تعلیمی ادارے کرائے کی عمارتوں میں۔۔۔۔

جنوبی پنجاب کے کالجز میں سہولیات کا فقدان، طلبہ کا مستقبل داؤ پر لگا ہے

جنوبی پنجاب کے کالجز میں سہولیات کا فقدان، طلبہ کا مستقبل داؤ پر لگا ہے۔ فوٹو: فائل

عصر حاضر میں امارت و غربت سے بالا ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے بچے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں اور اپنے ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں۔

اور اس مقصد کے حصول میں وہ یہ بھی امید رکھتا ہے ہیں کہ حکومت اس کے خواب پورے کرنے میں مدد کرے۔ لیکن مشاہدے کی بات ہے کہ بڑے شہروں میں تو اعلٰی تعلیم کے فروغ کے لئے قائم اداروں کی تعداد آبادی کے لحاظ سے کچھ مناسب ضرور لیکن پسماندہ علاقوں میں ایسے ادارے تعداد میں کہیں کم ہونے کے علاوہ بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔ جنوبی پنجاب، مملکت پاکستان کا ایسا خطہ ہے جہاں کی آبادی 3 کروڑ سے زائد ہے، مگر باسیوں کے لئے تعلیمی سہولیات ناکافی ہیں۔ چھوٹے شہروں کو تو چھوڑیئے بڑے شہروں میں تعلیمی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔



سابق دور حکومت میں یہ دعوے کئے جاتے رہے کہ ملتان سے تعلق رکھنے والے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اس شہر کو پیرس بنا ڈالا، پورے ملک کے فنڈز یہاں کے ضلعی و تعلیمی اداروں پر خرچ کر دیئے گئے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ملتان شہر میں صرف 6 گرلز کالج ہیں، یعنی 30 لاکھ آبادی کے لئے 6 گرلز کالج اور ان میں سے صرف 2 گرلز کالج اپنی عمارت میں قائم ہیں۔ ایک شاہ رکن عالم گرلز کالج اور دوسرا ڈگری گرلز کالج چوک کچہری، جسے اب یونیورسٹی بنانے کے اعلانات کرکے ختم کیا جا رہا ہے۔ شہر کے وسط میں واقع یہ کالج 16 ہزار سے زائد طالبات کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ اس میں صرف انٹر کلاس کی طالبات کی تعداد 8 ہزار تک ہے، ایسے وقت میں جب ویمن یونیورسٹی کیلئے متی تل روڈ پر 27 ایکڑ اراضی حاصل کرکے تعمیراتی کام شروع کرا دیا گیا تو اس کالج کو ختم کرنے کی خواہش کیوں؟ اگر ویمن یونیورسٹی کی جگہ کم ہے تو اس سے ملحقہ محکمہ جنگلات کی اراضی ویران پڑی ہے، اسے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ دور حکومت میں وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے ملتان میں 4 گرلز کالج قائم کئے، ورنہ اس سے پہلے 2 کالج ہوا کرتے تھے، مگر ان نئے کالجز کا کیا حال ہے؟ شاید کسی انتظامی افسر نے وزیراعلیٰ کو نہیں بتایا۔ یہ نئے کالجز مستعار لی گئی عمارتوں میں قائم ہیں، جن کے مالک اب وقتاً فوقتاً انہیں خالی کرانے کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔ ایک زینب گرلز ڈگری کالج کو سول ڈیفنس کی عمارت میں قائم کیا گیا، جس میں طالبات کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ کلاسز اب کمروں سے نکل کر برآمدوں میں آ گئی ہیں مگر اس کا مستقبل کیا ہے یہ کوئی نہیں جانتا؟۔ جنرل الیکشن کی تیاری سر پر تھی، کہ عجلت میں فاطمہ ڈگری کالج کو علمدار ڈگری کالج کے ہاسٹل میں قائم کردیا گیا۔ اور پھر پلٹ کر نہیں دیکھا کہ بنیادی سہولیات کے بغیر کالج کیسا چل رہا ہے؟۔




14 نمبر چونگی گرلز کالج کو ایک ایم پی اے نے متروک ٹی بی ہسپتال میں قائم کرکے تختی لگوا لی اور پھر یہ کالج اب تک ویسے کا ویسا ہے۔ کھنڈر بنی عمارت کی جگہ نئی عمارت کی تعمیر شروع کی گئی مگر فنڈز آنے و جانے کی آنکھ مچولی میں یہ کب مکمل ہو گی؟ اس سوال کا جواب ضلعی محکمہ تعلیم دینے سے قاصر ہے۔ گرلز ڈگری کالج چونگی نمبر 6 بدقسمت بھی ہے اور خوش قسمت بھی' بدقسمت اس لئے کہ تین برسوں میں 2 بار اپنی جگہ تبدیل کر چکا ہے۔ پہلے اسے چونگی 6 پر قائم ایلیمنٹری کالج کے نچلے فلور میں قائم کیا گیا۔ اس کالج کے سٹاف کے احتجاج پر اسے ایلیمنٹری کالج کے ہاسٹل میں شفٹ کر دیا گیا۔ کالج کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اس وقت کے ایلیمنٹری کالج کے پرنسپل اور موجودہ ڈی پی آئی سکولز پریشان ہوئے کہ کہیں حکومت ان کا کالج اس گرلز کالج کو نہ دے دے پھر وہ تماشہ ہوا کہ گرلز کالج کی پرنسپل گرائونڈ میں کلاسز لے رہیں تھیں۔ ایسے میں سیاسی اور انتظامی افسروں نے صلح صفائی سے اس گرلز کالج کو ایمرسن کالج کے قائداعظم ہاسٹل میں منتقل کرنے کا فیصلہ کر لیا اور یہ کالج ابھی تک یہیں قائم ہے۔

جس کی عمارت کے گرد جھاڑیاں اُگی ہیں۔ جب کوئی تعمیراتی منصوبہ آنے لگتا ہے تو ایمرسن کالج انتظامیہ اسے خالی کرنے کا شور مچا دیتی ہے۔ ایمرسن کے پرنسپل ملک عبدالجبار کہتے ہیں ہمارے کالج میں طلباء کی تعداد بڑھ گئی ہے، ہمیں ہاسٹل چاہیئے۔ یہ کالج خوش قسمت اس لحاظ سے ہے کہ گزشتہ دو برسوں میں اس کالج کی طالبات نے زکریا یونیورسٹی کے زیراہتمام ہونے والی بی اے کے امتحان میں پوزیشن حاصل کیں۔ جو یہاں کے اساتذہ کی محنت اور طالبات کے ٹیلنٹ کا ثبوت ہے۔ مگر اس کالج کے مستقبل سے سب پریشان ہیں، کہ یہ کہاں چلے گا؟۔ ملتان کے گرلز کالج کے بعد یہاں بوائز کالج کی کہانی بھی کوئی نئی نہیں۔ اگرچہ یہ کالج ذاتی عمارتوں میں قائم ہیں، مگر اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔



بنیادی سہولیات میسر نہیں۔ سرکاری اراضی پر قبضہ گروپ بیٹھے ہیں۔ 60 کے عشرے میں بننے والا سول لائنز کالج کبھی شہر کا تیسرا بڑا کالج ہوتا تھا، مگر حکومت کی عدم دلچسپی نے اس کالج کی عمارت کو کھنڈر بنا دیا۔ پرنسپل کالج سید باقر جعفری کہتے ہیں اپنی مدد آپ کے تحت کام چلا رہے ہیں۔ سابق جسٹس (ر) فخرالنساء سے درخواست کی تو انہوں نے ٹوائلٹ بلاک بنا دیا۔ ایک مخیر شخصیت نے ٹھنڈے پانی کا کولر لگا دیا۔ نئے اکیڈمک بلاک کی ضرورت ہے۔ گرائونڈ آباد کرنے کی سوچتے ہیں مگر انتظامیہ کیلئے اس کالج سے بہتر کوئی پارکنگ سٹینڈ نہیں۔ کسی بھی ایونٹ کیلئے گاڑیاں پکڑ کر یہاں بند رکھی جاتی ہیں۔ وعدہ کیا گیا تھا کہ الیکشن کے بعد اس کالج کی ٹوٹ پھوٹ مرمت اور نقصان پورا کیا جائے گا۔ دیکھتے ہیں یہ وعدہ کب وفا ہوتا ہے؟۔

گورنمنٹ کامرس کالج عظمت واسطی روڈ کرائے کی عمارت میں قائم تھا۔ سابق ڈی سی او نسیم صادق نے اتفاق سے کالج کا دورہ کیا تو حیران رہ گئے اور کالج کو فوراً خطرناک عمارت سے سول لائنز کالج کے ہاسٹل میں شفٹ کرنے کے احکامات جاری کیے جبکہ کالج کو پرانی سبزی منڈی کی اراضی پر بنانے کی سمری تیار کر لی۔ اس دوران ڈی سی او نسیم صادق کا تبادلہ ہو گیا اور پورا منصوبہ بھی ٹھپ ہو گیا۔ اس کالج میں مخلوط نظام تعلیم تھا اور حال یہ ہے کہ کلاس روم تو کیا کالج میں واش روم نہیں ہے، جس کا حل یہ نکالا گیا طالبات کو لمبی چھٹی دیدی گئی اور رواں برس طالبات کے داخلے نہیں کیے۔ اس طرح گورنمنٹ سائنس کالج کا شمار ملتان کے بہترین کالجز میں ہوتا تھا۔ لیکن آج یہ کالج قبضہ گروپ کے نرغے میں ہے۔



یہ ہے صورت حال اس شہر کے تعلیمی اداروں کی، جسے جنوبی پنجاب کا دل کہا جاتا ہے۔ تعلیمی اداروں کی بحالی اور تعداد میں اضافہ کے لئے یہاں کے باسی حکومت اور انتظامیہ کی توجہ کے منتظر بیٹھے ہیں۔ دیکھتے ہیں! کہ وہ کب تک انتظار کی سولی پر لٹکتے ہیں؟
Load Next Story