کورونا کے وار تیزی سے جاری احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کرنا ہوگا
اسلام آباد میں منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ
کرونا وائرس کے کیسز میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔
اس وقت اومی کرون تیزی سے پھیل رہا ہے اور حکومت اس کی روک تھام کیلئے اقدامات کر رہی ہے۔ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے کورونا وائرس کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے 'ایکسپریس فورم اسلام آباد' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین صحت کو مدعو کیا گیا۔ فورم کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔
رانا محمد صفدر
(ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ، حکومت پاکستان)
ملک میں اس وقت کورونا وائرس کی پانچویں لہر جاری ہے۔ کورونا کی موجودہ قسم اومیکرون سابقہ قسم ڈیلٹا کے مقابلے میں تیزی سے پھیلتی ضرور ہے تاہم خوش قسمتی یہ ہے کہ اومیکرون اس قدر مہلک نہیں جس قدر ڈیلٹا وئرئینٹ مہلک ثابت ہوا تھا۔
اومیکرون وائرس کی ایک مریض سے دوسرے مریض میں منتقلی کی شرح 'ڈیلٹا 'کے مقابلے میں پانچ گناہ زیادہ ہے مگر مہلک ہونے کی شرح 'ڈیلٹا'کے مقابلے میں پانچ گنا کم ہے ۔ اومیکرون کے خلاف ویکسین بھی موثر ثابت ہورہی ہے۔چونکہ کورونا وائرس تیزی سے اپنی شکل بدلتا ہے۔
لہٰذا ہمیں یہ بات ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ اومیکرون کورونا کی آخری قسم نہیں، اس کے بعد مزید اقسام بھی آسکتی ہیں۔ عوام سے اپیل ہے کہ اس وباء سے خود کو محفوظ بنانے کیلئے ویکسین ضرور لگوائیں، یہی اس سے بچاؤکا واحد حل ہے۔
اس میں اہم یہ ہے کہ ویکسین لگوانے کے بعد بھی کسی صورت لاپرواہی یا ایس او پیز کی خلاف ورزی نہ کی جائے۔ ویکسی نیشن کے بعد بھی کورونا ہوجاتا ہے لیکن اس کے اثرات کم ہوتے ہیں لیکن اگر خاص عمر یا بیمار افراد کو ہو جائے تو جان لیوا بھی ہوسکتا ہے۔عوام کے تحفظ کیلئے حکومت ویکسین کی مفت فراہمی کیلئے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے۔
اس وقت ملک بھر میں ویکسی نیشن کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ کورونا سے بچاؤ کیلئے ویکسی نیشن کا عمل مکمل کرنے والے شہریوں کی تعداد8 کروڑ 7لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے جبکہ 10کروڑ42 لاکھ سے زائد شہری ویکسین کی پہلی خوراک اور 22 لاکھ 42 ہزار سے زائد شہریوں کو بوسٹر ویکسین لگائی جا چکی ہے۔ پاکستان میں اب تک مجموعی طور پر شہریوں کو ویکسین کی 17کروڑ 40 لاکھ85 ہزار175 خوراکیں لگائی جا چکی ہے۔
حکومت نے اب18سال سے زائد عمر کے شہریوں کو مفت بوسٹر ویکسین لگانے کی سہولت دی ہے، جن شہریوں کو ویکسین کی دونوں خوراکیں لگوائے ہوئے چھ ماہ کا عرصہ گزرچکاہو، وہ بوسٹر ڈوز لازمی لگوائیں ، یہ کورونا کے خلاف موثر ثابت ہورہی ہے۔پاکستان میں اب تک مجموعی طور پر14 لاکھ سے زائد شہریوں کو کورونا ہوچکا ہے جن میں 12 لاکھ 74 ہزار سے زائد صحت یاب ہوچکے ہیں اور محض 29 ہزار سے زائد اموات ہوئی ہیں۔کورونا کے آغاز پر ہمارے پاس ٹیسٹ کی سہولت اوروینٹی لیٹرز کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔
ہسپتالوں میں بیڈز کا مسئلہ بن چکا تھامگر اب ہم ان تمام شعبوں میں خودکفیل ہوچکے ہیں۔اب تک ہمارے ہاں 2 کروڑ 48 لاکھ 22 ہزار سے زائد کورونا ٹیسٹ ہوچکے ہیں۔حکومت پاکستان کی جانب سے کورونا سے بچاؤ کیلئے جو اقدامات اٹھائے گئے تھے انہیں دنیا بھر میں سراہا جارہا ہے۔
عالمی ادارہ صحت ، ورلڈ بنک و دیگر عالمی اداروں سمیت مختلف ممالک کے سربراہان نے حکومت پاکستان کے اقدامات کی تعریف کی۔ حکومت پاکستان کی جانب سے این سی او سی کے قیام اور اس کے اقدامات کو دنیا میں سراہا گیا۔پاکستان کی کورونا کے خلاف کامیابیوں کی وجہ سول و ملٹری قیادت سمیت پوری قوم ہے جس نے مل کر اس وباء سے درپیش چیلنجز کا مقابلہ کیا۔
این سی او سی، وزارت صحت اورتمام اسٹیک ہولڈرز اس وقت اومیکرون کی صورتحال کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں۔ جہاں بھی کورونا کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے وہاں ہم ایکشن لے رہے ہیں۔ پچھلے ماہ کے دوران کراچی، لاہور اور اب اسلام آباد میں بھی چند روز قبل تک کورونا کی نئی لہر اومیکرون کی شدت میں اضافہ دیکھنے کو ملا لیکن اب اس میں کمی واقع ہورہی ہے۔فی الوقت پشاورکے ارد گرد علاقوں میں کورونا تیزی سے پھیل رہا ہے۔
وہاں مزید بھی شرح میں اضافہ متوقع ہے لیکن ہم صورتحال کو مانیٹر کررہے ہیں اور کوشش کررہے ہیں کہ اس کے پھیلاؤ کو کم کیا جاسکے۔کورونا کی پہلی اور دوسری لہر کے دوران کیسز کی تعداد میں اضافے کے باعث حکومت نے تعلیمی اداروں حتیٰ کہ ہسپتالوں کو بھی عام مریضوں کیلئے بند کردیا تھا لیکن اب ایسی صورتحال کا سامنا نہیں، ہماری کوشش ہے کہ ہسپتالوں میں عام مریض متاثر نہ ہوں اور تعلیمی ادارے بھی کھلے رہیں۔
پہلے ہی بچوں کی تعلیم بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ ہماری اولین ترجیح ہے کہ جہاں جہاں کیسز رپورٹ ہورہے ہیں، انہیں آئیسولیٹ کردیا جائے تاکہ ان کے ذریعے وباء کے پھیلاؤ کو روکا جاسکے۔
پروفیسر ڈاکٹر نسیم اختر
(سربراہ شعبہ متعددی امراض پمز)
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی کورونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے پھیلاؤ میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور اس کے پھیلاؤ کے سدباب کے لیے سخت نوعیت کے مختلف اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔
عوام کو چاہیے کہ فوری کورونا کی ویکسین لگوائیں اور جو افراد ویکسین لگوا چکے ہیں وہ تیسری خوراک (بوسٹر) لگوائیں۔کورونا کی نئی قسم اومیکرون اگرچہ تیزی سے ضرور پھیلتا ہے لیکن زیادہ مہلک اور جان لیوا نہیں۔اومیکرون کورونا کی کسی بھی پرانی قسم بشمول ڈیلٹا سے زیادہ تیزی سے پھیلا ہے لیکن مثبت بات یہ ہے کہ اومیکرون نے لوگوں کو اتنا متاثر نہیں کیا جتنا ڈیلٹا نے کیا تھا۔ اومیکرون سے متاثرہ افراد کو ہسپتال میں داخلے کی ضرورت کم پڑتی ہے۔
اس کی کئی وجوہات بیان کی جا رہی ہیں۔ ایک اندازہ یہ ہے کہ اومیکرون پرانے وائرس کی اقسام کی طرح پھیپھڑوں پر اثر انداز نہیں ہوتا جس کی وجہ سے مرض میں شدت نہیں آتی اور یہ اتنا زیادہ مہلک نہیں رہتا۔دوسری یہ کہ جہاں گزشتہ دو برسوں کے دوران طب کے شعبے نے وائرس سے نمٹنے کے لیے کسی حد تک اپنے آپ کو تیار کر لیا ہے وہیں کورونا وائرس کی ویکسین کے عام ہونے سے بھی فرق پڑا ہے۔
اومیکرون جب کسی شخص پر حملہ آور ہوتا ہے تو شروع شروع میں ایسا لگتا ہے کہ متاثرہ فرد کو نزلہ یا زکام ہے، کیوں کہ اس وائرس کے لاحق ہونے کی ابتدائی علامات کچھ ایسی ہی ہیں۔
دیگر عام علامات میں گلے میں خراش، خشک کھانسی، ناک کا بہنا جس میں درد خاص طورپر سر، کمر اور ٹانگوں میں شدید درد شامل ہیں۔اومیکرون کے مریض کو جسم میں اسی طرح درد شروع ہوتا ہے جس طرح ڈینگی کے مریض کو ہوتا ہے۔
اومیکرون کس حد تک کسی کو متاثر کرتا ہے اس کا انحصار کافی حد تک اس بات پر ہے کہ کیا متاثرہ شخص نے کورونا کی ویکیسن لگوا رکھی ہے یا نہیں اور آخری ویکسین لگوائے کتنا عرصہ گزر چکا ہے۔ اومیکرون سے متاثرہ افراد کو ڈیلٹا کے مقابلے میں پانچ سے سات دن کی آئیسولیشن تجویز کی جاتی ہے ،اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ وائرس مریض کے جسم میں علامات ظاہر ہونے سے دو دن پہلے اور تین روز بعد تک کسی بھی دوسرے شخص میں منتقل ہوسکتا ہے۔
اس لئے کم ازکم پانچ سے سات دن تک آئیسولیشن تجویز کی جاتی ہے۔ اومیکرون سے اس وقت بہت سارے لوگ متاثر ہیں، عام شہریوں کی طرح ہسپتالوں کے اندر بھی ڈاکٹرز، نرسز و دیگر عملہ بری طرح اس وباء سے متاثر ہے۔ محض پمز ہسپتال میں اس وقت 250کے قریب ہیلتھ عملہ اومیکرون سے متاثر ہے۔یہ تمام عملہ اس وقت آئیسولیشن میں ہے لیکن اس کے باوجود ہسپتال میں عام مریضوں کیلئے سروسز کو بند نہیں کیا جا رہا۔
کورونا کی پہلی اور دوسری لہر کے دوران ہسپتالوں کے اندر بہت برا حال تھا، مریضوں کو وینٹی لیٹرز، بیڈ ز کی دستیابی مسئلہ بن چکا تھا۔ اب اللہ کے فضل وکرم اور حکومتی اقدامات سے اس قسم کی سنگین صورتحال کا سامنا نہیں ہے بلکہ ہر سہولت دستیاب ہے۔عوام سے اپیل ہے کہ احتیاط کریں، اس وباء کو ہلکا نہ لیں، ویکسین ضرور لگوائیں، ماسک کا استعمال کریں اور سماجی فاصلہ برقرار رکھیں۔
ہجوم یا رش والے مقامات پر نہ جائیں، ہمیشہ ہاتھوں اورارد گرد ماحول کو صاف رکھیں اور اگر ویکسین لگوائے ہوئے چھ ماہ کا عرصہ گزرچکا ہے تو بوسٹر ڈوز لازمی لگوائیں۔ کورونا وباء نے جہاں ہم سب کو مشکل میں ڈالا ہے وہیں صحت کے کئی شعبوں میں اس کی وجہ سے بہتری بھی آئی۔ ہسپتالوں میں بیڈز، وینٹی لیٹر ودیگر حفاظتی سامان کی دستیابی یقینی بنائی گئی تاہم ہسپتالوں میں انفراسٹرکچر یا افرادی قوت بڑھانے کے حوالے سے تاحال کوئی کام نہیں ہوسکا، اس پر توجہ دینا ہوگی۔
ڈاکٹر جمال ناصر
( پیتھالوجسٹ و سربراہ پاکستان گرین ٹاسک فورس)
دنیابھر میں کورونا وائرس کی 5ویں لہر کے وار جاری ہیں جس سے ہر طرف خوف کی ایک فضا قائم ہے اورلوگ پریشان ہیں۔ بیروزگاری ، نفسیاتی بیماریاں، غربت اور جہالت بڑھ رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ زندگی رک گئی ہے لیکن اگر دیکھا جائے تو معاملات اتنے گھمبیرنہیں ہیں جتنا دنیا بھر میں پراپیگنڈہ کیا جارہا ہے۔ گزشتہ2 برس میں 34کروڑ افراد کورونا وائرس کا شکار ہوئے اور تقریباََ 56لاکھ افراد کی اموات ہوئی۔
اس لحاظ سے کورونا سے مرنے والوں کی شرح 1.8%سے بھی کم ہے۔ دنیا کی کل آبادی کے مقابلے میں صرف 22ممالک جن میں یورپ، چین ،روس اور ایران شامل ہیں، وہاں مریضوں کی تعداد 22کروڑ اور مرنے والوں کی تعداد 39لاکھ ہے جبکہ اس کے مقابلے میں باقی تمام دنیا کے ممالک میں مریضوں کی تعداد 12کروڑ اورمرنے والوں کی تعداد 17لاکھ ہے۔
یہ 22ممالک جو دنیا کی کل آبادی کا 35 فیصد ہیں وہاں کورونا وائرس کاشکا ر ہونے والوں کی شرح 65 فیصد اور اموات کی شرح70 فیصد ہے جبکہ اس کے مقابلے میں باقی تمام ممالک جو کہ کل آبادی کا65 فیصد بنتے ہیں وہاں اس مرض کی شرح 35 فیصد اور اموات کی شرح 70 فیصد ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ درجہ حرارت ،حبس ،دھوپ ،ملیریا ،ٹی بی اور قوت مدافعت کا مریض کی تعداد اور اموات کی شرح میں اہم رول ہے۔
کورونا وائرس روز بروز اپنی ساکھ تبدیل کر رہا ہے۔ یہ نزلہ زکام کے وائرس کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے جو کبھی ختم نہیں ہو گا لیکن دن بدن کمزور ہو کر عام فلو کی طرح وائرس بن جائے گا۔
جب انفلوئنزا وائرس پہلی بار آیا تو تقریباََ 5 کروڑ افراد لقمہ اجل بنے تھے۔سارس سے مرنے والوں کی شرح 17 فیصد اورمرس سے مرنے والوں کی شرح تقریباََ 39 فیصد تھی لیکن آج یہ تمام وائرس کمزور ہو کرنزلہ زکام کا وائرس بن گئے ہیں۔پاکستان میں گزشتہ 2 برسوں میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد تقریباََ13 لاکھ اور مرنے والوں کی تعداد تقریباََ 29 ہزار رہی جو 24 کروڑ کی آبادی میں اتنی تشویشناک شرح نہیں لیکن آج بھی لوگوں کو ڈرایا جا رہا ہے۔
لاک ڈاؤن کی باتیں ہو رہی ہیں، سکول اور کالجز کو بند کیا جا رہا ہے، لوگوں سے روز گار چھینا جا رہا ہے،شادی ہالز اور شاپنگ مالز بند کیے جارہے ہیں، کوروناوائرس کی آڑ میں مختلف قسم کی پابندیوں سے کاروبار تباہ ہو رہے ہیں، مہنگائی کا طوفان تھمنے کا نام نہیں لے رہا، بیروزگاری بڑھ رہی ہے،عوام کیلئے نظام زندگی رواں دواں رکھنا دشوار ہو چکا اورکورونا وائرس کے نام پرجاری پراپیگنڈہ نے لوگوں کو ذہنی مریض بنا دیا ہے۔
نفسیاتی مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ پاکستان کے مقابلے میں امریکا ، انگلینڈ، آئر لینڈاور دبئی جیسے ممالک کے حالا ت کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں روزانہ متاثر ہونے والے افراد کی تعداد لاکھوں میں ہونے کے باوجود کوئی پریشانی اور خوف کی فضا نہیں ہے۔وہاں کے لوگوں نے کورونا وائرس سے گھبرانے کی بجائے اس کے ساتھ جینا سیکھ لیا ہے۔یہ لوگ احتیاطی تدابیر کے ساتھ نارمل زندگی گزار رہے ہیں ،وہاں کوئی سکول ،کالج ، شاپنگ مال وغیرہ بند نہیں۔ وہاںبیماری میں ٹیسٹ کم سے کم کیے جارہے ہیں۔
انگلینڈمیں بیرون ممالک سے آنے والوں کے لیے پی سی آرٹیسٹ کی شرط بھی ختم کر دی گئی ہے۔ایسا نظر آتا ہے کہ دنیا بھر کی ائیرلائنز اور فارما سیوٹیکل کمپنیوں کا ایک بااثر مافیا جان بوجھ کر لوگوں میں خوف پیدا کرکے اپنے کاروبار کو وسعت دینے کے ایجنڈے کو فروغ دے رہا ہے اور کچھ طاقتور ممالک اس آڑ میں خوب کما رہے ہیں۔
ہمیں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ آنے والا دور ''بائیولوجیکل وار''کا دور ہوگا جس میں زندہ رہنے کیلئے ہمیں ابھی سے تیاری کرنا ہو گی۔پاکستان میں آج کل کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 7ہزار روزانہ ہے جبکہ مرنے والوں کی شرح محض 0.2فیصد تک ہے۔موسمی حالات کی وجہ سے ملک میں نزلہ زکام کی صورت یہ وائرس پھیلا ہوا ہے، لوگ ٹیسٹ نہیں کروا رہے۔ اگر نزلہ زکام کا شکار افراد ٹیسٹ کروا لیں تو کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی شرح 0.02فیصد سے زیادہ نہیں ہو گی۔اس لیے ہمیں عالمی سازشوں کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ یہ نزلہ زکام کا وائرس بن چکا ہے۔
اس سے گھبرانے کے بجائے زندگی کو معمول کی طرف لانا چاہیے۔ لاک ڈاؤن نہیں ہونا چاہیے، سکولز ،کالجز اور شادی ہالوں کو کھول دینا چاہیے۔ لوگوں میں انتہائی قوت مدافعت پیدا ہونے دی جائے تاکہ اس بیماری سے نمٹا جاسکے اور ہمارا ملک جو معاشی بدحالی کا شکا ر ہے وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔
اس وقت اومی کرون تیزی سے پھیل رہا ہے اور حکومت اس کی روک تھام کیلئے اقدامات کر رہی ہے۔ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے کورونا وائرس کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے 'ایکسپریس فورم اسلام آباد' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین صحت کو مدعو کیا گیا۔ فورم کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔
رانا محمد صفدر
(ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ، حکومت پاکستان)
ملک میں اس وقت کورونا وائرس کی پانچویں لہر جاری ہے۔ کورونا کی موجودہ قسم اومیکرون سابقہ قسم ڈیلٹا کے مقابلے میں تیزی سے پھیلتی ضرور ہے تاہم خوش قسمتی یہ ہے کہ اومیکرون اس قدر مہلک نہیں جس قدر ڈیلٹا وئرئینٹ مہلک ثابت ہوا تھا۔
اومیکرون وائرس کی ایک مریض سے دوسرے مریض میں منتقلی کی شرح 'ڈیلٹا 'کے مقابلے میں پانچ گناہ زیادہ ہے مگر مہلک ہونے کی شرح 'ڈیلٹا'کے مقابلے میں پانچ گنا کم ہے ۔ اومیکرون کے خلاف ویکسین بھی موثر ثابت ہورہی ہے۔چونکہ کورونا وائرس تیزی سے اپنی شکل بدلتا ہے۔
لہٰذا ہمیں یہ بات ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ اومیکرون کورونا کی آخری قسم نہیں، اس کے بعد مزید اقسام بھی آسکتی ہیں۔ عوام سے اپیل ہے کہ اس وباء سے خود کو محفوظ بنانے کیلئے ویکسین ضرور لگوائیں، یہی اس سے بچاؤکا واحد حل ہے۔
اس میں اہم یہ ہے کہ ویکسین لگوانے کے بعد بھی کسی صورت لاپرواہی یا ایس او پیز کی خلاف ورزی نہ کی جائے۔ ویکسی نیشن کے بعد بھی کورونا ہوجاتا ہے لیکن اس کے اثرات کم ہوتے ہیں لیکن اگر خاص عمر یا بیمار افراد کو ہو جائے تو جان لیوا بھی ہوسکتا ہے۔عوام کے تحفظ کیلئے حکومت ویکسین کی مفت فراہمی کیلئے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے۔
اس وقت ملک بھر میں ویکسی نیشن کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ کورونا سے بچاؤ کیلئے ویکسی نیشن کا عمل مکمل کرنے والے شہریوں کی تعداد8 کروڑ 7لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے جبکہ 10کروڑ42 لاکھ سے زائد شہری ویکسین کی پہلی خوراک اور 22 لاکھ 42 ہزار سے زائد شہریوں کو بوسٹر ویکسین لگائی جا چکی ہے۔ پاکستان میں اب تک مجموعی طور پر شہریوں کو ویکسین کی 17کروڑ 40 لاکھ85 ہزار175 خوراکیں لگائی جا چکی ہے۔
حکومت نے اب18سال سے زائد عمر کے شہریوں کو مفت بوسٹر ویکسین لگانے کی سہولت دی ہے، جن شہریوں کو ویکسین کی دونوں خوراکیں لگوائے ہوئے چھ ماہ کا عرصہ گزرچکاہو، وہ بوسٹر ڈوز لازمی لگوائیں ، یہ کورونا کے خلاف موثر ثابت ہورہی ہے۔پاکستان میں اب تک مجموعی طور پر14 لاکھ سے زائد شہریوں کو کورونا ہوچکا ہے جن میں 12 لاکھ 74 ہزار سے زائد صحت یاب ہوچکے ہیں اور محض 29 ہزار سے زائد اموات ہوئی ہیں۔کورونا کے آغاز پر ہمارے پاس ٹیسٹ کی سہولت اوروینٹی لیٹرز کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔
ہسپتالوں میں بیڈز کا مسئلہ بن چکا تھامگر اب ہم ان تمام شعبوں میں خودکفیل ہوچکے ہیں۔اب تک ہمارے ہاں 2 کروڑ 48 لاکھ 22 ہزار سے زائد کورونا ٹیسٹ ہوچکے ہیں۔حکومت پاکستان کی جانب سے کورونا سے بچاؤ کیلئے جو اقدامات اٹھائے گئے تھے انہیں دنیا بھر میں سراہا جارہا ہے۔
عالمی ادارہ صحت ، ورلڈ بنک و دیگر عالمی اداروں سمیت مختلف ممالک کے سربراہان نے حکومت پاکستان کے اقدامات کی تعریف کی۔ حکومت پاکستان کی جانب سے این سی او سی کے قیام اور اس کے اقدامات کو دنیا میں سراہا گیا۔پاکستان کی کورونا کے خلاف کامیابیوں کی وجہ سول و ملٹری قیادت سمیت پوری قوم ہے جس نے مل کر اس وباء سے درپیش چیلنجز کا مقابلہ کیا۔
این سی او سی، وزارت صحت اورتمام اسٹیک ہولڈرز اس وقت اومیکرون کی صورتحال کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں۔ جہاں بھی کورونا کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے وہاں ہم ایکشن لے رہے ہیں۔ پچھلے ماہ کے دوران کراچی، لاہور اور اب اسلام آباد میں بھی چند روز قبل تک کورونا کی نئی لہر اومیکرون کی شدت میں اضافہ دیکھنے کو ملا لیکن اب اس میں کمی واقع ہورہی ہے۔فی الوقت پشاورکے ارد گرد علاقوں میں کورونا تیزی سے پھیل رہا ہے۔
وہاں مزید بھی شرح میں اضافہ متوقع ہے لیکن ہم صورتحال کو مانیٹر کررہے ہیں اور کوشش کررہے ہیں کہ اس کے پھیلاؤ کو کم کیا جاسکے۔کورونا کی پہلی اور دوسری لہر کے دوران کیسز کی تعداد میں اضافے کے باعث حکومت نے تعلیمی اداروں حتیٰ کہ ہسپتالوں کو بھی عام مریضوں کیلئے بند کردیا تھا لیکن اب ایسی صورتحال کا سامنا نہیں، ہماری کوشش ہے کہ ہسپتالوں میں عام مریض متاثر نہ ہوں اور تعلیمی ادارے بھی کھلے رہیں۔
پہلے ہی بچوں کی تعلیم بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ ہماری اولین ترجیح ہے کہ جہاں جہاں کیسز رپورٹ ہورہے ہیں، انہیں آئیسولیٹ کردیا جائے تاکہ ان کے ذریعے وباء کے پھیلاؤ کو روکا جاسکے۔
پروفیسر ڈاکٹر نسیم اختر
(سربراہ شعبہ متعددی امراض پمز)
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی کورونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے پھیلاؤ میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور اس کے پھیلاؤ کے سدباب کے لیے سخت نوعیت کے مختلف اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔
عوام کو چاہیے کہ فوری کورونا کی ویکسین لگوائیں اور جو افراد ویکسین لگوا چکے ہیں وہ تیسری خوراک (بوسٹر) لگوائیں۔کورونا کی نئی قسم اومیکرون اگرچہ تیزی سے ضرور پھیلتا ہے لیکن زیادہ مہلک اور جان لیوا نہیں۔اومیکرون کورونا کی کسی بھی پرانی قسم بشمول ڈیلٹا سے زیادہ تیزی سے پھیلا ہے لیکن مثبت بات یہ ہے کہ اومیکرون نے لوگوں کو اتنا متاثر نہیں کیا جتنا ڈیلٹا نے کیا تھا۔ اومیکرون سے متاثرہ افراد کو ہسپتال میں داخلے کی ضرورت کم پڑتی ہے۔
اس کی کئی وجوہات بیان کی جا رہی ہیں۔ ایک اندازہ یہ ہے کہ اومیکرون پرانے وائرس کی اقسام کی طرح پھیپھڑوں پر اثر انداز نہیں ہوتا جس کی وجہ سے مرض میں شدت نہیں آتی اور یہ اتنا زیادہ مہلک نہیں رہتا۔دوسری یہ کہ جہاں گزشتہ دو برسوں کے دوران طب کے شعبے نے وائرس سے نمٹنے کے لیے کسی حد تک اپنے آپ کو تیار کر لیا ہے وہیں کورونا وائرس کی ویکسین کے عام ہونے سے بھی فرق پڑا ہے۔
اومیکرون جب کسی شخص پر حملہ آور ہوتا ہے تو شروع شروع میں ایسا لگتا ہے کہ متاثرہ فرد کو نزلہ یا زکام ہے، کیوں کہ اس وائرس کے لاحق ہونے کی ابتدائی علامات کچھ ایسی ہی ہیں۔
دیگر عام علامات میں گلے میں خراش، خشک کھانسی، ناک کا بہنا جس میں درد خاص طورپر سر، کمر اور ٹانگوں میں شدید درد شامل ہیں۔اومیکرون کے مریض کو جسم میں اسی طرح درد شروع ہوتا ہے جس طرح ڈینگی کے مریض کو ہوتا ہے۔
اومیکرون کس حد تک کسی کو متاثر کرتا ہے اس کا انحصار کافی حد تک اس بات پر ہے کہ کیا متاثرہ شخص نے کورونا کی ویکیسن لگوا رکھی ہے یا نہیں اور آخری ویکسین لگوائے کتنا عرصہ گزر چکا ہے۔ اومیکرون سے متاثرہ افراد کو ڈیلٹا کے مقابلے میں پانچ سے سات دن کی آئیسولیشن تجویز کی جاتی ہے ،اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ وائرس مریض کے جسم میں علامات ظاہر ہونے سے دو دن پہلے اور تین روز بعد تک کسی بھی دوسرے شخص میں منتقل ہوسکتا ہے۔
اس لئے کم ازکم پانچ سے سات دن تک آئیسولیشن تجویز کی جاتی ہے۔ اومیکرون سے اس وقت بہت سارے لوگ متاثر ہیں، عام شہریوں کی طرح ہسپتالوں کے اندر بھی ڈاکٹرز، نرسز و دیگر عملہ بری طرح اس وباء سے متاثر ہے۔ محض پمز ہسپتال میں اس وقت 250کے قریب ہیلتھ عملہ اومیکرون سے متاثر ہے۔یہ تمام عملہ اس وقت آئیسولیشن میں ہے لیکن اس کے باوجود ہسپتال میں عام مریضوں کیلئے سروسز کو بند نہیں کیا جا رہا۔
کورونا کی پہلی اور دوسری لہر کے دوران ہسپتالوں کے اندر بہت برا حال تھا، مریضوں کو وینٹی لیٹرز، بیڈ ز کی دستیابی مسئلہ بن چکا تھا۔ اب اللہ کے فضل وکرم اور حکومتی اقدامات سے اس قسم کی سنگین صورتحال کا سامنا نہیں ہے بلکہ ہر سہولت دستیاب ہے۔عوام سے اپیل ہے کہ احتیاط کریں، اس وباء کو ہلکا نہ لیں، ویکسین ضرور لگوائیں، ماسک کا استعمال کریں اور سماجی فاصلہ برقرار رکھیں۔
ہجوم یا رش والے مقامات پر نہ جائیں، ہمیشہ ہاتھوں اورارد گرد ماحول کو صاف رکھیں اور اگر ویکسین لگوائے ہوئے چھ ماہ کا عرصہ گزرچکا ہے تو بوسٹر ڈوز لازمی لگوائیں۔ کورونا وباء نے جہاں ہم سب کو مشکل میں ڈالا ہے وہیں صحت کے کئی شعبوں میں اس کی وجہ سے بہتری بھی آئی۔ ہسپتالوں میں بیڈز، وینٹی لیٹر ودیگر حفاظتی سامان کی دستیابی یقینی بنائی گئی تاہم ہسپتالوں میں انفراسٹرکچر یا افرادی قوت بڑھانے کے حوالے سے تاحال کوئی کام نہیں ہوسکا، اس پر توجہ دینا ہوگی۔
ڈاکٹر جمال ناصر
( پیتھالوجسٹ و سربراہ پاکستان گرین ٹاسک فورس)
دنیابھر میں کورونا وائرس کی 5ویں لہر کے وار جاری ہیں جس سے ہر طرف خوف کی ایک فضا قائم ہے اورلوگ پریشان ہیں۔ بیروزگاری ، نفسیاتی بیماریاں، غربت اور جہالت بڑھ رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ زندگی رک گئی ہے لیکن اگر دیکھا جائے تو معاملات اتنے گھمبیرنہیں ہیں جتنا دنیا بھر میں پراپیگنڈہ کیا جارہا ہے۔ گزشتہ2 برس میں 34کروڑ افراد کورونا وائرس کا شکار ہوئے اور تقریباََ 56لاکھ افراد کی اموات ہوئی۔
اس لحاظ سے کورونا سے مرنے والوں کی شرح 1.8%سے بھی کم ہے۔ دنیا کی کل آبادی کے مقابلے میں صرف 22ممالک جن میں یورپ، چین ،روس اور ایران شامل ہیں، وہاں مریضوں کی تعداد 22کروڑ اور مرنے والوں کی تعداد 39لاکھ ہے جبکہ اس کے مقابلے میں باقی تمام دنیا کے ممالک میں مریضوں کی تعداد 12کروڑ اورمرنے والوں کی تعداد 17لاکھ ہے۔
یہ 22ممالک جو دنیا کی کل آبادی کا 35 فیصد ہیں وہاں کورونا وائرس کاشکا ر ہونے والوں کی شرح 65 فیصد اور اموات کی شرح70 فیصد ہے جبکہ اس کے مقابلے میں باقی تمام ممالک جو کہ کل آبادی کا65 فیصد بنتے ہیں وہاں اس مرض کی شرح 35 فیصد اور اموات کی شرح 70 فیصد ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ درجہ حرارت ،حبس ،دھوپ ،ملیریا ،ٹی بی اور قوت مدافعت کا مریض کی تعداد اور اموات کی شرح میں اہم رول ہے۔
کورونا وائرس روز بروز اپنی ساکھ تبدیل کر رہا ہے۔ یہ نزلہ زکام کے وائرس کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے جو کبھی ختم نہیں ہو گا لیکن دن بدن کمزور ہو کر عام فلو کی طرح وائرس بن جائے گا۔
جب انفلوئنزا وائرس پہلی بار آیا تو تقریباََ 5 کروڑ افراد لقمہ اجل بنے تھے۔سارس سے مرنے والوں کی شرح 17 فیصد اورمرس سے مرنے والوں کی شرح تقریباََ 39 فیصد تھی لیکن آج یہ تمام وائرس کمزور ہو کرنزلہ زکام کا وائرس بن گئے ہیں۔پاکستان میں گزشتہ 2 برسوں میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد تقریباََ13 لاکھ اور مرنے والوں کی تعداد تقریباََ 29 ہزار رہی جو 24 کروڑ کی آبادی میں اتنی تشویشناک شرح نہیں لیکن آج بھی لوگوں کو ڈرایا جا رہا ہے۔
لاک ڈاؤن کی باتیں ہو رہی ہیں، سکول اور کالجز کو بند کیا جا رہا ہے، لوگوں سے روز گار چھینا جا رہا ہے،شادی ہالز اور شاپنگ مالز بند کیے جارہے ہیں، کوروناوائرس کی آڑ میں مختلف قسم کی پابندیوں سے کاروبار تباہ ہو رہے ہیں، مہنگائی کا طوفان تھمنے کا نام نہیں لے رہا، بیروزگاری بڑھ رہی ہے،عوام کیلئے نظام زندگی رواں دواں رکھنا دشوار ہو چکا اورکورونا وائرس کے نام پرجاری پراپیگنڈہ نے لوگوں کو ذہنی مریض بنا دیا ہے۔
نفسیاتی مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ پاکستان کے مقابلے میں امریکا ، انگلینڈ، آئر لینڈاور دبئی جیسے ممالک کے حالا ت کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں روزانہ متاثر ہونے والے افراد کی تعداد لاکھوں میں ہونے کے باوجود کوئی پریشانی اور خوف کی فضا نہیں ہے۔وہاں کے لوگوں نے کورونا وائرس سے گھبرانے کی بجائے اس کے ساتھ جینا سیکھ لیا ہے۔یہ لوگ احتیاطی تدابیر کے ساتھ نارمل زندگی گزار رہے ہیں ،وہاں کوئی سکول ،کالج ، شاپنگ مال وغیرہ بند نہیں۔ وہاںبیماری میں ٹیسٹ کم سے کم کیے جارہے ہیں۔
انگلینڈمیں بیرون ممالک سے آنے والوں کے لیے پی سی آرٹیسٹ کی شرط بھی ختم کر دی گئی ہے۔ایسا نظر آتا ہے کہ دنیا بھر کی ائیرلائنز اور فارما سیوٹیکل کمپنیوں کا ایک بااثر مافیا جان بوجھ کر لوگوں میں خوف پیدا کرکے اپنے کاروبار کو وسعت دینے کے ایجنڈے کو فروغ دے رہا ہے اور کچھ طاقتور ممالک اس آڑ میں خوب کما رہے ہیں۔
ہمیں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ آنے والا دور ''بائیولوجیکل وار''کا دور ہوگا جس میں زندہ رہنے کیلئے ہمیں ابھی سے تیاری کرنا ہو گی۔پاکستان میں آج کل کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 7ہزار روزانہ ہے جبکہ مرنے والوں کی شرح محض 0.2فیصد تک ہے۔موسمی حالات کی وجہ سے ملک میں نزلہ زکام کی صورت یہ وائرس پھیلا ہوا ہے، لوگ ٹیسٹ نہیں کروا رہے۔ اگر نزلہ زکام کا شکار افراد ٹیسٹ کروا لیں تو کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی شرح 0.02فیصد سے زیادہ نہیں ہو گی۔اس لیے ہمیں عالمی سازشوں کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ یہ نزلہ زکام کا وائرس بن چکا ہے۔
اس سے گھبرانے کے بجائے زندگی کو معمول کی طرف لانا چاہیے۔ لاک ڈاؤن نہیں ہونا چاہیے، سکولز ،کالجز اور شادی ہالوں کو کھول دینا چاہیے۔ لوگوں میں انتہائی قوت مدافعت پیدا ہونے دی جائے تاکہ اس بیماری سے نمٹا جاسکے اور ہمارا ملک جو معاشی بدحالی کا شکا ر ہے وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔