سینیٹ میں حکومت کی جیت

پارلیمنٹ کے ایوان بالا سینیٹ میں اکثریت کے باوجود اپوزیشن کو ایک بار پھر شکست کا سامنا کرنا پڑا


Editorial January 30, 2022
پارلیمنٹ کے ایوان بالا سینیٹ میں اکثریت کے باوجود اپوزیشن کو ایک بار پھر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ فوٹو: فائل

پارلیمنٹ کے ایوان بالا سینیٹ میں اکثریت کے باوجود اپوزیشن کو ایک بار پھر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ در حقیقت یہ سیاسی اپوزیشن کو تمام تر جمہوری ظاہر داری، عوامی حق حاکمیت کی دعوے داری اور اصولوں کی خاطر ستون دار پر چلے جانے کے زعم کے باوجود یہ ایوان میں ہونے والی چوتھی شکست تھی، جو بڑے نامور جمہوریت پسندوں اور عوام کے بنیادی حقوق کے معتبر چیمپئنوں کو عوام کی حمایت اور جمہوریت سے کمٹمنٹ کے بظاہر کام میں ہوئی، کیونکہ یہ لوگ کسی نہ کسی حوالے سے عوام کو جمہوری حقوق دلانے کے دعوے کرتے تھے اور حکومت کو ستم شعاری کے طعنے دیتے تھے، مگر کیسے سین سے غائب ہوئے جب کہ میدان سج چکا تھا۔

ایسے میں جو ارکان بل کی منظوری کے لیے بے تاب تھے، انھیں ملکی سیاست کے ایک اہم مسئلہ پر فیصلہ کن جیت کا واضح امکان بھی نظر آ رہا تھا اور وہ اچانک کیوں کھسک گئے، یہ سب کو معلوم تھا کہ تھوڑی دیر بعد ''ڈانسز ود دا وولوز'' Dancess with the wolves شروع ہونے والا ہے، یہ ٹین بلین ڈالر سوال ہے، حالانکہ عوامی فکر رکھنے والے سیاست دانوں کے بقول وہ سب عشاقان جمہوریت ''جمع غائب'' ایک طے شدہ منصوبہ کے ساتھ ہوا تھا، اسے اجتماعی روسیاہی کہیے جو جمہوریت کے چہرے پر ملی گئی، اسے سیاسی مبصرین نے ملکی سیاست کے وسیع تر سیاسی اور اخلاقی تناظر میں دغا بازی، مکاری کے مشترکہ ''یو ٹو بروٹس'' کے حوالہ سے یاد کیا۔

واضح رہے بروٹس ایک حقیقی مشہور سیاسی و تاریخی کردار تھا، جو سیزر کا وفادار تھا لیکن بالآخر سیاسی عیاری اور دغا بازی نے اسے بھی شہنشاہ روم کے مقابل ایک قاتل کے طور پر پیش کیا، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، سینیٹ کے اس اجلاس کو بھی ایک طویل المیہ رزمیے کے طور پر باقی رکھنے کی قسم کھائی جائے تو غلط نہ ہوگا، جن جمہوریت پسندوں نے بل کی منظور کے دوران عملی طور پر جو ڈرامہ بازی کی اس سے اپوزیشن مزید بے حوصلہ اور بے نقاب ہوئی ہے، جن سیاسی کرداروں نے عین وقت پر غائب رہ کر حکومت کا ساتھ دیا، ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے ، ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔

اس بار بھی جمہوریت کے نام نہاد چیمپیئنز نے ماضی کو تبدیل نہیں کیا۔ یوں حکومت اسٹیٹ بینک خودمختاری ( ترمیمی) بل منظور کرانے میں کامیاب ہوگئی۔ اہم قانون سازی کے موقع پر سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر یوسف رضا گیلانی سمیت اپوزیشن کے 9 اراکین غیر حاضر رہے۔ اس وقت سینیٹ کے کل اراکین کی تعداد 99 ہے لیکن اس اہم ترین سیشن کے موقع پر ایوان میں 86 ارکان موجود تھے۔ سینیٹ میں حکومتی اراکین کی تعداد 42 جب کہ دلاور خان گروپ کے 6 ارکان سمیت اپوزیشن اراکین کی تعداد 57 ہے۔

میڈیا کا بیان کردہ منظر نامہ یہ تھا کہ اسٹیٹ بینک ترمیمی بل 2022 کی منظوری کے موقع پر اپوزیشن لیڈر یوسف رضا گیلانی ایوان میں نہیں آئے، (ن) لیگ کے ارکان مشاہد حسین سید، نزہت صادق بھی غیر حاضر رہے، مشاہد حسین سید کو کورونا ہوگیا اور نزہت صادق کینیڈا میں ہیں۔ تحریک پیش ہونے کے بعد اے این پی کے سینیٹر عمر فاروق کاسی ایوان سے چلے گئے، انھوں نے بل کی منظوری میں حصہ نہیں لیا، پیپلزپارٹی کے سینیٹر سکندر مندھرو امریکا میں زیر علاج ہیں، بی این پی مینگل کے سینیٹر قاسم رونجھو اور سینیٹر نسیمہ احسان شاہ بھی اجلاس میں شریک نہ ہوئیں۔

پی کے میپ کے سینیٹر سردار شفیق ترین بھی ایوان نہ آئے اور جے یو آئی کے طلحہ محمود بھی ایوان سے غیر حاضر رہے۔ حکومتی اتحادی ایم کیو ایم کے فیصل سبزواری اور خالدہ اطیب بھی اجلاس میں موجود نہیں تھے۔ دوسری طرف حکومتی رکن سینٹر زرقا وہیل چیئر پر ایوان میں پہنچیں، آکیسجن کے سلنڈرز اور ڈاکٹرز کی ٹیم ان کے ہمراہ تھی، ڈاکٹر زرقا وہیل چیئر پر ایوان میں بیٹھی رہیں، ایوان میں اراکین ڈاکٹر زرقا کے پاس آکر ان کی صحت کے بارے دریافت کرتے رہے، قبل ازیں جب اجلاس شروع ہوا تو ایوان میں حکومتی ارکان کی تعداد کم تھی۔

حکومت بل پیش کرنے کے لیے مزید وقت کی متلاشی نظر آئی، چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ بل ایجنڈے میں شامل ہے لیکن حکومت پیش نہیں کر رہی، بل پیش کرنے کی اتنی جلدی تھی ابھی کوئی بات نہیں کر رہا، چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ صدر کی تقریر پر یا نکتہ اعتراض پر بات کرلیں لیکن اپوزیشن نے نعرے بازی جاری رکھی جس پر چیئرمین نے اجلاس میں 30 منٹ کا وقفہ کر دیا۔ وقفے کے بعد اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو سینیٹر عبدالغفور حیدری جذباتی ہوگئے اور اسٹیٹ بینک ترمیمی بل پیش نہ ہونے پر احتجاجاً پاس شدہ میٹرولوجی بل کی کاپی پھاڑ ڈالی، سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ وزیر خزانہ یہاں موجود تھے اب کہاں چلے گئے، ہم انتظار میں بیٹھے ہیں، یہ اس ہاؤس کی توہین ہے، سینیٹر شیری رحمن نے کہا کہ پارلیمان کا کیا تماشہ بنا دیا گیا ہے، چیئرمین آج کا بزنس ختم کریں، یہ پاکستان کی قومی سلامتی، ڈیفنس بجٹ سب کچھ گروی رکھ رہے ہیں، ان کا انحصار قرضوں پر ہوگیا ہے، اسوقت تم لوگوں کو مستعفی ہو جانا چاہیے۔

عبدالغفور حیدری نے کہا کہ حکومت اعتراف کرے کہ حکومت شکست کھا چکی ہے، فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اس ایوان کا تقدس پامال نہ کریں، میں نے اپنی پوری زندگی میں ایسا ہوتے نہیں دیکھا، اگر وزیر نہیں تو ایجنڈے کو ملتوی کر دیں اور ایک ماہ تک اس بل کو ایجنڈے پر نہ لائیں، آپ نے اس ہاؤس کو مذاق بنا لیا ہے۔ قائد ایوان سینیٹ ڈاکٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ اجلاس کو کیسے ملتوی کریں ایجنڈے پر بل موجود ہے، یہ پارلیمان کا خود مذاق بنا رہے ہیں۔

اس موقع پر سینیٹر فیصل جاوید اور بہرہ مند تنگی میں سخت جملوں کا تبادلہ ہوا، اسی دوران وزیر خزانہ شوکت ترین ایوان میں پہنچے اور اسٹیٹ بینک ترمیمی بل 2022 سینیٹ میں پیش کر دیا جس پر اپوزیشن نے شور شرابا کیا، آئی ایم ایف کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے کے نعرے لگائے اور چیئرمین سینیٹ کے ڈائس کا گھیراو ٔکر لیا، اپوزیشن کے شور شرابے میں بل کی منظوری کا عمل جاری رہا، اسٹیٹ بینک ترمیمی بل پر دوبارہ ووٹنگ کا عمل شروع ہوا تو بل کی مخالفت میں 42 اور حق میں 43 ووٹ پڑے۔

دریں اثنا سینیٹ نے گزشتہ روز اتفاق رائے سے نیشنل میٹرالوجی انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان بل 2022 کی بھی منظوری دیدی۔ اس جمہوری تماشے میں وہ سب ہوا جو کسی حوالہ سے ایک جمہوری کلچر، میں نہیں ہونا چاہیے، اہل سیاست کو پتا ہے کہ جمہوریت کے لیے دنیا بھر میں اراکین اسمبلی نے بیش بہا قربانیاں دی ہیں، ترقی یافتہ اور مہذب قوموں نے جمہوریت کسی پلیٹ میں حاصل نہیں کی، ان کی سیاسی قیادت، اہل علم اور سول سوسائٹی نے اپنے آدرش اور عوام کے لیے بے پناہ مصائب، دار و رسن اور قید و بند کی صعوبتیں سہی ہیں، جانوں کی قربانیاں دیں، سول سوسائٹی نے سماجی جدوجہد کے ذریعے حکومت کے خلاف زبردست انقلابی مہمیں چلائیں، کوڑے کھائے، پھانسی پائی، خواتین، طالبعلموں، صحافیوں، شاعروں نے جلوس نکالے، لیکن پاکستان میں جمہوریت جمہوریت کھیلنے والوں نے بھی آمروں کو ہیرو مانا ہے۔ ایک مشہور شعر ہے:

سب نے ملائے ہاتھ یہاں تیرگی کے ساتھ
کتنا بڑا مذاق ہوا روشنی کے ساتھ

اور ستم ظریفی یہ ہوئی کہ ایسا بار بار ہوتا رہا، حاصل بزنجو کے ساتھ بھی اپوزیشن کے جمہوریت پسندوں نے بائیاں دکھا کر دائیں کا کھیل کھلا، لیکن سب کی زبان پر ملک دوستی و بالادستی، جمہوریت اور قانون سازی کے دعوے تھے اور جب بھی ملک کو جمہوریت کے لیے قربانی کی ضرورت پڑی، تالاب میں موجود ایک نہیں کئی گندی مچھلیاں جمہوری کے تالاب کو آلودہ کرگئیں۔اب ضرورت اس بات کی ہے کہ مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کی قیادت اپنے ناک کے نیچے ہونے والے مفاد پرستی کے کھیل کو روکنے کی کوشش کرے ۔

اجلاس کے بعد پیپلزپارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن اور مسلم لیگ (ن) کے اعظم نذیر تارڑ نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا آج ایک ارب ڈالر کے لیے قوم کی خودمختاری نیلام کردی گئی۔ انھوں نے سینیٹ میں حکومت پر دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ سینیٹ اجلاس دو بار ملتوی ہوا، کورونا کا شکار حکومتی ارکان کو آکسیجن لگا کے لایا گیا۔ شیری رحمان کا کہنا تھا کہ مشترکہ اپوزیشن اس بل کی حامی نہیں، جس کی بھی حکومت آئے گی اس بل کو مسترد کرے گی۔ سینٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ووٹ برابر ہونے کے باوجود حکومت نے بل کو پاس کیا۔

اس حکومت کے دن گنے چکے ہیں۔ بل کی منظوری پر وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات فواد چوہدری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا وہ یوسف رضا گیلانی کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انھوں نے بل کی منظوری میں ساتھ دیا۔ اپوزیشن کا کچھ پتہ نہیں، یہ ایک دن کچھ ہوتی ہے اور دوسرے دن کچھ، اس بات کی فکر ہے کہ آپس میں لڑ کر ایک دوسرے کے کپڑے نہ پھاڑ لیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اجلاس سے ارکان کا غائب ہوجانا حکومت کی سپورٹ تھا۔ بیانات پر جایا جائے تو حکومت اور اپوزیشن اپنا اپنا سچ بول رہے ہیں لیکن عمل کی تصویر کی کہانی کچھ اور بیان کررہی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں