مجموعہ غزلیات ’’غبارِ گریہ‘‘

کھرے اور سچے لہجے کے شاعر ڈاکٹر شاداب احسانی کا کلام اہل بصیرت اور اہل سخن کے لیے تازہ گلابوں سے کم نہیں

nasim.anjum27@gmail.com

لاہور:
ڈاکٹر شاداب احسانی کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ وہ باکمال شاعر اور ادب دوست شخصیت کے طور پر علم و ادب کے منظر نامے پر مانند آفتاب چمک رہے ہیں۔ انھوں نے کم عمری سے ہی اپنے والد محترم کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب آٹھ سال کی عمر کو پہنچے تو شطرنج کھیلنے کی طرف مائل ہوئے اور دسواں برس شاعری کا ٹھہرا۔ پہلے مشاعرے کا پہلا شعر:

مجھے تیری صورت نظر آ رہی ہے
کہ جس سمت میری نظر جا رہی ہے

اس شعر میں ''کہ'' کا اضافہ علامہ بیتاب نظیری نے کیا یوں دوسرا مصرع وزن میں آیا، اسی دوران ''شاداب'' کا تخلص رکھا گیا جس میں بیتاب نظیری کی معاونت اور ''شاداب'' کا بیتاب سے بااعتبار قافیہ تعلق ہونے کے سبب اچھا لگا۔ ڈاکٹر شاداب احسانی نے اپنے مضمون ''ارتعاش'' میں اپنے بارے میں بہت سی معلومات اپنے قارئین کو بہم پہنچائی ہیں۔

ڈاکٹر صاحب کے بچپن کے دوستوں میں اختر سعیدی، عزم بہزاد اس طرح تینوں کا معاملہ مثلث جیسا رہا۔ ڈاکٹر شاداب احسانی کی زندگی جہد مسلسل سے آراستہ رہی ہے اسی دوران ان کا قابل قدر ایسی شخصیت سے رابطہ ہوا جو ان کے لیے ادبی معاون و مددگار ثابت ہوئیں اور بہترین مشوروں سے نوازا۔ انھی میں سلیم احمد، احمد علی سید، احمد ہمدانی، محب عارفی، 1986 میں ڈاکٹر شاداب احسانی نے اپنی شاعری سے 100 اشعار کا انتخاب کیا اور پاکستان و ہندوستان کے جید حضرات کو بھجوا دیا اور یہ بھی لکھ دیا کہ اگر شاعری تقاضا کرے تو جواب دیجیے ورنہ۔۔۔۔

اسی کاوش کے نتیجے میں ڈاکٹر وزیر آغا نے دو نام تجویز کیے ''پس گرداب'' اور ''غبارِ گریہ''۔ اس طرح 1987 میں پہلا شعری مجموعہ ''پسِ گرداب'' شایع ہوا۔ اس طرح تعلیمی سلسلہ بھی جاری رہا اور ملازمت کا حصول بھی ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد آسان ہو گیا اور مشغلہ سخن بھی آگے بڑھتا رہا۔

وہ کون ہے جو مجھ چھپا بیٹھا ہے کہیں
یہ کیسا ارتعاش ہے آواز کے بغیر

''غبارِ گریہ'' پر ڈاکٹر محمد عظیم اقبال، حسین محی الدین (روزنامہ ڈان)، ڈاکٹر فہیم شناس کاظمی کی آرا درج ہیں۔ ڈاکٹر ذکیہ رانی کا مضمون بعنوان ''غبارِ گریہ'' شامل کتاب ہے۔ اس کتاب کی آمد بھی ڈاکٹر فہیم شناس کاظمی اور ڈاکٹر ذکیہ رانی کی عقیدت و خلوص کا پیش خیمہ ہے۔ اس بات کا اعتراف ڈاکٹر شاداب نے خود کیا ہے۔ ''پسِ گرداب'' کے تینتیس برس بعد ذکیہ اور فہیم کی سرزنش سے ''غبارِ گریہ'' کی اشاعت ممکن ہو رہی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کتاب کا انتساب ڈاکٹر وزیر آغا کے نام لکھا ہے۔ گویا نسل در نسل عقیدتوں اور محبت کا سفر جاری رہتا ہے، اور یہ اعلیٰ ظرفی ہی تو ہوتی ہے کہ اپنے محسنوں اور محبی و مربی کو یاد رکھا جائے۔

ڈاکٹر فہیم شناس کاظمی نے ڈاکٹر شاداب احسانی کی شاعری کی پرتیں اس طرح کھولی ہیں کہ ''شاداب احسانی اپنی تاریخ و تہذیب اپنی دھرتی اور ثقافت، اپنے خواب اور خوشبو کے ساتھ شعر کہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے لہجے میں ان کی اپنی آواز پوری قدرت کے ساتھ موجود ہے جو اردو شاعری اور فکرانسانی کے تعلق کی نمایندہ ہے وہ ذاتی اور اجتماعی کیفیتوں، المناکیوں، داستانوں، حکایتوں اور اپنی تہذیب و تاریخ کے ورثے کے امانت دار صاحب اسلوب شاعر ہیں۔ دلاور فگار نے ایک شعر میں ان کی فکر کو یوں بیان کیا ہے کہ:

''غزل کی طرز، جذبہ کی صداقت، فکر کی وسعت
یہی عنصر جو مل جائیں تو ہیں شاداب احسانی''

مذکورہ شعری مجموعہ 272 صفحات کا احاطہ کرتا ہے۔ شاداب احسانی نے اپنی شاعری میں اپنی دلی کیفیات کا تذکرہ موثر انداز میں کیا ہے اعلیٰ فکر اور اچھوتے خیال سے ان کی شاعری رچ بس گئی ہے، معنی آفرینی کا رنگ قاری کے قلب پر اپنا رنگ ندرت ادا کے ساتھ اس طرح جماتا ہے کہ پڑھنے والے کے دل پر بے اختیار واہ کی صدا ابھرتی ہے۔ یہ غزل ملاحظہ فرمائیے:

معلوم نہیں کون کہاں جاگ رہا ہے
میں جاگ رہا ہوں تو جہاں جاگ رہا ہے

محسوس یوں ہوتا ہے مجھے نیند میں اکثر
اب مجھ میں کوئی اور جہاں جاگ رہا ہے

یہ جو شب تاریک ہے تاریک نہیں ہے
مفلس کے چراغوں کا دھواں جاگ رہا ہے


سولی پر مجھے نیند تو آجائے گی لیکن
کاندھوں پہ مرے بارِ گراں جاگ رہا ہے

اس غزل کا ہر شعر ایک فکر انگیز کہانی کا ترجمان ہے ڈاکٹر صاحب کی شاعری علم و آگہی اور احساس درد کی شاعری ہے وہ معاشرتی کرب کو شدت سے محسوس کرتے ہیں، غربت سے پیدا ہونیوالے دکھوں نے انھیں بے چینی بخشی ہے۔ اپنوں کے استحصال، اقربا پروری، نفرت و تعصب کے دور تک پھیلے اندھیروں میں اجالا پھیلانے کی یہ ان کی خوب صورت کاوش ہے جو شاعری کی شکل میں صفحہ قرطاس پر مانند نگینوں کے بکھر گئی ہے۔

اب کے جو دیا جلاؤں گا میں
آندھی سے اسے بچاؤں گا میں

کمزور ہوں ناتواں ہوں لیکن
یہ بارِ گراں اٹھاؤں گا لیکن

سردی سے ٹھٹھر رہے ہیں بچے
اس بار کپاس اگاؤں گا میں

واہ! کس قدر خوبصورت شعر ہے۔ اپنی کمزوری و ناتوانی کے باوجود ارادہ پختہ ہے۔ بے شک معیشت کو بڑھانے اور افلاس کو دور کرنے کے لیے زراعت اور صنعتوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جب ہی موسموں کی سنگینیوں سے کمزور و ناتواں شخص مقابلہ کر سکتا ہے تو غربت خوشحالی کا چولا پہن سکتی ہے۔ ان کے کلام میں موسیقیت کی مدھم لے رقص کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔

کوئی سوال کرے تو جواب میں رکھنا
زمین سے پھول اٹھا کر کتاب میں رکھنا

نئے دنوں کی پرانی کہانیوں کو تم
جو ہو سکے دل خانہ خراب میں رکھنا

فراق و ہجر ضروری ہیں زندگی کے لیے
یہ جان لو تو قدم پھر شباب میں رکھنا

ڈاکٹر صاحب نے جہاں اپنی تہذیب و معاشرت کی عکاسی کی ہے، وہیں ان لوگوں پر گہرا طنز بھی کیا ہے جنھیں صداقت و دیانت پر یقین ذرا کم ہی ہے۔ اسی لیے اپنی عادات رذیلہ کے باعث ہر چیز بنا محنت کے مفت میں حاصل کرنے کے خواہاں ہیں۔ غزل کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیے۔

ہم بھی اتنا دماغ رکھتے ہیں
رہگزر میں چراغ رکھتے ہیں

کھرے اور سچے لہجے کے شاعر ڈاکٹر شاداب احسانی کا کلام اہل بصیرت اور اہل سخن کے لیے تازہ گلابوں سے کم نہیں جس کی مہک نے گلستان سخن کو معطر کردیا ہے۔ دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتی ہوں۔
Load Next Story