لیڈی ڈیانا کی مدد

کچھ مہینے پہلے ایک انگریزی فلم ریلیز ہوئی جس کا نام ہے ’’ڈیانا‘‘۔ فلم لیڈی ڈیانا کی زندگی کی سچی کہانی پر مبنی ہے


Wajahat Ali Abbasi February 16, 2014
[email protected]

جہلم کے قریب ایک گاؤں میں عبدالرزاق ویلفیئر ٹرسٹ ہے، کچھ دن بعد انگلینڈ میں رہنے والے ایک پاکستانی ہارٹ سرجن اپنے کئی سالوں کے شاندار کریئر کو چھوڑ کر وہاں سے جہلم شفٹ ہوجائیں گے تاکہ اپنے غریب اور ضرورت مند پاکستانی بھائیوں کی مدد کرسکیں، وہاں آنے والے لوگ انھیں صرف ایک ڈاکٹر کی طرح جانیں گے۔ وہ ڈاکٹر جو اپنے کام میں بہت اچھا ہے جو لوگوں کا دکھ سمجھتا ہے لیکن کسی کو بھی شاید یہ نہیں پتہ ہوگا کہ یہ وہی پاکستانی ہیں جن کی وجہ سے لیڈی ڈیانا نے دنیا بھر میں ہیومن رائٹس کے لیے کام شروع کیا اور ان گنت لوگوں کی زندگیاں بدلیں۔

ڈاکٹر حسنات ایک سیلف میڈ پاکستانی ڈاکٹر ہیں جہلم سے اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کرکے وہ میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے انگلینڈ گئے اور پھر وہیں کے ایک اسپتال میں جاب کرلی، 1995 میں لیڈی ڈیانا دنیا کی سب سے مشہور خاتون تھیں۔ یہ وہی زمانہ تھا جب ان کی اپنے شوہر پرنس چارلس سے علیحدگی ہوگئی تھی، ڈیانا کی ایک قریبی دوست کی رشتے دار کو ہارٹ اٹیک ہوا جس ہاسپٹل میں وہ داخل ہوئیں، وہیں ڈاکٹر حسنات سے لیڈی ڈیانا کی ملاقات ہوئی، ڈاکٹر صاحب کی سچائی اور مضبوط عقیدوں کی وجہ سے لیڈی ڈیانا ان کی شخصیت سے متاثر ہوگئیں، پہلے اپنی رہائش گاہ پر کھانے پر مدعوکیا اور پھر ان کے اسپتال کا ٹور لینے کی خواہش کا اظہارکیا، ڈاکٹر حسنات کو بہتر طور پر جاننے کے بعد وہ ان کے کام کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگیں اور یہاں تک کہ ایک دفعہ نو گھنٹے کی سرجری میں ان کے ساتھ تھیٹر میں موجود رہیں۔

لیڈی ڈیانا اپنی دوستوں سے کہتی تھیں کہ ڈاکٹر حسنات مجھے ایک عام لڑکی کی طرح سمجھتے ہیں اور ایسا ہی سلوک کرتے ہیں، ان کی کسی بھی بات سے ایسا نہیں لگا کہ وہ مجھ سے اس لیے تعلق رکھتے ہیں کہ میں ایک شہزادی ہوں اور میری ذات سے وہ کوئی فائدہ اٹھاسکتے ہیں، لیڈی ڈیانا کے مطابق ڈاکٹر حسنات وہ واحد شخصیت تھے جن سے ان کو سچی محبت ہوئی۔

یہ بات سب جانتے ہیں 1996 میں لیڈی ڈیانا پاکستان آئی تھیں شوکت خانم کینسر اسپتال کی فنڈ ریزنگ کے لیے لیکن ان کا ایک مقصد ڈاکٹر حسنات کے گھر والوں سے ملنا بھی تھا وہ اس امید کے ساتھ آئی تھیں کہ ڈاکٹر صاحب کے گھر والے شاید انھیں پسند کرلیں اور اپنالیں لیکن گھر والوں کی سوچ مختلف تھی پہلے سے شادی شدہ دو بچوں کی ماں اور پھر غیر مسلم انھیں قبول نہیں تھی، ڈاکٹر حسنات لیڈی ڈیانا کو غلط فہمی میں نہیں رکھنا چاہتے تھے انھوں نے ہر بات صاف صاف بتادی۔ وہ اپنے گھر والوں کی مرضی کے خلاف جاکر شادی نہیں کرنا چاہتے تھے۔

لیڈی ڈیانا نے ڈاکٹر حسنات سے کئی بار بات کرنے کی کوشش کی لیکن انھوں نے شہزادی سے پھر کوئی تعلق نہیں رکھا، اگست اکتیس 1997 کو لیڈی ڈیانا ڈوڈی الفائد کے ساتھ ایک کار ایکسیڈنٹ میں ماری گئیں۔ آج تک جب بھی پریس لیڈی ڈیانا کے بارے میں لکھتا ہے تو ڈوڈی الفائد کو ان کا بوائے فرینڈ بتاتا ہے جب کہ سچ یہ ہے کہ ڈیانا محض ڈاکٹر حسنات کو جیلس کرنے کے لیے ڈوڈی الفائد سے تعلقات بڑھا رہی تھیں۔

کچھ مہینے پہلے ایک انگریزی فلم ریلیز ہوئی جس کا نام ہے ''ڈیانا''۔ فلم لیڈی ڈیانا کی زندگی کی سچی کہانی پر مبنی ہے لیکن فلم میں ان کی زندگی کے صرف آخری دو سال دکھائے گئے ہیں اس کہانی کا فوکس صرف ڈیانا اور ڈاکٹر حسنات کی لو اسٹوری پر رکھا گیا ہے۔

فلم کی ریلیز پر ڈاکٹر حسنات کے مطابق فلم میکرز نے ان سے اجازت نہیں لی تھی نہ ہی وہ یہ فلم دیکھنا چاہتے ہیں اور نہ ہی وہ اس فلم کے حوالے سے اپنا کوئی تعلق بنانا چاہتے ہیں صرف فلم کا ایک پوسٹر دیکھ کر انھوں نے اندازہ کرلیا کہ اس میں بیشتر چیزیں من گھڑت دکھائی گئی ہوں گی۔

ڈاکٹر حسنات کے مطابق نہ ہی لیڈی ڈیانا کے دوست اور نہ ہی ان کے آس پاس والوں کو ان کے تعلقات کی نوعیت کا کوئی خاص اندازہ تھا اور اگر فلم میکرز لوگوں کی سنی سنائی باتوں کو بنیاد بناکر کہانی بنائیں گے تو وہ یقینا غلط ہی ہوگی جسے دیکھنے کا ڈاکٹر حسنات کو کوئی شوق نہیں۔

ڈاکٹر حسنات نے جب کہ خود اس فلم کو مسترد کردیا ہے لیکن ہمارے حساب سے یہ پاکستانیوں کے لیے اہم ہے، یہ فلم پاکستان میں کوئی خاص شہرت نہیں حاصل کرپائی لیکن انگلینڈ امریکا سمیت کئی ملکوں میں لاکھوں لوگوں نے تھیٹرز اور ڈی وی ڈیز پر دیکھی۔

اس فلم میں نظر آنے والے پاکستانی ڈاکٹر حسنات ایک بہت عام سے انسان دکھائے گئے ہیں مگر ان کی شخصیت بہت مضبوط ہے۔ ان کی اپنے کام میں محنت، اپنے کمٹمنٹس سے وفاداری اور سچائی سے کام لینے سے نہ صرف فلم کی ڈیانا متاثر ہوئی ہیں بلکہ فلم کی Audiance بھی، کچھ دن پہلے ہالی ووڈ کی ایک فلم Reluctant Fundamentalist میں بھی ایک سچے پاکستانی کو دکھایا گیا تھا لیکن وہ طالبان میں گھرے ہوئے تھے، فلم ڈیانا میں ایک پاکستانی کو ویسٹرن دنیا میں کامیاب ہوتے دکھایا گیا ہے جو خود کامیاب ہونا چاہتے ہیں کسی کی مدد کے بغیر چاہے وہ کوئی پرنسس ہی کیوں نہ ہو۔

فلم میں ایک دو موقعوں پر ڈاکٹر صاحب ڈیانا پر چیختے بھی نظر آتے ہیں لیکن وہ اس سے نیگٹیو نہیں لگتے کیونکہ ایسا کسی بھی عام ریلیشن شپ میں ہوتا ہے۔ ایسا وہ نہیں کریں گے جو کسی شہزادی کو کسی مقصد کے تحت اپنے دام میں گرفتار کر رہے ہوں۔

فلم بے شک ڈیانا پر تھی لیکن اس فلم سے پاکستان کو یہ مدد ملتی ہے کہ پاکستانی مزدوروں کا تاثر اچھا قائم ہوا ہے، فلم میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ ڈاکٹر حسنات کی باتوں سے متاثر ہوکر لیڈی ڈیانا نے سوشل ورک کا آغاز کیا جو سچ بھی ہے اور جس کو دکھانے سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ ایک پاکستانی جس کو ڈیانا کی شخصیت اور شہرت سے ہر فائدہ پہنچ سکتا تھا اس نے یہ فائدہ ساری دنیا کو پہنچانے کی کوشش کی۔

فلم میں ڈیانا قرآن شریف کا حوالہ دیتی نظر آتی ہیں۔ پاکستان میں والدین اور بچوں کا مل کر رہنے کو اپنے کلچر سے بہتر کہتی نظر آتی ہیں اور فلم دیکھنے والوں پر یہ تاثر چھوڑ جاتی ہیں کہ پاکستانی ایک اچھی مضبوط قوم ہے۔

ڈاکٹر حسنات انٹرویو نہیں دیتے نہ ہی لیڈی ڈیانا کے بارے میں بات کرتے ہیں لیکن کچھ دن پہلے MAIL نامی ایک برٹش اخبار کو انٹرویو دیا جس میں انھوں نے کہا کہ اگر ڈیانا زندہ ہوتیں تو جہلم میں میرے مشن میں میرا ساتھ ضرور دیتیں۔ ہم ڈاکٹر حسنات کو بتانا چاہتے ہیں کہ بے شک وہ جہلم میں ان کے ساتھ نہ ہوں لیکن پھر بھی وہ ان کی مدد کر رہی ہیں۔ وہ ہمارا، پاکستانیوں کا تاثر ''ڈیانا'' نامی فلم کے ذریعے بہتر قائم کر رہی ہیں، فلم کی کہانی بے شک سچ پر مبنی نہ ہو لیکن پاکستانی کے کردار کی دی گئی مضبوط دلیل بے شک سچ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں