بیگانگی کا مسئلہ
پاکستانیوں کی قابل لحاظ تعداد حکومت کی معاشی پالیسیوں کو درست بھی سمجھتی ہے
پاکستان کی معاشی سمت درست یا غلط، اس کے بارے میں اپوزیشن اور حکومت کا موقف الگ الگ ہے، البتہ سرویزے وغیرہ میں پاکستانی عوام کی اکثریت کے حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ وہ معاشی سمت کو درست نہیں سمجھتے، ایسا نہیں ہے کہ سارے لوگ معاشی سمت کو غلط سمجھتے ہیں، پاکستانیوں کی قابل لحاظ تعداد حکومت کی معاشی پالیسیوں کو درست بھی سمجھتی ہے۔سیاسی سمت کے بارے میں بھی اسی قسم کی رائے دی جاتی ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ تمام پریشانیوں کے باوجود رواں برس بھی پاکستانیوں کی بھاری تعداد بہتری کے لیے پر امید ہے۔ اگر معاشی کساد بازاری، افراط زر،اشیاء ضروریہ کی مہنگائی، کاروباری سست روی کی بات کی جائے تو کورونا وباء کے بعد ساری دنیا کے ممالک اس صورتحال سے دوچار ہیں،پاکستان میں بھی اس وباء کے اثرات موجود ہیں۔دنیا بھر میں جرائم میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، نفسیاتی اور ذہنی امراض بڑھ رہے ہیں ۔
گزشتہ روز اخبارات میں سابق مس امریکا چیزلی کرسٹ کی خود کشی کی خبر چھپی ہے، اگرچہ پاکستان کے اقتصادی منظر نامے سے اس خبر کاکوئی تعلق نہیں مگر انسانی بیگانگی، معاشرتی اجنبیت اور معاشی لوٹ کھسوٹ کے حوالے سے دیکھا جائے تو پاکستان میں ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔
پاکستان میں بے روزگاری،معاشی بدحالی اور گھریلو مسائل کا شکار اکثر مرد اور عورتیں خود کشی کرتے ہیں۔ ایک طرف پاکستان اقتصاد ی، سیاسی اور تجارتی مسائل کے گرداب میں پھنسا ہے اور اسے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ سسٹم کو کیسے ٹھیک کرکے ایک شفاف اقتصادی سمت کی جانب پیش رفت کی جائے۔
پاکستان کے حکمران طبقات 74 برسوں میں ملک کو فرسودگی، عدم مساوات اور ظلم و ستم، لوٹ کھسوٹ سے پاک معیشت اور منصفانہ معاشی نظام نہ دے سکے اور آج بھی وزیراعظم اپنی سب سے بڑی خواہش ملک کو شفاف معیشت کا تحفہ دینا بتاتے رہے ہیں، دنیا کے تمام معاشی ماہرین یہ بات بار بار دہراتے ہیں کہ جس بھی ملک اور قوم نے اپنی معیشت درست کرلی، عوام کے معاشی مسائل حل کیے، انھیں ریلیف دیا اور اقتصادی طمانیت اور آسودگی بہم پہنچائی، اس نے اپنی ریاست اور قوم کو بچالیا، اسلحہ کے ڈھیر یہ کام نہیں کرسکتے۔
عوام کو عزت اور وقار کے ساتھ دال روٹی بھی مل جائے تو وہ ملکی خود کفالت کا بھرم رکھ لیں گے مگر بھوک دنیا کی چنگھاڑتی ہوئی سب سے بڑی حقیقت ہے، برصغیر کے مایہ ناز ادیب، کالم نویس ابراہیم جلیس نے 20 کروڑ بھکاری لکھ کر دنیائے ادب میں اپنا سر بلند کرلیا، جلیس نے کروڑوں بھوکوں کے درد و غم کو الفاظ میں پرو کر غریبوں کی داستان لکھی اور یہ بتایا کہ بھوک انسانیت کا بنیادی مسئلہ ہے، اسے کوئی سیاست دان ہرگز معمولی مسئلہ نہ سمجھے، اقتصادی طاقت ہی اصل سیاسی طاقت ہوتی ہے، سیاسی لوگوں کی آخری منزل حکومتی کرسی کا حصول ہوتا ہے، یعنی اصل سیاسی طاقت ہی اقتدار کی طاقت ہے۔
تقسیم ہندکے بعد اطراف کے ممالک نے اپنے معاشی مصائب کم کر لیے، سیاسی سماجی اور خارجہ پالیسی اور تجارتی حجم بڑھا لیے، اپنے عوام کو اقتصادی پالیسیوں میں شمولیت کی راہ اختیار کر لی لیکن پاکستان کے عوام کو ایک بے ہنگم، کشت وخون کی عادی سیاسی روش نے ترقی و خوشحالی سے محروم رکھا ہوا ہے، یہ مملکت خدا داد جو دوسروں کو کھلا پلا سکتی تھی ، آج قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے ، مسائل اتنے گمبھیر ہوگئے ہیں کہ ارباب اختیار جس مسئلہ کو حل کرنا کے لیے پتھر ہٹاتے ہیں ، کوئی دوسرا اژدھا پھنکارتا ہوا باہر نکل آتا ہے۔
درحقیقت سابق مس امریکا چیزلی کرسٹ کی خودکشی ہو یا کسی اور ملک کے مایوس اور بے بس انسانی کی خود کشی،یہ ایک آفاقی حقیقت ہے، یہ کسی ایک خطے کی کہانی نہیں۔جب تک دھونس، زبردستی، لوٹ اور لوٹ کھسوٹ کا اٹوٹ رشتہ باقی ہے اور سب کی بھوک، بیروزگاری، غربت، نچلے درجے کے محنت کش سب ایک ہی کشتی کے سوار ہیں، ان سب کو ایک ایسی قیادت چاہیے جو ان کے معاشی مسائل حل کردے، سیاسی اور اقتصادی اجارہ داریوں نے انھیں راندہ درگاہ بنا دیا ہے، سب ایک عظیم قوم بن سکتے ہیں لیکن ابھی تک بس افراد بن کر سر پھٹول میں دست وگریباں ہیں، ایک فعال، معتدل، رواداری کی علمبردار نیشنل ازم اسے دنیا کی طاقتور معیشت بنانے کی بس منتظر ہی ہے۔ کوئی عملی پروگرام تو دیتا ہی نہیں ، صرف نعروں کا شور ہے۔
ایسی ہی ایک خبر عشروں پہلے ہالی ووڈ کی حسین ساحرہ میریلین منرو کی خود کشی کی شایع ہوئی تھی، کسی فلمی ناقد نے لکھا کہ منرو محبت کی بھوکی تھی ، امریکا نے اس کے منہ میں ڈالر ٹھونس دیے۔ ایک بار مشہور فلاسفر ول ڈیورانٹ نے لکھا کہ ''کیا وجہ ہے کہ ہماری دولت یاسیت کو جنم دیتی ہے۔ ول ڈیورانٹ نے کہا تھا کہ''خارجی دنیا کی کوئی حقیقت نہیں، کوئی ہماری بیچارگی کا اندازہ کرے، ہم آگے ضرور بڑھے ہیں لیکن ہماری رفتار سست ہے۔
ہمارے لیے روئے زمین کو بدلنا، بڑے براعظموں پر بری، بحری اور فضائی راستے بنانا فولادی آسائشوں میں تبدیل کرنا آسان تھا لیکن اپنی روح میں سے ہولناکی، جنگجوئی اور ظلم کے جذبات کو خارج کرنا آسان نہیں، کیونکہ جذبات کئی نسلوں سے ہماری فطرت میں رچ بس گئے ہیں، ہم وہی کچھ ہیں جو کچھ ہماری مجبوریوں نے ہمیں بنایا ہے، لیکن اس کے لیے ہماری بے کلی اور بے قراری جائز ہے، ہم بھی وہی ہیں لیکن اب دنیا کو اس قسم کے کردار کی ضرورت نہیں، لیکن یہ بات کسی طرح بھی جائز نہیں کہ ہم اس سائنس کے ممنون نہ ہوں، جس کی بدولت نصف دنیا جنت الارض بن گئی ہے اور نصف کا انحصار بھی اسی نصف پر ہے، سائنس کے یہی انعامات روحانی اطمینان کی اساس ہیں۔
ہمیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم حیوان ہیں، ہم اس حسن کے مستحق نہیں جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے اور ہم آمادہ بھی ہیں کہ اس حسن کو اپنی مکروہ صنعتوں سے برباد کردیتے ہیں، ہم جہاں کہیں بھی گھر بناتے ہیں وہاں زندہ رہنا دشوارہو جاتا ہے، جس طرح ہم حسن کو غلط استعمال کرتے ہیں، علم کو بھی ہم غلط استعمال کرتے ہیں، ہم نے اپنی قوتوں میں بے حد اضافہ کر لیا ہے، لیکن ہمارے منصوبوں اور ارادوں میں بھی وہی پستی اور تنگ نظری ہے جو کبھی افلاس اور زبوں حالی کے زمانے میں تھی۔ ایک اہم بات ول ڈیورانٹ نے کہی وہ یہ تھی کہ ہم مادی طور پر توانا اور قد آور ہوتے ہوئے بھی ''روحانی'' حیثیت سے بونے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکمراں عوام کی روحوں کو ٹٹولیں ، ان کی نبض پر ہاتھ رکھ کر ان سے پوچھیں کہ انھیں کون سے دکھ نے مغموم کر دیا ہے، ملک میں لاکھوں افراد کو بھوک، بیماری، بیروزگاری اور بیگانگی نے نیم جاں کر دیا ہے، کوئی کسی کا دکھ بانٹنے کے لیے تیار نہیں، ایک فلیٹ میں رہنے والے کو دوسرے فلیٹ کے مکینوں کا پتا نہیں کہ انھوں نے کھانا کھایا بھی ہے یا نہیں، عجیب نفسا نفسی کا دور ہے اور ہم دنیا کے بڑے اہم ملک بننے کے دعوے کرتے رہتے ہیں۔
وقت آگیا ہے کہ پاکستانی عوام کے دکھ بانٹ لیں اور کسی سے کبھی فرصت ہو تو پوچھ بھی لیں کہ ہمیں بھی اپنے دکھوں میں شریک کر لیں، ایک سماج میں اسی وقت اتحاد، انسانیت طاقت اور سیاسی شعور باقی رہتا ہے جب سب ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر اور امن و یکجہتی کے ساتھ رہتے ہیں، یہاں بیگانگی بہت بڑھ گئی ہے، سوچوں میں فاصلے ہیں، بے پناہ دشمنیاں ہیں،کسی سے دو میٹھے بول کہنے کے لیے بھی ہمارے پاس وقت نہیں، ارباب اختیار ملکی معاملات کا درست ادراک کریں۔
عوام کو صرف معاشی سمت کی درستگی پر تشویش نہیں وہ بہت سارے خارجی اور داخلی معاملات میں حکمرانوں سے ناخوش ہیں لیکن ایک ایسا سماج بھی تو ہو کہ آدمی اپنے دکھ کسی سے شیئر کرے، وزرا، مشیر اور ٹائیگر فورس کہاں ہیں، یقین جانیے معاشی حالات بہت ہولناک ہیں، غربت اور بیروزگاری میں بہت اضافہ ہوا ہے، حالات ابتری کا شکار ہیں، تعلیم یافتہ نوجوان ہر وہ ملازمت اختیار کرنا چاہتے ہیں جو ان کی تعلیم انھیں اجازت بھی نہیں دیتی مگر ایسی ملازمت بھی نہیں ملتی، ملازمتوں کے ریٹ مقرر ہیں، ایک وقت تھا کہ کسی تھانے کے ریٹ فکس تھے، آج کا پتا نہیں کہ کیا صورتحال ہے۔
غریب شہرکے تن پر لباس باقی ہے
امیر شہرکے ارماں ابھی کہاں نکلے
یہ بھی حقیقت ہے کہ تمام پریشانیوں کے باوجود رواں برس بھی پاکستانیوں کی بھاری تعداد بہتری کے لیے پر امید ہے۔ اگر معاشی کساد بازاری، افراط زر،اشیاء ضروریہ کی مہنگائی، کاروباری سست روی کی بات کی جائے تو کورونا وباء کے بعد ساری دنیا کے ممالک اس صورتحال سے دوچار ہیں،پاکستان میں بھی اس وباء کے اثرات موجود ہیں۔دنیا بھر میں جرائم میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، نفسیاتی اور ذہنی امراض بڑھ رہے ہیں ۔
گزشتہ روز اخبارات میں سابق مس امریکا چیزلی کرسٹ کی خود کشی کی خبر چھپی ہے، اگرچہ پاکستان کے اقتصادی منظر نامے سے اس خبر کاکوئی تعلق نہیں مگر انسانی بیگانگی، معاشرتی اجنبیت اور معاشی لوٹ کھسوٹ کے حوالے سے دیکھا جائے تو پاکستان میں ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔
پاکستان میں بے روزگاری،معاشی بدحالی اور گھریلو مسائل کا شکار اکثر مرد اور عورتیں خود کشی کرتے ہیں۔ ایک طرف پاکستان اقتصاد ی، سیاسی اور تجارتی مسائل کے گرداب میں پھنسا ہے اور اسے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ سسٹم کو کیسے ٹھیک کرکے ایک شفاف اقتصادی سمت کی جانب پیش رفت کی جائے۔
پاکستان کے حکمران طبقات 74 برسوں میں ملک کو فرسودگی، عدم مساوات اور ظلم و ستم، لوٹ کھسوٹ سے پاک معیشت اور منصفانہ معاشی نظام نہ دے سکے اور آج بھی وزیراعظم اپنی سب سے بڑی خواہش ملک کو شفاف معیشت کا تحفہ دینا بتاتے رہے ہیں، دنیا کے تمام معاشی ماہرین یہ بات بار بار دہراتے ہیں کہ جس بھی ملک اور قوم نے اپنی معیشت درست کرلی، عوام کے معاشی مسائل حل کیے، انھیں ریلیف دیا اور اقتصادی طمانیت اور آسودگی بہم پہنچائی، اس نے اپنی ریاست اور قوم کو بچالیا، اسلحہ کے ڈھیر یہ کام نہیں کرسکتے۔
عوام کو عزت اور وقار کے ساتھ دال روٹی بھی مل جائے تو وہ ملکی خود کفالت کا بھرم رکھ لیں گے مگر بھوک دنیا کی چنگھاڑتی ہوئی سب سے بڑی حقیقت ہے، برصغیر کے مایہ ناز ادیب، کالم نویس ابراہیم جلیس نے 20 کروڑ بھکاری لکھ کر دنیائے ادب میں اپنا سر بلند کرلیا، جلیس نے کروڑوں بھوکوں کے درد و غم کو الفاظ میں پرو کر غریبوں کی داستان لکھی اور یہ بتایا کہ بھوک انسانیت کا بنیادی مسئلہ ہے، اسے کوئی سیاست دان ہرگز معمولی مسئلہ نہ سمجھے، اقتصادی طاقت ہی اصل سیاسی طاقت ہوتی ہے، سیاسی لوگوں کی آخری منزل حکومتی کرسی کا حصول ہوتا ہے، یعنی اصل سیاسی طاقت ہی اقتدار کی طاقت ہے۔
تقسیم ہندکے بعد اطراف کے ممالک نے اپنے معاشی مصائب کم کر لیے، سیاسی سماجی اور خارجہ پالیسی اور تجارتی حجم بڑھا لیے، اپنے عوام کو اقتصادی پالیسیوں میں شمولیت کی راہ اختیار کر لی لیکن پاکستان کے عوام کو ایک بے ہنگم، کشت وخون کی عادی سیاسی روش نے ترقی و خوشحالی سے محروم رکھا ہوا ہے، یہ مملکت خدا داد جو دوسروں کو کھلا پلا سکتی تھی ، آج قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے ، مسائل اتنے گمبھیر ہوگئے ہیں کہ ارباب اختیار جس مسئلہ کو حل کرنا کے لیے پتھر ہٹاتے ہیں ، کوئی دوسرا اژدھا پھنکارتا ہوا باہر نکل آتا ہے۔
درحقیقت سابق مس امریکا چیزلی کرسٹ کی خودکشی ہو یا کسی اور ملک کے مایوس اور بے بس انسانی کی خود کشی،یہ ایک آفاقی حقیقت ہے، یہ کسی ایک خطے کی کہانی نہیں۔جب تک دھونس، زبردستی، لوٹ اور لوٹ کھسوٹ کا اٹوٹ رشتہ باقی ہے اور سب کی بھوک، بیروزگاری، غربت، نچلے درجے کے محنت کش سب ایک ہی کشتی کے سوار ہیں، ان سب کو ایک ایسی قیادت چاہیے جو ان کے معاشی مسائل حل کردے، سیاسی اور اقتصادی اجارہ داریوں نے انھیں راندہ درگاہ بنا دیا ہے، سب ایک عظیم قوم بن سکتے ہیں لیکن ابھی تک بس افراد بن کر سر پھٹول میں دست وگریباں ہیں، ایک فعال، معتدل، رواداری کی علمبردار نیشنل ازم اسے دنیا کی طاقتور معیشت بنانے کی بس منتظر ہی ہے۔ کوئی عملی پروگرام تو دیتا ہی نہیں ، صرف نعروں کا شور ہے۔
ایسی ہی ایک خبر عشروں پہلے ہالی ووڈ کی حسین ساحرہ میریلین منرو کی خود کشی کی شایع ہوئی تھی، کسی فلمی ناقد نے لکھا کہ منرو محبت کی بھوکی تھی ، امریکا نے اس کے منہ میں ڈالر ٹھونس دیے۔ ایک بار مشہور فلاسفر ول ڈیورانٹ نے لکھا کہ ''کیا وجہ ہے کہ ہماری دولت یاسیت کو جنم دیتی ہے۔ ول ڈیورانٹ نے کہا تھا کہ''خارجی دنیا کی کوئی حقیقت نہیں، کوئی ہماری بیچارگی کا اندازہ کرے، ہم آگے ضرور بڑھے ہیں لیکن ہماری رفتار سست ہے۔
ہمارے لیے روئے زمین کو بدلنا، بڑے براعظموں پر بری، بحری اور فضائی راستے بنانا فولادی آسائشوں میں تبدیل کرنا آسان تھا لیکن اپنی روح میں سے ہولناکی، جنگجوئی اور ظلم کے جذبات کو خارج کرنا آسان نہیں، کیونکہ جذبات کئی نسلوں سے ہماری فطرت میں رچ بس گئے ہیں، ہم وہی کچھ ہیں جو کچھ ہماری مجبوریوں نے ہمیں بنایا ہے، لیکن اس کے لیے ہماری بے کلی اور بے قراری جائز ہے، ہم بھی وہی ہیں لیکن اب دنیا کو اس قسم کے کردار کی ضرورت نہیں، لیکن یہ بات کسی طرح بھی جائز نہیں کہ ہم اس سائنس کے ممنون نہ ہوں، جس کی بدولت نصف دنیا جنت الارض بن گئی ہے اور نصف کا انحصار بھی اسی نصف پر ہے، سائنس کے یہی انعامات روحانی اطمینان کی اساس ہیں۔
ہمیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم حیوان ہیں، ہم اس حسن کے مستحق نہیں جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے اور ہم آمادہ بھی ہیں کہ اس حسن کو اپنی مکروہ صنعتوں سے برباد کردیتے ہیں، ہم جہاں کہیں بھی گھر بناتے ہیں وہاں زندہ رہنا دشوارہو جاتا ہے، جس طرح ہم حسن کو غلط استعمال کرتے ہیں، علم کو بھی ہم غلط استعمال کرتے ہیں، ہم نے اپنی قوتوں میں بے حد اضافہ کر لیا ہے، لیکن ہمارے منصوبوں اور ارادوں میں بھی وہی پستی اور تنگ نظری ہے جو کبھی افلاس اور زبوں حالی کے زمانے میں تھی۔ ایک اہم بات ول ڈیورانٹ نے کہی وہ یہ تھی کہ ہم مادی طور پر توانا اور قد آور ہوتے ہوئے بھی ''روحانی'' حیثیت سے بونے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکمراں عوام کی روحوں کو ٹٹولیں ، ان کی نبض پر ہاتھ رکھ کر ان سے پوچھیں کہ انھیں کون سے دکھ نے مغموم کر دیا ہے، ملک میں لاکھوں افراد کو بھوک، بیماری، بیروزگاری اور بیگانگی نے نیم جاں کر دیا ہے، کوئی کسی کا دکھ بانٹنے کے لیے تیار نہیں، ایک فلیٹ میں رہنے والے کو دوسرے فلیٹ کے مکینوں کا پتا نہیں کہ انھوں نے کھانا کھایا بھی ہے یا نہیں، عجیب نفسا نفسی کا دور ہے اور ہم دنیا کے بڑے اہم ملک بننے کے دعوے کرتے رہتے ہیں۔
وقت آگیا ہے کہ پاکستانی عوام کے دکھ بانٹ لیں اور کسی سے کبھی فرصت ہو تو پوچھ بھی لیں کہ ہمیں بھی اپنے دکھوں میں شریک کر لیں، ایک سماج میں اسی وقت اتحاد، انسانیت طاقت اور سیاسی شعور باقی رہتا ہے جب سب ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر اور امن و یکجہتی کے ساتھ رہتے ہیں، یہاں بیگانگی بہت بڑھ گئی ہے، سوچوں میں فاصلے ہیں، بے پناہ دشمنیاں ہیں،کسی سے دو میٹھے بول کہنے کے لیے بھی ہمارے پاس وقت نہیں، ارباب اختیار ملکی معاملات کا درست ادراک کریں۔
عوام کو صرف معاشی سمت کی درستگی پر تشویش نہیں وہ بہت سارے خارجی اور داخلی معاملات میں حکمرانوں سے ناخوش ہیں لیکن ایک ایسا سماج بھی تو ہو کہ آدمی اپنے دکھ کسی سے شیئر کرے، وزرا، مشیر اور ٹائیگر فورس کہاں ہیں، یقین جانیے معاشی حالات بہت ہولناک ہیں، غربت اور بیروزگاری میں بہت اضافہ ہوا ہے، حالات ابتری کا شکار ہیں، تعلیم یافتہ نوجوان ہر وہ ملازمت اختیار کرنا چاہتے ہیں جو ان کی تعلیم انھیں اجازت بھی نہیں دیتی مگر ایسی ملازمت بھی نہیں ملتی، ملازمتوں کے ریٹ مقرر ہیں، ایک وقت تھا کہ کسی تھانے کے ریٹ فکس تھے، آج کا پتا نہیں کہ کیا صورتحال ہے۔
غریب شہرکے تن پر لباس باقی ہے
امیر شہرکے ارماں ابھی کہاں نکلے