پانی کا بحران
آیندہ 20 برس میں ہمالیہ دنیا کا خطرناک خطہ بن جائے گا جب کہ چین دنیا کی 40 فیصد آبادی کے پانی پر کنٹرول حاصل کرلے گا۔
پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو پانی کی شدید قلت کا شکار ہیں۔ ایمرجنسی کی صورت میں پاکستان کے پاس صرف 30 دن پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہے، جب کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے حامل ایسے ممالک کے لیے 100 دن کی سفارش کی گئی ہے۔ پاکستان کو دنیا کے ان ممالک کی درجہ بندی میں رکھا گیا ہے جو سب سے زیادہ پانی کی کمی کے شکار ہیں، پانی کی کمی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان میں توانائی کا بحران ہے، توانائی کا بحران نہ صرف معیشت بلکہ پاکستانیوں کے مفادات کو بھی نقصان دے رہا ہے۔ اکثر شہری اس کے لیے احتجاج کرتے ہیں اور اپنی حکومتوں سے اس کا حل مانگتے ہیں اور یہ احتجاج اکثر پرتشدد واقعات میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ آبادی کے بے پناہ اضافے سے ملکی ہیئت تبدیل ہو رہی ہے، پانی کی طلب رسد سے زیادہ ہے، دریائے سندھ میں پانی کا بہاؤ کم ہو رہا ہے۔
انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے اعداد و شمار کے مطابق تربیلا ڈیم میں پانی کی سطح 1506.79 اور منگلا ڈیم میں 1192.3 فٹ ہے۔ تربیلا ڈیم میں پانی کی آمد 2 لاکھ 20 ہزار کیوسک اور اخراج ایک لاکھ 96 ہزار 600 کیوسک جب کہ منگلا ڈیم میں پانی کی آمد 46 ہزار 389 کیوسک اور اخراج 15 ہزار کیوسک ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تمام صوبوں کو کوٹہ اور طلب کے عین مطابق پانی فراہم کیا جا رہا ہے ۔ پنجاب کی طلب اور کوٹہ کے مطابق ایک لاکھ 34 ہزار 300 ، سندھ کو 195000، بلوچستان کو 14000 جب کہ خیبر پختونخوا کو 3600 کیوسک پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ دریائے سندھ سے کراچی کو جس کی آبادی پونے دو کروڑ کے قریب ہے کو مزید 7 کروڑ گیلن پانی کی فراہمی کا منصوبہ ہے لیکن فی الوقت کراچی کے لیے منظور شدہ 1200 کیوسک میں سے تقریباً 70 ایم جی ڈی پانی کم دیا جا رہا ہے اور افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ دسمبر 2013 تک کراچی میں پانی صارفین کی تعداد صرف 3 لاکھ ہے یعنی اس وقت پانی استعمال کرنے والوں کی بڑی تعداد پانی بل ادا نہیں کرتی ہے۔
جب کہ دوسری طرف پانی چوری کرکے فروخت کرنے کا کاروبار عروج پر ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق بلدیہ، شیرشاہ، کورنگی، پاک کالونی، قصبہ، کنٹونمنٹ بورڈ، پی اے ایف، ماڑی پور، مسروربیس اور دیگر اداروں کے انتظامی علاقوں میں قائم غیر قانونی ہائیڈرنٹس واٹر بورڈ کی بلک فراہمی آب کی لائنوں سے ناجائز کنکشن حاصل کرکے پانی چوری کرکے فروخت کیا جا رہا ہے۔ اس کے سبب واٹر بورڈ شہریوں کو منصفانہ و مساویانہ طور پر پانی فراہم کرنے سے قاصر ہے، کراچی کے بہت سے علاقے واٹر بورڈ کی ٹیم کے لیے نو گو ایریا بنے ہوئے ہیں جہاں ٹیم کنکشن منقطع کرنے نہیں جاسکتی، انھیں ڈرایا دھمکایا جاتا ہے اور فائرنگ کے واقعات بھی رونما ہوچکے ہیں۔ ان غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے قیام سے ایک طرف تو واٹر بورڈ کو مالی طور پر نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے تو دوسری طرف واٹر بورڈ کا سسٹم تباہ ہونے کا خدشہ ہے، یہ عناصر روز بروز مضبوط ہوتے جا رہے ہیں اور قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جا رہی ہے، یہ نہایت حساس نوعیت کا معاملہ بن گیا ہے، غیر قانونی ہائیڈرنٹس کی نشاندہی پر ان کے خلاف کارروائی بھی کی جاتی ہے، ان کے کنکشنز منقطع کیے جاتے ہیں، سازو سامان ضبط کیا جاتا ہے اور ایف آئی آر تک بھی درج کرائی جاتی ہے لیکن چند روز بعد یہ ہائیڈرنٹس دوبارہ کھل جاتے ہیں جب کہ پولیس انھیں دوبارہ قائم ہونے سے نہیں روک پاتی، حالات کا تقاضہ ہے کہ ایک بھرپور اور منظم آپریشن کرکے ان کا جڑ سے خاتمہ کردیا جائے۔
برطانوی اخبارگارجین کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایشیا میں آبی وسائل پر قبضے کی خطرناک علاقائی دوڑ جاری ہے، ہمالیائی خطے میں پاکستان سمیت 4 ایشیائی ممالک 4 سو سے زائد ڈیمز بنائیں گے، ان میں بھارت 292، چین 100، نیپال13 اور پاکستان 9 سے زائد ہائیڈرو الیکٹرک منصوبے بنا رہے ہیں، دنیا کے سب سے بڑے پہاڑی سلسلے میں ان ڈیموں کی تعمیر خطے اور ماحول کے لیے تباہی لاسکتی ہے۔ اگر 4 سو سے زائد ڈیم مکمل ہوگئے تو ان سے ایک لاکھ 60ہزار میگاواٹ بجلی حاصل کی جاسکے گی جو برطانوی استعمال سے 3 گنا زیادہ ہے۔ ڈیمز کی تعمیر سے گلیشیر کے بہاؤ میں 20 فیصد کمی ہوجائے گی۔ اس سے نہ صرف دریاؤں میں پانی کی کمی ہوگی بلکہ خطے میں سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہوگا۔ بھارت اور چین اس وادی کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔
آیندہ 20 برس میں ہمالیہ دنیا کا خطرناک خطہ بن جائے گا جب کہ چین دنیا کی 40 فیصد آبادی کے پانی پر کنٹرول حاصل کرلے گا۔ چین اور بھارت کے تنازعات زمین سے پانی پر منتقل ہو رہے ہیں جب کہ بھارتی ڈیم منصوبوں سے بنگلہ دیش بھی خوفزدہ ہے کیونکہ دریاؤں کے پانی میں 10 فیصد کمی اسے بنجر بنادے گی۔ چین اور بھارت نے گزشتہ 30 سالوں میں ڈیمز کی تعمیر کی خاطر کروڑوں افراد کو بے گھر کیا ہے لیکن سرکاری سطح پر ان کے اعداد و شمار نہیں دیے گئے۔ رپورٹ کے مطابق ایک ڈیم کی تعمیر سے دریاؤں کے بہاؤ میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے جو 20 ہزار افراد کو متاثر کرتی ہے، اس سے زیر زمین پانی میں بھی کمی ہوجاتی ہے۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق گلیشیرز سکڑنے کی وجہ سے جنوبی ایشیا میں پانی کی قلت نہیں ہوگی، کوہ ہمالیہ کی چٹانوں کے گلیشیرز بڑی تعداد میں سکڑ رہے ہیں جس کی وجہ سے دریاؤں میں پانی کی سطح میں اضافہ ہوگا اور رواں صدی میں لوگوں کی پانی کی ضروریات نہیں پوری ہوگی۔ محققین کا کہنا ہے کہ 2100 میں ہمالیہ کے دو بڑے گلیشیرز میں نصف حد تک کمی واقع ہوگی۔
اگرچہ یہ حوصلہ افزا خبر ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سارے عوامل نے مل کر کرہ ارض کو جانداروں کے لیے خطرناک بنادیا ہے۔ اس معاملے میں ترقی یافتہ ممالک سب سے آگے ہیں۔ انسان نے اگر ان معاملات پر توجہ نہ دی تو پھر ساری ترقی دھری کی دھری رہ جائے گی۔ پاکستان، بھارت اور چین ہمالیہ اور قراقرم کے سلسلے میں واقعے ہیں۔ یہ دنیا کے بلند ترین اور طویل ترین پہاڑی سلسلے ہیں۔ یہ قدرت کا انمول تحفہ ہے جو اس خطے کو عطا کیا گیا ہے۔ اس سارے وسیع و عریض خطے میں بہنے والے تمام دریا، ندی نالے، چشمے اور جھرنے ان ہی پہاڑی سلسلوں سے پھوٹتے ہیں۔ پاکستان، بھارت، چین، نیپال، بنگلہ دیش، افغانستان یہاں تک کہ برما کے حکمرانوں کو ایسی پالیسی تیار کرنی چاہیے جس سے ہمالیائی سلسلے سے بھرپور فائدہ بھی لیا جاسکے اور اس سے ماحولیاتی انتشار بھی پیدا نہ ہو۔ یہی انسانی ذہانت کا کمال ہوگا۔
انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے اعداد و شمار کے مطابق تربیلا ڈیم میں پانی کی سطح 1506.79 اور منگلا ڈیم میں 1192.3 فٹ ہے۔ تربیلا ڈیم میں پانی کی آمد 2 لاکھ 20 ہزار کیوسک اور اخراج ایک لاکھ 96 ہزار 600 کیوسک جب کہ منگلا ڈیم میں پانی کی آمد 46 ہزار 389 کیوسک اور اخراج 15 ہزار کیوسک ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تمام صوبوں کو کوٹہ اور طلب کے عین مطابق پانی فراہم کیا جا رہا ہے ۔ پنجاب کی طلب اور کوٹہ کے مطابق ایک لاکھ 34 ہزار 300 ، سندھ کو 195000، بلوچستان کو 14000 جب کہ خیبر پختونخوا کو 3600 کیوسک پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ دریائے سندھ سے کراچی کو جس کی آبادی پونے دو کروڑ کے قریب ہے کو مزید 7 کروڑ گیلن پانی کی فراہمی کا منصوبہ ہے لیکن فی الوقت کراچی کے لیے منظور شدہ 1200 کیوسک میں سے تقریباً 70 ایم جی ڈی پانی کم دیا جا رہا ہے اور افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ دسمبر 2013 تک کراچی میں پانی صارفین کی تعداد صرف 3 لاکھ ہے یعنی اس وقت پانی استعمال کرنے والوں کی بڑی تعداد پانی بل ادا نہیں کرتی ہے۔
جب کہ دوسری طرف پانی چوری کرکے فروخت کرنے کا کاروبار عروج پر ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق بلدیہ، شیرشاہ، کورنگی، پاک کالونی، قصبہ، کنٹونمنٹ بورڈ، پی اے ایف، ماڑی پور، مسروربیس اور دیگر اداروں کے انتظامی علاقوں میں قائم غیر قانونی ہائیڈرنٹس واٹر بورڈ کی بلک فراہمی آب کی لائنوں سے ناجائز کنکشن حاصل کرکے پانی چوری کرکے فروخت کیا جا رہا ہے۔ اس کے سبب واٹر بورڈ شہریوں کو منصفانہ و مساویانہ طور پر پانی فراہم کرنے سے قاصر ہے، کراچی کے بہت سے علاقے واٹر بورڈ کی ٹیم کے لیے نو گو ایریا بنے ہوئے ہیں جہاں ٹیم کنکشن منقطع کرنے نہیں جاسکتی، انھیں ڈرایا دھمکایا جاتا ہے اور فائرنگ کے واقعات بھی رونما ہوچکے ہیں۔ ان غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے قیام سے ایک طرف تو واٹر بورڈ کو مالی طور پر نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے تو دوسری طرف واٹر بورڈ کا سسٹم تباہ ہونے کا خدشہ ہے، یہ عناصر روز بروز مضبوط ہوتے جا رہے ہیں اور قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جا رہی ہے، یہ نہایت حساس نوعیت کا معاملہ بن گیا ہے، غیر قانونی ہائیڈرنٹس کی نشاندہی پر ان کے خلاف کارروائی بھی کی جاتی ہے، ان کے کنکشنز منقطع کیے جاتے ہیں، سازو سامان ضبط کیا جاتا ہے اور ایف آئی آر تک بھی درج کرائی جاتی ہے لیکن چند روز بعد یہ ہائیڈرنٹس دوبارہ کھل جاتے ہیں جب کہ پولیس انھیں دوبارہ قائم ہونے سے نہیں روک پاتی، حالات کا تقاضہ ہے کہ ایک بھرپور اور منظم آپریشن کرکے ان کا جڑ سے خاتمہ کردیا جائے۔
برطانوی اخبارگارجین کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایشیا میں آبی وسائل پر قبضے کی خطرناک علاقائی دوڑ جاری ہے، ہمالیائی خطے میں پاکستان سمیت 4 ایشیائی ممالک 4 سو سے زائد ڈیمز بنائیں گے، ان میں بھارت 292، چین 100، نیپال13 اور پاکستان 9 سے زائد ہائیڈرو الیکٹرک منصوبے بنا رہے ہیں، دنیا کے سب سے بڑے پہاڑی سلسلے میں ان ڈیموں کی تعمیر خطے اور ماحول کے لیے تباہی لاسکتی ہے۔ اگر 4 سو سے زائد ڈیم مکمل ہوگئے تو ان سے ایک لاکھ 60ہزار میگاواٹ بجلی حاصل کی جاسکے گی جو برطانوی استعمال سے 3 گنا زیادہ ہے۔ ڈیمز کی تعمیر سے گلیشیر کے بہاؤ میں 20 فیصد کمی ہوجائے گی۔ اس سے نہ صرف دریاؤں میں پانی کی کمی ہوگی بلکہ خطے میں سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہوگا۔ بھارت اور چین اس وادی کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔
آیندہ 20 برس میں ہمالیہ دنیا کا خطرناک خطہ بن جائے گا جب کہ چین دنیا کی 40 فیصد آبادی کے پانی پر کنٹرول حاصل کرلے گا۔ چین اور بھارت کے تنازعات زمین سے پانی پر منتقل ہو رہے ہیں جب کہ بھارتی ڈیم منصوبوں سے بنگلہ دیش بھی خوفزدہ ہے کیونکہ دریاؤں کے پانی میں 10 فیصد کمی اسے بنجر بنادے گی۔ چین اور بھارت نے گزشتہ 30 سالوں میں ڈیمز کی تعمیر کی خاطر کروڑوں افراد کو بے گھر کیا ہے لیکن سرکاری سطح پر ان کے اعداد و شمار نہیں دیے گئے۔ رپورٹ کے مطابق ایک ڈیم کی تعمیر سے دریاؤں کے بہاؤ میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے جو 20 ہزار افراد کو متاثر کرتی ہے، اس سے زیر زمین پانی میں بھی کمی ہوجاتی ہے۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق گلیشیرز سکڑنے کی وجہ سے جنوبی ایشیا میں پانی کی قلت نہیں ہوگی، کوہ ہمالیہ کی چٹانوں کے گلیشیرز بڑی تعداد میں سکڑ رہے ہیں جس کی وجہ سے دریاؤں میں پانی کی سطح میں اضافہ ہوگا اور رواں صدی میں لوگوں کی پانی کی ضروریات نہیں پوری ہوگی۔ محققین کا کہنا ہے کہ 2100 میں ہمالیہ کے دو بڑے گلیشیرز میں نصف حد تک کمی واقع ہوگی۔
اگرچہ یہ حوصلہ افزا خبر ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سارے عوامل نے مل کر کرہ ارض کو جانداروں کے لیے خطرناک بنادیا ہے۔ اس معاملے میں ترقی یافتہ ممالک سب سے آگے ہیں۔ انسان نے اگر ان معاملات پر توجہ نہ دی تو پھر ساری ترقی دھری کی دھری رہ جائے گی۔ پاکستان، بھارت اور چین ہمالیہ اور قراقرم کے سلسلے میں واقعے ہیں۔ یہ دنیا کے بلند ترین اور طویل ترین پہاڑی سلسلے ہیں۔ یہ قدرت کا انمول تحفہ ہے جو اس خطے کو عطا کیا گیا ہے۔ اس سارے وسیع و عریض خطے میں بہنے والے تمام دریا، ندی نالے، چشمے اور جھرنے ان ہی پہاڑی سلسلوں سے پھوٹتے ہیں۔ پاکستان، بھارت، چین، نیپال، بنگلہ دیش، افغانستان یہاں تک کہ برما کے حکمرانوں کو ایسی پالیسی تیار کرنی چاہیے جس سے ہمالیائی سلسلے سے بھرپور فائدہ بھی لیا جاسکے اور اس سے ماحولیاتی انتشار بھی پیدا نہ ہو۔ یہی انسانی ذہانت کا کمال ہوگا۔