ایک مسلسل دردِ سر

حامد کرزئی اور اشرف غنی دونوں ہی افغانستان میں اقتدار حاصل کرنے کے لیے پاکستان کی مدد کے بغیر بے بس نظر آتے تھے

gfhlb169@gmail.com

TOKYO:
حامد کرزئی اور اشرف غنی دونوں ہی افغانستان میں اقتدار حاصل کرنے کے لیے پاکستان کی مدد کے بغیر بے بس نظر آتے تھے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد بھارت کی گود میں بیٹھ کر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے اور نقصان پہنچانے کی کوشش سے کبھی باز نہیں آئے۔ہر ملک کی سرحدیں کچھ ممالک سے ملتی ہیں جو اس کے پڑوسی ممالک ہوتے ہیں۔ کوئی بھی ملک اپنی مرضی سے پڑوسی نہیں چُن سکتا۔ پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا بھی اہم ہوتا ہے لیکن پاکستان پہلے دن سے ہی اس معاملے میں مشکلات کا شکار رہا ہے۔

ہمارے ملک کے بھارت کے ساتھ تعلقات ابتدا سے ہی اچھے نہیں رہے۔ دونوں ممالک کے درمیان پہلے سال ہی کشمیر کے مسئلے پر تنازعہ پیدا ہو گیا اور 1948میں باقاعدہ جنگ ہوئی۔گو یہ جنگ ایک مختصر مدت کے لیے ایک محدود علاقے کشمیر میں ہوئی لیکن اس جنگ نے آنے والے وقتوں کے لیے تعلقات کی ایک سمت متعین کر دی جس نے دونوں ملکوں کی افواج کو ایک دوسرے کے سامنے صف آرا کر دیا۔یہ سلسلہ اب تک جاری ہے اور اس کا بظاہر کوئی خاتمہ نظر نہیں آتا۔اٖفغانستان اور پاکستان کے درمیان کوئی وجہء تنازعہ نہیں تھا لیکن بھارت اور افغانستان دونوں ممالک میں یہ سوچ کارفرما تھی کہ پاکستان چلنے کا نہیں اور جلد یا بدیر اس ملک کے خدا نخواستہ ٹکڑے ہو جائیں گے۔پاکستان اور افغانستان کے مابین 2240کلومیٹر لمبی ڈیورنڈ لائن سرحد ہے۔ٖ

افغانستان نے اپنے تئیں آنے والے کل کے لیے بڑی اسمارٹ چال چلی۔افغانستان نے ڈیورنڈ لائن کو متنازعہ بنانے کا قصد کیا ،تاکہ پاکستانی پشتون علاقوں کو افغانی سرزمین ٹھہرایا جا سکے حالانکہ 1947 کے ریفرنڈم میں خیبر پختون خواہ کے عوام نے 2874ووٹوں کے مقابلے میں289244ووٹوں کی بہت بھاری اکثریت سے پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا تھا اور اٖفغانستان کے نام نہاد دعوے کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا تھا۔ لیکن پھر بھی افغانستان اس حد تک آمادہء شرارت تھا کہ ستمبر 1947میں پاکستان کی نوزائیدہ مملکت کے اقوامِ متحدہ کی ممبرشپ کے لیے صرف ایک ملک نے مخالفت میں ووٹ دیا اور وہ افغانستان تھا۔یوں افغانستان نے شروع سے ہی پاکستان مخالفت کا ڈول ڈال دیا ۔اس وقت سے لے کر آج تک دونوں ملکوں کے مابین کبھی مثالی برادرانہ اور دوستانہ تعلقات نہیں رہے، ہاں کبھی کبھی مختصر دورانیے کے لیے تعلقات بہتری کی جانب ضرور گئے۔

1979 میں سوویت افواج کے افغانستان میں داخلے نے پاکستان کی مغربی سرحد غیر محفوظ بنا دی۔ پاکستان نے افغان جہاد کی عملی مدد شروع کی تو افغان کمیونسٹ حکومت اور سوویت یونین پاکستان سے انتہائی خفا ہو گئے۔ پاکستان نے سوویت افواج کے انخلا کے بعد مجددی اور ربانی حکومت کو معاشی اور فوجی سہارا دیا لیکن ان دونوں نے افغانستان کے اندر پاکستان کے حق میں فضا بنانے میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔

پہلی افغان طالبان حکومت کو پاکستان نے نہ صرف Recognizeکیا بلکہ اپنا سب کچھ افغانستان کی نذر کیا لیکن ملا عمر کی سربراہی میں طالبان کے دور میں بھی افغان حکومتی اداروں اور خاص کر انٹیلی جنس و سیکیورٹی اداروں میں پاکستان مخالف عناصر کو کھل کھیلنے کی چھٹی ملی رہی۔ تمام افغان اداروں نے پاکستان کے خلاف نفرت کی فضا کو پروان چڑھایا۔ کرزئی اور اشرف غنی حکومتوں میں بھی نفرت کو مزید پروان چڑھایا گیا۔ پاکستان نے کئی مواقعے پر افغان افواج کو تربیت کی سہولت دینے کی پیش کش کی لیکن افغان حکومت نے بھارت کو ترجیح دے کر اپنے فوجیوں کو پاکستان مخالف فضا میں تربیت دلوائی۔پاکستان نے 42 سال سے افغان مہاجرین کو پاکستان میں پناہ دی ہوئی ہے۔ افغان بچے یہاں پیدا ہوتے ہیں،یہیں پلتے بڑھتے ہیں۔

افغان مہاجرین یہاں سے واپس نہیں جانا چاہتے۔موجودہ افغان کرکٹ ٹیم کے بیشتر اراکین نے پاکستان میں آنکھ کھولی۔پاکستان کی فضاؤں میں کرکٹ سے آشنا ہوئے۔یہیں کرکٹ کی تربیت لی لیکن جب بھی پاکستان اور افغانستان کا کرکٹ میچ ہوتا ہے پاکستان کے خلاف ان کے دلوں کی کدورتیں باہر اُمڈ آتی ہیں۔


15اگست2021کو اشرف غنی کے کابل سے فرار اور افغان طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے ساتھ ہی یہ امید ہو چلی تھی کہ افغانستان میں سرگرم پاکستان مخالف عناصر کی سرکوبی بھی ہو گی اور پاکستان دوست فضا جنم لے گی۔افغان طالبان حکومت قائم ہونے کے چند ہی دن کے بعد جلال آباد میں پاکستان کے خلاف نعرے لگے اور انتہائی ناپسندیدہ واقعات ہوئے۔

طورخم بارڈر پر وقفے وقفے سے پاکستان مخالف افغان عناصر ہمارے پرچم کی بے حرمتی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ہم نے کبھی صبر کا دامن نہیں چھوڑا ،کبھی مشتعل نہیں ہوئے اور کبھی بھی ناپسندیدہ جوابی کارروائی نہیں کی۔کوئی ایک مہینہ پہلے سرحد پر لگائی گئی باڑ کو افغان فوجیوں نے طالبان کمانڈر کی موجودگی میں روند ڈالا اور پاکستان کے خلاف نعرے بازی کی۔ہم ایک بہتر رویہ اپنانے اور اچھا چہرہ دکھانے کی تگ و دو کرتے رہتے ہیںلیکن کیا یہ ایک کامیاب پالیسی ہے۔

اگر پچھلے 70سے زائد برسوں میں اس پالیسی سے ہمیں کچھ حاصل نہیں ہوا تو آخر کب جا کے اس پالیسی کے عمدہ نتائج برآمد ہوں گے۔کیا افغان حکومت اور افغانی ہمیشہ پاکستان سے مراعات لینے میں کامیاب ہوتے رہیں گے اور جواب میں ہماری طرف صرف نفرتیں،جرائم اور دہشت گردی پھینکتے رہیں گے۔کیا پاکستان،افغان اداروں اور سیکیورٹی ایجنسیوں کے مثبت رویے کا صرف انتظار ہی کرتا رہے گا۔ان تمام سوالوں کا بظاہر تو جواب یہ ہے کہ دونوں ممالک پڑوسی ہیں اس لیے کسی نہ کسی وقت تبدیلی آ سکتی ہے ، بہتری کی توقع کرتے رہنا اور مثالی تعلقات کا ڈول ڈالے رکھنا اچھا تو ہے لیکن تاریخ اگر کوئی سبق دیتی ہے تو پاک،افغان تاریخ صرف یہ سبق دیتی ہے کہ ناشکرے افغان ہر طرح سے پاکستان سے مدد تو لیتے رہیں گے لیکن بدلے میں ان سے کسی خیر کی توقع عبث ہے۔افغان پالیسی پاکستاں کو Exploit کرتے رہنا ہے۔

افغان طالبان کے کابل میں اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد پاکستان نے ہر طریقے سے نئی افغان حکومت کو سپورٹ کیا۔مختلف بین الاقوامی فورمز پر بوجوہ افغان حکومت اتنی سرگرم نظر نہ آئی جتنی پاکستان حکومت افغانستان کی مدد کے لیے سرگرم ہے۔ پاکستان میں ڈالر کی قیمت میں اضافے کی ایک وجہ پاکستان سے کابل کو ڈالر کی اسمگلنگ ہے۔اسی طرح روزانہ غذا،دوا اور رہنے سہنے کی مطلوب اشیاء افغانستان روانہ کی جا رہی ہیں اور اب تو سنا ہے کہ کھاد بھی افغانستان پہنچائی جارہی ہے جس کی وجہ سے ہمارا کسان دربدر ہوگیا ہے، اس کے باوجود افغان طالبان پاکستان کی دشمن ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی پر تیار نہیں ہے اور روایتی دوعملی کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے۔ ٹی ٹی پی کو ابھی تک افغانستان کے اندر رہنے اور وہاں سے پاکستان کے اندر حملے کرنے کی پوری آزادی ہے۔

پچھلے ایک ماہ سے پاکستان مخالف بلوچ تنظیموں کی سرگرمیاں بھی بہت بڑھ گئی ہیں اور ہمارے بہادر اور جری جوانوں کی قیمتی جانیں جا رہی ہیں۔پاکستانی طالبان اور بلوچ تنظیمیں دہشت گردی کی اپنی اپنی کاروائیاں کر کے افغانستان کے اندر پناہ لے لیتی ہیں۔

چند دن پہلے معید یوسف نے کہا کہ افغان سرزمین ابھی تک پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔کیچ میں دہشت گردی کے ایسے ہی ایک اندوہناک واقعے میں ہمارے دس جوانوں کی قیمتی جانیں اپنے مادرِ وطن پر نچھاور ہو گئیں۔لگتا ہے پاکستان مخالف عناصر بہت ریسورشفل ہو رہے ہیں۔ انار کلی لاہور اور کیچ جیسے واقعات بہت الارمنگ ہیں۔ معید یوسف کا بیان اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ افغان پاکستان سے مدد اور مراعات تو لیتے رہیں گے لیکن جواب میں اپنا تاریخی عیارانہ اور مکارانہ کردار ادا کرتے ہوئے پاکستان مخالفت پر عمل پیرا رہیں گے اور پاکستان کے لیے ایک مسلسل دردِ سر بھی بنے رہیں گے۔
Load Next Story