہ نصرت جہاں چوہدری کا امریکی سپریم کورٹ تک پہنچنا اس امر کا ثبوت ہے کہ امریکا میں بھی مسلمان خواتین شاندار اور قابلِ فخر کامیابیاں حاصل کررہی ہیں ۔ سچ یہ ہے کہ امریکی مسلمان خواتین ، خواہ وہ پاکستانی یا بنگلہ دیشی نژاد ہوں ، کسی بھی طرح امریکی تعلیم یافتہ خواتین سے کم یا پیچھے نہیں ہیں۔ نصرت جہاں چوہدری صاحبہ کا امریکی فیڈرل جج تعینات ہونا درحقیقت امریکا میں آباد پوری بنگلہ دیشی اور مسلمان کمیونٹی کے لیے باعثِ اعزاز ہے ۔
یہ بات پورے تیقن کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ امریکا میں کوئی بھی ادارہ کسی لائق اور میرٹ پر پورا اترنے والے مسلمان مرد یا خاتون کو پیچھے نہیں دھکیل سکتا۔ امریکی انصاف پسند اور غیر سفارشی ماحول میں لا تعداد مسلمان خواتین اور مسلمان حضرات بلند ترین عہدوں پر فائز ہو رہے ہیں ۔ اور کوئی اُن کی طرف انگشت نمائی نہیں کر سکتا۔اس ضمن میں بھی کئی حوصلہ افزا مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔
مثال کے طور پر : ہما عابدین صاحبہ۔ محترمہ ہما عابدین پاکستانی نژاد امریکی مسلمان خاتون ہیں۔ اُن کی والدہ کا نام صالحہ محموداور والد کا اسمِ گرامی سید زین العابدین ہے۔ ہما عابدین ایک ایسی اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانی نژاد خاتون ہیں جو سابق امریکی وزیر خارجہ ، ہیلری کلنٹن، کی ڈپٹی چیف آف اسٹاف کے عہدے تک پہنچیں۔ امریکی وزارتِ خارجہ میں انھوں نے نام اور احترام کمایا۔ ہیلری کلنٹن انھیں اپنی دوسری بیٹی کے نام سے یاد کرتی تھیں۔
افسوس یہ ہے کہ پاکستانی وزارتِ خارجہ نے محترمہ ہما عابدین سے خاطر خواہ استفادہ نہیںکیا۔ ابھی حال ہی میں ہما عابدین کی سیاسی و تعلیمی یادداشتوں پر مشتمل کتاب Both End: A Life in Many Worldsمنصہ شہود پر آئی ہے ۔
اس کتاب میں پاکستان کے حوالے سے کئی اہم انکشافات کیے گئے ہیں ۔ مثال کے طور پر ہما عابدین لکھتی ہیں: '' اسامہ بن لادن کے خلاف ایبٹ آباد میں امریکی فوجی آپریشن کے بعد جب مَیں امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کے ساتھ پاکستان کے دَورے پر آئی تو ہم نے مشاہدہ کیا کہ یہاں کی قیادت کے چہروں پر تناؤ تھا اور انھوں نے ہمیں جو چائے پیش کی ، وہ بھی نیم گرم تھی۔''45سالہ ہما عابدین جارج واشنگٹن یونیورسٹی کی فارغ التحصیل ہیں۔ہما عابدین کی یہ کتاب نئے پاک امریکا تعلقات سمجھنے میں بھی خاصی معاون ثابت ہو سکتی ہے ۔