سیز فائر کے مثبت اشارے مذاکراتی عمل فیصلہ کن موڑ پر آن پہنچا
حکومت بھی مغویوں کی رہائی کا کہے گی، فوج کی واپسی کا مطالبہ غیرحقیقی قرار دیا جائیگا، ذرائع
حکومت اور طالبان کی نمائندہ مذاکراتی کمیٹیوں کے ذریعے جاری مذاکرات کا عمل فیصلہ کن موڑ پر آن پہنچا ہے۔
مذاکراتی عمل کے قریبی ذمے دار ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ مصدقہ وغیر مصدقہ ذرائع سے اب تک سامنے آنے والے مطالبات کے حوالے سے حکومتی ذمے داران اور طالبان کی سیاسی شوریٰ نے بھی اپنا ہوم ورک مکمل کرلیا ہے۔ طالبان کی نامزد کردہ کمیٹی کے قریبی ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ طالبان سیاسی شوریٰ میں فائر بندی کے معاملے پر تفصیلی غور کیاگیا۔ طالبان نے اپنی کمیٹی کے روح رواں مولانا سمیع الحق سے رابطہ کرکے فائربندی کے حوالے سے مثبت اشارے دیے ہیں البتہ وہ اعلان سے قبل یہ یقین دہانی چاہتے ہیں کہ حکومت طالبان کے غیرعسکری قیدیوں کی رہائی کا اعلان کرے جن میں بچے،عورتیں اور بوڑھے افراد شامل ہیں جبکہ دوسرا اہم مطالبہ جنوبی وزیرستان سے فوج واپس بلانے کا کیا جائیگا۔ اگر حکومت دونوں مطالبات مان لینے کی پیشگی یقین دہانی کرادے تو طالبان جنگ بندی کا اعلان کرنے میں پہل کرنے کیلیے تیار ہیں۔
ادھر حکومتی ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ حکومت نے غیرمصدقہ ذرائع سے اب تک سامنے آنیوالے طالبان کے مطالبات کے حوالے سے ابتدائی غوروخوص کیا ہے جس کے مطابق اگر طالبان بچوں ،عورتوں اور بوڑھوں کی رہائی کا مطالبہ کرنا چاہتے ہیں تو انھیں مبینہ قیدیوں کی فہرست پیش کرنے کیلیے کہاجائے گا اور اگر اس فہرست میں شامل افراد واقعتاً حکومت کے حراستی مراکز یا جیلوں میں موجود ہوئے تو کیس ٹو کیس جائزہ لینے کے بعد انھیں رہاکردیاجائیگا۔ البتہ فوج کے جنوبی وزیرستان سے واپس بلانے کے مطالبے کو انتہائی غیرحقیقی اور ناقابل عمل مطالبہ سمجھاجائیگا۔ طالبان مذاکراتی کمیٹی پر یہ واضح کردیاجائیگا کہ مذاکراتی عمل میں مصروف کوئی بھی ریاست اپنے قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے اہلکاروں کو پیچھے ہٹانے کا مطالبہ ماننے کیلیے تیار نہیں ہوتی۔
قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی جانب سے مذاکراتی عمل کے دوران انتہا پسندی کی راہ پر چلنے والوں کیخلاف کارروائی نہ کیے جانے کی یقین دہانی تو کرائی جاسکتی ہے مگر کسی بھی مخصوص علاقے میں حکومت اپنا اختیار کسی دوسرے گروپ یا گروہ کے ہاتھ نہیں دے سکتی۔ جنوبی وزیرستان سے فوج واپس بلانے کے مطالبے کے باقاعدہ طور پر سامنے آنے کے بعد اسے نہ صرف غیرحقیقی قرار دے کر مسترد کردیا جائیگا بلکہ طالبان کی نمائندہ کمیٹی کو مذاکرات کے آئندہ رابطوں یا مرحلے کے ابتدا میں واضح کردیاجائیگا کہ ایسے ناقابل عمل مطالبات کرنے سے مذاکرات کی گاڑی کے پٹڑی سے ہی اترجانے کا خدشہ پیدا ہوجائیگا۔
قیدیوں کی رہائی کا معاملہ بھی یک طرفہ کے بجائے دو طرفہ قراردیاجائیگا کہ اعتماد سازی کیلیے طالبان بھی مبینہ طور پر اپنے زیر حراست ڈاکٹراجمل، حیدرگیلانی اور شہبازتاثیر کورہا کریں یا اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے ان کی رہائی ممکن بنائیں۔ مذاکراتی عمل میں شامل ذمے دار ذرائع نے امکان ظاہرکیا ہے کہ آئندہ 24سے 48گھنٹوں کے دوران چند دو طرفہ رابطوں کے بعد سیز فائر کے اعلان کا امکان ہے۔اتوار کو وزیراعظم نوازشریف کو ان کے معاون خصوصی برائے قومی امور اور حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے روح رواں عرفان صدیقی نے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی موجودگی میں اب تک ہونیوالی پیش رفت سے آگاہ کیا۔ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے اب تک کی پیش رفت کے حوالے سے اطمینان کا اظہار کیا۔
مذاکراتی عمل کے قریبی ذمے دار ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ مصدقہ وغیر مصدقہ ذرائع سے اب تک سامنے آنے والے مطالبات کے حوالے سے حکومتی ذمے داران اور طالبان کی سیاسی شوریٰ نے بھی اپنا ہوم ورک مکمل کرلیا ہے۔ طالبان کی نامزد کردہ کمیٹی کے قریبی ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ طالبان سیاسی شوریٰ میں فائر بندی کے معاملے پر تفصیلی غور کیاگیا۔ طالبان نے اپنی کمیٹی کے روح رواں مولانا سمیع الحق سے رابطہ کرکے فائربندی کے حوالے سے مثبت اشارے دیے ہیں البتہ وہ اعلان سے قبل یہ یقین دہانی چاہتے ہیں کہ حکومت طالبان کے غیرعسکری قیدیوں کی رہائی کا اعلان کرے جن میں بچے،عورتیں اور بوڑھے افراد شامل ہیں جبکہ دوسرا اہم مطالبہ جنوبی وزیرستان سے فوج واپس بلانے کا کیا جائیگا۔ اگر حکومت دونوں مطالبات مان لینے کی پیشگی یقین دہانی کرادے تو طالبان جنگ بندی کا اعلان کرنے میں پہل کرنے کیلیے تیار ہیں۔
ادھر حکومتی ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ حکومت نے غیرمصدقہ ذرائع سے اب تک سامنے آنیوالے طالبان کے مطالبات کے حوالے سے ابتدائی غوروخوص کیا ہے جس کے مطابق اگر طالبان بچوں ،عورتوں اور بوڑھوں کی رہائی کا مطالبہ کرنا چاہتے ہیں تو انھیں مبینہ قیدیوں کی فہرست پیش کرنے کیلیے کہاجائے گا اور اگر اس فہرست میں شامل افراد واقعتاً حکومت کے حراستی مراکز یا جیلوں میں موجود ہوئے تو کیس ٹو کیس جائزہ لینے کے بعد انھیں رہاکردیاجائیگا۔ البتہ فوج کے جنوبی وزیرستان سے واپس بلانے کے مطالبے کو انتہائی غیرحقیقی اور ناقابل عمل مطالبہ سمجھاجائیگا۔ طالبان مذاکراتی کمیٹی پر یہ واضح کردیاجائیگا کہ مذاکراتی عمل میں مصروف کوئی بھی ریاست اپنے قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے اہلکاروں کو پیچھے ہٹانے کا مطالبہ ماننے کیلیے تیار نہیں ہوتی۔
قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی جانب سے مذاکراتی عمل کے دوران انتہا پسندی کی راہ پر چلنے والوں کیخلاف کارروائی نہ کیے جانے کی یقین دہانی تو کرائی جاسکتی ہے مگر کسی بھی مخصوص علاقے میں حکومت اپنا اختیار کسی دوسرے گروپ یا گروہ کے ہاتھ نہیں دے سکتی۔ جنوبی وزیرستان سے فوج واپس بلانے کے مطالبے کے باقاعدہ طور پر سامنے آنے کے بعد اسے نہ صرف غیرحقیقی قرار دے کر مسترد کردیا جائیگا بلکہ طالبان کی نمائندہ کمیٹی کو مذاکرات کے آئندہ رابطوں یا مرحلے کے ابتدا میں واضح کردیاجائیگا کہ ایسے ناقابل عمل مطالبات کرنے سے مذاکرات کی گاڑی کے پٹڑی سے ہی اترجانے کا خدشہ پیدا ہوجائیگا۔
قیدیوں کی رہائی کا معاملہ بھی یک طرفہ کے بجائے دو طرفہ قراردیاجائیگا کہ اعتماد سازی کیلیے طالبان بھی مبینہ طور پر اپنے زیر حراست ڈاکٹراجمل، حیدرگیلانی اور شہبازتاثیر کورہا کریں یا اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے ان کی رہائی ممکن بنائیں۔ مذاکراتی عمل میں شامل ذمے دار ذرائع نے امکان ظاہرکیا ہے کہ آئندہ 24سے 48گھنٹوں کے دوران چند دو طرفہ رابطوں کے بعد سیز فائر کے اعلان کا امکان ہے۔اتوار کو وزیراعظم نوازشریف کو ان کے معاون خصوصی برائے قومی امور اور حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے روح رواں عرفان صدیقی نے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی موجودگی میں اب تک ہونیوالی پیش رفت سے آگاہ کیا۔ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے اب تک کی پیش رفت کے حوالے سے اطمینان کا اظہار کیا۔