میئر لانے کا منصوبہ
پی پی کی سندھ حکومت کراچی میں اپنا میئرلانا چاہتی تھی، اس لیے ایم کیوایم کے میئرکوجان بوجھ کراختیارات نہیں دیے گئے تھے
ISLAMABAD:
سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے کراچی میں نئے بلدیاتی نظام کے تحت 36 ٹاؤنز اور 223 یونین کمیٹیوں کے قیام کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔ سندھ اسمبلی سے منظور کرائے گئے ترمیمی بلدیاتی قانون کو 24 دسمبر 2021 سے نافذ العمل قرار دیا گیا ہے۔
جنرل پرویز مشرف کے ضلع نظام میں کراچی کا ایک ضلع 18 ٹاؤنز اور 178 یونین کونسلوں پر مشتمل تھا۔ پی پی حکومت نے ضلع نظام ختم کرکے سابقہ 6 ضلعے بنا دیے تھے اور بلدیہ عظمیٰ کے لیے یونین کمیٹیاں اور ضلع کونسل کراچی کے لیے یونین کونسلیں بنائی گئی تھیں۔
سابقہ شہری حکومت کے اہم اختیارات سندھ حکومت نے اپنے ہاتھ میں لے کر کراچی کے میئر کو برائے نام اختیارات اس لیے دیے تھے کہ کراچی میں آج تک پیپلز پارٹی کا کبھی میئر یا سٹی ناظم منتخب نہیں ہوا تھا اور پیپلز پارٹی ایک طویل عرصے سے کراچی میں اپنا میئر لانا چاہتی تھی ، جس کے لیے عرصہ دراز سے منصوبہ بندی کی جاتی رہی۔
اس لیے کراچی میں نئے مضافاتی ضلع بنائے گئے اور گزشتہ سال ایک اور مضافاتی ضلع کیماڑی بنایا گیا۔ اس سے قبل ضلع شرقی میں نیا ضلع کورنگی بنایا گیا تھا جس سے کراچی میں چار شہری اور تین مضافاتی اضلاع بنائے گئے تھے اور مضافاتی اضلاع میں ضلع کونسل کراچی، شہر کے دیہی علاقے نئے بلدیاتی قانون کے تحت اب تینوں مضافاتی اضلاع میں شامل کیے گئے ہیں۔
کراچی کے سب سے بڑے ضلع وسطی چونکہ مکمل شہری علاقہ ہے جس میں نیا ضلع پی پی نے اپنے سیاسی مفاد کے لیے نہیں بنایا بلکہ ضلع وسطی میں اب چار کے بجائے 5 ٹاؤن میونسپل کارپوریشنیں ہوں گی۔
پی پی کی سندھ حکومت کراچی میں اپنا میئر لانا چاہتی تھی، اس لیے ایم کیو ایم کے میئر کو جان بوجھ کر اختیارات نہیں دیے گئے تھے اور اب سندھ حکومت نے کراچی میں اپنا میئر لانے کے انتظامات مکمل کرلیے ہیں۔
میئرکا انتخاب یونین کونسلوں کے چیئرمینوں کے ذریعے کرایا جاتا ہے ، اس لیے سندھ حکومت نے پنجاب اور کے پی کے کی طرح میئر کے براہ راست انتخاب کا قانون ہی نہیں بنایا جو پی ٹی آئی کے بلدیاتی نظام میں ہے۔ پی ٹی آئی اپنے براہ راست میئر کے انتخاب میں پشاور میں مکمل ناکام رہی حالانکہ وہاں پہلے پشاور کا میئر پی ٹی آئی کا تھا اور وہاں پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت بھی تھی۔
سندھ حکومت 13 سالوں سے اقتدار میں ہے مگر اس نے کراچی کو جان بوجھ کر نظرانداز اسی لیے رکھا کہ کراچی سے پی پی اپنا میئر منتخب کرا ہی نہیں سکتی تھی، اس لیے طویل منصوبہ بندی کے تحت سندھ کی پی پی پی حکومت نے کراچی میں اضلاع بڑھائے اور مضافاتی علاقوں میں کم آبادی پر مشتمل یونین کونسلیں بنا لی ہیں جن کی کل تعداد اب 223 ہے جوکہ اب بھی کم ہیں اور جماعت اسلامی کے مطابق کراچی میں کم ازکم 600 یونین کونسلوں کی ضرورت ہے۔
کراچی کے شہری علاقوں میں پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک برائے نام ہے جس کے بڑھانے کی پی پی پی نے کبھی حقیقی کوشش کی ہی نہیں۔ کراچی کے شہری علاقوں میں پی پی سے زیادہ ووٹ ایم کیو ایم، جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کا ہے۔ کراچی میں ایم کیو ایم کا ووٹ بینک باہمی تقسیم کے باعث نہیں رہا اور نہ وہ اب اپنا میئر لاسکتی ہے۔ پی ٹی آئی کی نمایندگی کم ہے وہ اپنا میئر لانے کا خواب ہی دیکھ سکتی ہے۔
جماعت اسلامی نے بااختیار بلدیاتی نظام کے لیے دھرنا دیا، جلوس نکالے اور کراچی کے حقوق کے لیے موثر آواز اٹھا کر اپنا ووٹ بینک بڑھایا ہے اور ماضی میں کراچی کا اقتدار تین بار جماعت اسلامی اور تین بار متحدہ کے پاس رہا اور اب پی پی پی حکومت نے کراچی کے اقتدار کے لیے من مانی کرکے اپنی مرضی کا بلدیاتی نظام بنا لیا ہے ، جس کی سندھ کی پوری اپوزیشن مخالف ہے اور سندھ اسمبلی میں دیہی اکثریت نے کراچی شہر کے لیے پی پی پی کا میئر لانے کی مکمل منصوبہ بندی کے تحت قانون منظور کیا جو پی پی پی کے مکمل سیاسی مفاد میں ہے۔
کورنگی ضلع میں 4 ٹاؤن 37 یوسیز، ضلع جنوبی میں دو ٹاؤن اور 26 یوسیز، ضلع غربی میں 3ٹاؤن اور 26 یوسیز، ضلع ملیر میں 3 ٹاؤن اور 26 یوسیز، ضلع وسطی میں 5 ٹاؤن اور 45 یوسیز، ضلع کیماڑی میں 3 ٹاؤن اور 26 یوسیز، ضلع شرقی میں 5 ٹاؤن اور 43 یوسیز بنائی گئی ہیں اور صوبائی وزیر سعید غنی کی کوشش سے شرقی میں سب سے کم آبادی کی سابق یوسی چنیسر گوٹھ کو ٹاؤن کا درجہ دیا گیا ہے۔
گزشتہ بلدیاتی نظام میں کراچی کی 4 ڈی ایم سیز متحدہ کے اور دو ڈی ایم سیز اور ضلع کونسل کراچی پیپلز پارٹی کے پاس تھیں۔ ایم کیو ایم کے دو اضلاع کو چار میں تقسیم کرکے اور اپنے سیاسی مفاد کی کم آبادی کی یوسیز کی تعداد بڑھا کر سندھ حکومت نے اپنا میئر لانے کا جو بلدیاتی نظام بنایا ہے اس میں پی پی پی اپنا میئر منتخب کرا کر پھر اسمبلی سے بلدیاتی ترامیم منظور کرا کر کراچی کے میئر کو بااختیار بنا سکے گی۔
سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے کراچی میں نئے بلدیاتی نظام کے تحت 36 ٹاؤنز اور 223 یونین کمیٹیوں کے قیام کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔ سندھ اسمبلی سے منظور کرائے گئے ترمیمی بلدیاتی قانون کو 24 دسمبر 2021 سے نافذ العمل قرار دیا گیا ہے۔
جنرل پرویز مشرف کے ضلع نظام میں کراچی کا ایک ضلع 18 ٹاؤنز اور 178 یونین کونسلوں پر مشتمل تھا۔ پی پی حکومت نے ضلع نظام ختم کرکے سابقہ 6 ضلعے بنا دیے تھے اور بلدیہ عظمیٰ کے لیے یونین کمیٹیاں اور ضلع کونسل کراچی کے لیے یونین کونسلیں بنائی گئی تھیں۔
سابقہ شہری حکومت کے اہم اختیارات سندھ حکومت نے اپنے ہاتھ میں لے کر کراچی کے میئر کو برائے نام اختیارات اس لیے دیے تھے کہ کراچی میں آج تک پیپلز پارٹی کا کبھی میئر یا سٹی ناظم منتخب نہیں ہوا تھا اور پیپلز پارٹی ایک طویل عرصے سے کراچی میں اپنا میئر لانا چاہتی تھی ، جس کے لیے عرصہ دراز سے منصوبہ بندی کی جاتی رہی۔
اس لیے کراچی میں نئے مضافاتی ضلع بنائے گئے اور گزشتہ سال ایک اور مضافاتی ضلع کیماڑی بنایا گیا۔ اس سے قبل ضلع شرقی میں نیا ضلع کورنگی بنایا گیا تھا جس سے کراچی میں چار شہری اور تین مضافاتی اضلاع بنائے گئے تھے اور مضافاتی اضلاع میں ضلع کونسل کراچی، شہر کے دیہی علاقے نئے بلدیاتی قانون کے تحت اب تینوں مضافاتی اضلاع میں شامل کیے گئے ہیں۔
کراچی کے سب سے بڑے ضلع وسطی چونکہ مکمل شہری علاقہ ہے جس میں نیا ضلع پی پی نے اپنے سیاسی مفاد کے لیے نہیں بنایا بلکہ ضلع وسطی میں اب چار کے بجائے 5 ٹاؤن میونسپل کارپوریشنیں ہوں گی۔
پی پی کی سندھ حکومت کراچی میں اپنا میئر لانا چاہتی تھی، اس لیے ایم کیو ایم کے میئر کو جان بوجھ کر اختیارات نہیں دیے گئے تھے اور اب سندھ حکومت نے کراچی میں اپنا میئر لانے کے انتظامات مکمل کرلیے ہیں۔
میئرکا انتخاب یونین کونسلوں کے چیئرمینوں کے ذریعے کرایا جاتا ہے ، اس لیے سندھ حکومت نے پنجاب اور کے پی کے کی طرح میئر کے براہ راست انتخاب کا قانون ہی نہیں بنایا جو پی ٹی آئی کے بلدیاتی نظام میں ہے۔ پی ٹی آئی اپنے براہ راست میئر کے انتخاب میں پشاور میں مکمل ناکام رہی حالانکہ وہاں پہلے پشاور کا میئر پی ٹی آئی کا تھا اور وہاں پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت بھی تھی۔
سندھ حکومت 13 سالوں سے اقتدار میں ہے مگر اس نے کراچی کو جان بوجھ کر نظرانداز اسی لیے رکھا کہ کراچی سے پی پی اپنا میئر منتخب کرا ہی نہیں سکتی تھی، اس لیے طویل منصوبہ بندی کے تحت سندھ کی پی پی پی حکومت نے کراچی میں اضلاع بڑھائے اور مضافاتی علاقوں میں کم آبادی پر مشتمل یونین کونسلیں بنا لی ہیں جن کی کل تعداد اب 223 ہے جوکہ اب بھی کم ہیں اور جماعت اسلامی کے مطابق کراچی میں کم ازکم 600 یونین کونسلوں کی ضرورت ہے۔
کراچی کے شہری علاقوں میں پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک برائے نام ہے جس کے بڑھانے کی پی پی پی نے کبھی حقیقی کوشش کی ہی نہیں۔ کراچی کے شہری علاقوں میں پی پی سے زیادہ ووٹ ایم کیو ایم، جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کا ہے۔ کراچی میں ایم کیو ایم کا ووٹ بینک باہمی تقسیم کے باعث نہیں رہا اور نہ وہ اب اپنا میئر لاسکتی ہے۔ پی ٹی آئی کی نمایندگی کم ہے وہ اپنا میئر لانے کا خواب ہی دیکھ سکتی ہے۔
جماعت اسلامی نے بااختیار بلدیاتی نظام کے لیے دھرنا دیا، جلوس نکالے اور کراچی کے حقوق کے لیے موثر آواز اٹھا کر اپنا ووٹ بینک بڑھایا ہے اور ماضی میں کراچی کا اقتدار تین بار جماعت اسلامی اور تین بار متحدہ کے پاس رہا اور اب پی پی پی حکومت نے کراچی کے اقتدار کے لیے من مانی کرکے اپنی مرضی کا بلدیاتی نظام بنا لیا ہے ، جس کی سندھ کی پوری اپوزیشن مخالف ہے اور سندھ اسمبلی میں دیہی اکثریت نے کراچی شہر کے لیے پی پی پی کا میئر لانے کی مکمل منصوبہ بندی کے تحت قانون منظور کیا جو پی پی پی کے مکمل سیاسی مفاد میں ہے۔
کورنگی ضلع میں 4 ٹاؤن 37 یوسیز، ضلع جنوبی میں دو ٹاؤن اور 26 یوسیز، ضلع غربی میں 3ٹاؤن اور 26 یوسیز، ضلع ملیر میں 3 ٹاؤن اور 26 یوسیز، ضلع وسطی میں 5 ٹاؤن اور 45 یوسیز، ضلع کیماڑی میں 3 ٹاؤن اور 26 یوسیز، ضلع شرقی میں 5 ٹاؤن اور 43 یوسیز بنائی گئی ہیں اور صوبائی وزیر سعید غنی کی کوشش سے شرقی میں سب سے کم آبادی کی سابق یوسی چنیسر گوٹھ کو ٹاؤن کا درجہ دیا گیا ہے۔
گزشتہ بلدیاتی نظام میں کراچی کی 4 ڈی ایم سیز متحدہ کے اور دو ڈی ایم سیز اور ضلع کونسل کراچی پیپلز پارٹی کے پاس تھیں۔ ایم کیو ایم کے دو اضلاع کو چار میں تقسیم کرکے اور اپنے سیاسی مفاد کی کم آبادی کی یوسیز کی تعداد بڑھا کر سندھ حکومت نے اپنا میئر لانے کا جو بلدیاتی نظام بنایا ہے اس میں پی پی پی اپنا میئر منتخب کرا کر پھر اسمبلی سے بلدیاتی ترامیم منظور کرا کر کراچی کے میئر کو بااختیار بنا سکے گی۔