پاکستان میں انسانوں کی قبریں زیادہ یا سوالوں کی
کیا آپ اسی طرح اندھے کنویں میں اپنے سوالات کے ساتھ اپنی بقیہ زندگی بھی گذار نا چاہتے ہیں
لاہور:
برٹرینڈ رسل ، جب وہ چھوٹا تھا تو ایک دن اس نے سوچا جب وہ خاطر خواہ بڑا ہوجائے گا تو وہ تمام فلسفہ جان لے گا ، اس کو ہر سوال کے جواب مل جائیں گے پھر جب وہ اسی سال کا ہوگیا تو اس نے خود سے کہا '' میرے اپنے سوالات ابھی تک جوں کے توں میر ے سامنے کھڑے ہوئے ہیں ، عین اسی طرح جیسے وہ بچپن میں میرے سامنے تھے، فلسفے کی ان ہی گتھیوں کی وجہ سے نئے سوالات پیدا ہی نہیں ہو پائے۔''
وہ کہتا ہے ''جب میں چھوٹا تھا تو کہتا تھا کہ فلسفہ تمام سوالوں کے حتمی جوابات حاصل کرنے کا واحد ذریعہ ہے لیکن اب میں یہ بات نہیں کہہ سکتا بلکہ نہ ختم ہونے والے سوالوں کے سلسلے کا نام فلسفہ ہے۔''
یہ تو ہوئی رسل کی اپنی سچائی جب کہ ہماری سچائی یہ ہے کہ نہ ختم ہونے والے سوالوں کے سلسلے کا نام پاکستان ہے ، جہاں روز ان گنت سوالات ہمارے اندر پیدا ہوتے ہیں جنھیں ہم روز زندہ درگور دفن کردیتے ہیں ، گزشتہ روز اتنے ہی اور سوال پیدا ہوجاتے ہیں اور ہم ان کے ساتھ بھی وہ ہی حشر کرتے ہیں جو ہم نے کل والے سوالوں کے ساتھ کیا تھا۔ یہ سلسلہ ہمارے ساتھ گزشتہ چوہتر سالوں سے اسی طرح سے جاری ہے ، ہم اس دن سے ڈرتے ہیں کہ اگرکبھی وہ سب سوالات جنھیں ہم روز زندہ دفناتے آرہے ہیں اگر وہ کسی روز ایک ساتھ دوبارہ جی اٹھے تو پھر اس روزکیا ہوگا۔
یاد رہے پاکستان میں انسانوں کی اتنی قبریں نہیں ہیں جتنی کہ سوالوں کی ہیں۔ پاکستان اس وقت دنیا کاسب سے بڑا سوالوں کا قبرستان بن کے رہ گیا ہے یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ قبروں میں دفن سوالات بھی اتنے ہی بے چین ہیں جتنے کہ پاکستان میں جیتے جاگتے انسان ہیں مجھے لگتا ہے کہ وہ دن اب قریب ہے جب سارے سوالات قبریں پھاڑ کر باہر آجائیں گے اور وہ سارے مضبوط ، طاقتور اور بااختیار ایوانوں ، ہاؤسز ، محلات میں گھس جائیں گے اور پھر ان میں موجود کوئی بھی شخص ان سے محفوظ نہیں رہے گا۔
یہ بات تو طے ہوگئی ہے کہ ہم سب سوچتے ہیں کیونکہ سوالات سو چ سے جنم لیتے ہیں جیسی سوچ ہوگی ویسے ہی سوالات ہونگے اس لیے کہ انسان صرف وہ ہی کچھ ہے جو وہ سارا دن سو چتا ہے سوالات کی نوعیت کا سارا دارومدار سوچ پر ہے اور انسان کی سوچ کا سارا تعلق اس کے ساتھ ہونے والے سلوک پر ہے اگر آپ کے ساتھ اچھا سلوک روا رکھا جا رہا ہے تو آپ کے سوالات کی نوعیت خوشگوار، تمیز دار اور تہذیب دار ہوگی اور اگر آپ کے ساتھ بدسلوکی ہورہی ہے تو پھر آپ کے سوالات بد تمیز اور بد تہذیب ہونگے ایک انسان چاہے وہ فقیر ہو یا بادشاہ اپنی خواہشات کے تابع ہوتا ہے اس کی خواہشات اس کی ذات سے لے کر سماج تک پھیلی ہوئی ہوتی ہیں۔
انسان صرف چند ہی قدرتی خواہشات لے کر پیدا ہوتا ہے باقی کی سب خواہشات اس کے اردگرد کے ماحول سے اس میں پیدا ہوتی ہیں ، پھر جیسے جیسے اس کی عمر اور اس کی عقل و شعور میں اضافہ ہوتا رہتا ہے ساتھ ہی ساتھ اس کی خواہشوں میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے یہ عمل اس کی آخری سانس تک اسی طرح سے آگے بڑھتا رہتا ہے۔
ہر انسان اپنے لیے ہمیشہ ہی سے ایک محفوظ ، بہتر ، پر سکون، خوشحال ، آزاد زندگی کا خواہش مند رہا ہے۔ اس کی ان خواہشات کی تکمیل کا سارے کا سار ا تعلق اس کے سماج سے ہوتا ہے پاکستان بنانے کا یہ ہی اولین مقصد تھا کہ لوگ اپنے لیے ایک محفوظ، پرسکون، آزاد ، خوشحال ، بااختیار ، خو د مختیار سماج چاہتے تھے لیکن جس روز سے انھیں یہ احساس ہونا شروع ہوا کہ ان کی خواہشات کے ساتھ بدسلوکی کی جارہی ہے اور یہ سماج ان کی خواہشوں کو پورا کرنے میں مکمل ناکامی سے دوچار ہوگیا ہے وہ بے چین ہونا شروع ہوگئے اور بے چینی سے بد تمیز اور بد تہذیب سوالوں نے جنم لینا شروع کردیا اور بقول فرائیڈ کے ہم سب '' نہ سلجھ پانے والی کشمکش '' کا شکار ہوگئے اور آج ہم سب اس کے مریض بن کے رہ گئے ہیں جب کوئی شدید جذباتی کشمکش حل ہونے میں نہیں آتی سلجھ نہیں پاتی تو وہ کشمکش ختم نہیں ہوتی بلکہ ذہن انسانی میں ایک پھوڑا بن کر موجود رہتی ہے اور آنے والے برسوں میں شدید ذہنی عدم توازن کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔
سادہ الفاظ میں اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ انسان کی نشوونما کسی بھی ایسے مسئلے پر آکر رک جاتی ہے جو اس کے لیے شدید جذباتی اہمیت رکھتا ہو اور وہ حل نہ ہو پائے اور یہ ذہنی نشوونما اس وقت تک رکی رہتی ہے ، جب تک انسان اس مسئلے کا سامنا نہیں کرتا جب تک وہ اس مسئلے کو سمجھ نہیں لیتا اس سے سمجھوتا نہیں کرلیتا اور اگر ممکن ہو تو اس کو مکمل طور پر حل نہیں کرلیتا لیکن اگر ایسا نہ ہوسکے تو انسان اس مسئلے سے آگے نہیں بڑھ سکتا تو اس کی ذہنی نشوونما اسی جگہ رک جاتی ہے جہاں یہ مسئلہ یہ جذباتی کشمکش یہ نفسیاتی الجھن پیدا ہوئی تھی کیونکہ وہ صدمہ لاشعور کا حصہ بن جاتا ہے اور وہ وہاں اپنا کام کرتا رہتا ہے اور انسان کی ذہنی نشوونما ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھتی ہے ۔
جب کسی ملک کے شہری '' نہ سمجھ پانے والی کشمکش '' میں مبتلا ہوجاتے ہیں ، تو پھر موقع پرستوں ، مفاد پرستوں اور اختیار اور طاقت پسندوں کا گروہ اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک کے وسائل ، اختیار پر قابض ہو جاتا ہے اور لوگوں کی اس کشمکش جس میں وہ مبتلا ہوتے ہیں ، اس سے نکلنے کے تمام راستے بند کرتا چلا جاتا ہے کیونکہ اسی میںہی اس کی بقاء ہوتی ہے۔ یہ ہی سب کچھ ہمارے ساتھ ہوا ہے ہم کبھی یہ سمجھ ہی نہیں پائے کہ کس خوبصورتی سے ہمیں ایک ایسے اندھے کنویں میں دھکیل دیا گیا جس سے باہر نکلنے کے تمام راستوں پر قابض ٹولہ بیٹھا ہوا ہماری نگرانی کر رہا ہے۔
فلپس بروکس نے لگتا ہے ہمارے لیے ہی کہا تھا '' آنے والے سالوں میں کسی دن آپ اپنی زندگی کے بڑے غم تلے کراہ رہے ہونگے یا کسی بڑی خواہش سے نبرد آزما ہورہے ہونگے لیکن اصل جدوجہد کا وقت اب ہے۔ '' اب '' یہ طے ہونے کا وقت ہے کہ اس غم کی گھڑی میں یا خواہش کے پورے ہونے کے وقت آپ مکمل طور پر فیل ہوجائیں گے یا کامیابی آپ کے قدم چومے گی کردار ایک مستقل اور لمبے عمل کے بغیر تشکیل نہیں پاسکتا۔ ''
''اب '' فیصلے کا اختیار آپ کے پاس ہے کہ کیا آپ اسی طرح اندھے کنویں میں اپنے سوالات کے ساتھ اپنی بقیہ زندگی بھی گذار نا چاہتے ہیں یا پھر آپ اپنی کامیابی ، خوشحالی ، ترقی ، آزادی پر قابض ٹولے کو مار بھگا دینا چاہتے ہیں۔ یاد رکھیں '' اب '' وہ ہی کچھ ہوگا جو آپ چاہیں گے۔