کراچی میں پڑھے لکھے بے روزگار نوجوان پھلکیاں فروخت کرنے لگے

شہر بھر میں پھلکیاں فروخت کرنیوالوں کی تعداد 800 ہے،کام بڑھنے پر پھلکیاں تیارکرنے والے کارخانوں کی تعداد بھی بڑھنے لگی


عامر خان February 17, 2014
نیوکراچی میںایک نوجوان بیسن سے تیار کی جانیوالی پھلکیاں پلیٹ میں سجا رہا ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

ISLAMABAD: شہر میں پڑھے لکھے بے روزگار نوجوانوں کی بڑی تعداد نے رزق حلال سے اپنے خاندانوں کی کفالت کے لیے پھلکی فروخت کرنے کا پیشہ اختیار کرلیا ہے۔

اس کام کا آغاز کم سرمائے سے ہوتا ہے اور12 گھنٹے کی محنت کے بعد اس کام کو کرنے والے شخص کو پھیری لگا کر یا کسی بھی بازار میں کھڑے ہو کر500 روپے کی آمدنی ہوجاتی ہے اس پیشے سے منسلک افراد روز کماتے اور کھاتے ہیں10سال سے اس پیشے سے منسلک اورنگی ٹاؤن کے فاروق خان نے بتایا کہ شہر میں پھلکی فروخت کرنے والے افراد کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے اور بڑی تعداد میں پڑھے لکھے بیروزگار نوجوان اس پیشے سے منسلک ہورہے ہیں، یہ کام 2000 ہزار روپے سے شروع ہوسکتا ہے، انھوں نے اس کام کے طریقہ کار کے بارے میں بتایا کہ پہلے نوجوان پھلکی تیار کرنے والے کارخانوں سے تیار پھلکیاں خرید کر لائیں ، گھر میں پیاز کا سلاد بناکر کھٹائی اور لال مرچ کی چٹنی بنا کر ٹھیلے پر رکھ لیں۔

اگر ٹھیلا خریدنے کی استطاعت ہو تو ٹھیک ورنہ 50 روپے روزانہ کرائے پر ٹھیلا حاصل کیا جاسکتا ہے، ٹھیلے پر چھوٹا لکڑی کا تخت رکھیں، اس پر پلاسٹک کی شیٹ چڑھائیں اور پھر پھلکیاں فروخت کرنے کا کام شروع کردیں اگر بازار میں جگہ ملے تو ٹھیک ورنہ پھیری لگاکر پھلکیاں باآسانی فروخت کی جاسکتی ہیںکوئی بھی بیروزگار شخص اس کام سے گھر کی کفالت کرسکتا ہے، شہر میں ٹھیلوں پر پھلکی فروخت کرنے والوں کی تعداد 800 ہو گی لیکن بیروزگاری کے باعث اب اس پیشے سے مختلف برادریوں کے لوگ وابستہ ہورہے ہیں یہ کام کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور جیسے جیسے یہ کام بڑھ رہا ہے پھلکیاں تیار کرنے والے کارخانوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے پھلکی ہر عمر کے افراد شوق سے کھاتے ہیں یہ ذائقے دار اور چٹ پٹی ہوتی ہیں اس لیے اس کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے اس پیشے سے 70 فیصد میمن، گجراتی ، کاٹھیا واڑی اور اردو بولنے والے لوگ وابستہ ہیں اور30 فیصد دیگر برادریوں کے افراد وابستہ ہیں،پھلکیاں متوسط طبقے کے لوگ کھاتے ہیں تاہم منفرد چٹ پٹے ذائقے کے باعث اب پوش علاقوں میں بھی اس کی مانگ بڑھ گئی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں