پاک افغان بارڈر تجارت میں تعاون کی پیشکش

عالمی برادری افغانستان کے مالی، انتظامی اور انفرا اسٹرکچر، سیاسی امن اور معاشی ترقی کے لیے ہمہ گیر اقدامات کرے


Editorial February 01, 2022
عالمی برادری افغانستان کے مالی، انتظامی اور انفرا اسٹرکچر، سیاسی امن اور معاشی ترقی کے لیے ہمہ گیر اقدامات کرے (فوٹو : فائل)

PESHAWAR: پاکستان اور افغانستان نے سرحدی کراسنگ پوائنٹس پر سہولتیں بڑھانے کے لیے رابطہ کاری کا میکنزم تشکیل دینے اور بارٹر تجارت شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے جب کہ پاکستان نے صحت، تعلیم، بینکنگ ، کسٹم، ریلوے اور ہوا بازی کے شعبے میں استعداد بڑھانے اور تربیت میں تعاون کی پیشکش کی ہے۔

قومی سلامتی کمیٹی کی پریس ریلیز کے مطابق قومی سلامتی کے مشیر و افغانستان کے بین الوزارتی رابطہ سیل کے سربراہ معید یوسف نے ہفتہ اور اتوارکو کابل کا دورہ کیا۔ جس کا مقصد افغان مسائل پر قابو پانے کے لیے اقتصادی مصروفیات مستحکم کرنے کے لیے پاکستان کی تجاویز پر تبادلہ خیال کرنا تھا۔ مزید برآں پاکستان نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں 5کشمیریوں کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے بھارتی فوج کے عالمی احتساب کے مطالبے کا اعادہ کیا ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق صرف جنوری میں23کشمیریوں کو جعلی مقابلوں، نام نہاد محاصرے اور تلاشی کارروائیوں میں شہید کیا گیا۔ بھارت ہندو توا نظریے پر عمل پیرا ہے جو مسلمانوں کی نسل کشی پر اکساتا ہے، بھارتی الزام جس میں پاکستانی مزاحمت کار قتل کرنے کا جھوٹا دعویٰ کیا گیا، اسے مسترد کر تے ہوئے ان الزامات کی مذمت کرتے ہیں۔ بھارتی فوج مالی انعامات یا شجاعت کے تمغے حاصل کرنے کے لیے معصوم کشمیریوں کو عسکریت پسند کے طور پر نسل کشی میں ملوث ہے۔

بلاشبہ دونوں وفود نے با مقصد اور مفید مذاکرات کیے اور باہمی دلچسپی اور اسٹرٹیجیکل معاملات پر با ثمر تبادلہ خیال کیا، تاہم اس وقت پاکستان اور افغانستان کے سرحدی کراسنگ پوائنٹ پر سہولتیں بڑھانے کے لیے رابطہ کاری کا میکنزم تشکیل دینے اور بارٹر تجارت شروع کرنے پر اتفاق رائے کیا جو بے حد مفید ثابت ہوگا اور خطے میں بین الاقوامی تجارت اور باہمی لین دین میں پھیلاؤ کا سبب بنے گا، مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی سہولتوں کے حوالے سے حکام کو زیادہ سے زیادہ کی فراہمی کا انتظام کرنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ عالمی طاقتیں جنگوں کے باوجود اپنے تجارتی معاملات اور تعلقات کا تسلسل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ امریکا اور چین، کے تجارتی تعلقات میں کوئی مشکل پیدا نہیں ہوئی، اسی طرح دیگر ملکوں نے بھی اپنے تجارتی و کاروباری تعلقات اور بین الاقوامی تجارت میں کوئی قدغن نہیں لگائی، ان کے تجارتی حجم بھی بڑھے، کاروبار کو وسعت ملی اور عوام کو بھی تجارت سے فوائد حاصل ہوئے۔

لہٰذا پاکستان اور افغانستان میں بارٹر تجارت، کاروباری سسٹم کے لیے ایک منظم پیش رفت اور میکنزم وقت کی ضرورت ہے۔ اس لیے دونوں ملکوں کے کسٹمز قوانین، اور راہداری کے حوالے سے آمد و رفت کی سہولتوں میں آسانی لائی جائے تاکہ دو طرفہ تجارت اور کاروبار سے دونوں ملکوں کے عوام، بزنس مینوں ، حکومتی خزانے اور کاروباری اداروں کو شفاف قانونی لین دین سے براہ راست فائدہ پہنچے، اسمگلروں اور غیر قانونی کاروبار سے مفاد پرستوں کو کوئی فائدہ نہ پہنچے، دوسری طرف اس سرحدی کراسنگ سہولتوں کی فراہمی سے علاقے میں قانونی طریقے سے کاروبار پھیلے گا۔

بیروزگار افرادی طاقت کو جائز طریقہ سے روزگار ملے گا اور معاشی سرگرمیاں بڑھیں گی، امید ہے کہ حکام بارڈر سہولتوں میں تجارتی گروپوں کی آسانیوں کو پیش نظر رکھیں گے، عوام کو بھی سہولتیں ملیں گی۔

انھیں معاشی فوائد حاصل ہوں گے، تجارتی اقدامات کے ذریعے بارڈر کی معاشی اور کاروباری افادیت میں بھی اضافہ ہوگا اور تجارتی حجم میں اضافہ اور پھیلاؤ سے بزنس ایکٹیوٹی کے اقتصادی اثرات بھی کثیر سمتی ہوںگے جب کہ کسٹم کے قانونی دائرہ کار میں آنے کے بعد علاقے میں غیر قانونی گاڑیوں کی خرید و فروخت کو ریگولرائز کرنے میں بھی بڑی مدد مل سکے گی، سرحدی کراسنگ پوائنٹ کھلنے سے کاروباری چہل پہل ہمہ جہت ہوجائے گی اور خطے کی ہیئت بھی بدل جائے گی۔

دریں اثنا افغان طالبان کی عبوری حکومت نے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف کی سربراہی میں پاکستانی وفد کو یقین دلایا کہ افغان سرزمین کو پاکستان سمیت کسی پڑوسی ممالک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

یہ یقین دہانی افغانستان کے قائم مقام نائب وزیر اعظم ملا عبدالسلام حنفی نے ڈاکٹر معید یوسف کے ساتھ ملاقات کے دوران کرائی، معید یوسف بنیادی طور پر افغانستان کی انسانی ضروریات کا جائزہ لینے اور اقتصادی امور پر بات چیت کے لیے ایک بین الوزارتی وفد کے ہمراہ افغانستان پہنچے ہیں، ان کے ہمراہ خصوصی ایلچی برائے افغانستان محمد صادق اور دیگر اعلیٰ حکام بھی تھے۔

گزشتہ سال اگست میں افغان طالبان کے قبضے کے بعد معید یوسف دوسرے سینئر پاکستانی عہدے دار ہیں جنھوں نے کابل کا دورہ کیا۔ گزشتہ سال اکتوبر میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کابل کا دورہ کیا تھا۔ مشیر قومی سلامتی کا یہ دورہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے کیے گئے دہشت گردانہ حملوں میں اضافے کے پس منظر میں عمل میں آیا ہے۔

پاکستان کو تشویش ہے کہ ٹی ٹی پی اب بھی افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف حملوں کے لیے استعمال کر رہی ہے، تاہم طالبان حکومت کی طرف سے جاری بیان میں افغان نائب وزیر اعظم نے پاکستانی وفد کو بتایا کہ امارات اسلامیہ کی پالیسی واضح ہے کہ کسی کو افغان سرزمین ہمسایہ اور دوسرے ملکوں کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور ہم دوسرے ممالک سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں، نائب وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان دو پڑوسی اور برادر اسلامی ممالک ہیں، ان کے تاریخی مذہبی اور برادرانہ کئی مشترکات ہیں۔

امید ہے یہ تعلق ہمیشہ کے لیے ایسے ہی قائم و دائم رہے گا۔ انھوں نے افغان مہاجرین کی میزبانی اور تعاون پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان سمیت خطے کے ہر ملک کے ساتھ دو طرفہ احترام پر مبنی تعلقات چاہتے ہیں جس سے تجارت اور ٹرانزٹ کے شعبوں میں توسیع ہو، افغان نائب وزیر اعظم نے پاکستانی تاجروں اور سرمایہ کاروں کو ترغیب دی کہ وہ افغانستان میں انرجی، کان کنی اور زراعت کے شعبوں میں سرمایہ کاری کریں، معید یوسف نے افغان معیشت کی بحالی اور ملک میں پیدا ہونے والے انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے پاکستانی کوششوں پر تبادلہ خیال کیا۔

مشیر قومی سلامتی نے وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر کابل کا دورہ کیا تاکہ وہاں انسانی صورتحال کا جائزہ لے کر دیکھا جا سکے کہ پاکستان انسانی تباہی کو روکنے میں کس طرح مدد کر سکتا ہے۔

افغانستان میں انسانی صورت حال کی ڈائنامزم پر پوری دنیا کی نگاہیں مرکوز ہیں، افغان بچوں کو صحت سہولتوں کی ضرورت ہے، صحت کے عالمی ادارہ کے حکام نے خبردار کیا ہے کہ بچے پوری دنیا کے لیے ایک انمول انسانی سرمایہ ہیں، انھیں صحت، تعلیم اور غذاؤں کی ضرورت ہے، ترقی یافتہ ملکوں پر اقوام متحدہ زور دے رہی ہے کہ ان کی صحت، تعلیم اور خوراک کے لیے ہر ممکن کوشش کی جانی چاہیے۔ عالمی سیاسی رہنماؤں کو افغانستان میں داخلی امن کے لیے امداد کی فراہمی پر پوری توجہ دینا چاہیے۔

اس میں کسی قسم کی کوتاہی سے ہولناک سانحہ جنم لے سکتا ہے، اس لیے پاکستان اور افغانستان میں اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ افغانستان میں کوئی پڑوسی ملک اس کی خود مختاری اور زمین کو استعمال نہیں کریگا، افغانستان کی آزادی، قومی وقار اور امن کی ہر قیمت پر حفاظت کی جائے گی۔ بہر حال خدا کا شکر ہے کہ افغانستان رفتہ رفتہ سیاسی مسائل کے حل میں پیش رفت کررہا ہے، افغان عوام کو سنجیدگی سے اس بات کا احساس ہے کہ پرامن بقائے باہمی ہی وقت کی ضرورت ہے، خواتین کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ انھیں تعلیم، صحت اور گھر کے باہر بھی زندگی کا تحفظ حاصل ہوگا، ان کی ناموس کے لیے حکومت ہر ممکن اقدام کریگی۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ عالمی برادری افغانستان کے مالی، انتظامی اور انفرا اسٹرکچر، سیاسی امن اور معاشی ترقی کے لیے ہمہ گیر اقدامات کرے، عوام کا کہنا ہے کہ وقت گزر رہا ہے اور دنیا ابھی تک افغانستان کی مدد کے لیے آگے بڑھنے میں پس و پیش سے کام لے رہی ہے۔

اسے افغان سانحہ کے رونما ہونے کے وقت کا انتظار نہیں کرنا چاہیے، یہ وقت افغانستان کی تعمیر کا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو اور جنگ، قتل و غارت اور خانہ جنگی کے ہر امکان کو ناکام بناکر عوام کو انسانی المیہ سے بچانے کی کوشش کرنا چاہیے۔ افغانستان میں نسل انسانی کو بچانے کے لیے ایک بے مثال قربانی کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں