کہانی لیاری کے ایک فٹ بال گراؤنڈ کی
فٹ بال ، دنیا میں سب سے زیادہ کھیلا اور دیکھنے جانے والا کھیل ہے
ISLAMABAD:
فٹ بال ، دنیا میں سب سے زیادہ کھیلا اور دیکھنے جانے والا کھیل ہے۔ فٹ بال کراچی کے علاقے لیاری کی پہچان ہے اور یہاں کے نوجوان اس کھیل سے جنون کی حد تک لگاؤ رکھتے ہیں۔ ان کے اس جنون اور فٹ بال کے کھیل سے محبت کے باعث ہی پاکستان میں لیاری کو فٹبال کی نرسری کہا جاتا ہے۔
ماضی میں بھی لیاری سے کئی کھلاڑیوں نے فٹ بال میں نمایاں کارنامے سرانجام دیے اور اپنی بہترین کارکردگی کی بنا پر قومی اور بین الاقوامی سطح پر اپنے کھیل سے ملک و قوم کا نام روشن کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ دنوں میں برطانیہ کے نامور فٹبالر مائیکل اوون پاکستان کے دورے پر تھے تو انھیں گزشتہ دنوں لیاری میں ملک محمد فیاض اعوان فٹبال گراؤنڈ کا دورہ کرایا گیا۔
جہاں منعقدہ استقبالیہ تقریب میں مائیکل اوون کو کراچی کے شہریوں کی جانب سے یادگاری شیلڈ پیش کی گئی۔ اس موقع پر مائیکل اوون نے لیاری کے نوجوان کھلاڑیوں کی مہارت کی ستائش کی اور پاکستان میں جدید فٹبال کے فروغ کے لیے اپنے تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ کمشنر کراچی محمد اقبال میمن نے اعلان کیا کہ لیاری کے نوجوانوں کو فٹبال سیکھنے کے لیے عالمی معیار کی تربیت فراہم کی جائے گیجس کے لیے انٹرنیشنل کوچ کا تعاون حاصل کیا ہے۔ اس سلسلے میں سوئیڈن ٹاؤن فٹبال کلب کے وائس چیئرمین زیویر آسٹن کے اشتراک سے تربیتی پروگرامز منعقد کیے جائیں گے۔
اس طرح لیاری کے نوجوانوں کو فٹبال عالمی معیار اور جدید تقاضوں کے مطابق سیکھنے کا موقع ملے گا اور فٹبالرز کو آگے بڑھنے اور عالمی سطح پر مواقع حاصل ہونگے۔ اگر نوجوانوں کو عالمی معیار کی تربیت فراہم کی جاتی ہے تو امید واثق ہے کہ مستقبل میں یہ نوجوان اپنی شاندار کارکردگی کی بنا پر ملک و قوم کا نام روشن کریں گے۔
اس موقع پر کوچ ناصر کریم بلوچ ، جمیل ہوت ، دوست محمد دانش ، غلام محمد خان سمیت دیگر سماجی شخصیات بھی موجود تھیں۔ اس موقع پر نوجوانوں کا جوش دیدنی تھا، لیاری کے مختلف فٹبال گراؤنڈز اور بڑی شاہراؤں پر برطانیہ کے نامور فٹبالر مہمان مائیکل اوون کی بڑی بڑی تصاویر آویزاں کی گئی تھیں۔ سرکاری سطح پر لیاری کے نوجوانوں کو عالمی معیار کی فٹبال تربیت دینے سے مستقبل کے اسٹارز فٹبالرزکھلاڑی بنانے میں بہت مدد ملے گی ، جسے فٹبال کھیل کے شائقین نے سراہا ہے ۔
ملک محمد فیاض اعوان فٹبال گراؤنڈ کا افتتاح اس وقت کے بلدیہ عالیہ جنوبی کے چیئرمین ملک محمد فیاض اعوان نے 20اگست 2020کو کیا تھا ، جہاں لیاری کے نوجوان فٹبالرز روزانہ فٹبال کھیلتے ہیں اور بڑی تعداد میں فٹبال کھیل کے شائقین فٹبال کھیل دیکھ کر کھلاڑیوں کو داد دیتے ہیں اس طرح وہ اپنا شوق پورا کرتے ہیں ، جہاں آج یہ گراؤنڈ تعمیر ہے اس کی ایک طویل داستان ہے ۔
یہاں فٹبال گراؤنڈ سے پہلے نامکمل چاکیواڑہ مارکیٹ کی ویران عمارت تھی۔ قصہ یہ ہے کہ جب لیاری کے پر امن ماحول کو کسی کی بد نظر لگی ہوئی تھی ، ہر طرف بد امنی کا راج تھا ، بھائی ، بھائی کے خون کا پیاسا تھا ، زندگی بڑی مشکل سے سانس لے رہی تھی، ہر وقت موت کا دھڑکا لگا رہتا تھا، لیاری کے علاقے نو گو ایریا بنے ہوئے تھے ایسے میں لیاری کے بد خواہوں نے اس خون ریزی کو ''گینگ وار'' کا نام دے رکھا تھا۔ اس دوران نہ جانے کتنے روشن چراغ گل ہوگئے تھے۔
کتنی ماؤں کی گودیں اجڑ چکی تھی ، کتنی بہنوں کی سہاگ لٹ چکے تھے ، کتنے بھائی ، بھائیوں کے ہاتھوں جہاں فانی سے کوچ کرگئے تھے ، یہ ایک الگ دل خراش داستان ہے جس کا خمیازہ اہل لیاری نے بھگتا ہے۔ اہل لیاری نے وہ منظر بھی دیکھا جب رمضان المبارک کی آخری رات یعنی عیدالفطر کی شب 7 اگست 2013 کو اسی مقام پر جہاں چاکیواڑہ مارکیٹ کی نامکمل عمارت تھی جہاں آج ملک محمد فیاض اعوان فٹبال گراؤنڈ بنا ہوا ہے کے ساتھ سڑک پر پھول جیسے معصوم بچے فٹبال ٹورنامنٹ کا فائنل میچ کھیل رہے تھے اس امید کے ساتھ کے یہ میچ جیت کر ہماری عید کی خوشیاں دوبالا ہوجائے گی۔
ان بچوں کے والدین نے اپنے ان بچوں کی عید کی خریداری کر رکھی تھی لیکن انھیں کیا معلوم تھا کہ ان کے پھول جیسے معصوم کی قسمت میں ان رنگ برنگی کپڑوں کے بجائے سفید کفن پہننے والے ہیں۔ بچے کھیلنے میں مصروف تھے ،فٹبال شائقین کی زیادہ تر تعداد بھی بچوں کی تھی ، کچھ نامور شخصیات نا مکمل چاکیواڑہ مارکیٹ کی چھت پر بیٹھے یہ میچ انہماک سے دیکھ رہے تھے۔
ادھر ننھے منے فٹبالر ز بچے ایک دوسرے کو گول کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لینے میں مصروف تھے کہ اچانک ایک زور دار بم دھماکہ ہوا جہاں چند ساعت پہلے بچوں کی تالیوں کی آواز گونج رہی تھی اب وہاں یک دم قیامت صغرا کا منظر تھا ، ہر سو بچوں کی درد ناک آوازیں ، چیخ و پکار کانوں کے پردے پھاڑ رہے تھے۔ الفاظ ساتھ نہیں دے رہے کہ اس کربناک ، درد ناک واقعہ کو کس انداز سے رقم کروں ؟ بہرکیف جو کچھ بھی اس مقام پر ہوا وہ لیاری کی تاریخ کا غم ناک ناقابل فراموش سانحہ اور ناقابل معافی انسان سوز جرم تھا۔ یقینا روز قیامت ان شہید بچوں کا ہاتھ ہوگا اور سفاک وحشی قاتلوں کا گریبان ہوگا۔
یادش بخیر ! اسی مقام پر کسی زمانے میں بھی ایک میدان تھا جہاں فٹبال میچز کھیلے جاتے تھے، جس کے ارد گرد دکانیں تھیں درمیان میں گیٹ نما راستہ تھا ، اسی میدان میں ایک آدمی سائیکل پر سوار ہوکر چلتے سائیکل پر گول گول گھوم کر مختلف کرتب دکھایا کرتا تھا، ارد گرد کے لوگ ان کا یہ کرتب دیکھنے آیا کرتے تھے ، پھر ایک دور ایسا آیا کہ کھلے میدانوں میں جمعہ ، اتوار اور منگل بازار لگنے لگے تھے جہاں عام بازاروں کی قیمتوں سے کم رعایتی قیمت پر ضروری روزمرہ کی اشیا فروخت کی جاتی تھیں۔
ان بازاروں میں سے ایک بازار اسی میدان میں بھی لگنا شروع ہوا جہاں آج ملک فیاض اعوان فٹبال گراؤنڈ بنا ہوا ہے۔ بعد ازاں اسی میدان میں چھوٹی اور بڑی عید کے موقعے پر ماما عید بازار لگنا شروع ہوا جس سے یہاں چاکیواڑہ مارکیٹ تعمیر کرنے کی سوچ پر وان چڑھی، مگر گراؤنڈ فلور کی دکانیں تعمیر ہونے کے بعد معاملہ آگے بڑھ نہ سکا ، وقت کے ساتھ ساتھ یہ مجوزہ چاکیواڑہ مارکیٹ متنازع بن گئی ، کافی وقت تک یہ عمارت ویران رہی جسے آخرکار مسمار کر کے واپس اس مقام پر فٹبال گراؤنڈ بنا دیا گیا جسے ملک محمد فیاض اعوان فٹبال گراؤنڈ کا نام دیا گیا ہے ۔