راہ کچھ کٹھن سہی لیکن ناممکن نہیں
کام یاب خاتون بننے کے لیے چند گُر پلو سے باندھ لیجیے
LONDON:
خواتین چاہے دنیا کے کسی بھی حصے سے تعلق رکھتی ہوں، بہ حیثیت ماں، بیوی، بیٹی، بہن، کولیگ اور سب سے بڑھ کر بہ حیثیت فرد، معاشرے کی سمت کے تعین میں ان کا بہت اہم کردار ہے۔
خواتین معاشرے کے کتنے ہی اونچے یا طاقت ور طبقے سے تعلق رکھتی ہوں، چاہے کتنی ہی پڑھی لکھی ہوں یا پھر چاہے کام یابی کی کسی بھی منزل پر ہوں، روز مرہ زندگی میں ان کو بے شمار چیلنجوں کا سامنا ہوتا ہے، لیکن اصل کام یابی ان چلینجوں کو اپنی طاقت میں بدلنا ہے۔ کسی بھی چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ اپ کتنی طاقت ور ہیں، بلکہ اہم بات یہ ہے کہ آپ اس چیلنج کو کس طرح قبول کرتی ہیں؟
اگر آپ بھی تمام تر ذمہ داریوں کو بہ خوبی نبھاتے ہوئے معاشرے کی کام یاب انسان بننا چاہتی ہیں، تو روز مرہ زندگی سے جُڑے ہوئے ان چیلنجوں پرقابو پانا سیکھیں۔
٭ اپنی ذات سے نکل کر سوچیں:کسی بھی معاشرے کا کام یاب یا بڑے آدمی کی سوچ اپنی ذات تک محدود نہیں ہوتی۔ اس کی سوچ، اس کے مقاصد، اس کی تمنائیں، اس کی خواہشات اپنی ذات کے باہر ہوتی ہیں۔ اس کی سوچ ہمیشہ اجتماعی ہوتی ہے۔ اپنی ذات سے باہر نکل کر سوچنے سے نہ صرف انسان کے سیکھنے کا عمل اور گروتھ بہت تیز ہو جاتی، بلکہ اس کو سچی خوشی بھی حاصل ہوتی ہے۔
یاد رکھیں کہ زندگی کی معنویت ہمیشہ زندگی کے مقصد سے مشروط ہوتی ہے۔ اس ہی لیے بڑے آدمی کا مقصد بھی ہمیشہ بڑا ہوگا۔ بالکل اس ہی طرح اپ چاہے ماں ہیں، بیوی ہیں، بہن ہیں یا پھر کولیگ ہیں، اپنی سوچ کا دائرہ وسیع رکھیں۔ ہمیشہ اجتماعی فائدے کے لیے کام کریں۔ اورسب سے بڑھ کریہ کہ معاشرے میں مثبت سوچ پروان چڑھانے میں اپنا کردارادا کریں۔
٭ لوگ کیا کہیں گے؟: معاشرے میں سب سے بڑا چیلنج جس کا سامنا خواتین کو کرنا ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ دنیا کیا کہے گی؟ رشتہ دار کیا سوچیں گے؟ یہ وہ جملہ یا سوچ ہے جو بہ حیثیت ماں، بیوی، بیٹی، بہن سب سے زیادہ ہمارے فیصلوں پر اثرانداز ہوتی ہے۔ چاہے، عورت اپنے فیصلے میں اصولی طورپر کتنے ہی حق پر کیوں نہ لیکن یہ ہمارے معاشرے کے وہ اَن دیکھے خوف ہیں، جو خواتین کے فیصلوں پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔
دوسرے لوگ جو سوچتے ہیں وہ یا تو آپ پر مثبت اثر ڈال سکتا ہے یا پھر زندگی کو منفی تاثرکے سوا کچھ نہیں دے سکتا۔ اگر آپ ان چیلنجوں کی تلاش میں ہیں جن پر کام یاب لوگ قابو پاتی ہیں، تو دوسروں کی رائے یقینی طور پر اہم ہے، لیکن کام یاب افراد دوسروں کے رائے سے اچھی طرح نمٹنا جانتے ہیں۔ تنقید کب درست ہے یہ جان کر اس چیلنج پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔ یہ پہچاننے کی صلاحیت کے ساتھ کہ کوئی رائے کب مفید ہے، کام یاب لوگ جانتے ہیں کہ رائے کو کب اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، یا اگر وہ رائے محض ایک رکاوٹ ہے تو اس کو مکمل طورپرنظر انداز کر دینا چاہیے۔
٭خوف: ایک چیلنج جس کا سامنا معاشرے کے ہر فرد بالخصوص خواتین کو ہوتا ہے، وہ ہے خوف۔ قطع نظر اس کے کہ اپ زندگی میں کتنا کام یاب ہیں، اپ زندگی میں کیا کچھ حاصل کر چکے ہیں اور مزید کیا حاصل کرنا ہے، چاہتا ہیں، اس سب کے بیچ کچھ کھو دینے کا 'خوف'، کسی قسم کا خطرہ مول لینے کا 'خوف' یا پھر 'کچھ غلط نہ ہو جائے' کا 'خوف' ہمیشہ انسان کے ساتھ رہتا ہے۔ لیکن ایک کام یاب انسان جانتا ہے کہ اپنے دل دماغ میں جنم لینے والے ان وسوسوں اور پریشان کن خیالات پر کس طرح قابو پایا جا سکتا ہے۔
٭منفی فکر: 'نیگیٹویٹی' یا منفی فکر ایک ایسا عنصر ہے، جو نہ صرف خواتین بلکہ عام انسان کے خیالات پر اکثر اثرانداز ہوتا ہے۔ ظاہر ہے جب انسان کسی معاملے کے مختلف پہلوؤں پر غور کرتا ہے، تو مثبت نکات کے ساتھ اس معاملے کے منفی پہلوؤں پر بھی نظر ڈالتا ہے۔
یعنی اگر یہ کہا جائے، تو کچھ غلط نہ ہو گا کہ زندگی کے بیش تر شعبوں میں منفیت یا 'نیوگیٹویٹی' موجود ہوتی، لیکن کام یاب لوگوں میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ ان منفی خیالات کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیتے۔ جو لوگ منفی ردعمل کا سامنا کرتے ہوئے ہچکچاتے ہیں، وہ دراصل چیلنج کوخود کو شکست دینے دیتے ہیں، لیکن جو لوگ' نیگیٹویٹی' یا منفی خیالات یا ردعمل کا سامنا کرتے ہیں اور اسے مثبت بنا دیتے ہیں، حقیقت میں وہی لوگ ایک زندگی میں کام یاب ہوتے ہیں۔
٭ناکامی کا سامنا کریں: زندگی میں متعدد بار انسان کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن اگر ناکامیوں کا سامنا کرنا سیکھ لیا جائے، تو آپ دنیا کے سب سے کام یاب شخص ہو سکتے ہیں۔ کام یاب افراد ہمیشہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ناکامیاں ناگزیر ہیں، اور انھیں صرف ایک چیلنج کے طور پر لینا چاہیے۔ خواتین کو بھی زندگی کے مختلف شعبوں میں متعدد بار ناکامی کا سامنا ہوتا ہے، لیکن 'ناکامی' کو اپنی کام یابی میں بدلنا ہی اصل جیت ہے۔
٭جذبات پرہمیشہ قابو رکھیں: اگر یہ کہا جائے کہ خواتین میں 'جذباتیت' کا عنصر تھوڑا سا زیادہ ہوتا ہے تو کچھ غلط نہیں ہوگا۔ ایک کام یاب شخص کا خوشی اور غم دونوں کے جذبات پر قابو پانا اہم ہے۔ کام یاب انسان کی قوتِ برداشت عام انسان کی قوتِ برداشت سے بہت زیادہ ہوتی ہے۔ زندگی میں بہت سی ناپسندیدہ اور توقعات کے برخلاف چیزوں پر جذبات کو قابو میں رکھتے ہوئے سہنا پڑتا ہے، تبھی کام یابی قدم چومتی ہے۔
٭ زندگی میں 'مسترد' ہونا بھی سیکھیں: خواتین کی زندگی میں ایسا لمحہ ضروراتا ہے، جب کبھی ان کو بتایا جاتا ہے کہ آپ 'موزوں' یا 'اچھی' نہیں ہیں، لیکن کبھی کبھی زندگی میں 'مسترد' ہونا بھی بہت ضروری ہوتا، کیوں کہ 'مسترد' ہونا انسان کو سکھاتا ہے کہ اسے زندگی میں مزید کام یابی کیسے حاصل کرنی ہے اوراس کو اپنے کردار کو مزید کیسے نکھارنا ور بنانا ہوگا۔ کام یاب انسان 'مسترد' ہونے کو قبول کرنے اور اس چیلنج پر قابو پانے کے قابل ہوتے ہیں۔
٭حوصلہ افزائی کا فقدان: ہمارے معاشرے میں اکثرخواتین کو کام یابی پروہ پذیرائی اور حوصلہ افزائی حاصل نہیں ہوتی، جس کی وہ حق دار ہوتی ہیں۔ قدرتی طور پر'حوصلہ افزائی کی کمی' غیر محسوس طریقے سے اسان ترین کاموں کو بھی مشکل بنا دیتا ہے۔ کام یاب افراد اس بات کو قبول کرنے کے قابل ہوتے ہیں کہ یہ ایک ایسی چیز ہے، جس سے انھیں ہر صورت نمٹنا پڑے گا۔ وہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ اس کمی کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیں گے۔ اس ہی لیے اگر اپ خاتون ہیں اور پاکستانی معاشرے کا حصہ ہیں، تو اپنی کام یابی کو خود منائیں اور محظوظ ہوں اور اپنی دیگر ساتھی خواتین کی حوصلہ افزائی کا بھی ذریعہ بنیں۔
خواتین چاہے دنیا کے کسی بھی حصے سے تعلق رکھتی ہوں، بہ حیثیت ماں، بیوی، بیٹی، بہن، کولیگ اور سب سے بڑھ کر بہ حیثیت فرد، معاشرے کی سمت کے تعین میں ان کا بہت اہم کردار ہے۔
خواتین معاشرے کے کتنے ہی اونچے یا طاقت ور طبقے سے تعلق رکھتی ہوں، چاہے کتنی ہی پڑھی لکھی ہوں یا پھر چاہے کام یابی کی کسی بھی منزل پر ہوں، روز مرہ زندگی میں ان کو بے شمار چیلنجوں کا سامنا ہوتا ہے، لیکن اصل کام یابی ان چلینجوں کو اپنی طاقت میں بدلنا ہے۔ کسی بھی چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ اپ کتنی طاقت ور ہیں، بلکہ اہم بات یہ ہے کہ آپ اس چیلنج کو کس طرح قبول کرتی ہیں؟
اگر آپ بھی تمام تر ذمہ داریوں کو بہ خوبی نبھاتے ہوئے معاشرے کی کام یاب انسان بننا چاہتی ہیں، تو روز مرہ زندگی سے جُڑے ہوئے ان چیلنجوں پرقابو پانا سیکھیں۔
٭ اپنی ذات سے نکل کر سوچیں:کسی بھی معاشرے کا کام یاب یا بڑے آدمی کی سوچ اپنی ذات تک محدود نہیں ہوتی۔ اس کی سوچ، اس کے مقاصد، اس کی تمنائیں، اس کی خواہشات اپنی ذات کے باہر ہوتی ہیں۔ اس کی سوچ ہمیشہ اجتماعی ہوتی ہے۔ اپنی ذات سے باہر نکل کر سوچنے سے نہ صرف انسان کے سیکھنے کا عمل اور گروتھ بہت تیز ہو جاتی، بلکہ اس کو سچی خوشی بھی حاصل ہوتی ہے۔
یاد رکھیں کہ زندگی کی معنویت ہمیشہ زندگی کے مقصد سے مشروط ہوتی ہے۔ اس ہی لیے بڑے آدمی کا مقصد بھی ہمیشہ بڑا ہوگا۔ بالکل اس ہی طرح اپ چاہے ماں ہیں، بیوی ہیں، بہن ہیں یا پھر کولیگ ہیں، اپنی سوچ کا دائرہ وسیع رکھیں۔ ہمیشہ اجتماعی فائدے کے لیے کام کریں۔ اورسب سے بڑھ کریہ کہ معاشرے میں مثبت سوچ پروان چڑھانے میں اپنا کردارادا کریں۔
٭ لوگ کیا کہیں گے؟: معاشرے میں سب سے بڑا چیلنج جس کا سامنا خواتین کو کرنا ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ دنیا کیا کہے گی؟ رشتہ دار کیا سوچیں گے؟ یہ وہ جملہ یا سوچ ہے جو بہ حیثیت ماں، بیوی، بیٹی، بہن سب سے زیادہ ہمارے فیصلوں پر اثرانداز ہوتی ہے۔ چاہے، عورت اپنے فیصلے میں اصولی طورپر کتنے ہی حق پر کیوں نہ لیکن یہ ہمارے معاشرے کے وہ اَن دیکھے خوف ہیں، جو خواتین کے فیصلوں پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔
دوسرے لوگ جو سوچتے ہیں وہ یا تو آپ پر مثبت اثر ڈال سکتا ہے یا پھر زندگی کو منفی تاثرکے سوا کچھ نہیں دے سکتا۔ اگر آپ ان چیلنجوں کی تلاش میں ہیں جن پر کام یاب لوگ قابو پاتی ہیں، تو دوسروں کی رائے یقینی طور پر اہم ہے، لیکن کام یاب افراد دوسروں کے رائے سے اچھی طرح نمٹنا جانتے ہیں۔ تنقید کب درست ہے یہ جان کر اس چیلنج پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔ یہ پہچاننے کی صلاحیت کے ساتھ کہ کوئی رائے کب مفید ہے، کام یاب لوگ جانتے ہیں کہ رائے کو کب اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، یا اگر وہ رائے محض ایک رکاوٹ ہے تو اس کو مکمل طورپرنظر انداز کر دینا چاہیے۔
٭خوف: ایک چیلنج جس کا سامنا معاشرے کے ہر فرد بالخصوص خواتین کو ہوتا ہے، وہ ہے خوف۔ قطع نظر اس کے کہ اپ زندگی میں کتنا کام یاب ہیں، اپ زندگی میں کیا کچھ حاصل کر چکے ہیں اور مزید کیا حاصل کرنا ہے، چاہتا ہیں، اس سب کے بیچ کچھ کھو دینے کا 'خوف'، کسی قسم کا خطرہ مول لینے کا 'خوف' یا پھر 'کچھ غلط نہ ہو جائے' کا 'خوف' ہمیشہ انسان کے ساتھ رہتا ہے۔ لیکن ایک کام یاب انسان جانتا ہے کہ اپنے دل دماغ میں جنم لینے والے ان وسوسوں اور پریشان کن خیالات پر کس طرح قابو پایا جا سکتا ہے۔
٭منفی فکر: 'نیگیٹویٹی' یا منفی فکر ایک ایسا عنصر ہے، جو نہ صرف خواتین بلکہ عام انسان کے خیالات پر اکثر اثرانداز ہوتا ہے۔ ظاہر ہے جب انسان کسی معاملے کے مختلف پہلوؤں پر غور کرتا ہے، تو مثبت نکات کے ساتھ اس معاملے کے منفی پہلوؤں پر بھی نظر ڈالتا ہے۔
یعنی اگر یہ کہا جائے، تو کچھ غلط نہ ہو گا کہ زندگی کے بیش تر شعبوں میں منفیت یا 'نیوگیٹویٹی' موجود ہوتی، لیکن کام یاب لوگوں میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ ان منفی خیالات کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیتے۔ جو لوگ منفی ردعمل کا سامنا کرتے ہوئے ہچکچاتے ہیں، وہ دراصل چیلنج کوخود کو شکست دینے دیتے ہیں، لیکن جو لوگ' نیگیٹویٹی' یا منفی خیالات یا ردعمل کا سامنا کرتے ہیں اور اسے مثبت بنا دیتے ہیں، حقیقت میں وہی لوگ ایک زندگی میں کام یاب ہوتے ہیں۔
٭ناکامی کا سامنا کریں: زندگی میں متعدد بار انسان کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن اگر ناکامیوں کا سامنا کرنا سیکھ لیا جائے، تو آپ دنیا کے سب سے کام یاب شخص ہو سکتے ہیں۔ کام یاب افراد ہمیشہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ناکامیاں ناگزیر ہیں، اور انھیں صرف ایک چیلنج کے طور پر لینا چاہیے۔ خواتین کو بھی زندگی کے مختلف شعبوں میں متعدد بار ناکامی کا سامنا ہوتا ہے، لیکن 'ناکامی' کو اپنی کام یابی میں بدلنا ہی اصل جیت ہے۔
٭جذبات پرہمیشہ قابو رکھیں: اگر یہ کہا جائے کہ خواتین میں 'جذباتیت' کا عنصر تھوڑا سا زیادہ ہوتا ہے تو کچھ غلط نہیں ہوگا۔ ایک کام یاب شخص کا خوشی اور غم دونوں کے جذبات پر قابو پانا اہم ہے۔ کام یاب انسان کی قوتِ برداشت عام انسان کی قوتِ برداشت سے بہت زیادہ ہوتی ہے۔ زندگی میں بہت سی ناپسندیدہ اور توقعات کے برخلاف چیزوں پر جذبات کو قابو میں رکھتے ہوئے سہنا پڑتا ہے، تبھی کام یابی قدم چومتی ہے۔
٭ زندگی میں 'مسترد' ہونا بھی سیکھیں: خواتین کی زندگی میں ایسا لمحہ ضروراتا ہے، جب کبھی ان کو بتایا جاتا ہے کہ آپ 'موزوں' یا 'اچھی' نہیں ہیں، لیکن کبھی کبھی زندگی میں 'مسترد' ہونا بھی بہت ضروری ہوتا، کیوں کہ 'مسترد' ہونا انسان کو سکھاتا ہے کہ اسے زندگی میں مزید کام یابی کیسے حاصل کرنی ہے اوراس کو اپنے کردار کو مزید کیسے نکھارنا ور بنانا ہوگا۔ کام یاب انسان 'مسترد' ہونے کو قبول کرنے اور اس چیلنج پر قابو پانے کے قابل ہوتے ہیں۔
٭حوصلہ افزائی کا فقدان: ہمارے معاشرے میں اکثرخواتین کو کام یابی پروہ پذیرائی اور حوصلہ افزائی حاصل نہیں ہوتی، جس کی وہ حق دار ہوتی ہیں۔ قدرتی طور پر'حوصلہ افزائی کی کمی' غیر محسوس طریقے سے اسان ترین کاموں کو بھی مشکل بنا دیتا ہے۔ کام یاب افراد اس بات کو قبول کرنے کے قابل ہوتے ہیں کہ یہ ایک ایسی چیز ہے، جس سے انھیں ہر صورت نمٹنا پڑے گا۔ وہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ اس کمی کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیں گے۔ اس ہی لیے اگر اپ خاتون ہیں اور پاکستانی معاشرے کا حصہ ہیں، تو اپنی کام یابی کو خود منائیں اور محظوظ ہوں اور اپنی دیگر ساتھی خواتین کی حوصلہ افزائی کا بھی ذریعہ بنیں۔