ججز بیوروکریٹس اور افسران کیلئے خصوصی سیکٹرز میں پلاٹس کی اسکیم غیرآئینی قرار

ریاست کی زمین اشرافیہ کیلیے نہیں ، صرف عوامی مفاد کیلئے ہے، ہائیکورٹ کا فیصلہ

ریاست کی زمین اشرافیہ کیلیے نہیں ، صرف عوامی مفاد کیلئے ہے، ہائیکورٹ کا فیصلہ۔ فوٹو:فائل

LONDON:
عدالت نے ججز، بیوروکریٹس ، افسران کیلئے خصوصی سیکٹرز میں پلاٹس کی اسکیم غیرآئینی قرار دے دیا۔

ایکسپریس نیوزکے مطابق ججز، بیوروکریٹس اور افسران کیلئے خصوصی سیکٹرز میں پلاٹس کی اسکیم کے حوالے سے چیف جسسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محسن اختر کیانی نے محفوظ فیصلہ سنا دیا، اسلام آباد ہائیکورٹ کا بڑا فیصلہ سامنے آیا ہے، عدالت نے خصوصی سیکٹرز میں پلاٹس کی اسکیم غیرآئینی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایف 12 ، جی 12، ایف 14 اور 15 کی اسکیم ہی غیر آئینی، غیر قانونی اور مفاد عامہ کے خلاف ہے۔

فیصلے میں عدالت نے کہا ہے کہ ریاست کی زمین اشرافیہ کیلیے نہیں ، صرف عوامی مفاد کیلئے ہے، جج، بیورکریٹس، پبلک آفس ہولڈرز مفاد عامہ کے خلاف ذاتی فائدے کی پالیسی نہیں بنا سکتے، جج اور بیوروکریٹس اصل اسٹیک ہولڈر یعنی عوام کی خدمت کیلیے ہیں، فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاوسنگ اتھارٹی آئین کیخلاف کوئی اسکیم نہیں بنا سکتی۔


عدالت نے سیکرٹری ہاؤسنگ کو دو ہفتے میں فیصلہ کابینہ کے سامنے رکھنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ توقع ہے کابینہ اور وزیراعظم چاروں سیکٹرز سے متعلق مفاد عامہ کے تحت پالیسی بنائیں گے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے اعلی عدلیہ اور ماتحت عدلیہ کے ججز کو پلاٹس کے بینفشری بنانے پر سوالات اٹھاتے ہوئے فیصلے میں کہا کہ ہاوسنگ اتھارٹی سپریم کورٹ سمیت دیگر عدالتوں میں زیر التوا کیسز میں بنیادی فریق ہوتی ہے، کیا سپریم کورٹ، ہائی کورٹ، ڈسٹرکٹ کورٹس کے ججز کو وفاقی حکومت کا بینیفشری بنا دینا مناسب تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے مختلف سیکٹرز میں پلاٹوں کی الاٹمنٹ کے خلاف فیصلے میں تفصیلات جاری کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ اور ماتحت عدلیہ نے کبھی پلاٹس پالیسی میں شمولیت کی درخواست نہیں دی، کوئی وضاحت نہیں دی گئی بغیر درخواست کے پالیسی میں کیوں شامل کیا گیا، حیران کن طور پر پلاٹس کے بینیفشریز میں اعلیٰ عدلیہ کے موجودہ اور ریٹائرد ججز بھی شامل ہیں، کم سن گھریلو ملازمہ پرتشدد کیس میں سزا یافتہ جج بھی پلاٹ لینے والوں میں شامل ہے، رشوت وصولی کے اعتراف پر برطرف جج بھی پلاٹس لینے والوں میں شامل تھے، اسلام آباد کی ضلعی عدالتوں کا ہر جج پلاٹس سے مستفید ہونے والوں میں شامل ہے، نااہل اور خراب ساکھ پر زیر نگرانی رکھے گئے جج بھی پلاٹس لینے والوں میں شامل ہیں، انضباطی کارروائی پر برطرف کئے گئے جج بھی پلاٹس لینے والوں میں شامل ہیں۔

عدالت نے فیصلے میں کہا کہ 17 اگست 2021 میں ہوئی ایف 14،15 قرعہ اندازی میں شفافیت نہیں تھی، ایک لاکھ 35 ہزار سے زائد ملازمین میں سے ایک لاکھ 26 ہزار کو نظرانداز کیا گیا، لگتا ہے وزیراعظم اور کابینہ کو اس کے اثرات سے اندھیرے میں رکھا گیا ہے، کابینہ کے سامنے پیش کئے گئے ریکارڈ میں نہیں بتایا گیا الاٹمنٹس کیلئے سلیکشن کا طریقہ کار کیا تھا، اہم ترین پہلو یہ وفاقی کابینہ نے مفادات کے ٹکراو کو نظر انداز کر دیا، ایلیٹ کا خزانے اور عوام کو نقصان پہنچا کرامیر ہونا آئینی معاشرے میں ناقابل تصور ہے، پلاٹس کی الاٹمنٹ کا طریقہ کار میں شفافیت ثابت کرنے کیلئے کچھ نہیں دکھایا گیا، نظرثانی شدہ پالیسی میں وکلا اور صحافیوں کو نکال دیا جانا بھی قابل غور پہلو ہے۔
Load Next Story