اگر اقتدار میں آئے تو…
کچھ ایسے ہوں گے جو بتائیں گے کہ ہمارے بڑوں نے ملک سنبھالا اب جوانوں کی باری ہے
LONDON:
میرا نظریہ یہ ہے کہ کسی پرکیچڑ اچھالے بغیر،کسی کو نیچا دکھائے بغیر ،کسی کو تکلیف دیے بغیر بس آگے چلتے رہیں منزل بے شک کوسوں دور ہو، راستہ تو ہمارے پیروں کے تلے ہی گزرے گا۔
آپ حق کی آواز ضرور اٹھائیں مگرکسی کو تکلیف دیے بغیر یہی تو صداقت ہے بس گفتگو میں دلی قربت ضرور ہو، تنقید برائے اصلاح ہو۔ کسی پر طنزکے تیر نہ چلائے جائیں اپنی بات ایک اچھے پیغام کی صورت میں بصیرت افروز خیالات کے تحت بڑھائیں جب تک کسی کی بات پر غورکرکے نہ سوچا جائے وہ زیادتی کے زمرے میں آئے گی۔
جناب وزیر اعظم کہتے ہیں کہ عوام کو بتائیں مہنگائی نہیں ہے اگر یہ بات وزیر اعظم کہتے تو شاید عوام نہ مانتے مگر جب کسی بات میں ہاں کے حوالے سے دوسرے بھی شامل ہوں تو وہ گواہی کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے کیونکہ ان کے مشیر اور وزیر حضرات بھی کہہ رہے ہیں کہ مہنگائی نہیں ہے۔ اب بات کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ مہنگائی نام کی کوئی چیز نہیں۔ ارے جناب! قوم کو انتظار ہے کہ مہنگائی بھی ہو اپوزیشن دن رات مہنگائی کا تذکرہ ہر جگہ کرتی نظر آتی ہے۔
یہ بات قارئین اپنے دل کے نہاں خانوں میں جذب کریں دو ماہ پہلے بھی اس بات کا تذکرہ ایک کالم میں کر چکا ہوں آج پھر لکھ رہا ہوں نہ پی ڈی ایم کو ضرورت ہے نہ اپوزیشن کو کہ وہ حکومت کے خلاف نکلیں ( صرف اپوزیشن ایک بات صدق دل سے کہہ دے کہ اگر ہم اقتدار میں آئے تو مہنگائی کے حوالے سے ہم قوم سے وعدہ کرتے ہیں کہ 2018 کی قیمتیں دوبارہ واپس لائیں گے) کیونکہ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ قوم اس مہنگائی کے تلے دب گئی ہے مگر یاد رکھیں اپوزیشن شاید اعلان کبھی نہ کرے بس مہنگائی کا شور مچا ہوا ہے۔
(اس میں کوئی شک نہیں کہ مہنگائی بہت ہے) اپوزیشن ہمت کرکے بیان دے تو قوم سوچے گی کہ اب کیا کرنا ہے جو کہتے ہیں کہ ووٹ کو عزت دو، ادھر حکومتی حضرات کہتے ہیں مراعات یافتہ طبقے اور عام افراد پر قانون کا یکساں اطلاق ہونا چاہیے جو ناممکن ہے جب تک سخت قوانین کے بل اسمبلی سے پاس نہیں ہوں گے لوگوں کو مراعات ملتی رہیں گی اور عام افراد اسی طرح زندگی گزارتے رہیں گے۔
تمام صوبوں کے چھوٹے، شہروں میں جو کچھ قانون کے ساتھ اور قوم کے ساتھ ہو رہا ہے ، اسی طرح ہوتا رہے گا۔ ڈاکو حضرات نے صرف 3000 کے موبائل کے لیے لوگوں کی جانیں لینا شروع کردی ہیں جو گزر گئے ان کا خاندان بھی مسائل کی دلدل میں پھنس گیا جو زخمی ہوگئے وہ زندگی بے یار و مددگار آہوں کراہوں اور ایڑیاں رگڑ رگڑ کر گزارتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر ویڈیو آن ایئر ہوتی ہے چہرے صاف نظر آتے ہیں مگر مجال ہے جو کوئی گرفتار ہوتا ہو، ڈاکو پھر ایک نئے جذبے کے ساتھ دوسرے دن قانون کو کچلتے ہوئے بغیر محنت کے تر و تازہ ہو کر اپنی روٹی روزگار پر نکلتے ہیں۔
لہٰذا مختصر اور کم دنوں کے لیے معزز عدالتوں کو قائم کیا جائے تاکہ ایسے جرائم یافتہ افراد کا فیصلہ چند دنوں میں ہو، اس سے جرائم کسی حد تک کم ہو جائیں گے یا بالکل ختم ہو جائیں گے۔
قوم سے ٹیکس نہ دینے کی شکایت کی جاتی ہے کہ قوم ٹیکس نہیں دیتی (معذرت کے ساتھ) ٹول پلازہ، شناختی کارڈ، پاسپورٹ، ہوٹل کا کھانا، بجلی کے بل، موبائل سیٹ کی خریداری، سوئی گیس، گاڑی کی خریداری، پراپرٹی، پٹرول، سگریٹ، دوائی، کپڑے جوتے، داخلہ اسپتال، موٹرسائیکل، پیدائش، ٹی وی ماہانہ فیس، گاڑیوں کے سالانہ ٹوکن، اسلحہ کا لائسنس، انٹرنیٹ کٹوتی، بچوں کا (ب) فارم، ملازمین کی تنخواہوں، پانی کا بل، بہت سے ٹیکس تو ایسے ہیں جو ہمارے علم میں ہی نہیں لہٰذا ہمارے سیاست دانوں کو چاہیے جو مراعات آپ لے رہے ہیں کیا وہ قوم کو حاصل ہیں لہٰذا اس پر سب کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے اور قوم کو مراعات کے حوالے سے سہولتیں دیں۔
گورنمنٹ اسپتالوں میں ڈاکٹر میڈیسن کی پرچی مریض کو دیتے ہیں یہ دوائی لے کر آجائیں جب کہ دوائیاں اسپتالوں سے ملنی چاہئیں، بجلی کیا قوم کو طریقے سے سپلائی ہو رہی ہے، فون کارڈ پر کٹوتی کیا صارفین کے لیے کال کی قیمت کم کی گئی، سوئی گیس پورے ملک میں طریقے سے صوبوں میں آ رہی ہے، پٹرول کیا پمپ پر ایمانداری سے سپلائی ہوتا ہے، انٹرنیٹ کی ویڈیو کافی ہیں۔ دوائیاں جن کی قیمت ڈبے پر درج ہوتی ہیں بیشتر دکاندار مارکر سے کاٹ دیتے ہیں۔ سوال کروں تو کہتے ہیں مہنگی ہوگئی ہیں ہم کیا کریں۔ کپڑے جوتے اگر مراعات یافتہ فرد خریدتا ہے اس میں ٹیکس لیا جاتا ہے ۔
رسید مانگوں تو کہتے ہیں کمپیوٹر میں سسٹم نہیں ہے۔ پانی کیا صوبوں کے عوام کو باقاعدگی سے ملتا ہے کچھ علاقے تو ایسے ہوتے ہیں کئی کئی دن پانی نہیں آتا، ہاں بل باقاعدگی سے آتا ہے۔ سالانہ ٹیکس گاڑی کا دیتے ہیں کیا روڈ کی مرمت کی طرف توجہ دی جاتی ہے، گلی گلی اور روڈ پر بڑے بڑے گڑھے ملتے ہیں جس سے انسان کا وجود ہل جاتا ہے وہ ٹیکس کس مد میں لیا جاتا ہے۔ سیاستدانوں کو اس طرف توجہ دینی ہوگی۔ آخر کب تک یہ سلسلہ چلے گا۔
قوم کے مسائل جوں کے توں ہیں بس 3 سال ہوگئے ہیں اپوزیشن اقتدار کے لیے لڑ رہی ہے حکومتی ادارے اپنی کارکردگی کے حوالے سے شور مچاتے رہتے ہیں۔ قوم اب مایوس ہوتی جا رہی ہے آخر یہ سلسلہ کب تک چلے گا کوئی ایم پی اے یا ایم این اے حلقوں کا دورہ نہیں کرتے لوگ مایوس ہیں الیکشن کے زمانے میں بغیر پروٹوکول کے قوم کے سامنے آئیں گے اور پھر وہی درخواست ہوگی کہ ووٹ ہمیں دیں کچھ لوگ یہ کہتے نظر آئیں گے کہ ووٹ کو عزت دو، ووٹ کو عزت دی تو بھی قوم بھول بھلیاں میں دوڑتی رہی، ووٹ کو عزت نہ دو تو قوم پھر بھی عدم تحفظ کے میدان میں بھوک و افلاس کے ساتھ کھڑی رہتی ہے۔
سب کے سب منفی پروپیگنڈے کے میدان میں اچھل کود کر رہے ہیں قوم ہے کہ ان کھلاڑیوں کو دیکھ کر افسردہ ہے۔ ایک دن ایسا آئے گا کہ ملک ترقی و خوشحالی کی طرف گامزن ہو جائے گا ملک کی سلامتی کے ساتھ رب کا سپاہی آئے گا اور پھر سب کچھ بدل جائے گا کسی کو احساس نہیں ہے پچھلے اخبارات میں یہ خبر بڑی واضح پرنٹ ہوئی کہ درجنوں ارکان پارلیمنٹ ٹیکس فائلر ہی نہیں ایف بی آر بھی یہی کہتی ہے اب آگے تحریر کرنا بے سود ہے کہ جس کو احساس نہ ہو اس کو کیا احساس دلایا جائے۔
ویسے بھی قوم ٹیکس دے تو رہی ہے یہ قوم کے نمایندے ہیں دن رات قوم کے مسائل حل کرنے میں کوشاں ہیں اور کیا چاہیے قوم کو؟ یہ قوم بہت ناشکری ہے کہ اپنے محسنوں سے تو رویہ درست رکھے وہ دن رات آپ کی بقا کے لیے کام کر رہے ہیں ایک دوسرے کو بیانات دے کر قوم کے لیے سرخرو ہوتے ہیں۔ صحت کارڈ کا بڑا شور تھا 3 سال ہوگئے اب تک عام آدمی کی دسترس سے دور ہیں۔ لیڈر حضرات کہتے ہیں صحت کارڈ عام آدمی کی تقدیر بدل دے گا۔
ارے جناب! صحت کارڈ تو بہت دورکی بات ہے عام آدمی کی زندگی تو ویسے بھی تبدیلی کے ساتھ تبدیل ہوگئی ہے اب صحت کارڈ کی بھی ضرورت نہیں ہے تبدیلی نے تو کمال کر دکھایا لوگ خوش ہیں کہ وہ تبدیلی کے سائے میں رہتے ہیں ویسے بھی نئے سال کا آغاز ہوا ہے۔
یہ سال بھی پچھلے سالوں کی طرح سیاست میں جو کچھ ہوتا رہا ہے گزر ہی جائے گا اور الیکشن کا آغاز ہوگا۔ غریبوں کو بریانی کی پلیٹیں تقسیم ہوں گی ، امیر اپنے پر کیے گئے احسانات کا بدلہ اپنی پارٹی کے لیے اتار رہے ہوں گے ، کچھ نئے اور معروف چہرے جو کبھی سیاست میں نہیں آئے وہ بھی پارٹیوں کے سربراہ کے ساتھ اسٹیج پر کھڑے ہوں گے۔ معصوم چہرے جو غیر تعلیم یافتہ ہیں وہ اس بات پر خوش ہوں گے کہ ان کی پسندیدہ شخصیت ان کے سامنے ہے ہر ممکن کوششیں کی جائیں گی۔ کچھ لوگ '' ووٹ کو عزت دو ''کے نعرے لگائیں گے کچھ اس بات پر ضد کریں گے کہ اگلی مرتبہ بھی ہم ہی آپ کے ساتھ ہوں گے۔
کچھ ایسے ہوں گے جو بتائیں گے کہ ہمارے بڑوں نے ملک سنبھالا اب جوانوں کی باری ہے۔ اور اس طرح دیہاتوں میں رہنے والے 70 فیصد تو ووٹ دوسروں کی مرضی سے ڈال دیں گے مگر شہروں میں رہنے والے تعلیم یافتہ اس مرتبہ بہت سوچ سمجھ کر ووٹ دیں گے کہ وہ اب خاصے ووٹ کے معاملے میں تجربہ کار ہو چکے۔ قارئین گرامی! رب سے تعلق رکھیں ، پاکستان ہے سلامت قوم کے دن بھی بدلیں گے۔
راضی رہنے کی ادا جب آ جاتی ہے تو
زندگی آسان سے آسان تر ہو جاتی ہے
میرا نظریہ یہ ہے کہ کسی پرکیچڑ اچھالے بغیر،کسی کو نیچا دکھائے بغیر ،کسی کو تکلیف دیے بغیر بس آگے چلتے رہیں منزل بے شک کوسوں دور ہو، راستہ تو ہمارے پیروں کے تلے ہی گزرے گا۔
آپ حق کی آواز ضرور اٹھائیں مگرکسی کو تکلیف دیے بغیر یہی تو صداقت ہے بس گفتگو میں دلی قربت ضرور ہو، تنقید برائے اصلاح ہو۔ کسی پر طنزکے تیر نہ چلائے جائیں اپنی بات ایک اچھے پیغام کی صورت میں بصیرت افروز خیالات کے تحت بڑھائیں جب تک کسی کی بات پر غورکرکے نہ سوچا جائے وہ زیادتی کے زمرے میں آئے گی۔
جناب وزیر اعظم کہتے ہیں کہ عوام کو بتائیں مہنگائی نہیں ہے اگر یہ بات وزیر اعظم کہتے تو شاید عوام نہ مانتے مگر جب کسی بات میں ہاں کے حوالے سے دوسرے بھی شامل ہوں تو وہ گواہی کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے کیونکہ ان کے مشیر اور وزیر حضرات بھی کہہ رہے ہیں کہ مہنگائی نہیں ہے۔ اب بات کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ مہنگائی نام کی کوئی چیز نہیں۔ ارے جناب! قوم کو انتظار ہے کہ مہنگائی بھی ہو اپوزیشن دن رات مہنگائی کا تذکرہ ہر جگہ کرتی نظر آتی ہے۔
یہ بات قارئین اپنے دل کے نہاں خانوں میں جذب کریں دو ماہ پہلے بھی اس بات کا تذکرہ ایک کالم میں کر چکا ہوں آج پھر لکھ رہا ہوں نہ پی ڈی ایم کو ضرورت ہے نہ اپوزیشن کو کہ وہ حکومت کے خلاف نکلیں ( صرف اپوزیشن ایک بات صدق دل سے کہہ دے کہ اگر ہم اقتدار میں آئے تو مہنگائی کے حوالے سے ہم قوم سے وعدہ کرتے ہیں کہ 2018 کی قیمتیں دوبارہ واپس لائیں گے) کیونکہ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ قوم اس مہنگائی کے تلے دب گئی ہے مگر یاد رکھیں اپوزیشن شاید اعلان کبھی نہ کرے بس مہنگائی کا شور مچا ہوا ہے۔
(اس میں کوئی شک نہیں کہ مہنگائی بہت ہے) اپوزیشن ہمت کرکے بیان دے تو قوم سوچے گی کہ اب کیا کرنا ہے جو کہتے ہیں کہ ووٹ کو عزت دو، ادھر حکومتی حضرات کہتے ہیں مراعات یافتہ طبقے اور عام افراد پر قانون کا یکساں اطلاق ہونا چاہیے جو ناممکن ہے جب تک سخت قوانین کے بل اسمبلی سے پاس نہیں ہوں گے لوگوں کو مراعات ملتی رہیں گی اور عام افراد اسی طرح زندگی گزارتے رہیں گے۔
تمام صوبوں کے چھوٹے، شہروں میں جو کچھ قانون کے ساتھ اور قوم کے ساتھ ہو رہا ہے ، اسی طرح ہوتا رہے گا۔ ڈاکو حضرات نے صرف 3000 کے موبائل کے لیے لوگوں کی جانیں لینا شروع کردی ہیں جو گزر گئے ان کا خاندان بھی مسائل کی دلدل میں پھنس گیا جو زخمی ہوگئے وہ زندگی بے یار و مددگار آہوں کراہوں اور ایڑیاں رگڑ رگڑ کر گزارتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر ویڈیو آن ایئر ہوتی ہے چہرے صاف نظر آتے ہیں مگر مجال ہے جو کوئی گرفتار ہوتا ہو، ڈاکو پھر ایک نئے جذبے کے ساتھ دوسرے دن قانون کو کچلتے ہوئے بغیر محنت کے تر و تازہ ہو کر اپنی روٹی روزگار پر نکلتے ہیں۔
لہٰذا مختصر اور کم دنوں کے لیے معزز عدالتوں کو قائم کیا جائے تاکہ ایسے جرائم یافتہ افراد کا فیصلہ چند دنوں میں ہو، اس سے جرائم کسی حد تک کم ہو جائیں گے یا بالکل ختم ہو جائیں گے۔
قوم سے ٹیکس نہ دینے کی شکایت کی جاتی ہے کہ قوم ٹیکس نہیں دیتی (معذرت کے ساتھ) ٹول پلازہ، شناختی کارڈ، پاسپورٹ، ہوٹل کا کھانا، بجلی کے بل، موبائل سیٹ کی خریداری، سوئی گیس، گاڑی کی خریداری، پراپرٹی، پٹرول، سگریٹ، دوائی، کپڑے جوتے، داخلہ اسپتال، موٹرسائیکل، پیدائش، ٹی وی ماہانہ فیس، گاڑیوں کے سالانہ ٹوکن، اسلحہ کا لائسنس، انٹرنیٹ کٹوتی، بچوں کا (ب) فارم، ملازمین کی تنخواہوں، پانی کا بل، بہت سے ٹیکس تو ایسے ہیں جو ہمارے علم میں ہی نہیں لہٰذا ہمارے سیاست دانوں کو چاہیے جو مراعات آپ لے رہے ہیں کیا وہ قوم کو حاصل ہیں لہٰذا اس پر سب کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے اور قوم کو مراعات کے حوالے سے سہولتیں دیں۔
گورنمنٹ اسپتالوں میں ڈاکٹر میڈیسن کی پرچی مریض کو دیتے ہیں یہ دوائی لے کر آجائیں جب کہ دوائیاں اسپتالوں سے ملنی چاہئیں، بجلی کیا قوم کو طریقے سے سپلائی ہو رہی ہے، فون کارڈ پر کٹوتی کیا صارفین کے لیے کال کی قیمت کم کی گئی، سوئی گیس پورے ملک میں طریقے سے صوبوں میں آ رہی ہے، پٹرول کیا پمپ پر ایمانداری سے سپلائی ہوتا ہے، انٹرنیٹ کی ویڈیو کافی ہیں۔ دوائیاں جن کی قیمت ڈبے پر درج ہوتی ہیں بیشتر دکاندار مارکر سے کاٹ دیتے ہیں۔ سوال کروں تو کہتے ہیں مہنگی ہوگئی ہیں ہم کیا کریں۔ کپڑے جوتے اگر مراعات یافتہ فرد خریدتا ہے اس میں ٹیکس لیا جاتا ہے ۔
رسید مانگوں تو کہتے ہیں کمپیوٹر میں سسٹم نہیں ہے۔ پانی کیا صوبوں کے عوام کو باقاعدگی سے ملتا ہے کچھ علاقے تو ایسے ہوتے ہیں کئی کئی دن پانی نہیں آتا، ہاں بل باقاعدگی سے آتا ہے۔ سالانہ ٹیکس گاڑی کا دیتے ہیں کیا روڈ کی مرمت کی طرف توجہ دی جاتی ہے، گلی گلی اور روڈ پر بڑے بڑے گڑھے ملتے ہیں جس سے انسان کا وجود ہل جاتا ہے وہ ٹیکس کس مد میں لیا جاتا ہے۔ سیاستدانوں کو اس طرف توجہ دینی ہوگی۔ آخر کب تک یہ سلسلہ چلے گا۔
قوم کے مسائل جوں کے توں ہیں بس 3 سال ہوگئے ہیں اپوزیشن اقتدار کے لیے لڑ رہی ہے حکومتی ادارے اپنی کارکردگی کے حوالے سے شور مچاتے رہتے ہیں۔ قوم اب مایوس ہوتی جا رہی ہے آخر یہ سلسلہ کب تک چلے گا کوئی ایم پی اے یا ایم این اے حلقوں کا دورہ نہیں کرتے لوگ مایوس ہیں الیکشن کے زمانے میں بغیر پروٹوکول کے قوم کے سامنے آئیں گے اور پھر وہی درخواست ہوگی کہ ووٹ ہمیں دیں کچھ لوگ یہ کہتے نظر آئیں گے کہ ووٹ کو عزت دو، ووٹ کو عزت دی تو بھی قوم بھول بھلیاں میں دوڑتی رہی، ووٹ کو عزت نہ دو تو قوم پھر بھی عدم تحفظ کے میدان میں بھوک و افلاس کے ساتھ کھڑی رہتی ہے۔
سب کے سب منفی پروپیگنڈے کے میدان میں اچھل کود کر رہے ہیں قوم ہے کہ ان کھلاڑیوں کو دیکھ کر افسردہ ہے۔ ایک دن ایسا آئے گا کہ ملک ترقی و خوشحالی کی طرف گامزن ہو جائے گا ملک کی سلامتی کے ساتھ رب کا سپاہی آئے گا اور پھر سب کچھ بدل جائے گا کسی کو احساس نہیں ہے پچھلے اخبارات میں یہ خبر بڑی واضح پرنٹ ہوئی کہ درجنوں ارکان پارلیمنٹ ٹیکس فائلر ہی نہیں ایف بی آر بھی یہی کہتی ہے اب آگے تحریر کرنا بے سود ہے کہ جس کو احساس نہ ہو اس کو کیا احساس دلایا جائے۔
ویسے بھی قوم ٹیکس دے تو رہی ہے یہ قوم کے نمایندے ہیں دن رات قوم کے مسائل حل کرنے میں کوشاں ہیں اور کیا چاہیے قوم کو؟ یہ قوم بہت ناشکری ہے کہ اپنے محسنوں سے تو رویہ درست رکھے وہ دن رات آپ کی بقا کے لیے کام کر رہے ہیں ایک دوسرے کو بیانات دے کر قوم کے لیے سرخرو ہوتے ہیں۔ صحت کارڈ کا بڑا شور تھا 3 سال ہوگئے اب تک عام آدمی کی دسترس سے دور ہیں۔ لیڈر حضرات کہتے ہیں صحت کارڈ عام آدمی کی تقدیر بدل دے گا۔
ارے جناب! صحت کارڈ تو بہت دورکی بات ہے عام آدمی کی زندگی تو ویسے بھی تبدیلی کے ساتھ تبدیل ہوگئی ہے اب صحت کارڈ کی بھی ضرورت نہیں ہے تبدیلی نے تو کمال کر دکھایا لوگ خوش ہیں کہ وہ تبدیلی کے سائے میں رہتے ہیں ویسے بھی نئے سال کا آغاز ہوا ہے۔
یہ سال بھی پچھلے سالوں کی طرح سیاست میں جو کچھ ہوتا رہا ہے گزر ہی جائے گا اور الیکشن کا آغاز ہوگا۔ غریبوں کو بریانی کی پلیٹیں تقسیم ہوں گی ، امیر اپنے پر کیے گئے احسانات کا بدلہ اپنی پارٹی کے لیے اتار رہے ہوں گے ، کچھ نئے اور معروف چہرے جو کبھی سیاست میں نہیں آئے وہ بھی پارٹیوں کے سربراہ کے ساتھ اسٹیج پر کھڑے ہوں گے۔ معصوم چہرے جو غیر تعلیم یافتہ ہیں وہ اس بات پر خوش ہوں گے کہ ان کی پسندیدہ شخصیت ان کے سامنے ہے ہر ممکن کوششیں کی جائیں گی۔ کچھ لوگ '' ووٹ کو عزت دو ''کے نعرے لگائیں گے کچھ اس بات پر ضد کریں گے کہ اگلی مرتبہ بھی ہم ہی آپ کے ساتھ ہوں گے۔
کچھ ایسے ہوں گے جو بتائیں گے کہ ہمارے بڑوں نے ملک سنبھالا اب جوانوں کی باری ہے۔ اور اس طرح دیہاتوں میں رہنے والے 70 فیصد تو ووٹ دوسروں کی مرضی سے ڈال دیں گے مگر شہروں میں رہنے والے تعلیم یافتہ اس مرتبہ بہت سوچ سمجھ کر ووٹ دیں گے کہ وہ اب خاصے ووٹ کے معاملے میں تجربہ کار ہو چکے۔ قارئین گرامی! رب سے تعلق رکھیں ، پاکستان ہے سلامت قوم کے دن بھی بدلیں گے۔
راضی رہنے کی ادا جب آ جاتی ہے تو
زندگی آسان سے آسان تر ہو جاتی ہے