آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
دبئی آئے ہوئے ہمیں ایک ماہ ہو چکا ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کل ہی یہاں آئے ہوں
WILMINGTON:
دبئی آئے ہوئے ہمیں ایک ماہ ہو چکا ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کل ہی یہاں آئے ہوں۔ دبئی کے روز و شب میں وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔ گزشتہ چند روز قبل سردی کی شدید لہر آئی تھی جس نے طبیعت قدر ناساز کردی تھی لیکن رفتہ رفتہ اب طبیعت بحال ہورہی ہے ، تاہم موسم خوشگوار ہے اور ہر روز روز عید اور ہر شب شب برات ہے۔ اس میں سارا کمال دل کے موسم کا ہے کیونکہ اصل بات یہ ہے کہ:
دل کا موسم اگر سہانا ہو
سارے موسم حسین لگتے ہیں
اگر اپنے پیاروں کی صحبت میسر ہو تو پھر جنگل میں منگل ہوتا ہے۔ ہمارے ساتھ بھی اس وقت یہی معاملہ ہے۔ پچھلی مرتبہ جب دبئی آنا ہوا تھا اس وقت ہماری نصف بہتر ہی ہمارے ہمراہ تھیں جب کہ اس مرتبہ ہماری صاحبزادی بھی ہمارے ساتھ ہیں جو ظعیفی اور بینائی سے محرومی کے اس دور ابتلا میں ہمارے لیے لاٹھی کا کام دے رہی ہیں۔
ان کی ہمراہی نے نہ صرف اس دورے کو دو آتشا بنا دیا ہے بلکہ سچ پوچھیے تو ناممکن سے ممکن بنا دیا ہے۔اہل لاہور کی یہ کہاوت بہت مشہور ہے ''جنے لہور نی ویکھیا او جمیا نئیں''یعنی جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ گویا پیدا ہی نہیں ہوا۔ واقعی لاہور لاہور ہے! لاہور سے بھی زیادہ دبئی پر صادق آتا ہے۔ یہاں آکر ایلس ان ونڈرلینڈ کا سا احساس ہوتا ہے۔
عالم امکانات میں جس شہ کا وجود ممکن ہوسکتا ہے ، دبئی میں آپ اسے موجود پائیں گے۔ یہ دنیا بالکل نرالی ہے۔ بس دیکھتے جائیے اور واہ واہ کرتے جائیے۔ہمارے حکمراں اور سیاست داں یہاں اکثر و بیشتر وقت ضرورت دبئی میں آکر پناہ لیتے ہیں یا آرام فرماتے ہیں اور یہیں پر اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے ہیں ، شاید ہی کوئی ایسا وقت ہو جب وطن عزیزکی کوئی نہ کوئی سرکردہ شخصیت یہاں قیام پذیر نہ ہو۔
دبئی کو سیاحوں اور خریداروں کی جنت کہا جاتا ہے، جوکہ بالکل بجا ہے۔ جہاں تک سیاحوں کا تعلق ہے تو ان کی تین اقسام ہیں ، ایک وہ جو محض سیر و تفریح اور گھومنے پھرنے کے لیے آتے ہیں، دوسرے وہ جن کا مقصد یہاں کے جدید ترین نظام صحت سے استفادہ کرکے پیچیدہ قسم کی بیماریوں کا علاج معالجہ کرانا ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کی اچھی خاصی تعداد یہاں قیام پذیر رہتی ہیں جو یہاں کی آمدنی کا ایک مستقل اور خاصہ بڑا ذریعہ ہے۔ سیاحت کا یہ شعبہ میڈیکل ٹورازم کہلاتا ہے۔ سیاحت کے تیسری قسم کے شعبہ کا تعلق کھیلوں سے ہے، جسے اسپورٹس ٹورازم کہا جاتا ہے۔
ذرا بیس بائیس برس پیچھے کی طرف ماضی میں جھانکیے تو کھیلوں کی سرگرمیوں کا دبئی کے ریگزاروں میں تصور بھی ناممکن تھا لیکن ناممکن کی جستجو اور ہمت مرداں نے مدد خدا سے ناممکن کو ممکن کرکے دکھا دیا۔
اس دلچسپ کہانی کا آغاز کرکٹ کے کھیل سے ہوا جو نہ صرف یہاں کا ایک بہت بڑا اور مستقل فیچر بن گیا ہے اور جس میں بین الاقوامی کرکٹ ٹیمیں انتہائی جوش و خروش سے شرکت کرکے پنجہ آزمائی سے بے شمار شائقین کو محظوظ کرتی ہیں۔ کرکٹ اور وہ بھی دبئی میں اب سے پچیس سال پہلے کسی شخص نے یہ بات منہ سے نکالی ہوتی تو اسے پاگل یا خبطی قرار دے دیا جاتا لیکن وقت اور حالات نے ثابت کردیا کہ اگر عزم محکم اور بے انتہا محنت و مشقت سے کام کیا جائے تو کوئی چیز ناممکن نہیں۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ قوت ارادی سے کچھ بھی کیا جاسکتا ہے اسی لیے کہا جاتا ہےWhere there is a will there is a way یعنی جہاں چاہ وہاں راہ !
مشکلے نیست کہ آساں نہ شود
مرد باید کہ ہراساں نہ شود
متحدہ عرب امارات میں کرکٹ کے کھیل کو متعارف کرانے کا سہرا کرکٹ کے دو دیوانوں کے سر ہے جن میں سے ایک کا تعلق متحدہ عرب امارات سے ہے اور دوسرے کا تعلق وطن عزیز سے ہے۔ اوّل الذکر کا نام عبدالرحمٰن بخاتر اور دوسرے کا نام نامی آصف اقبال ہے جو کسی تعارف کے محتاج نہیں:
میں اس کا نام نہ لوں اور لوگ پہچانیں
کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے
جب تک یو اے ای میں کرکٹ کا کھیل کھیلا جاتا رہے گا ، کرکٹ کے ان دونوں خدمت گزاروں کے نام تابندہ اور پایندہ رہیں گے۔دبئی اگرچہ زراعت کی دولت سے محروم ہے اور یہاں کا موسم صرف کھجور کی پیداوار تک ہی محدود ہے لیکن اس پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان اور فضل و کرم ہے کہ یہاں دنیا کا ہر پھل اور سبزی موسم بے موسم میسر ہے۔
بس بازار جائیے اور جو جی چاہے خرید کر لے آئیے۔ دنیا کی شاید ہی کوئی نعمت یا شے ہو جو یہاں دستیاب نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بھانت بھانت کا آدمی آپ کو یہاں کے مالز میں کچھ نہ کچھ خریدتا ہوا نظر آئے گا۔ صبح سے لے کر رات گئے تک یہاں لوگوں کا ایک ہجوم گھومتا پھرتا اور کھاتا پیتا ہوا نظر آئے گا۔دبئی کے یہ مالز مرکزی طور پر ایئرکنڈیشنڈ ہیں اور صاف ستھرے ایسے کہ ہر وقت چم چم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سچ پوچھیے تو یہ مالز نہیں بے پایاں بھنڈار ہیں جن کی نہ کوئی حد ہے نہ شمار۔ آپ قارون کا خزانہ بھی اگر لے کر آئیں تو وہ ختم ہوجائے گا اور ان مالز میں کوئی کمی واقع ہوتی ہوئی نظر نہیں آئے گی۔شورومز کی زیبائش اور آرائش اس بلا کی کہ ہر چیز آپ کے من کو بھاتی اور لبھاتی ہوئی نظر آئے گویا کہہ رہی ہو کہ آؤ مجھے خرید لو۔
اشیاء ضروریہ اور غیر ضروریہ سے لبالب بھرے ہوئے بلکہ اٹے ہوئے یہ مالزکی دبئی کی سب سے بڑی کشش ہیں ، جن کی وجہ سے دنیا کے کونے کونے سے یہاں لوگ کھنچے ہوئے چلے آتے ہیں۔دبئی کے ان مالز میں گھومنے پھرنے کے لیے لامحدود وسائل اور وقت اور فولادی قوت درکار ہے۔
یہاں کے حسن انتظام اور نظام کی تعریف بھی بیان سے باہر ہے۔ ان مالز میں انتہائی صاف و شفاف واش رومز اور فیڈینگ رومزہ کا نہایت معقول بندوبست ہے۔ دیدہ زیب اور کشادہ مساجد کا یہاں خاص اہتمام کیا گیا ہے تاکہ وزیٹرکو ذرا بھی زحمت نہ اٹھانی پڑے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ان مالز میں معذور افراد کے لیے نہایت عمدہ ویل چئیرز کا بالکل مفت اور انتہائی معقول بندوبست کیا گیا ہے۔ سیکیورٹی کا انتظام اتنا فول پروف کہ انسانی عقل دنگ رہ جائے اور ایمانداری کا عالم یہ کہ اگر آپ کی کوئی شہ بھول چوک سے کہیں پڑی رہ جائے یا خدانخواستہ گر جائے تو آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ سیکیورٹی عملے کی عقابی نظروں سے وہ چھپی نہیں رہ سکتی۔ المختصر:
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
دبئی آئے ہوئے ہمیں ایک ماہ ہو چکا ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کل ہی یہاں آئے ہوں۔ دبئی کے روز و شب میں وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔ گزشتہ چند روز قبل سردی کی شدید لہر آئی تھی جس نے طبیعت قدر ناساز کردی تھی لیکن رفتہ رفتہ اب طبیعت بحال ہورہی ہے ، تاہم موسم خوشگوار ہے اور ہر روز روز عید اور ہر شب شب برات ہے۔ اس میں سارا کمال دل کے موسم کا ہے کیونکہ اصل بات یہ ہے کہ:
دل کا موسم اگر سہانا ہو
سارے موسم حسین لگتے ہیں
اگر اپنے پیاروں کی صحبت میسر ہو تو پھر جنگل میں منگل ہوتا ہے۔ ہمارے ساتھ بھی اس وقت یہی معاملہ ہے۔ پچھلی مرتبہ جب دبئی آنا ہوا تھا اس وقت ہماری نصف بہتر ہی ہمارے ہمراہ تھیں جب کہ اس مرتبہ ہماری صاحبزادی بھی ہمارے ساتھ ہیں جو ظعیفی اور بینائی سے محرومی کے اس دور ابتلا میں ہمارے لیے لاٹھی کا کام دے رہی ہیں۔
ان کی ہمراہی نے نہ صرف اس دورے کو دو آتشا بنا دیا ہے بلکہ سچ پوچھیے تو ناممکن سے ممکن بنا دیا ہے۔اہل لاہور کی یہ کہاوت بہت مشہور ہے ''جنے لہور نی ویکھیا او جمیا نئیں''یعنی جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ گویا پیدا ہی نہیں ہوا۔ واقعی لاہور لاہور ہے! لاہور سے بھی زیادہ دبئی پر صادق آتا ہے۔ یہاں آکر ایلس ان ونڈرلینڈ کا سا احساس ہوتا ہے۔
عالم امکانات میں جس شہ کا وجود ممکن ہوسکتا ہے ، دبئی میں آپ اسے موجود پائیں گے۔ یہ دنیا بالکل نرالی ہے۔ بس دیکھتے جائیے اور واہ واہ کرتے جائیے۔ہمارے حکمراں اور سیاست داں یہاں اکثر و بیشتر وقت ضرورت دبئی میں آکر پناہ لیتے ہیں یا آرام فرماتے ہیں اور یہیں پر اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے ہیں ، شاید ہی کوئی ایسا وقت ہو جب وطن عزیزکی کوئی نہ کوئی سرکردہ شخصیت یہاں قیام پذیر نہ ہو۔
دبئی کو سیاحوں اور خریداروں کی جنت کہا جاتا ہے، جوکہ بالکل بجا ہے۔ جہاں تک سیاحوں کا تعلق ہے تو ان کی تین اقسام ہیں ، ایک وہ جو محض سیر و تفریح اور گھومنے پھرنے کے لیے آتے ہیں، دوسرے وہ جن کا مقصد یہاں کے جدید ترین نظام صحت سے استفادہ کرکے پیچیدہ قسم کی بیماریوں کا علاج معالجہ کرانا ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کی اچھی خاصی تعداد یہاں قیام پذیر رہتی ہیں جو یہاں کی آمدنی کا ایک مستقل اور خاصہ بڑا ذریعہ ہے۔ سیاحت کا یہ شعبہ میڈیکل ٹورازم کہلاتا ہے۔ سیاحت کے تیسری قسم کے شعبہ کا تعلق کھیلوں سے ہے، جسے اسپورٹس ٹورازم کہا جاتا ہے۔
ذرا بیس بائیس برس پیچھے کی طرف ماضی میں جھانکیے تو کھیلوں کی سرگرمیوں کا دبئی کے ریگزاروں میں تصور بھی ناممکن تھا لیکن ناممکن کی جستجو اور ہمت مرداں نے مدد خدا سے ناممکن کو ممکن کرکے دکھا دیا۔
اس دلچسپ کہانی کا آغاز کرکٹ کے کھیل سے ہوا جو نہ صرف یہاں کا ایک بہت بڑا اور مستقل فیچر بن گیا ہے اور جس میں بین الاقوامی کرکٹ ٹیمیں انتہائی جوش و خروش سے شرکت کرکے پنجہ آزمائی سے بے شمار شائقین کو محظوظ کرتی ہیں۔ کرکٹ اور وہ بھی دبئی میں اب سے پچیس سال پہلے کسی شخص نے یہ بات منہ سے نکالی ہوتی تو اسے پاگل یا خبطی قرار دے دیا جاتا لیکن وقت اور حالات نے ثابت کردیا کہ اگر عزم محکم اور بے انتہا محنت و مشقت سے کام کیا جائے تو کوئی چیز ناممکن نہیں۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ قوت ارادی سے کچھ بھی کیا جاسکتا ہے اسی لیے کہا جاتا ہےWhere there is a will there is a way یعنی جہاں چاہ وہاں راہ !
مشکلے نیست کہ آساں نہ شود
مرد باید کہ ہراساں نہ شود
متحدہ عرب امارات میں کرکٹ کے کھیل کو متعارف کرانے کا سہرا کرکٹ کے دو دیوانوں کے سر ہے جن میں سے ایک کا تعلق متحدہ عرب امارات سے ہے اور دوسرے کا تعلق وطن عزیز سے ہے۔ اوّل الذکر کا نام عبدالرحمٰن بخاتر اور دوسرے کا نام نامی آصف اقبال ہے جو کسی تعارف کے محتاج نہیں:
میں اس کا نام نہ لوں اور لوگ پہچانیں
کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے
جب تک یو اے ای میں کرکٹ کا کھیل کھیلا جاتا رہے گا ، کرکٹ کے ان دونوں خدمت گزاروں کے نام تابندہ اور پایندہ رہیں گے۔دبئی اگرچہ زراعت کی دولت سے محروم ہے اور یہاں کا موسم صرف کھجور کی پیداوار تک ہی محدود ہے لیکن اس پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان اور فضل و کرم ہے کہ یہاں دنیا کا ہر پھل اور سبزی موسم بے موسم میسر ہے۔
بس بازار جائیے اور جو جی چاہے خرید کر لے آئیے۔ دنیا کی شاید ہی کوئی نعمت یا شے ہو جو یہاں دستیاب نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بھانت بھانت کا آدمی آپ کو یہاں کے مالز میں کچھ نہ کچھ خریدتا ہوا نظر آئے گا۔ صبح سے لے کر رات گئے تک یہاں لوگوں کا ایک ہجوم گھومتا پھرتا اور کھاتا پیتا ہوا نظر آئے گا۔دبئی کے یہ مالز مرکزی طور پر ایئرکنڈیشنڈ ہیں اور صاف ستھرے ایسے کہ ہر وقت چم چم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سچ پوچھیے تو یہ مالز نہیں بے پایاں بھنڈار ہیں جن کی نہ کوئی حد ہے نہ شمار۔ آپ قارون کا خزانہ بھی اگر لے کر آئیں تو وہ ختم ہوجائے گا اور ان مالز میں کوئی کمی واقع ہوتی ہوئی نظر نہیں آئے گی۔شورومز کی زیبائش اور آرائش اس بلا کی کہ ہر چیز آپ کے من کو بھاتی اور لبھاتی ہوئی نظر آئے گویا کہہ رہی ہو کہ آؤ مجھے خرید لو۔
اشیاء ضروریہ اور غیر ضروریہ سے لبالب بھرے ہوئے بلکہ اٹے ہوئے یہ مالزکی دبئی کی سب سے بڑی کشش ہیں ، جن کی وجہ سے دنیا کے کونے کونے سے یہاں لوگ کھنچے ہوئے چلے آتے ہیں۔دبئی کے ان مالز میں گھومنے پھرنے کے لیے لامحدود وسائل اور وقت اور فولادی قوت درکار ہے۔
یہاں کے حسن انتظام اور نظام کی تعریف بھی بیان سے باہر ہے۔ ان مالز میں انتہائی صاف و شفاف واش رومز اور فیڈینگ رومزہ کا نہایت معقول بندوبست ہے۔ دیدہ زیب اور کشادہ مساجد کا یہاں خاص اہتمام کیا گیا ہے تاکہ وزیٹرکو ذرا بھی زحمت نہ اٹھانی پڑے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ان مالز میں معذور افراد کے لیے نہایت عمدہ ویل چئیرز کا بالکل مفت اور انتہائی معقول بندوبست کیا گیا ہے۔ سیکیورٹی کا انتظام اتنا فول پروف کہ انسانی عقل دنگ رہ جائے اور ایمانداری کا عالم یہ کہ اگر آپ کی کوئی شہ بھول چوک سے کہیں پڑی رہ جائے یا خدانخواستہ گر جائے تو آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ سیکیورٹی عملے کی عقابی نظروں سے وہ چھپی نہیں رہ سکتی۔ المختصر:
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں