یاورکی یاوری الوداع

افتخار عارف کے اس احترام اور دکھ کو میں نے اسلام آباد میں بھی محسوس کیا تھا

Warza10@hotmail.com

BARCELONA:
ابھی میں اپنی جنم بھومی سندھ کے کارونجھر اور نگر پارکرکے دکھوں سے ہی نہ نکل پایا تھا کہ میرے یار سمان یاوری کے ملنسار اور خود نمائش سے پرے یاور مہدی کی جدائی نے مجھے کراچی سندھ کے وہ چوبارے وہ بیٹھکیں وہ سنگی ساتھیوں کے تہذیبی رچاؤ ، وہ سخن وری کی محافل ، وہ تھڑے جو عام و خواص کی محبت کے لہجوں میں گھنٹوں آباد رہا کرتے ، وہ خیال رکھنے کا احساس ، وہ دوسرے کو آگے بڑھانے کی امنگ ، وہ خاک نشین جو اس نا پرسا شہر کے معمار تھے آہستہ آہستہ دنیا کی کارگذاریاں چھوڑتے ہوئے اجل کو بساتے جا رہے تھے ، شدت سے یاد آرہے ہیں ، یہ نارسا شہر اپنے معماروں کا پرسہ دینے کے لیے بھائیں بھائیں کرتے روشن شہر کی تاریکی میں تنہا سا چہرہ بھیگے کھڑا ہے۔

جمہوریت پسند شہرکے جمہوری ذہن ڈاکٹر سرور اور ڈاکٹر ادیب کی اس جدوجہد کو ہم کیسے فراموش کر سکتے ہیں جو انھوں نے اپنے روشن خیال ساتھیوں کی مدد سے جمہوری بقا کے لیے کی اور جس کی شعوری مشعل کو این ایس ایف کے طلبہ رہنما علی مختار رضوی نے لالوکھیت کی کٹیا سے نکل کر میونسپلٹی کی لائٹوں میں پڑھ کر فاطمہ جناح کی جمہوری تحریک کی جدوجہد کو ایک آمر کے مقابل سرخروکیا۔ہر جمہوریت پسند کالج یونیورسٹی کے نوجوان کی نظریں جناح روڈ کی پرشکوہ عمارت کو دیکھتی حسرت و یاس میں ڈوب جایا کرتی تھیں۔

نوجوانوں کی خواہش اور ان کے تخلیقی جوہرکو آزمانے کے اس ریڈیو پاکستان کے دروازے ان کے لیے اجنبی اور حسرتوں کا سامان ہوا کرتے تھے۔ اس تہذیبی اور معروف صوتی آواز کے متحرک ذریعے کو جب زیڈ اے بخاری ایسے مایہ ناز براڈ کاسٹر ملے تو انھوں نے روشن خیال فکرکی آبیاری بکھیرنے خاطر ریڈیو کا ایسا تخلیقی اور تہذیبی ماحول بنایا کہ اس میں صوتی آواز کے گوہر نایاب کی آمد ہوئی اور ذوالفقار علی بخاری کی روشن خیال سوچ سے ریڈیو پاکستان خطے اور عوام کے احساسات پہنچانے کا معروف ذریعہ قرار پایا۔کونسا تخلیق کار نہ تھا کہ جو ریڈیو پاکستان کی اس تاریخی عمارت کے آہنگ کو عوام تک پہنچانے کی جدوجہد نہ کرتا تھا ، وہ مچھلی شہری ہوں ،شکیل احمد ، عزیز حامد مدنی ہوں۔

الیاس عشقی ہوں، قمر جمیل یا یاورمہدی۔ ہر ایک اس جستجو و فکر میں مگن رہا کرتا تھا کہ نوزائیدہ ملک میں سوچ و فکر کے زاویے وا ہوں اور یہ ملک تہذیب و شائستگی کی تاریخ بنائے۔

اس خیال کو موثر اور مقبول بنانے میں یاور مہدی کا تخلیق کردہ پروگرام '' بزم طلبہ '' ریڈیو پاکستان کی وہ پہچان بنا جس نے سیکڑوں تخلیق کار اور ذہین افراد اس سماج کو دیئے ، ادب اور سماجی شعبے کو '' بزم طلبہ'' نے پروین شاکر اور افتخار عارف ایسے نامور نام اور تخلیق کار دیئے جو اس دیس کا نشان بنے ، افتخار عارف نے یاور بھائی کا پرسہ دیتے ہوئے مجھے لکھا کہ'' مجھ پر بھی ان کے بڑے احسانات رہے ہیں، وہی مجھ کو ریڈیو پر لائے تھے ، بے لوث انسان ، محبت کرنے والے ،بے غرض اور وضع دار۔''

افتخار عارف کے اس احترام اور دکھ کو میں نے اسلام آباد میں بھی محسوس کیا تھا اور شاید کہ یہ بات ظاہر کرنے کا وقت ہے جو امانت کے طور مجھ تک محدود تھا کہ افتخار عارف کے باپ سمان لکھنو کے ڈاکٹر افضال اور یاور مہدی کے بچپن کا ساتھ ایک ایسے کنبے کا جڑاؤ تھا جو تقسیم کے بعد اور زیادہ مضبوط و توانا ہوا ، یاور مہدی اور آغا میر ڈیوڑھی کے ڈاکٹر افضال لازم و ملزوم اور یک جان ایک قالب کی عملی تفسیر تھے۔

افضال احمد نے افتخار عارف کی تخلیقی ذہنی اپچ کے تحت جب انھیں یاور مہدی کے سپردکیا تو افتخار عارف نے بھی بڑے بھائی افضال احمد کی مانند تمام احترام یاور مہدی کی جھولی میں ڈال دیا ، یوں یہ احترام و محبت کا رشتہ آج تک فاصلوں کی طوالت باوجود قائم ہے۔


یہی نہیں بلکہ یاور مہدی نے ریڈیو پاکستان میں پروڈیوسر عثمان ، نثار میمن ، ذکی شیرازی ، فاطمہ شیرازی اور دیگرکا ایک ایسا کنبہ بھی تشکیل دیا جنہوں نے بے غرض ہو کر فیض احمد فیض اور سبط حسن کی فکر کے ادارے آرٹس کونسل کی تہذیبی روایتوں کو حکومتی رعونیت سے نہ صرف بچایا اور پروان چڑھایا بلکہ اسے اپنی محنت سے سینچا ، مجھے یاد ہے کہ یاور بھائی نے ہر ایک کی ڈیوٹی لگا رکھی تھی کہ شام کو آفس کے بعد دو سے تین گھنٹے ہر فرد آرٹس کونسل کو دے گا۔

اور ایسا ہی ہوتا رہا ،آرٹس کونسل کی تزئین و آرائش سے لے کر اس کے مالی امور اور اس کی جمہوری تہذیب کو زندہ رکھنا یاور مہدی کی وہ کمال کوشش تھی جو آج تک چند مفادات کے باوجود دو سال کے غیر ضروری اور غیر منطقی انتخابات کے ساتھ قائم ہے۔

یاور بھائی کا ریڈیو میں متحرک کردار اور نوجوانوں کو روشناس کرانے کا عمل کبھی نہ رکا ، اسی طرح راتوں کو گھرکی پرواہ کیے بغیر آرٹس کونسل کو ایک ادبی گہوارہ بنانے کے جنون سے بھی وہ کبھی غافل نہ رہے ، مگر نہ کبھی اسٹیج پر بیٹھے اور نہ کبھی خود نمائی کو ترجیح دی ، بلکہ ہر تقریب میں سب سے آخر میں خاموشی سے بیٹھے انتظامات پر نظر رکھا کرتے ، یہ یاور مہدی کی انتھک محنت اور جنون ہی تھا کہ جس کی عملی تفسیر آج شاندار آڈیٹوریم کی شکل میں آرٹس کونسل کی پہچان اور مان ہے ، یاور مہدی نے نہ کبھی نام کی پرواہ کی نہ کبھی صلے کے تمغے سینے پر سجائے۔

یاور مہدی نے آرٹس کونسل کی تہذیبی روایتوں کو زندہ رکھنے کی خاطر کبھی علی امام کی خدمات لیں تو کبھی ہند کے معروف مصور و استاد سجاد حسین کے شاگرد اور فن مصوری و سنگ تراشی کے لیے افسر نقوی اور لیاقت حسین ایسے آرٹسٹ ، آرٹس کونسل میں لائے ، بہت کم جانتے ہوں گے کہ آرٹس کونسل کا موجودہ مونو گرام افسر نقوی کی سنگ تراشی اور لیاقت حسین کی ڈیزائننگ کا ایک ایسا شاہکار ہے جو آج بھی آرٹس کونسل کی عالمی پہچان ہے۔

آرٹس کونسل میں تھیٹر اور فلم کے لیے مشتاق گذدر اور سعیدہ گذدرکی کمال محنت بھی یاور مہدی کی انتھک کوششوں کا نتیجہ تھی ،آرٹس اسکول میں نامور آرٹسٹ صادقین ، رحمین اور اقبال مہدی کی خدمات ایسے کارنامے ہیں جو آرٹس کونسل کا ہمیشہ احترام رہیں گے۔

مجال جو شہر کے کسی غم/جنازے میں سب سے پہلے موجود ہونے والے یاور مہدی نہ ہوں، ہر ایک کی خوشی میں وقت سے پہلے موجود رہنے والے یاور مہدی نہ ہوں ، چاہنے والے حسن افضال کی بیٹی کی رخصتی ہو یا ابوذر غفاری سوسائٹی کے معاملات ،کسی کو کتابیں پہنچانی ہوں یا ڈرافٹ بنانے کی زحمت ، یاور مہدی حسن افضال کو یہ سارے امور دے کر بے فکر و بے پرواہ ہوجایا کرتے ، وہ انور سعید اور تقی شاہ جی سے مشاورت اور سوسائٹی کے امورکی بہتری میں ہمیشہ جتے رہتے تھے، ادبی مشاغل کا سلسلہ نہ رکنے دیتے اور نہ ہی اپنی حرکی صلاحیتوں کو ماند ہونے دیتے۔

مجال جو پیرانہ سالی کی پرواہ کی ہو یا ملک چھوڑنے کا تصور ذہن میں لائے ہوں ، حالانکہ بڑے بیٹے ظفر مہدی سمیت تمام کنبہ انھیں بیرونِ ملک رہنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتا رہا مگر یاور مہدی چھوٹے بیٹے علی کے ہمراہ اپنی روح کے سنگ ریڈیو پاکستان اور آرٹس کونسل کے ارد گرد ہی منڈلاتی رہے ، نہ کاظمین چھوڑا اور نہ دور افتادہ بستی شاہ فیصل کالونی کی وہ تنگ و تاریک گلیاں چھوڑیں جہاں سے یاورکی یاوری ہوئی تھی۔

حق مغفرت کرے... عجب آزاد مرد تھا۔
Load Next Story