ریاست مدینہ کے مقدس حوالہ کی توہین مت کیجئے
کچھ حوالے اور باتیں بہت مقدس ہوتی ہیں اور ہم اُن کا حوالہ ایسے ہی منہ اُٹھا کر نہیں دیتے۔ بلکہ بہت سوچ سمجھ کر اور ادب و آداب کے ساتھ بات کی جاتی ہے۔ ایسے ہی مکہ اور مدینہ ایسے دو حوالے ہیں جن کا ذکر اگر کسی شقی القلب مسلمان کے سامنے بھی کیا جائے تو وہ ایک سیکنڈ کو اپنا اُٹھا ہوا ہاتھ لازمی روکے گا۔ یہ ادب کا تقاضا ہے، یہ احترام کا تقاضا ہے۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان نے حالیہ جلسے میں پھر سے اپنی ناکامی کو ریاست مدینہ کے کور میں چھپانے کی کوشش کی ہے۔ ہم نے پہلے بھی ایک تحریر میں وزیراعظم سے عرض کیا تھی کہ آپ ریاست مدینہ کے حوالے مت دیا کیجئے۔ ہم آج بھی یہی عرض کرتے ہیں کہ ہم آپ کی مسلمانیت کو جج نہیں کر رہے، لیکن آپ ریاست مدینہ کے حوالے مت دیجئے۔ کیوں؟
کیونکہ وزیراعظم ابھی تک اُس عینک سے دیکھ رہے ہیں، جس عینک سے انہیں دکھایا جارہا ہے اور میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ وزیراعظم کو علم نہیں کہ نچلی سطح یا گلی محلے کے عوام کی کیا حالت ہوچکی ہے۔ احتساب اور آئی ایم ایف یہ دونوں اس حکومت کے تابوت کے بنیادی تختے ہیں، جس میں بیڈ گورننس، کرپشن اور غیر سنجیدگی سمیت دیگر معاملات کی کئی کیلیں لگی ہوئی ہیں اور آپ ہیں کہ ریاست مدینہ کے حوالے دے رہے ہیں۔ یہاں کوئی بلنڈر ہوتا ہے، کوئی فیلیئر ہوتا ہے تو آپ ریاست مدینہ کے مقدس نام کے پیچھے چھپ کر بیٹھ جاتے ہیں۔
جتنی مرتبہ آپ نے ریاست مدینہ کا غلط حوالہ دیا ہے، میرا یقین کامل ہے کہ آپ کا تاریخ کا اتالیق کوئی قابل انسان نہیں تھا، وگرنہ نہ تو آپ کے ہاتھوں جرمنی اور جاپان کی سرحدیں ملتیں اور نہ ہی آپ کے ہاتھوں سے ریاست مدینہ کا مقدس حوالہ یوں بدنام ہوتا۔ سیرت کی سیکڑوں کتب میں جو ریاست مدینہ ہم نے پڑھی، وہ اس سے تو بالکل ہی الگ تھی۔ کہاں ریاست مدینہ جس کو بنانے میں اللہ کی مکمل مدد شامل تھی اور جو دنیا کی تاریخ کا سب سے کامیاب ماڈل ہے اور رہتی دنیا تک کا سب سے کامیاب ماڈل ہی ہوگی، حتیٰ کہ حضرت عیسیٰ کی قیادت میں جو ریاست بنے گی، وہ بھی ریاست مدینہ سے بہت کم درجہ کی ہوگی اور کہاں آپ کی قیادت میں زوال پذیر پاکستان کہ جس کو بنانے کےلیے آر ٹی ایس سسٹم بٹھایا گیا، ریاستی وسائل کا بے دریغ استعمال ہوا اور پھر بھی آپ سارے ہی اہم میدانوں میں بالکل ناکام ہیں۔
آپ کی زیر قیادت ریاست کی سیاست میں منافقت گندھی ہوئی ہے۔ اس میں بلیک میلنگ بھی ہے اور تکبر و رعونت کا کمال امتزاج بھی ہے۔ کیا یہ ریاست مدینہ میں تھا؟ آپ کی قائم کردہ ریاست میں کرپشن ٹھیک ٹھاک ترقی کر رہی ہے۔ آپ کے دائیں بائیں کرپٹ افراد کا غول ہے اور یہ میں نہیں بلکہ عالمی ادارے کہہ رہے ہیں تو کیا نبیؐ کی قائم کردہ ریاست میں بھی کرپشن تھی؟ آپ اسلامی حوالے دیتے ہیں اور آپ کے حواری بعین ہی اس کے برعکس کرتے ہیں۔ ریاست مدینہ میں اللہ کے نبیؐ نے اپنے دشمنوں سے معاہدے کیے اور اطراف میں امن قائم کرکے ٹارگٹ کو فوکس کیا تھا۔ یہ اپوزیشن آپ کی دشمن تو نہیں تھی لیکن آپ نے اس سے کمال دشمنی نبھائی۔ آپ نے اپوزیشن کی منفی برینڈنگ کی، اس کو جیلوں میں ڈالا اور جب احتساب کے نام پر کچھ نہ نکلا تو عدالتوں نے اُن سب کو رہا کیا، جب کہ آپ کی آج بھی کچھ اور ہی خواہش ہے۔
جو ریاست مدینہ ہم نے پڑھی ہے، وہ کم از کم ایسی ہرگز نہیں تھی۔ کیا ریاست مدینہ کی قومی معیشت سود پر مشتمل تھی؟ اس سے کون انکار کرسکتا ہے کہ پاکستان کی قومی معیشت میں سود شامل ہے جسے اسٹیٹ بینک آف پاکستان وصول کرتا ہے۔ تو کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ کی ریاست مدینہ روزانہ اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ کرتی ہے؟ خدا کا خوف کیجئے خان صاحب، ادب کے بھی تقاضے ہوتے ہیں، آپ تو کفن ہی پھاڑ گئے ہیں۔
موجودہ ریاست پاکستان دنیا بھر میں رائج انسانی پیمانوں پر سوالیہ نشان بنی کھڑی ہے اور آپ اس کو ریاست مدینہ کہہ رہے ہیں؟ کس کتاب میں پڑھا ہو کہ ریاست مدینہ میں رسول اللہؐ یا آپؐ کے اصحاب نے ہواؤں کے بدلتے رُخ کو محسوس کرتے ہوئے قومی سطح پر ایسی دھمکیاں دی ہوں، وہاں تو صلح حدیبیہ کی مثالیں ہیں۔ ہم بھی بچے نہیں ہیں کہ یہ سمجھ لیں کہ یہ دھمکی اپوزیشن کو لگائی گئی تھی اور نہ ہی وہ کوئی بچے ہیں کہ جنہیں آپ نے دھمکی لگائی۔ وہ بھی استادوں کے استاد ہیں لیکن سو باتوں کی ایک بات، موجودہ ریاست جس کے آپ حکمران ہیں، اس میں ایک بھی ایسا کام نہیں ہو رہا ہے جہاں اس ریاست کو ریاست مدینہ کی جھلک کہا جا سکے۔ کم از کم ہماری نظروں نے سیرت کی کسی کتاب سے ایسا کچھ بھی پڑھ کر ذہن میں محفوظ نہیں کیا ہے۔
اب یہاں دو باتیں ہیں لیکن میں دوسری بات کی جانب آتا ہوں کہ آپ جذباتی ہوجاتے ہیں اور ریاست مدینہ کے کور میں اپنی ناکامیاں چھپاتے ہیں۔ ایسا مت کیجئے وگرنہ حکیم سعیدؒ اور ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے دہائیوں قبل آپ پر جن خدشات کا اظہار کیا تھا اور جس کا اظہار آج بھی کئی مدبر کر رہے ہیں، ہمارے پاس انہیں تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا۔
ریاست مدینہ ایک انتہائی مقدس حوالہ ہے، اس کی توہین مت کیجئے۔ کوئی مولانا طارق جمیل کو کہے کہ وقت نکال کر خان صاحب کو اصل ریاست مدینہ کے حوالے سے بیان فرما دیں، شاید وہ ان کی مان لیں اور اس مقدس نام کی توہین سے رُک جائیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔