آئین سے انحراف
بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے سب سے بڑا تنازعہ کراچی میں ہے بلدیاتی انتخابات جب بھی منعقد ہوئے سندھ دو حصوں...
چیف جسٹس سپریم کورٹ نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ ''بلدیاتی الیکشن آئینی تقاضا ہے لیکن بلدیاتی الیکشن سے انحراف کیا جا رہا ہے، عدالت اس کی اجازت نہیں دے گی''۔ چیف جسٹس نے یہ ریمارکس کنٹونمنٹ میں الیکشن کے انعقاد میں تاخیر پر حکومتی وضاحت کو مسترد کرتے ہوئے دیے اور اس مسئلے پر اٹارنی جنرل سے رائے طلب کر لی۔
سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے کہا ہے کہ نظرثانی یا نیا انتخابی شیڈول جاری کرنا الیکشن کمیشن کا کام ہے حکومت سندھ بلدیاتی الیکشن کرانے کے لیے تیار ہے۔ ہم الیکشن کا التوا نہیں چاہتے۔ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد 30 جنوری کو بلدیاتی الیکشن نہیں ہو سکتے تھے عدالتی فیصلے کی روشنی میں نئی قانون سازی اور از سر نو حلقہ بندیوں میں 4 سے 6 ماہ کا عرصہ لگ سکتا ہے اور اگر نئی مردم شماری پہلے کرانے کا فیصلہ کیا گیا تو اس میں دو سال بھی لگ سکتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے موقف سے عیاں ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف بلدیاتی انتخابات جلد از جلد کرانا چاہتی ہے بلکہ اس کے انعقاد میں تاخیر کے ذمے داروں کو یہ وارننگ بھی دے رہی ہے ے۔ البتہ پنجاب کے وزیر قانون کا کہنا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد 30 جنوری کو بلدیاتی انتخابات نہیں ہو سکتے تھے۔ان فیصلوں اور سندھ اور پنجاب کے وزیروں کے بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان صوبوں کے حکمران طبقات عوام کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ سندھ اور پنجاب کی حکومتیں تو بلدیاتی انتخابات کے لیے تیار ہیں لیکن الیکشن کمیشن کی سست روی اور لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کی وجہ سے وہ الیکشن نہیں کرا پا رہے ہیں۔ بادی النظر میں تو سندھ اور پنجاب کے موقف درست نظر آتے ہیں لیکن ملک کے باخبر حلقوں کا خیال ہے کہ سندھ اور پنجاب کی حکومتیں کسی نہ کسی طرح بلدیاتی الیکشن کو غیر معینہ مدت تک ملتوی کرانا چاہتی ہیں تا کہ ان کے اختیارات اور اربوں کے بلدیاتی فنڈ کے استعمال میں انھیں کسی قسم کی دشواریوں کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔
ایک بات بڑی واضح ہے کہ سپریم کورٹ جلد سے جلد بلدیاتی انتخابات کرانا چاہتی ہے لیکن اس کی راہ میں مختلف قسم کی رکاوٹیں کھڑی کر کے سپریم کورٹ کی خواہش کو سبوتاژ کیا جا رہا ہے۔ مثلاً سندھ کے وزیر اعلیٰ کا کہنا ہے کہ وہ تو بلدیاتی انتخابات کرانے کے لیے تیار ہیں لیکن یہ کام الیکشن کمیشن کا ہے کہ وہ اس حوالے سے نظرثانی شدہ یا نیا انتخابی شیڈول جاری کرے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ کے بیان سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کی ذمے داری الیکشن کمیشن پر عاید ہوتی ہے اسی طرح پنجاب کے وزیر قانون کے بیان سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ تو بلدیاتی انتخابات کے لیے تیار ہیں لیکن لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے سے تاخیر ہو رہی ہے۔
بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے سب سے بڑا تنازعہ کراچی میں ہے بلدیاتی انتخابات جب بھی منعقد ہوئے سندھ دو حصوں یعنی شہری اور دیہی سندھ میں تقسیم ہو گیا یہی حال عام انتخابات میں بھی رہا۔ پیپلز پارٹی ملک کی سب سے بڑی پارٹی مانی جاتی ہے، چاروں صوبوں میں اس کی جڑیں موجود ہیں لیکن 2008ء سے 2013ء کے دوران پیپلز پارٹی کی مایوس کن کارکردگی کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2013ء کے عام انتخابات میں عوام نے پیپلز پارٹی کو پیچھے دھکیل دیا، اب پیپلز پارٹی کو یہ خوف لاحق ہے کہ اگر بلدیاتی انتخابات ہوتے ہیں تو اس کی پانچ سالہ کارکردگی سے مایوس عوام اسے بلدیاتی انتخابات میں بھی نظرانداز کر دیں گے۔متحدہ کے مرکزی رہنما خالد مقبول صدیقی کے تازہ بیان کے مطابق پیپلز پارٹی ایم کیو ایم کا مینڈیٹ چھیننے کے لیے منفی ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے اور انتخابات ہی کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہے وغیرہ وغیرہ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں بلدیاتی انتخابات سے کیوں خوفزدہ ہیں؟ اس کی ایک بڑی وجہ تو یہی ہے کہ یہ بڑی جماعتیں جن پر وڈیرہ شاہی ذہنیت حاوی ہے کسی قیمت پر یہ نہیں چاہتی ہیں کہ ان کے نادر شاہی اختیارات میں کمی آئے جو بلدیاتی انتخابات اور بلدیاتی نظام کے نفاذ کی صورت میں لازماً آئے گی۔ کیونکہ بلدیاتی نظام اگر 2002ء کی بنیاد پر تشکیل پاتا ہے تو انتظامی اور مالی اختیارات نچلی سطح تک منتقل ہو جاتے ہیں جو وڈیرہ شاہی ذہنیت کے لیے ناقابل قبول ہیں۔ اس کا دوسرا پہلو جس کی ہم بار بار نشاندہی کر رہے ہیں یہ ہے کہ بلدیاتی فنڈز جو اربوں روپوں پر مشتمل ہوتے ہیں ہماری وڈیرہ شاہی حکومتوں میں ایم این ایز اور ایم پی ایز کو دے دیے جاتے ہیں تا کہ وہ کھائیں پئیں اور حکومت کا سہارا بنے رہیں اگر یہ اربوں روپوں کے ترقیاتی فنڈ صوبائی حکومتوں کے ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں تو ایم این ایز اور ایم پی ایز کو قابو میں رکھنا ممکن نہیں رہتا۔
اس مشکل سے بچنے کے لیے بھی صوبائی حکومتیں طرح طرح کے بہانے تراش رہی ہیں۔ تمام صوبائی حکومتوں کا یہ موقف ہے کہ وہ عوام میں اپنی کارکردگی کے حوالے سے بہت مقبول ہیں؟ اگر ان کا یہ موقف درست ہے تو پھر انھیں بلدیاتی انتخابات سے گریزاں رہنے کے بجائے جلد سے جلد بلدیاتی انتخابات پر اصرار کرنا چاہیے۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ صوبائی اور مرکزی حکومتیں سب ہی بلدیاتی انتخابات سے گریزاں ہیں اور اس کی وجہ یہی ہے کہ عوام ان کی سابقہ اور حالیہ کارکردگی سے سخت بیزار ہیں اور وہ کسی انا ہزارے اور اروند کیجروال کی تلاش میں ہیں۔ یہ ایسی حقیقت ہے جس کا اعتراف ہر صاحب ضمیر سیاستدان کو کرنا چاہیے اور اس کا حل یہ نہیں کہ بلدیاتی انتخابات ہی کو سبوتاژ کر دیا جائے بلکہ اس کا حل یہ ہے کہ اپنی کارکردگی بہتر بنائی جائے اور کارکردگی اس وقت تک بہترین ہو گی جب تک کہ تن آسانی نہیں چھوڑی جاتی۔
خیبر پختونخوا میں عمران خان مارچ میں منفرد بلدیاتی انتخابات کرانے کے اعلانات کر رہے ہیں، اب لے دے کر سندھ اور پنجاب دو ہی صوبے ایسے ہیں جو ہر قیمت پر بلدیاتی انتخابات اور بلدیاتی نظام سے بچنا چاہتے ہیں اور اس کی وجہ کا ذکر بھی ہم نے اوپر کر دیا ہے۔ ان حالات میں سول سوسائٹی پیشہ ورانہ تنظیموں، ٹریڈ یونینوں، این جی اوز وغیرہ کی ذمے داری ہی نہیں فرض ہے کہ وہ جلد سے جلد بلدیاتی الیکشن کرانے کے لیے تحریک چلائیں اور حکومتوں پر اتنا دباؤ ڈالیں کہ ان کے لیے فرار کا کوئی راستہ نہ رہے، ہماری سپریم کورٹ فوری انتخابات کرانا چاہتی ہے تو اس کی ذمے داری ہے کہ وہ ان تمام طاقتوں کی ناک میں نکیل ڈالے جو بلدیاتی انتخابات کی راہ میں روڑے اٹکا رہے ہیں اور آئین سے انحراف کرنے والوں کو سزا دی جائے۔
سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے کہا ہے کہ نظرثانی یا نیا انتخابی شیڈول جاری کرنا الیکشن کمیشن کا کام ہے حکومت سندھ بلدیاتی الیکشن کرانے کے لیے تیار ہے۔ ہم الیکشن کا التوا نہیں چاہتے۔ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد 30 جنوری کو بلدیاتی الیکشن نہیں ہو سکتے تھے عدالتی فیصلے کی روشنی میں نئی قانون سازی اور از سر نو حلقہ بندیوں میں 4 سے 6 ماہ کا عرصہ لگ سکتا ہے اور اگر نئی مردم شماری پہلے کرانے کا فیصلہ کیا گیا تو اس میں دو سال بھی لگ سکتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے موقف سے عیاں ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف بلدیاتی انتخابات جلد از جلد کرانا چاہتی ہے بلکہ اس کے انعقاد میں تاخیر کے ذمے داروں کو یہ وارننگ بھی دے رہی ہے ے۔ البتہ پنجاب کے وزیر قانون کا کہنا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد 30 جنوری کو بلدیاتی انتخابات نہیں ہو سکتے تھے۔ان فیصلوں اور سندھ اور پنجاب کے وزیروں کے بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان صوبوں کے حکمران طبقات عوام کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ سندھ اور پنجاب کی حکومتیں تو بلدیاتی انتخابات کے لیے تیار ہیں لیکن الیکشن کمیشن کی سست روی اور لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کی وجہ سے وہ الیکشن نہیں کرا پا رہے ہیں۔ بادی النظر میں تو سندھ اور پنجاب کے موقف درست نظر آتے ہیں لیکن ملک کے باخبر حلقوں کا خیال ہے کہ سندھ اور پنجاب کی حکومتیں کسی نہ کسی طرح بلدیاتی الیکشن کو غیر معینہ مدت تک ملتوی کرانا چاہتی ہیں تا کہ ان کے اختیارات اور اربوں کے بلدیاتی فنڈ کے استعمال میں انھیں کسی قسم کی دشواریوں کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔
ایک بات بڑی واضح ہے کہ سپریم کورٹ جلد سے جلد بلدیاتی انتخابات کرانا چاہتی ہے لیکن اس کی راہ میں مختلف قسم کی رکاوٹیں کھڑی کر کے سپریم کورٹ کی خواہش کو سبوتاژ کیا جا رہا ہے۔ مثلاً سندھ کے وزیر اعلیٰ کا کہنا ہے کہ وہ تو بلدیاتی انتخابات کرانے کے لیے تیار ہیں لیکن یہ کام الیکشن کمیشن کا ہے کہ وہ اس حوالے سے نظرثانی شدہ یا نیا انتخابی شیڈول جاری کرے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ کے بیان سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کی ذمے داری الیکشن کمیشن پر عاید ہوتی ہے اسی طرح پنجاب کے وزیر قانون کے بیان سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ تو بلدیاتی انتخابات کے لیے تیار ہیں لیکن لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے سے تاخیر ہو رہی ہے۔
بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے سب سے بڑا تنازعہ کراچی میں ہے بلدیاتی انتخابات جب بھی منعقد ہوئے سندھ دو حصوں یعنی شہری اور دیہی سندھ میں تقسیم ہو گیا یہی حال عام انتخابات میں بھی رہا۔ پیپلز پارٹی ملک کی سب سے بڑی پارٹی مانی جاتی ہے، چاروں صوبوں میں اس کی جڑیں موجود ہیں لیکن 2008ء سے 2013ء کے دوران پیپلز پارٹی کی مایوس کن کارکردگی کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2013ء کے عام انتخابات میں عوام نے پیپلز پارٹی کو پیچھے دھکیل دیا، اب پیپلز پارٹی کو یہ خوف لاحق ہے کہ اگر بلدیاتی انتخابات ہوتے ہیں تو اس کی پانچ سالہ کارکردگی سے مایوس عوام اسے بلدیاتی انتخابات میں بھی نظرانداز کر دیں گے۔متحدہ کے مرکزی رہنما خالد مقبول صدیقی کے تازہ بیان کے مطابق پیپلز پارٹی ایم کیو ایم کا مینڈیٹ چھیننے کے لیے منفی ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے اور انتخابات ہی کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہے وغیرہ وغیرہ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں بلدیاتی انتخابات سے کیوں خوفزدہ ہیں؟ اس کی ایک بڑی وجہ تو یہی ہے کہ یہ بڑی جماعتیں جن پر وڈیرہ شاہی ذہنیت حاوی ہے کسی قیمت پر یہ نہیں چاہتی ہیں کہ ان کے نادر شاہی اختیارات میں کمی آئے جو بلدیاتی انتخابات اور بلدیاتی نظام کے نفاذ کی صورت میں لازماً آئے گی۔ کیونکہ بلدیاتی نظام اگر 2002ء کی بنیاد پر تشکیل پاتا ہے تو انتظامی اور مالی اختیارات نچلی سطح تک منتقل ہو جاتے ہیں جو وڈیرہ شاہی ذہنیت کے لیے ناقابل قبول ہیں۔ اس کا دوسرا پہلو جس کی ہم بار بار نشاندہی کر رہے ہیں یہ ہے کہ بلدیاتی فنڈز جو اربوں روپوں پر مشتمل ہوتے ہیں ہماری وڈیرہ شاہی حکومتوں میں ایم این ایز اور ایم پی ایز کو دے دیے جاتے ہیں تا کہ وہ کھائیں پئیں اور حکومت کا سہارا بنے رہیں اگر یہ اربوں روپوں کے ترقیاتی فنڈ صوبائی حکومتوں کے ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں تو ایم این ایز اور ایم پی ایز کو قابو میں رکھنا ممکن نہیں رہتا۔
اس مشکل سے بچنے کے لیے بھی صوبائی حکومتیں طرح طرح کے بہانے تراش رہی ہیں۔ تمام صوبائی حکومتوں کا یہ موقف ہے کہ وہ عوام میں اپنی کارکردگی کے حوالے سے بہت مقبول ہیں؟ اگر ان کا یہ موقف درست ہے تو پھر انھیں بلدیاتی انتخابات سے گریزاں رہنے کے بجائے جلد سے جلد بلدیاتی انتخابات پر اصرار کرنا چاہیے۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ صوبائی اور مرکزی حکومتیں سب ہی بلدیاتی انتخابات سے گریزاں ہیں اور اس کی وجہ یہی ہے کہ عوام ان کی سابقہ اور حالیہ کارکردگی سے سخت بیزار ہیں اور وہ کسی انا ہزارے اور اروند کیجروال کی تلاش میں ہیں۔ یہ ایسی حقیقت ہے جس کا اعتراف ہر صاحب ضمیر سیاستدان کو کرنا چاہیے اور اس کا حل یہ نہیں کہ بلدیاتی انتخابات ہی کو سبوتاژ کر دیا جائے بلکہ اس کا حل یہ ہے کہ اپنی کارکردگی بہتر بنائی جائے اور کارکردگی اس وقت تک بہترین ہو گی جب تک کہ تن آسانی نہیں چھوڑی جاتی۔
خیبر پختونخوا میں عمران خان مارچ میں منفرد بلدیاتی انتخابات کرانے کے اعلانات کر رہے ہیں، اب لے دے کر سندھ اور پنجاب دو ہی صوبے ایسے ہیں جو ہر قیمت پر بلدیاتی انتخابات اور بلدیاتی نظام سے بچنا چاہتے ہیں اور اس کی وجہ کا ذکر بھی ہم نے اوپر کر دیا ہے۔ ان حالات میں سول سوسائٹی پیشہ ورانہ تنظیموں، ٹریڈ یونینوں، این جی اوز وغیرہ کی ذمے داری ہی نہیں فرض ہے کہ وہ جلد سے جلد بلدیاتی الیکشن کرانے کے لیے تحریک چلائیں اور حکومتوں پر اتنا دباؤ ڈالیں کہ ان کے لیے فرار کا کوئی راستہ نہ رہے، ہماری سپریم کورٹ فوری انتخابات کرانا چاہتی ہے تو اس کی ذمے داری ہے کہ وہ ان تمام طاقتوں کی ناک میں نکیل ڈالے جو بلدیاتی انتخابات کی راہ میں روڑے اٹکا رہے ہیں اور آئین سے انحراف کرنے والوں کو سزا دی جائے۔