ڈراپ کیچ حسن کی زندگی کا مشکل ترین لمحہ

شکست کے بعد میں اور شاہین روتے رہے،2راتیں بالکل نہیں سو سکا،پیسر

یہ واقعہ بھلایا نہیں جا سکتا، شعیب ملک اور ساتھی کرکٹرز نے حوصلہ بڑھایا۔ فوٹو: نیٹ

ISLAMABAD:
حسن علی نے ورلڈکپ سیمی فائنل میں ڈراپ کیچ کو زندگی کا مشکل ترین لمحہ قرار دے دیا۔

پاکستان کرکٹ کی سب سے بڑی ویب سائٹ www.cricketpakistan.com.pk کے پروگرام ''کرکٹ کارنر ود سلیم خالق'' میں گفتگو کرتے ہوئے حسن علی نے کہاکہ ٹی ٹوئٹی ورلڈکپ سیمی فائنل میں میتھیو ویڈکا ڈراپ کیچ میری زندگی کا مشکل ترین لمحہ تھا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان ٹیم اچھی کرکٹ کھیل رہی تھی اور ہم فتح کے بہت قریب تھے، پوری ٹیم اور قوم سپورٹ کررہی تھی،اس صورتحال میں یہ واقعہ بھلایا نہیں جا سکتا،اس سے قبل میں نے کسی سے بات نہیں کی مگر آپ کو بتارہا ہوں کہ میں 2راتیں بالکل نہیں سو سکا،اہلیہ ساتھ تھیں، انہوں نے بھی کہا کہ اسکواڈ کے ہمراہ بنگلہ دیش جانا ہے مگر آپ ایک منٹ کیلیے بھی نہیں سوئے،دوسری جانب میری حالت یہ تھی کہ ایک سائیڈ پر بیٹھا ہوا تھا، ڈراپ کیچ بار بار ذہن میں آرہا تھا۔

حسن علی نے کہا کہ پروفیشنل کرکٹر کے طور پر آگے بڑھنا پڑتا ہے،جہاز میں سوار ہوا توسوچا کہ اب اگلی سیریز میں پرفارم کرنا ہے،بنگلادیش میں پریکٹس کے دوران3دن میں 500کیچز تھامے،نوبال پر بھی4روز کام کیا،سوچا کہ یہ کرکٹ کا حصہ ہے،کھلاڑی ہی کبھی میچ جتواتے تو کبھی ہرواتے ہیں،ایک پروفیشنل کے طور پر آئندہ بہتر کھیلنے اور ٹیم کی فتوحات میں اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔

پیسر نے کہا کہ مشکل وقت میں ساتھی کرکٹرز نے بھی بہت ساتھ دیا،آسٹریلیا سے شکست کے بعد ڈریسنگ روم میں ہر پلیئر اداس تھا جبکہ میں اور شاہین آفریدی زاروقطار رو رہے تھے، سب کو معلوم ہے کہ میں ٹیم اور میچ کو کتنی اہمیت دیتا ہوں، میں 120فیصد پرفارم کرنے والا پلیئر ہوں،کیچ ڈراپ ہونے پر شعیب ملک میرے پاس آئے اور کہا کہ تم شیر ہوگرنا نہیں،پھر کیچ آئے تو پکڑنا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ساتھی کھلاڑیوں نے بھی کہا کہ ہمت نہیں ہارنا،میڈیا اور سوشل میڈیا کی جانب سے بھی بھرپور سپورٹ ملی،خوشی کی بات ہے کہ بْرے وقت میں سب نے ساتھ دیا،ایسا ہوتا ہے تو کھلاڑی کا جوش اور جذبہ مزید جوان ہوجاتا ہے،دورہ بنگلادیش میں پہلے میچ میں ہی بہترین کھلاڑی قرار پایا،اس کا کریڈٹ حوصلہ افزائی کرنے والی قوم کو جاتا ہے۔

بڑے میچز میں کم غلطیوں سے ٹرافی جیتنے کی کوشش کریں گے

حسن علی کا کہنا ہے کہ پی ایس ایل 7کے بڑے میچز میں کم غلطیوں سے ٹرافی اپنے نام کرنے کی کوشش کریں گے،انھوں نے کہا کہ گذشتہ سیزن کے لیگ مرحلے میں ہم نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا مگر پلے آف میچز میں تسلسل برقرار نہیں رکھ پائے،اس بار مسائل پر قابو پاتے ہوئے ٹائٹل جیتنے کیلیے پْرعزم ہیں۔

انھوں نے کہا کہ میں کسی بھی ٹیم کی جانب سے کھیلوں بہترین پرفارم کرنے کی کوشش کرتا ہوں،اسلام آباد یونائیٹڈ کیلیے بھی یادگار کارکردگی دکھانے کیلیے پْرعزم ہوں۔


شاداب خان میدان کے اندر کپتان، باہر صرف دوست ہے
حسن علی نے کہاکہ شاداب خان میدان کے اندر کپتان باہر صرف دوست ہے،پیسر نے کہا کہ اسلام آباد یونائیٹڈ کا ماحول ایک فیملی کی طرح ہے،شاداب، آصف علی، فہیم اشرف اور دیگر چند کرکٹرز میرے اچھے دوست ہیں،ہم سب سمجھتے ہیں کہ کپتان کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری ہوتی ہے، ہمیں اس کو مکمل سپورٹ کرنا اور میدان میں ہر بات غور سے سننا ہے،میدان سے باہر شاداب صرف دوست ہوتے ہیں،بگ بیش سے واپسی پر شاداب خان کو ایئر پورٹ بھی لینے گیا تھا،ہم اس طرح کے چھوٹے چھوٹے لمحات ایک ساتھ گزار کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔

گپ شپ کے ماحول میں کرکٹ پر بات نہیں کرتے

حسن علی نے کہا کہ گپ شپ کے ماحول میں کسی کو کرکٹ پر بات کرنے کی اجازت نہیں ہوتی،بائیوببل میں زندگی گزارنا مشکل ہے، ایک پروفیشنل کے طور پر کرکٹ ہی ہمارا کام ہے،پروٹوکولز کے حوالے سے ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ضروری ہے، بہرحال بائیوببل میں بھی تفریح کے مواقع پیدا کرہی لیتے ہیں،کسی ایک کے کمرے میں بیٹھک لگے تو کھانا پینا، چائے کا اہتمام وہیں کیا جاتا ہے،سختی سے کہا جاتا ہے کہ کرکٹ پر کوئی بات نہیں ہوگی،ہم ہنسی مذاق کرتے ہیں، دیگر کھیلوں پر بھی بات ہوتی ہے۔

پاور ہٹنگ پر خاص توجہ دینے سے بیٹنگ میں نکھار آیا

حسن علی نے کہا ہے کہ پاور ہٹنگ پر خاص توجہ دینے کی وجہ سے بیٹنگ میں نکھار آیا، میں انجریز کی وجہ سے انٹرنیشنل کرکٹ سے دور ہوا تو فٹنس اور بولنگ کے ساتھ بیٹنگ پر بھی توجہ دی،اس کا فائدہ بھی ہوا، گذشتہ دنوں بھی نیشنل ہائی پرفارمنس سینٹر میں محمد یوسف کی زیرنگرانی ٹریننگ کرتا رہا،سابق کپتان نے حوصلہ بڑھایا کہ تم کوشش کرو تو بہترین آل راؤنڈر بن سکتے ہو۔

جشن منانے کا جنریٹر اسٹائل برانڈ بن چکا،تبدیل نہیں کروں گا

حسن علی نے کہا ہے کہ جشن منانے کا جنریٹر اسٹائل تبدیل نہیں کروں گا،کوئی چیز برانڈ بن جائے تو بدلی نہیں جا سکتی،میں جب تک کرکٹ کھیل رہا ہوں میرا یہ انداز بھی برقرار رہے گا۔ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ میں 150کی رفتار والا بولر نہیں،اپنی صلاحیت کے مطابق گیند کرتا ہوں،رفتار بہتر ہونا اچھا ہوتا ہے، کوشش بھی کرتا ہوں مگر بنگلہ دیش میں 150کی رفتار سے کروائی جانے والی بال مشین کی غلطی تھی،ایسی ایک گیند تو محمد نواز نے بھی کردی تھی۔

آئی سی سی ٹیسٹ ٹیم آف دی ایئر میں شامل ہونا باعث فخر ہے

حسن علی کا کہنا ہے کہ انجریز کی وجہ سے 2سالہ تعطل کے بعد آئی سی سی ٹیسٹ ٹیم آف دی ایئر میں شامل ہونا باعث فخر ہے،انھوں نے کہا کہ ہر کام میں اللہ کی جانب سے بہتری ہوتی ہے،انجریز سے نجات کے بعد فٹنس اور فارم پر میں نے پہلے سے زیادہ محنت کی،قومی ٹیم میں کم بیک کو ذہن میں رکھتے ہوئے پورا ڈومیسٹک سیزن کھیلا، اچھی کارکردگی سے اعتماد میں اضافہ ہوا،انٹرنیشنل کرکٹ میں اسی فارم کی جھلک نظر آئی۔

انھوں نے کہا کہ ٹیسٹ کرکٹ میں صلاحیتوں کا اصل امتحان ہوتا ہے، میں یوں تو ہر فارمیٹ میں پرفارم کرنے کیلیے پْرجوش ہوتا ہوں لیکن بطور ٹیسٹ کرکٹر ستائش سے زیادہ خوشی ہوتی ہے،2سال انجریز کا شکار رہنے کے بعد کم بیک کو دیکھا جائے تو آئی سی سی ٹیسٹ ٹیم میں جگہ بنانا خاص طور پر میرے لیے بڑے فخر کی بات ہے۔
Load Next Story