عمران خان کا صدارتی نظام
سبب یہ ہے کہ پاکستانی میڈیا جس بیانیے کو فروغ دیتا ہے، اس کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں
ایک صبح ہم جاگے تو منظر بدلا ہوا تھا۔ یہ صرف لڑکوں بالوں کی بات نہیں ہے، ہمارے جیسے بڈھے توتے بھی آنکھ کھولتے ہیں تو ہاتھ سیدھا سیل فون پر جاتا ہے۔ سبب اس بے صبری کاصرف یہی ہوتا ہے کہ وہ سب کچھ جو رات بھر میں بیت چکا، اس کی خبر مل جائے۔
اللہ کا شکر ہے کبھی مایوسی نہیں ہوئی۔ جس روز کا یہ ذکر ہے، مایوسی تو اس دن بھی نہیں ہوئی، البتہ حیرت ضرور ہوئی۔خبر اس حیرت بھری صبح یہ ملی کہ پارلیمانی نظام کے دن بیتے، آنے والا دور صدارتی نظام کا ہے۔ یہ اطلاع ہمیں سماجی رابطوں کے جدید نظام سے میسر آئی۔ سیدھی سی بات ہے، یہ ڈیجیٹل زمانہ ہے، اس کے توسط سے ملنے والی خبر پر یقین نہ آئے تو پھر اور کس پر آئے؟ تو ہم نے یہ خبر سنی اور اس پر یقین کیا، اس کے ساتھ ہی ہمارا ماتھا ٹھنکا۔
چند مہینے ہوتے ہیں، گوجرانوالہ سے ہمارے بھائی اے آر بابر تشریف لائے۔ بابر سے ہمارا تعلق بلکہ رشتہ تو صحافت کی برکت سے قائم ہوا پھر صورت حال بدل گئی۔ بابر متحرک آدمی تھوڑے سے عرصے میں سرکاری ملازمت کی، ریٹائرمنٹ لی، داڑھی رکھی۔ اسی زمانے موسیقی سیکھی اور اب بینجو بغل میں دبائے غزلیں گاتے ہیں۔ گاتے ہوئے اچھے خاصے محمد رفیع لگتے ہیں۔ پیشہ ورانہ رشتہ ان کے ساتھ محبت کے رشتے میں بدلا تو اس کا بھی ایک سبب تھا۔
بچپن میں ذہن پر کوئی نقش بنے یا زبان پر کوئی ذائقہ چڑھے، اس کی محبت دیرپا نہیں ہوتی، قبر تک جاتی ہے۔ ہمارا بچپن لیاقت پور اور بہاول پور کی برفی کھاتے ہوئے گزرا۔ وقت بدلا، زمانہ بیتا، بہاول پور لیاقت پور کہیں پیچھے رہ گئے۔
اس عرصے میں ہم سرگودھا کو چھوتے ہوئے کراچی جا بسے۔ اسی عرصے میں زمانے بھر کی خاک چھانی لیکن اس برفی کا ذائقہ کبھی میسر نہ آیا، زبان جس سے بچپن میں آشنا ہوئی تھی۔ وہ دوپہر مجھے کبھی نہیں بھولتی جب ہمارا یہ گورا چٹا یار جھومتا ہوا گھر میں داخل ہوا اور میری اہلیہ کو مخاطب کر کے کہا:''بھابھی جی! ساڈے شہر دی ایس برفی دا ساری دنیا وچ کوئی جوڑ نئیں۔'' ہم نے یہ دعویٰ سنا، اپنے بچپن کی برفی کو یاد کیا اور ڈرتے ڈرتے ایک ٹکڑا زبان پر رکھا پھر اچھل پڑے۔ سچ مچ یہ وہی برفی تھی جس کی آرزو میں آدھی سے زیادہ زندگی بیت چکی تھی۔
ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا، بات پہنچی تری جوانی تک۔برفی کے باب میں ہمارا مزاج بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ اس شکر پارے کے ذکر پر بات دور جا نکلی۔ ذکر بابر کا تھا۔ اب کی بار ملنے کو آئے تو ایک نئی سناونی لائے۔ اس دوپہر انھوں نے کیا خبر سنائی۔ یہ ذکر بھی کم اہم نہیں لیکن اس سے پہلے یہ ذکر ضروری ہے کہ اپنے مزاج کے عین مطابق وہ اپنے سیاسی نظریات بھی بدل چکے تھے۔ جم پل اگرچہ ان کی پہلوانوں کے شہر کی ہے، اس باوجود وہ کپتان پر فریفتہ تھے۔
دوران گفتگو انھوں نے روایتی سیاست دانوں کے لیے جو لب و لہجہ اختیار کیا، اس پر ہمت کر کے انھیں متوجہ کیا اور کہا: ''یار ! جن لوگوں کی شان میں آپ گستاخی فرما رہے ہیں، ایسا لگتا ہے، آپ کا ان کے ساتھ کوئی ذاتی جھگڑاہے۔'' یہ بات سن کر انھوں نے قہقہہ لگایا اور تسلیم کیا کہ ہاں جی، بالکل۔ یہی موقع تھا جب انھوں نے انکشاف کیا کہ بس، تھوڑے دنوں کی بات ہے، کپتان نے صدارتی نظام نافذ کر دینا ہے، اس کے بعد ستے خیراں۔
اس صبح سوشل میڈیا کی معرفت جب صدارتی نظام کی سناونی سنی تو اس لیے بھی یقین آگیا کہ آخر ایک انصافی نے ہمارے گھر میں بیٹھ کر یہ انکشاف کیا تھا۔صدارتی نظام ہے کیا اور عمران خان اسے کیوں نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ اس بارے میں بات کرنے والے بہت ہیں لیکن سچی بات یہ ہے کہ ایسا کوئی نہیں ہے جو پورے یقین کے ساتھ کچھ کہہ سکے۔ پھر یہ بات بتانے والا بھی ہمیں مل گیا اور مزے کی بات یہ ہے کہ ملا بھی اپنے گراں یعنی سرگودھا سے۔یہ معتبر آدمی ہے، ڈاکٹر اعجاز اکرم، چیئرمین رحمتہ اللعالمین اتھارٹی۔
ڈاکٹر صاحب عالم آدمی ہیں اور اس موضوع پر اتھارٹی سمجھے جاتے ہیں۔ تحریک انصاف میں شاید یہ واحد آدمی ہیں جنھیں اس جماعت کا نظریہ ساز کہا جا سکتا ہے۔ جن دنوں وہ این ڈی یو میں تھے، اسی زمانے میں انھوں نے ایک مقالہ سپرد قلم کیا۔ یوں سمجھ لیجیے کہ مقالے کا عنوان تھا، صدارتی نظام، کیا، کیوں اور کیسے؟ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ اس مقالے میں انھوں نے ثابت کر دیا ہے کہ پارلیمانی نظام اپنی موت آپ مر چکا۔ دوسری بات انھوں نے یہ فرمائی کہ اس نظام کا واحد متبادل صدارتی نظام ہے اور وہ بھی بقول جنرل حمید گل مرحوم، اسلامی صدارتی نظام۔
یہ نظام کیسے نافذ ہوگا؟ وہ کہتے ہیں کہ اس کے نفاذ سے پہلے تین کام ضروری ہیں۔ موجودہ صوبوں کو تحلیل کر کے نئے انتظامی یونٹوں کا قیام۔ عملی طریقہ اس کام کا ان کے خیال میں یہ ہے کہ موجودہ ڈویژنوں کو انتظامی یونٹ میں بدل دیا جائے۔دوسری بات جویہ ضروری سمجھتے ہیں یہ ہے کہ موجودہ سیاسی جماعتوں کو منقلب کر دیا جائے۔ کیسے؟ اس سوال کا جواب ان کے پاس یہ ہے کہ انھیں خاندانی غلبے سے نجات دلائی جائے۔تیسری بات بڑی غیر معمولی اور چونکا دینے والی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے میڈیا ہاؤسز کی ملکیت کو بدلنے کی ضرورت ہے۔
سبب یہ ہے کہ پاکستانی میڈیا جس بیانیے کو فروغ دیتا ہے، اس کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ بیانیہ کہیں باہر سے آتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ بیانیہ اسلام کے خلاف ہے، پاکستان کے خلاف ہے اور مسلح افواج کے خلاف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ بات نہیں چل سکتی۔ اسے بدلنے کے لیے ایک بڑا آپریشن ضروری ہے۔ میڈیا آنرشپ کیسے بدل سکتی ہے؟ اس سلسلے میں ضرور کوئی ماڈل ان کے ذہن میں ہو گا۔ دوران گفتگو ترکی ماڈل بھی وہ زیر بحث لے آتے ہیں۔
وہ جس صدارتی نظام کے علمبردار ہیں، کیا یہ حکومت آنے والے دنوں اس کے نفاذ کے لیے پرعزم ہے؟ حکومت اور تحریک انصاف کے خیالات کو جان کر سمجھ میں آتا ہے کہ یہ لوگ ایسا چاہتے تو ہیں لیکن اتنی جلد نہیں۔ پھر کب؟ اس جماعت اور حکومت کا ذہن سمجھ میں آ جائے تو پھر یہ بھی سمجھ میں آنا چاہیے کہ اس جماعت کی آیندہ انتخابی مہم کا نعرہ یہی ہوگا۔ آنے والے دنوں میں احتساب کی بات شاید کہیں پیچھے رہ جائے۔
اللہ کا شکر ہے کبھی مایوسی نہیں ہوئی۔ جس روز کا یہ ذکر ہے، مایوسی تو اس دن بھی نہیں ہوئی، البتہ حیرت ضرور ہوئی۔خبر اس حیرت بھری صبح یہ ملی کہ پارلیمانی نظام کے دن بیتے، آنے والا دور صدارتی نظام کا ہے۔ یہ اطلاع ہمیں سماجی رابطوں کے جدید نظام سے میسر آئی۔ سیدھی سی بات ہے، یہ ڈیجیٹل زمانہ ہے، اس کے توسط سے ملنے والی خبر پر یقین نہ آئے تو پھر اور کس پر آئے؟ تو ہم نے یہ خبر سنی اور اس پر یقین کیا، اس کے ساتھ ہی ہمارا ماتھا ٹھنکا۔
چند مہینے ہوتے ہیں، گوجرانوالہ سے ہمارے بھائی اے آر بابر تشریف لائے۔ بابر سے ہمارا تعلق بلکہ رشتہ تو صحافت کی برکت سے قائم ہوا پھر صورت حال بدل گئی۔ بابر متحرک آدمی تھوڑے سے عرصے میں سرکاری ملازمت کی، ریٹائرمنٹ لی، داڑھی رکھی۔ اسی زمانے موسیقی سیکھی اور اب بینجو بغل میں دبائے غزلیں گاتے ہیں۔ گاتے ہوئے اچھے خاصے محمد رفیع لگتے ہیں۔ پیشہ ورانہ رشتہ ان کے ساتھ محبت کے رشتے میں بدلا تو اس کا بھی ایک سبب تھا۔
بچپن میں ذہن پر کوئی نقش بنے یا زبان پر کوئی ذائقہ چڑھے، اس کی محبت دیرپا نہیں ہوتی، قبر تک جاتی ہے۔ ہمارا بچپن لیاقت پور اور بہاول پور کی برفی کھاتے ہوئے گزرا۔ وقت بدلا، زمانہ بیتا، بہاول پور لیاقت پور کہیں پیچھے رہ گئے۔
اس عرصے میں ہم سرگودھا کو چھوتے ہوئے کراچی جا بسے۔ اسی عرصے میں زمانے بھر کی خاک چھانی لیکن اس برفی کا ذائقہ کبھی میسر نہ آیا، زبان جس سے بچپن میں آشنا ہوئی تھی۔ وہ دوپہر مجھے کبھی نہیں بھولتی جب ہمارا یہ گورا چٹا یار جھومتا ہوا گھر میں داخل ہوا اور میری اہلیہ کو مخاطب کر کے کہا:''بھابھی جی! ساڈے شہر دی ایس برفی دا ساری دنیا وچ کوئی جوڑ نئیں۔'' ہم نے یہ دعویٰ سنا، اپنے بچپن کی برفی کو یاد کیا اور ڈرتے ڈرتے ایک ٹکڑا زبان پر رکھا پھر اچھل پڑے۔ سچ مچ یہ وہی برفی تھی جس کی آرزو میں آدھی سے زیادہ زندگی بیت چکی تھی۔
ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا، بات پہنچی تری جوانی تک۔برفی کے باب میں ہمارا مزاج بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ اس شکر پارے کے ذکر پر بات دور جا نکلی۔ ذکر بابر کا تھا۔ اب کی بار ملنے کو آئے تو ایک نئی سناونی لائے۔ اس دوپہر انھوں نے کیا خبر سنائی۔ یہ ذکر بھی کم اہم نہیں لیکن اس سے پہلے یہ ذکر ضروری ہے کہ اپنے مزاج کے عین مطابق وہ اپنے سیاسی نظریات بھی بدل چکے تھے۔ جم پل اگرچہ ان کی پہلوانوں کے شہر کی ہے، اس باوجود وہ کپتان پر فریفتہ تھے۔
دوران گفتگو انھوں نے روایتی سیاست دانوں کے لیے جو لب و لہجہ اختیار کیا، اس پر ہمت کر کے انھیں متوجہ کیا اور کہا: ''یار ! جن لوگوں کی شان میں آپ گستاخی فرما رہے ہیں، ایسا لگتا ہے، آپ کا ان کے ساتھ کوئی ذاتی جھگڑاہے۔'' یہ بات سن کر انھوں نے قہقہہ لگایا اور تسلیم کیا کہ ہاں جی، بالکل۔ یہی موقع تھا جب انھوں نے انکشاف کیا کہ بس، تھوڑے دنوں کی بات ہے، کپتان نے صدارتی نظام نافذ کر دینا ہے، اس کے بعد ستے خیراں۔
اس صبح سوشل میڈیا کی معرفت جب صدارتی نظام کی سناونی سنی تو اس لیے بھی یقین آگیا کہ آخر ایک انصافی نے ہمارے گھر میں بیٹھ کر یہ انکشاف کیا تھا۔صدارتی نظام ہے کیا اور عمران خان اسے کیوں نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ اس بارے میں بات کرنے والے بہت ہیں لیکن سچی بات یہ ہے کہ ایسا کوئی نہیں ہے جو پورے یقین کے ساتھ کچھ کہہ سکے۔ پھر یہ بات بتانے والا بھی ہمیں مل گیا اور مزے کی بات یہ ہے کہ ملا بھی اپنے گراں یعنی سرگودھا سے۔یہ معتبر آدمی ہے، ڈاکٹر اعجاز اکرم، چیئرمین رحمتہ اللعالمین اتھارٹی۔
ڈاکٹر صاحب عالم آدمی ہیں اور اس موضوع پر اتھارٹی سمجھے جاتے ہیں۔ تحریک انصاف میں شاید یہ واحد آدمی ہیں جنھیں اس جماعت کا نظریہ ساز کہا جا سکتا ہے۔ جن دنوں وہ این ڈی یو میں تھے، اسی زمانے میں انھوں نے ایک مقالہ سپرد قلم کیا۔ یوں سمجھ لیجیے کہ مقالے کا عنوان تھا، صدارتی نظام، کیا، کیوں اور کیسے؟ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ اس مقالے میں انھوں نے ثابت کر دیا ہے کہ پارلیمانی نظام اپنی موت آپ مر چکا۔ دوسری بات انھوں نے یہ فرمائی کہ اس نظام کا واحد متبادل صدارتی نظام ہے اور وہ بھی بقول جنرل حمید گل مرحوم، اسلامی صدارتی نظام۔
یہ نظام کیسے نافذ ہوگا؟ وہ کہتے ہیں کہ اس کے نفاذ سے پہلے تین کام ضروری ہیں۔ موجودہ صوبوں کو تحلیل کر کے نئے انتظامی یونٹوں کا قیام۔ عملی طریقہ اس کام کا ان کے خیال میں یہ ہے کہ موجودہ ڈویژنوں کو انتظامی یونٹ میں بدل دیا جائے۔دوسری بات جویہ ضروری سمجھتے ہیں یہ ہے کہ موجودہ سیاسی جماعتوں کو منقلب کر دیا جائے۔ کیسے؟ اس سوال کا جواب ان کے پاس یہ ہے کہ انھیں خاندانی غلبے سے نجات دلائی جائے۔تیسری بات بڑی غیر معمولی اور چونکا دینے والی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے میڈیا ہاؤسز کی ملکیت کو بدلنے کی ضرورت ہے۔
سبب یہ ہے کہ پاکستانی میڈیا جس بیانیے کو فروغ دیتا ہے، اس کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ بیانیہ کہیں باہر سے آتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ بیانیہ اسلام کے خلاف ہے، پاکستان کے خلاف ہے اور مسلح افواج کے خلاف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ بات نہیں چل سکتی۔ اسے بدلنے کے لیے ایک بڑا آپریشن ضروری ہے۔ میڈیا آنرشپ کیسے بدل سکتی ہے؟ اس سلسلے میں ضرور کوئی ماڈل ان کے ذہن میں ہو گا۔ دوران گفتگو ترکی ماڈل بھی وہ زیر بحث لے آتے ہیں۔
وہ جس صدارتی نظام کے علمبردار ہیں، کیا یہ حکومت آنے والے دنوں اس کے نفاذ کے لیے پرعزم ہے؟ حکومت اور تحریک انصاف کے خیالات کو جان کر سمجھ میں آتا ہے کہ یہ لوگ ایسا چاہتے تو ہیں لیکن اتنی جلد نہیں۔ پھر کب؟ اس جماعت اور حکومت کا ذہن سمجھ میں آ جائے تو پھر یہ بھی سمجھ میں آنا چاہیے کہ اس جماعت کی آیندہ انتخابی مہم کا نعرہ یہی ہوگا۔ آنے والے دنوں میں احتساب کی بات شاید کہیں پیچھے رہ جائے۔