2021ء دنیا میں سپر پاور کی جگہ خالی ہو گئی

پہلے پوری دنیا کا نقشہ سامنے آیا پھر اس پر عالمی جبر و تشدد حاوی ہوا


پہلے پوری دنیا کا نقشہ سامنے آیا پھر اس پر عالمی جبر و تشدد حاوی ہوا۔ فوٹو: فائل

PODGORICA/ MONTENEGRO: قسط نمبر 1
یہ درست ہے کہ دنیا میں انسانی تہذیبیں بہت قدیم ہیں اور دنیا کے مختلف مقامات پر ایسی تہذیبوں کے آثار قدیمہ دس ہزار سال سے زیادہ قدامت کے ساتھ دریافت ہوئے ہیں جیسے ہمار ے ہاں ہڑپہ موہنجوداڑو اور مہر گڑھ، مگر دنیا کی مستند تاریخ حروف تہجی کی ایجاد کے بعد تقریباً ساڑھے تین ہزار سال پرانی تسلیم کی جاتی ہے، اس تاریخ میں پہلی بنیاد سلطنتوں کی بجائے تہذیبوں کو قرار دیا گیا۔

اگرچہ یہ تہذیبیں بھی سلطنتوں کے قیام سے مربوط ہیں، یہ تہذیبیں مصر، بابل نینوا، یونان، روم، ایران، ہندوستان، چین کی تہذیبیں کہلاتی ہیں اور اِن کے بعد اسلامی تہذیب دنیا میں آئی جو گذشتہ تہذیبوں کے قومی تشخص کے مقابلے میںدین کی بنیاد پر اور پوری عالمی برادری کے لیے تھی اس لیے یہ وقفے وقفے سے عرب، افریقہ، ایشیا، یورپ، ہندوستان اور سنٹرل ایشیا کی قدیم تہذیبوں کی اچھی باتوں کو اپناتی اور برے تصورات کو جھٹلاتی آگے بڑھتی رہی مگر اس پر بھی ملوکیت ''بادشاہت'' کے فرسودہ نظام نے قبضہ کر لیا۔

1492 ء یہ وہ سال ہے جب ایک جانب اسپین سے مسلمانوں کے اقتدار کا خاتمہ ہوا تو ساتھ ہی کولمبس نے امریکہ دریافت کر لیا یعنی سولہویں صدی کے آغاز پر پوری دنیا کا نقشہ سامنے آگیا اور یہی دور تہذیبوں کی یا سلطنتوں کی بالا دستی کی بجائے نو آباتی دور کہلایا جس میں برطانیہ، فرانس، اسپین، پرتگال، ہالینڈ سمیت یورپی اقوام نے دنیا کے ملکوں اور اِن کے وسائل پر قبضہ کر کے اپنی صنعت و حرفت کی ترقی کے ساتھ اِنہی غلام ملکوں کے خام مال کو مصنوعات میں تبدیل کر کے انہی نو آبادتی ملکوں کو منڈیاں بناتے ہوئے پوری دنیا کی دولت کو لوٹنا شروع کیا اور پھر یہی نوآبایاتی قوتیں ہوس ملک گیری کی بنیادوں پر آپس میں بھی لڑتی رہیں۔

یوں لاکھوں ،کروڑوں ہلاکتوں کے تسلسل کے مقابلے میں تاریخ میں اس سے متضاد اور متوازی عالمی انسانیت کی بقا اور بہبود کے لیے فلاسفروں، دانشوروں، ادیبوں اور شاعروں نے بھی جدوجہد شروع کی جس کا آغاز ساڑھے آٹھ سو سال پہلے برطانیہ میں میگناکارٹا سے ہوا، 5 مئی1789 ء سے 9 نومبر1799 ء کے درمیان فرانس میں خونی انقلاب آیا، پھر 1799ء ہی میں نپولین نے جنگیں شروع کیں۔

1815 ء میں اس کا زوال شروع ہوا اور1821 ء میں نپولین بوناپارٹ نے وفات پائی، یہی وہ دور ہے جب امریکہ نے آزادی حاصل کر لی اور جارج واشنگٹن اس کے پہلے صدر منتخب ہوئے اور 1789ء سے 1797 ء تک صدر رہے۔ یہی وہ دور ہے جب انگریزوں نے 1757 ء میں بنگال میں نواب سراج الدولہ کو شکست دینے کے بعد میسور میں 4 مئی 1799 ء کو ٹیپو سلطان کو شکست دی۔

اگرچہ برطانیہ سے امریکہ نے آزادی حاصل کر لی تھی مگر ہندوستان میں اپنی گرفت مضبوط کر کے برطانیہ پوری دنیا کی پہلی سپر بننے لگا، ساتھ ہی امریکہ کی آزادی کے بعدکزن کنٹری کی بنیاد پر برطانیہ کے امریکہ سے خصوصی تعلقات استوار ہو گئے جو بعد میں وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط سے مضبوط ہونے لگے۔

فرانس کا انقلاب اور برطانیہ میں صنعتی انقلاب کے دوران جمہوریت، صنعت اور تجارت کے شعبوں میں اِن ملکو ں کے عوام کی جانب سے حقوق کی جدوجہد جاری رہی۔ برطانیہ، فرانس میں یہ جدوجہد جاری تھی، مغربی ملکوں میں غلام داری کا نظام ختم ہو رہا تھا جس کی وجہ سے جاگیردارانہ قوتوں کی گرفت اقتدا ر پر کمزور پڑ رہی تھی اور اس کی جگہ سرمایہ دارانہ اقتصادی نظام مضبوطی سے جڑیں پکڑ رہا تھا، اقتدار میں سرمایہ دار اور صنعتکار طبقہ مضبو ط ہو رہا تھا ، غلام داری ، سرمایہ دارانہ اور صنعتی نظام کے فا ئدے میں نہیں تھی اسی معاشی اقتصادی صنعتی، تجارتی اور معاشرتی تضادات کے نتیجے میں 12 ۱پریل 1861 ء سے 9 مئی 1865 ء میں امریکہ میں خانہ جنگی ہوئی جس میں تقریباً دس لاکھ امریکی ہلا ک ہوئے۔

1861 ء سے 1865 ء تک اس انقلاب کے دوارن امریکہ کے صدر ابراہم لنکن رہے، امریکہ سے غلام داری کا خا تمہ ہوا ، صدارتی جمہوری نظام کی مضبوطی کی بنیادیں قائم ہوئیں اور تھوڑے ہی عرصے بعد امریکہ دنیا میں آزاد معیشت کے ساتھ سر مایہ دارانہ نظام کا مضبوط اور سب سے بڑا مرکز بنتا چلا گیا ، اسی دور میں ہندوستان میں 1857 ء کی جنگ آزادی کے بعد برطانیہ دنیا کی پہلی سپر پاور بن گیا یہاں بعض افراد اعتراض کر سکتے ہیں کہ اس سے قبل روم سلطنت اور تہذیب کی بنیاد پر سپر پاور تھی مگر واضح رہے کہ اُس وقت تک امر یکہ دریا فت نہیں ہوا تھا اور پوری دنیا کا نقشہ سامنے نہیں آیا تھا۔

جب برطانیہ سپر پاور بنا تو یوپی ممالک نوآبادیات کے لیے آپس کی جنگوں میں بھی الجھتے رہے تھے، اُس وقت برطانیہ، فرانس ، جرمنی، اسپین اور روس بڑی قوتیں تھیں جن میں سب سے مضبوط بحریہ برطانیہ کی تھی اِن کے مقابلے میں ایک قوت ایشیا، افریقہ اور مشرقی یورپ کی بنیاد پر سلطنت ِ عثمانیہ یا خلافت عثمانیہ تھی۔ انیسویں صدی کے اختتام اور بیسویں صدی کے آغاز پر جرمنی کے علاوہ دوسرے ممالک روس ، برطانیہ ، فرانس اور دیگر یورپی ممالک خلافت عثمانیہ کے خلاف تھے اور جنگ عظیم اوّل سے پہلے بلقان کی جنگوں میں بھی سلطنت عثمانیہ کے مشرقی حصّے کو نقصان پہنچا تھا۔

بیسویں صدی کے آغاز پر ہی مغربی اقوام اور ممالک میں ایک دوسرے سے نو آبادات چھیننے کا عمل شدت اختیار کر گیا تھا، دنیا کا جو نقشہ کولمبس کے امریکہ دریا فت کر نے کے بعد مکمل ہوا تھا، انیسویں صدی کے وسط ہی میں اس پوری دنیا میں ظالما نہ نوآبادیاتی نظام کے ساتھ ساتھ عالمی اقتصادی، معاشی نظام ، بینکنگ سسٹم اور اسٹاک ایکسچینج سے مربوط ہو کر دنیا کے ہر فرد کو کسی نہ کسی طرح سے متاثر کر نے لگا تھا۔

اس جبر و ستم کی وجہ سے دنیا میں تہذیبی ارتقا کے لحاظ سے وقت چار زاویوں سے اپنی رفتارسے زیادہ تیز معلوم ہو رہا تھا ۔ نمبر ایک، انقلاب ِ فرانس کے مفکر ،دانشور ، ادیب ، روسو اور والٹیئر کے بعد کارل مارکس کی تحریریں پوری دنیا کے معاشروں اور ملکوں میں کسی نہ کسی تناسب سے اور کسی نہ کسی انداز سے فکر، احساس اور جذبات کو متاثر کر رہی تھیں، نمبردو،دنیا میں نو آبادیاتی نظام، سرمایہ دارانہ نظام سے اب اپنے ارتقائی عمل کے اُس مر حلے پر پہنچ چکا تھا جہاں نوآبادیاتی نظام سے سرما یہ دارانہ نظام کی دوری ضروری ہو گئی تھی، نمبر تین دنیا کی بڑی نو آبادیاتی قوتیں اب بھی اس حماقت میں مصروف تھیں کہ اِن کی نو آبادیات کا رقبہ زیاد ہ سے زیادہ وسیع ہو، نمبر چار، ٹیکنالوجی اور سائنس کی ایجادات اور دریافتیں سرمایہ دارانہ نظام کی تیز رفتار بڑھوتری اور مضبو تی کا سبب بن گئی تھیں اور اِن میں توازن پیدا نہیں ہو رہا تھا یہ وہ عوامل تھے جن کی بنیاد پر، اب دنیا میں پہلی بار ایک ایسی جنگ ہو نے جا رہی تھی جو عالمی جنگ کہلانا تھی۔

پہلے پوری دنیا کا نقشہ سامنے آیا پھر اس پر عالمی جبر و تشدد حاوی ہوا اور اس کے نتیجے میں پوری دنیا پر طاری یا پوری دنیا کو متاثر کر نے والی عالمی جنگ ہوئی مگر اس پہلی عالمی جنگ سے پہلے برطانیہ نے پہلی عالمی جنگ سے متعلق مستقبل کے لیے کچھ اہداف مقرر کر لیے تھے، جنگ سے قبل ہی سلطنت عثمانیہ کے علاقوں عرب دنیا مشرق وسطیٰ اور کچھ افریقی ملکوں پر قبضہ کرنے اور بعد میں ان علاقوں پر ان ڈائریکٹ کنٹرول کے لیے فسلطین میں اسرائیل کے قیام کا منصوبہ بنا تھا۔

1903 ء میں the Protocals of the Elders of Zion جوس پروٹوکول منظر عام پر آیا۔ یہ روسی مذہبی ، سیاسی لیڈروں اور ماہر ین معاشیات و ابلاغیات نے مل کر تحریر کیا تھا۔ یہ روسی زبان میں لکھا گیا تھا اور 417 صفحات پر مشتمل تھا، 2 نومبر 1917 ء میں برطانیہ کے وزیر خارجہ Arthur Balfour آتھر بالفور نے بالفور ڈیکلریشن کے تحت برطانیہ میں یہودی آبادی کے لیڈر لارڈ روتھس ایلڈکے نام خط لکھ کر یقین دہانی کروائی کہ یہودیوں کے لیے فلسطین میں یہودی آبادی کا وطن بنایا جائے گا، تین سال بعد 1920 ء امریکہ میں کتاب'' جیوش پروٹوکول،، کا ترجمہ انگریزی میں کیا گیا۔

اس انگریزی ترجمے کی پانچ لاکھ کاپیاں شائع کر کے یہودیوں میں تقسیم کی گئیں اس کے فوراً بعد اس کی کئی لاکھ کاپیاں دنیا کی اُن زبانوں میں ترجمہ کر کے شائع کی گئیں جہاں جہاں یہودی آباد تھے اس کتاب میں دنیا بھر کی یہ ودی آبادی کو یہ بتایا گیا تھا کہ یہودی دنیا کی معیشت اور میڈیا پر کنٹرول حاصل کر کے اپنے مذہبی عقائد کے مطابق دنیا پر حکمرانی کر یں گے۔ پہلی عالمی جنگ سے تین سال پہلے امریکہ نے دنیا کا پہلا طیارہ بردار جہاز تیار کر لیا تھا اور امریکہ ٹیکنالوجی کی بنیاد پر اب برطانیہ سے آگے نکل چکا تھا ۔

اس پس منظر اور پیش منظر کے ساتھ دنیا میں پہلی عالمی جنگ کا آغاز ہوا، یہ جنگ 1914 ء سے شروع ہو کر 1918 ء میں ختم ہوئی ، اُس وقت برطانوی ہندوستان میں آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ جیسی سیاسی جماعتیں وجود میں آچکی تھیں اور اِن کی قیادت موہن داس گاندھی اور محمد علی جناح جیسی شخصیات کے پاس تھیں۔ اس جنگ کے دوران 1916 ء میں ان دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان قائد اعظم محمد علی جناح نے ہندوستان کی آزادی اور خودمختاری کے لیے ہندو مسلمان مشترکہ جدوجہد کے لیے کانگریس کو آمادہ کر لیا، گانگریس نے جداگانہ انتخاب، ہندوستان میں مسلمانوں کے تشخص اورحقوق کی ضمانت دی اور یقین دہانی کرائی اور اِ ن دونوں جماعتوں کے درمیان میثاق ِ لکھنو طے پا گیا۔

اس کے ایک سال بعد اور پہلی عالمی جنگ کے اختتام سے ایک سال قبل روس میں لینن اور اسٹالن اشتراکی انقلاب لے آئے اور روس کو جنگ سے نکال لیا۔ اُس وقت تک جنگ میں روس کے 90 لاکھ افراد ہلا ک ہو چکے تھے، جب روس اس جنگ سے باہر ہوا تو تازہ دم امریکہ اس جنگ میں داخل ہوا۔ امریکہ کی پہلی عالمی جنگ میں یہ انٹری ہی دنیا کی ایک بڑی طاقت کی انٹری تھی، جو در اصل اسی دوران دنیا کی سپر پاور بننے کے عمل میں داخل ہو کر کافی آگے بڑھ چکی تھی، بر طانیہ پہلی عالمی جنگ کے اختتام پر دنیا کے 25 فیصد رقبے اور 24 فیصد آبادی پر قابض تھا اور اُس وقت دنیا کی سب سے بڑی نو آبادیاتی قو ت بن چکا تھا مگر اب اقتصادی سیاسی اور عسکری اعتبار سے برطانیہ انحطاط کا شکار تھا اور امریکہ مستحکم اور مضبوط ہو چکا تھا۔

جنگ کے اختتام پر دنیا تین طرح سے بدل چکی تھی، سلطنت ِ عثمانیہ ختم ہو گئی تھی اور دنیا کے صرف تین اسلامی ممالک سعودی عرب، افغانستان اور ترکی آزاد تھے اور اِن کی آزادی بھی کئی اعتبار سے مشروط تھی کیو نکہ یہ تینوں ہی اُس وقت کے کمزور ملک تھے۔ افغانستان میں 1919 ء میں غازی امان اللہ خان بادشاہ بنے تو انہوں نے انگریزوں سے 1878-80 کے معاہدوں کو ختم کر تے ہو ئے انگریزوں سے سالانہ سبسیڈی کی بڑی رقم لینے سے انکار کردیا اور افغانستان کی دفاعی اور خارجہ پالیسی کو آزاد کر نے کا اعلان کر دیا، یہ اعلان اُس وقت کیا گیا جب صرف ایک ماہ قبل ہی جلیانوالہ باغ کے قتل عام کا واقعہ پیش آیا تھا اور پورا ہندوستان غم و غصے سے تلملا رہا تھا۔ مو لا نا محمد علی جوہر اور گاندھی انگریز حکومت کے خلا ف احتجا ج کر رہے تھے۔

ہندوستان سے انگریز سرکار کے لیے پہلی جنگ عظم میں حصہ لینے والی دس لاکھ ہندوستانی فوج جنگ ختم ہو نے کے باوجود دنیا کے مختلف محاذوں سے واپس ہندوستان نہیں آئی تھی ۔ غازی امان اللہ خان کا خیال تھا کہ ہندوستان کے لوگ بھی اس تیسری اینگلو افغان جنگ کے دوران انگریز سرکار کیخلاف کھڑے ہو جائیں گے اور پھر ماضی کی طرح افغانستان ایک مرتبہ پھر تاریخی کردار ادا کر تے ہو ئے انگریزوں کو برصغیر سے نکال دے گا مگر ایسا نہ ہو سکا۔

اس تیسری برطانوی افغان جنگ میں اگرچہ افغانستان نے غازی امان اللہ خا ن کی قیادت میں مکمل آزادی حا صل کر لی مگر کچھ عرصے بعد ہی انگریزوں نے سازش کر کے غازی امان اللہ خان کا تختہ اُلٹ دیا۔

پہلی عالمی جنگ کے دوران پوری دنیا کے سرمایہ دار، ذہین و فطین سائنس دان اور دیگر ماہرین پہلی عالمی جنگ کی تباہ کاریوں سے ڈر گئے تھے۔ اس جنگ میں یورپ کے تقریباً تمام ممالک اور بہت سے ایشیائی اور افریقی ممالک بھی بر ی طر ح تباہ ہوئے تھے اور امریکہ سات سمندر پار محفوظ تھا۔

دوسری جانب کیمو نزم ( اشترکیت) جس کو 1917 ء تک سرمایہ دار صنعت کار ایک افسانوی کہا نی تصور کرتے تھے،اب اشتراکیت روس میں نافذالعمل ہونے کے بعد مشرقی یورپ چین اور دیگر ملکوں میںجڑیں پکڑ رہی تھی اس لیے پہلے تو پہلی عالمی جنگ کے چار برسوں کے دوران ہی دنیا بھر کا سرمایہ امریکہ کو محفوظ قلعہ سمجھ کر امریکہ منتقل ہو گیا تھا، امریکہ کو مواقع کی سر زمین کہا جا نے لگا تھا۔

یہاں کے صدارتی جمہوری نظام میں تارکین وطن کو ہر طرح کی آزادی اور تحفظ کے ساتھ آگے بڑھنے اور ترقی کر نے کے مواقع برابری کی بنیادوں پر موجود تھے، پہلی عالمی جنگ کے فوراً بعد روس میں اشتراکیت کے حامی اور مخالفین کے درمیان معرکہ جاری تھا اور اس میں سرمایہ دار دنیا کی یہ خو اہش تھی کہ اشتراکیت کو شکست ہو، مگر یہ سر ما یہ دار دنیا اُس وقت روس میں لینن اور اسٹالن کی لیڈر شپ میں کیمونسٹ انقلا بی حکومت کے مخالفین کی بھر پور امداد کرنے کی پو زیشن میں نہیں تھی کہ پہلی عالمی جنگ کی وجہ سے یہ تمام ممالک خود بری طرح تباہ ہو چکے تھے ۔

امریکہ اس موقع پر خود کو مضبوط سے مضبوط تر بناتے ہوئے سپر پاور بن رہا تھا اور وکٹری اسٹینڈ پر کھڑا بر طانیہ سپر پاورکے منصب پر ڈگمگا رہا تھا۔ یوں دیکھا جا ئے تو اس دور میں پہلی عالمی جنگ کے فوراً بعد صرف دو مسلم ملکوں یعنی افغانستان اور ترکی میں لیڈر شپ ابھر کر سامنے آئی مگر ترکی کے اتاترک مصطفی کمال پاشا اور افغانستان کے غازی امان اللہ دونوں ہی لبرل اور آزاد خیال تصور کئے جاتے تھے اور پھر خصوصاً غازی امان اللہ خان تو جلد ہی اقتدار سے محروم ہو گئے۔

مگر یہ حقیقت ہے کہ اس پہلی عالمی جنگ کے بعد آنے والے پچاس برسوں میںاللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا کے تقریباً ہر ملک اور قوم میں بڑے لیڈرہوئے، جس کا بھرپور آغاز 1930-32 ء میں پہلی عالمی جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی شدید عالمی کساد بازا ری کے دوران ہوا۔

جب اس عالمی مالیاتی، اقتصادی بحران کو جرمنی کے ایڈولف ہٹلر اور سابق سوویت یونین کے جوزف اسٹالن نے نہ صرف قابو کیا بلکہ دونوں اُس وقت عالمی سطح کے مقبول ترین اور مضبوط ترین لیڈروںکی صورت میں سامنے آئے ،جب کہ اِن کے مقابل برطانیہ کے وزیر اعظم چرچل ، فرانسیسی صدر ڈیگال اور امریکہ کے صدر کے فرینکن ڈی روز ولٹ تھے ۔

دوسری عالمی جنگ تین نظریات اور چار قوتوں کی جنگ تھی جس میں جنگ اور سیاست کے پیش نظر، نظریات کے تضادات کے باوجود وقتی طور پر مفاہمت بھی ہوئی، یورپ میں پہلی اور بڑی قوت برطانیہ کی تھی جو آزما ئی ہوئی اور تسلیم شدہ قوت تھی اور خود کو اُ س وقت کی سپر پاور کہلاتی تھی، جنگ کی ابتدا پر ہی اس کے ہمراہ فرانس تھا ، یہ سرمایہ دارنہ آزاد معیشت اور جمہوریت کے حامی تھے اور ان سے زیادہ ان نظریات کا حامی امر یکہ تھا جو سمندر پار امن و امان کے ماحول میں تیزی سے مستحکم انداز کی صنعتی ، اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ عسکری طور پر بھی خود کو ناقابل تسخیر بنا چکا تھا۔

جرمنی ہٹلر کی قیادت میں جرمن نیشنلسٹ بلکہ فاشسٹ انداز میں پہلی عالمی جنگ میں ذلت آمیز شکست کا بدلہ دنیا سے لینا چاہتا تھا اور سابق سوویت یونین جہاں اب اسٹالن 90 لاکھ سے زیادہ روسیوں کو قتل کر کے اشتراکی نظام کو سختی سے نا فذالعمل کر چکا تھا اور ایک بڑی اور مضبوط قوت کے طور پر سامنے آگیا تھا، اس جنگ کا آغاز جرمنی کی جانب سے ہوا اور پھر فوراً ہی سابق سوویت یونین بھی جرمنی کے ساتھ شامل ہو گیا۔

پھر جاپان جرمنی کا اتحادی ہوا ۔ جہاں تک تعلق سابق سوویت یونین کا تھا تو اس جنگ میں بھی سب سے زیادہ جانی نقصان سوویت یونین کا ہی ہوا مگر اس جنگ میں سوویت یونین نے اپنے اشتراکی نظریات کے برعکس پہلے جرمنی سے اتحاد کیا اور ہٹلر جیسے فاسشٹ کا ساتھ دیا، پھر ہٹلر کے مقابلے میں سرمایہ دارانہ نظام کی حامی بڑی قوتوں برطانیہ ، فرانس اور امریکہ کے اتحاد میں شامل ہو گیا ۔امریکہ اس دوسری عالمی جنگ میں بھی پرل ہاربر پر جاپانی ٖفضائی حملے کے بعد شامل ہوا تھا، دوسری عالمی جنگ میں بھی پہلی فتح سوویت یونین ہی نے حاصل کی تھی ۔

16 اپریل 1945 کو سوویت یونین نے پندرہ لاکھ فوج سے برلن کا محاصرہ کر لیا تھا اور 2 مئی 1945 ء کو ہٹلر کی خودکشی کے ساتھ ہی جرمن فوجوں نے روسی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے تھے مگر اتحادیوں کے کہنے پر جب برطانیہ، امریکہ اور فرانس کی فوجیں بھی برلن پہنچ گئیں تو باقاعدہ طور 8 مئی 1945 ء کو جرمنی کی شکست اور اتحادیوں کی فتح کا جشن منایا گیا مگر ابھی امریکہ ، برطانیہ، فرانس نے جنگ بندی کا اعلان نہیں کیا تھا اور جاپان کے خلاف جنگ جاری رہی اور پھر 7 اور 9 اگست 1945 ء کو امریکہ نے جاپان کے شہروں ناگاساکی اور ہیرو شیما پر ایٹم بم گرائے اور پھر امریکی بحری جہاز پر کمانڈر انچیف جنرل میکارتھر کے سامنے جاپان نے ہتھیار ڈالے اور حقیقی معنوں میں اسی ایٹم بم کی وجہ سے امریکہ دنیا کی سپر پاور بن گیا اور ایٹم بم کی بالادستی کی وجہ سے وہ 29 اگست1949 ء تک واحد سپر پاور بنا رہا کیونکہ 29 اگست 1949 کو سوویت یو نین نے بھی ایٹمی دھماکہ کر کے دنیا کی دوسری ایٹمی قوت ہونے کا اعلان کر دیا، اس کے بعد بھی دنیا کی اکثریت امریکہ ہی کو دنیا کی سپر پاور تسلیم کرتی تھی اس کی کچھ ٹھوس وجوہات بھی تھیں۔ برطانیہ جو امریکہ کا کزن کنٹری ہے یہ بھی جلد ایٹمی قوت بن گیا۔

پھر فرانس بھی ایٹمی قوت بنا، اور جہاں تک تعلق اقوام متحدہ کا ہے تو اس کی سکیو رٹی کونسل میں ویٹو پاور کی حامل پانچ قوتیں ہیں ، جن میں سے اُس وقت صرف سوویت یونین ایک امریکہ مخالف ویٹو پاور تھی جب کہ امریکہ، برطانیہ ، فرانس کے علاوہ مین لینڈ چین کی بجائے 1971 ء تک تائیوان کو اقوم متحدہ میں چین تسلیم کیا جاتا تھا اور اس کے پاس ہی چین کی ویٹو پاور تھی اور تائیوان امریکی ربڑ اسٹمپ ویٹو پاور کہلاتی تھی۔

امریکہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں 80 فیصد ویٹو پاور کو استعمال کرتا تھا ، اور اسی طرح عالمی سطح کے معاشی اقتصادی حجم میں بھی اُس کا اور اُس کے اتحادیوں کا حصہ 80 فیصد تک تھا اور یہی صورت اُس وقت عالمی سطح پر مجموعی اعتبار سے فوجی قوت اور ٹیکنالو جی کے شعبوں میں امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کی تھی، مگر یہ حقیقت ہے، سوویت یونین نے امر یکہ کی سپر پاور حیثیت کو چیلنج کر دیا ۔ 25 جون 1950 ء سے 27 جولائی1953 ء تک سوویت یونین اور چین نے کو ریا میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے کوریا کی جنگ میں مشکل مقابلے سے دوچار کیا اور کوریا شمالی اور جنوبی کوریا میں تقسیم ہو گیا، 1953 ء ہی میں سوویت یونین کے جوزف اسٹالن انتقال کر گئے جو 28 سال سے اقتدار میں رہے تھے اِن کی جگہ نیکٹا خرو شیف نے لی۔

1955 ء میں سوویت یونین نے نیٹو کے مقابلے میں وارسا پیکٹ کے ممالک کا گروپ تشکیل دیا۔ 1956 ء میں سوویت یونین کی سپورٹ سے قائم ہنگری کی حکومت کے خلاف شدید نوعیت کی عوامی تحریک اٹھی جس کو تین ہزار ٹینکوں سے لیس ڈیڑھ لاکھ سوویت فوج نے بیس ہزار ہنگری باشند وں کو قتل کر کے ناکام کر دیا، 1956 ء میں اسوان ڈیم کے مسئلے اور مصر کے صدر ناصر کی جانب سے نہر سوئز کو قومی ملکیت میں لینے پر فرانس، برطانیہ اور اسرائیل نے مل کر مصر پر حملہ کر دیا اور اس موقع پر امریکی صدر آئزن ہاور نے برطانیہ کو دھمکی دی کہ وہ فوراً مصر کی سر زمین سے انخلا کرے، یہ وہ مر حلہ تھا جب امریکہ نے برطانیہ کے سامنے اپنے سپر پاور ہو نے کا اعلان کر دیا۔

اسرائیل، فرانس اور برطانیہ نے اپنی فوجیں واپس کر دیں اور ساتھ ہی بر طانو ی وزیر اعظم سر ایتھنی ایڈن نے استعفٰی دے دیا، پچا س کی دہا ئی کے آخر تک سوویت یونین خلائی ٹیکنالوجی میں امریکہ سے سبقت لے گیا اور یہ امریکہ کے لیے انتہائی تشویش کا مر حلہ تھا ، 2 مئی 1945 ء میں سوویت یونین کی فوجیں جرمنی میں داخل ہوئی تھیں اور اس ملک پر سوویت یونین کے علاوہ امریکہ ، فرانس اور برطانیہ کا بھی قبضہ تھا، یہی وہ مرکز تھا۔

جہاں سے دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے ساتھ ہی سرد جنگ کا آغاز ہوا تھا جس میں 24 جون 1948 ء سے11 مئی1949 ء تک شدت رہی جب سوویت یونین نے برلن کی ناکہ بندی کر دی تھی اور اِن گیارہ مہینوں میں امریکہ ، فرانس اور برطانیہ نے دو لاکھ سے زیادہ پروازوں سے یہاں غذائی اجناس پہنچائی تھیں۔ 1961 ء میں امریکی صدر کینیڈی اور روسی وزیراعظم خروشیف کے درمیان شدید بحران کے بعد سوویت یونین نے آخر دیوار برلن تعمیر کر دی۔

امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان انتہائی نوعیت کا شدید ترین تنازعہ اکتوبر1962 ء میں 13 دن تک رہا جس کی وجہ سے پوری دنیا خوفزدہ تھی کہ کہیں سوویت یونین اور امریکہ میں ایٹمی جنگ ہوئی تو دنیا تباہ ہو جائے گی ۔ یہ کیوبا کا میزائل بحران تھا جب صدر کینیڈی نے الٹی میٹم دے دیا تھا کہ کیوبا سے سوویت یونین میزائل ہٹا لے اور آخر خروشیف نے میزائل ہٹا لئے ۔ امریکہ کے لیے ویتنام کا محاذ بھی تاریخی طور پر شرمناک شکست کا سبب بنا، امریکہ یہاں فرانس کے ساتھ 1955 ء میں آیا تھا ۔ ویتنام میں چین اور سوویت یونین ویتنام کی آزادی کی کیمونسٹ تحریک کی مدد کر رہے تھے۔

امریکہ نے پوری فوجی قوت کے ساتھ 1963-64 ء سے جنگ شروع کی اور یہاں اس کی فوجوں کی تعداد 5 لاکھ تک جا پہنچی، اِس جنگ کا باضباط اختتام 30 ایریل 1975 ء کو ہوا۔ ویتنام کی جنگ میں 38 لاکھ ویتنامی ہلاک ہوئے، جب کہ اس کے مقابلے میں 3 لاکھ 15 ہزار امریکہ کے لیے لڑنے والے اور اتحادی ہلاک ہوئے۔ اِن کے علاوہ 58159 امریکی ہلاک ہوئے تھے۔

ویتنام کی اس جنگ پر امریکہ کے 168بلین ڈالر خرچ ہوئے جب کہ نقصان کے ازالہ کی مد میں سالانہ 22 بلین ڈالر کا خرچ جاری رہا ۔ ویتنام میں امریکہ کی شکست سرد جنگ میں امریکہ کی ایک بڑی ناکامی تھی ، مگر یہاں سے امریکہ کے انخلا کے بعد امریکہ نے سوویت یونین اور چین کی کشیدگی سے فائدہ اٹھایا۔ یہ کشیدگی 1953 ء میں اسٹالن کی وفات کے بعد شروع ہوئی تھی جو 1962 ء میں چین بھارت جنگ کے بعد بڑھتی گئی اور 1970 ء تک چین روس سرحدی تنازعات تک پہنچ گئی۔

1971 ء میں پاکستان سے پی آئی اے کے مسافر طیار ے میں امریکی سیکرٹری ہنری کسنجر نے چین کا دورہ کیا اور پھر امریکہ سے چین کے تعلقات قائم ہوئے اور تائیوان کی بجائے چین کی حیثیت کو تسلیم کر تے ہوئے تائیوان سے اقوام متحدہ کی رکنیت اور سیکورٹی کونسل میں ویٹو پاور لے کر چین کو دے دیا گئی، اب چین نے اگرچہ سوویت یونین کا کہیں ساتھ تو نہیں مگر سوویت یونین سے کوئی جنگ بھی نہیں کی۔

جہاں تک تعلق مشرق وسطیٰ کا تھا تو امریکہ نے یہاں اسرائیل کی مدد جاری رکھی، اگر چہ 1973 ء کی عرب اسرائیل جنگ میں جب عرب ممالک قدرے بہتر پوزیشن میں آگئے، تو یہ صورتحال امریکہ کے لیے تشویش کا سبب بنی لیکن اس سے زیادہ تشویش عالمی مسلم اتحاد کی بنیاد پر سوویت یونین کو بھی رہی، کیو نکہ سوویت یونین میں اُس وقت بشمول سنٹرل ایشیائی ریاستوں کے مسلم آبادی کا تناسب تقریباً 30 فیصد کے قریب تھا۔ یہی وہ موڑ تھا جہاں سے امریکہ اور نیٹو ممالک نے سابق سوویت یونین کے خلاف موثر حکمت عملی اختیار کی اور اس کے پہلے مرحلے میں عالمی سطح پر مسلم اتحاد کی سپورٹ نظریہ جہاد کے ساتھ کی گئی۔

اگرچہ1974 ء میں او آئی سی کی جانب سے پاکستان میں منعقد ہونے والی اسلامی سربراہ کا نفرنس کے اہم ترین لیڈر ذوالفقار علی بھٹو اور شاہ فیصل دنیا میں نہیں رہے تھے نہ ہی اُس نوعیت کا اتحاد 1979 ء تک رہا مگر افغانستان میں 1978 ء میں سردار داود کے بعد سوویت یو نین کی فوجی مداخلت شروع ہو گئی۔ ایران میں شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کا تختہ الٹ کر امام خمینی اسلامی انقلاب لے آئے اور پہلے دن ہی سے امریکہ مخالفت سخت گیر پالیسی اختیار کی گئی۔

1979 ء سے1989 ء تک یہ دس سال دوسری عالمی جنگ کے بعد شروع ہونے والی سرد جنگ کے ایسے دس سال تھے جن میں امر یکہ نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر سوویت یونین اور عالمی سطح پر کیمونزم کو شکست دے دی۔ ،14 اپریل1988 ء میں پاکستان، افغانستان کے درمیان جینوا معاہدہ ہوا جس میں سوویت یونین اور امریکہ بھی فریق تھے، جب کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی اس جنیوا معاہدے پر دستخط کئے تھے۔

اس امن معاہدے کے دس اہم نکات تھے جن میں سوویت یونین کی فوجوں کا انخلا افغانستان اور پاکستان دونوں ملکوں کا ایک دوسرے ملک میں مداخلت نہ کرنا، کسی تیسرے ملک کی جانب سے دونوں ملکوں میں مداخلت نہ کرنے کی اقوام متحدہ ، امریکہ اور سوویت یونین کی جانب سے ضمانت شامل تھی، حیرت کی بات ہے کہ گذشتہ 33 برسوں سے اس معاہد ے کے حوالے سے اقوام متحدہ ، امریکہ اور روس سے کو ئی یہ نہیں پوچھتا کہ اس معاہدے پر عملدر آمد نہ کرنے کا کون کون ذمہ دار ہے پھر یہ بھی ایک حادثہ ہی تھا کہ جنیوا معاہدے سے صرف چار دن پہلے 10 اپریل1988 ء کو راولپنڈی میں قائم اوجھڑی کیمپ جہاں سے افغان مجاہدین کو فراہم کیے جا نے والے اسلحہ کا ڈپو تھا وہاں آتش زدگی کا بدترین حادثہ پیش آیا اور میزائلوں بموں سمیت تمام اسلحہ گولہ بارود تباہ ہو گیا ۔

واضح رہے کہ پاکستان نے جنیوا معاہدے کے موقع پر یہ تجا یز دی تھیں کہ یہاں سے سوویت یونین کی فوجو ں کے انخلا کے بعد افغان قومی عبوری حکومت اقوام متحدہ کی نگرانی میں بنائی جائے یہ تجویز رد کی گئی تو یہ کہا گیا کہ افغانستان میں سوویت یونین کی فوجوں کی رخصتی کے فوراً بعد اقوام متحدہ کی امن فوج تعینات کی جائے مگر اس تجویز کو بھی تسلیم نہیں کیا گیا ۔

واضح رہے کہ41 سال پہلے او آئی سی کا اجلاس افغانستان میں سوویت یونین کی فوجی مداخلت کے مسئلے پر منعقد کیا گیا تھا اُس وقت ہی اقوام متحدہ میں پاکستان کی کوشش سے دس اسلامی ملکوں نے 5 جنوری1980 ء کو ایک قراردا منظور کی جس میں افغانستان میں سوویت فوجی مداخلت کی مذ مت کی گئی۔ پھر افغانستان سے سوویت فوجوںکی واپسی اور افغانستان کی مکمل آزادی کے لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک قرارداد منظور کی گئی جس کی حمایت میں 116 ممالک تھے اور مخالفت 23 ملکوں نے کی۔

بھاری اکثریت سے منظور ہونے والی اِس قرارداداور اِس کے بعد افغان مجاہدین کی طویل جدوجہد اور اقوام متحدہ میں بھاری اکثریت کی متواتر سپورٹ کے باوجود جنیوا معاہدے میں جاریت کرنے والا ملک سوویت یونین بھی فریق تھا اور اُس کی فوجی قوت سے قائم ہونے والی غیر قانونی، غیر جمہوری افغان حکومت کے وزیر خارجہ بھی برابری کی بنیاد پر جنیوا معاہد ے میں فریق تھے یعنی معاہد ے کی روح سے افغانستان کی روس نواز حکومت جائز تھی جس نے افغان مجاہدین کی مزاحمت پر لاکھوں افغان باشندوں کو قتل بھی کیا تھا۔

پھر صدر نجیب اللہ کی اسی غیر جمہوری غیرقا نونی حکومت کو اربوں ڈالر کا خطرناک اسلحہ دے کر سوویت یونین نے افغانستان سے اپنی فوجیں نکال لیں، صدر نجیب اللہ کی حکومت 30 ستمبر1987 ء سے 16 اپریل1992 ء تک قائم رہی اور اِس دوران جنگ میں مزید لاکھوں افغان جان بحق ہوئے اور پاکستان پر افغان مہاجرین کا بوجھ 35 لاکھ سے بڑھ کر 50 لاکھ ہو گیا جبکہ جنیوا معاہدے میں امریکہ، روس اور اقوام متحدہ نے افغانستان اور پاکستا ن میں کسی تیسرے ملک کی طرف سے مداخلت نہ کرنے کی ضمانت بھی دی تھی اور پاکستان سے افغان مہاجرین کی واپسی کی پالیسی اور شیڈول بھی طے کر دیا تھا ۔

پھرکیا یہ اتفاق تھا کہ جنیوا معاہدے کے ڈیڑھ ماہ بعد وزیراعظم جو نیجوکی حکومت29 مئی 1988 ء کو صدر جنرل ضیا الحق نے ختم کردی، پھر ایک مہینہ اٹھارہ دن بعد 17 اگست 1988 ء کو صدر ضیاالحق کے سی ون تھرٹی طیارے کو بہاولپور میں حادثہ پیش آیا اور وہ ملک کی اعلیٰ ترین فوجی قیادت امریکی سفیر اور جنرل سمیت دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ( جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں