کاروبار کا اصل طریقہ
تجارت ایک منافع بخش کاروبار ہے، جو لوگ پیسہ بچانا چاہتے ہیں وہ اپنی بچت عموماً تجارت میں لگاتے ہیں
DIJKOT:
دنیا میں کاروبارکے کچھ طریقے ہوتے ہیں اور کاروباری لوگ ان طریقوں پر چل کر تجارتی ترقی کرتے ہیں کاروبار میں آنے سے پہلے یہ رقم غیر کاروباری لوگوں کے قبضے میں ہوتی تھی جب کاروبار میں اس رقم کو لگایا گیا تو ایک کے چار ہوگئے، یہ ہے تجارت۔ اب چارکے آٹھ اور آٹھ کے سولہ ، یہ پہاڑا چلتا رہتا ہے۔
تجارت ایک منافع بخش کاروبار ہے، جو لوگ پیسہ بچانا چاہتے ہیں وہ اپنی بچت عموماً تجارت میں لگاتے ہیں۔ اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ تجارت میں لگائی گئی رقم ایک سے زیادہ حصہ داروں کی ہوتی ہے اور تجارتی اصولوں کے مطابق جمع رقم مختلف طریقوں سے آپس میں بانٹی جاتی ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ اصل رقم کس کے قبضے میں ہے۔ عام طور پر یہ رقم کسی فرد واحد کے قبضے میں ہوتی ہے ، یہی اس کا مالک ہوتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذکورہ رقم کسی ایک کی ملکیت کیوں ہو جاتی ہے ؟کاروبار میں پارٹنر شپ یعنی حصہ داری عام ہے لیکن بڑے سرمایہ داروں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ سارا سرمایہ کسی ایک کے ہاتھ میں ہو وہ اس کا مالک کہلائے۔
آنرشپ کی اس تبدیلی کے اگرچہ بڑے اہم اثرات ہوتے ہیں لیکن سب سے زیادہ اہم حصہ داری ہے دولت مند طبقہ اپنی پونجی کو اس کاروبار میں لگاتا ہے اور اس سے منافع کماتا ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ منافع کا مالک کون ہو؟ اگرچہ تجارت میں مختلف اصول کارفرما ہوتے ہیں لیکن جس شخص کے پاس کیپٹیل ہوتا ہے وہ عموماً مالک کہلاتا ہے اسی اصول پر چلتے ہوئے کاروبار کا بڑا رکن کاروبار کا مالک بن جاتا ہے۔
ہمارے کاروبار میں بڑا حصہ سب سے بڑے حصہ دار کا ہوتا ہے وہی آخر کار کاروبار کا مالک ہو جاتا ہے ہم جس کاروبار کا ذکر کر رہے ہیں اس میں سرمایہ شخص واحد کا ہوتا ہے اور وہی اس کا مالک ہوتا ہے اس مثال کو سامنے رکھ کر نئے کاروبار چلانے والے کاروبار شروع کرتے ہیں۔ اصل مسئلہ مذکورہ دولت پر قبضہ کرنے کا ہے حصہ داری میں کام کرنے والے آہستہ آہستہ ملکیت پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
عموماً یہ حصہ داریاں مالکان کے حق پر ختم ہو جاتی ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام اگرچہ مالکانہ حقوق عموماً کسی فرد واحد کے پاس نہیں ہوتے لیکن آہستہ آہستہ طاقت ور حصہ دارکاروبار پر قبضہ کرلیتا ہے۔ یہی حال اس کاروبار کا ہے جس میں حصہ دار آہستہ آہستہ مالک بن جاتا ہے۔
ہر چلتے ہوئے کاروبارکے حصہ دار ایک دن مالک بن جاتے ہیں، اب آئیے اصل حصہ کی طرف۔ بے ایمانی سرمایہ دارانہ نظام کی ضرورت ہے اور قدم قدم پر اس کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایک بے ایمانی آپشنل ہوتی ہے دوسری غیر آپشنل۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایک کارخانے میں دو سو آدمی کام کرتے ہیں اور دو سو آدمیوں کو چلانے کے لیے 30 آدمی کام کرتے ہیں اور یہ فیکٹری کا سارا انتظام چلاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ افراد فیکٹری کے مالک ہوتے ہیں؟ ایسا نہیں ہے۔
مالک ان آدمیوں کو ملازم ہی رکھتا ہے اور ان سے کام بھی ملازمت ہی کا لیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مالک ان آدمیوں کو خاص آدمی ظاہر کرتا ہے۔ یعنی یہ 30 آدمی اس کے خاص آدمی ہوتے ہیں۔ مالک ان کی بات سنتا ہے اور ان پر عمل کرتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی بات یہ ہے کہ وہ نہ کسی کا رشتہ دار ہوتا ہے نہ کسی کا دوست۔ اسے صرف پیسے سے دلچسپی ہوتی ہے۔
اس کا دوست اس کا پیسہ ہوتا ہے اور پیسے کی دوستی ہی میں ٹھیکیدار مزدوروں کی تنخواہ بڑھاتا اور گھٹاتا رہتا ہے مزدور ہر حال میں مزدور ہوتا ہے اس کا کام صرف مزدوری ہوتا ہے اگر وہ کسی کو اوپر چڑھاتا ہے تو اس کا مطلب اس کی موجودگی سے فائدہ اٹھانا ہوتا ہے جب تک یہ پہلو سامنے نہ رہے کسی کی ایمانداری اور بے ایمانی کو جاننا مشکل ہے۔
بعض مزدور مالکان کے خاص آدمی ہوتے ہیں اور مالک سب سے زیادہ انھی کی سنتا ہے اس لیے جو خصوصی مزدور ہوتے ہیں وہ کسی کی پرواہ نہیں کرتے۔ ہر فیکٹری میں ایسے کچھ مزدور ہوتے ہیں جو ہر اچھے اور برے وقت میں مالک کے کام آتے ہیں۔ انھیں فیکٹری کے عام ورکرز (چمچہ) کہتے ہیں ، بلاشبہ ان کی تنخواہ زیادہ ہوتی ہے اور مراعات بھی زیادہ ہوتی ہیں لیکن لوگ انھیں ''چمچے'' کے لقب سے پکارتے ہیں۔