انسان کے دشمن سماجوں کی دنیا
زندگی گزارنے کا مکمل ضابطہ، سلیقہ اور تعلیمات موجود ہوتی ہیں
WASHINGTON DC:
کسی بھی معاشرے کے رسم و رواج اس کے تہذیب و اخلاق، مذہبی عقائد اور طرز معاشرت پر گہرا اثر ڈالتے اور قوموں کے عروج و زوال کا سبب بنتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کے باعث وجود میں آنے والے سماج میں ایک خاص قسم کی پاکیزگی، عمدگی، نفاست اور مقصدیت پائی جاتی ہے۔
زندگی گزارنے کا مکمل ضابطہ، سلیقہ اور تعلیمات موجود ہوتی ہیں۔ اسلام کی تعلیمات کا ایک بڑا حصہ سماجی اور معاشرتی زندگی کے درخشاں اصولوں پر مبنی ہے۔ برصغیر میں کئی تہذیبیں اور قومیں جمع تھیں ، بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ان کی کئی جاہلانہ رسوم رواج پا گئیں۔ پاکستان میں سماجی عادات اور علاقائی روایات کا مطالعہ کیا جائے تو رسوم و رواج کے حوالے سے عجیب صورت حال دکھائی دیتی ہے۔ پیدائش سے لے کر شادی بیاہ تک اور شادی سے موت تک کے مواقعے پر آج بھی برصغیر کی مختلف اقوام سے مستعار لیے گئے ،کئی رواج رائج ہیں، لیکن ان کو ناپسند کرتے ہوئے بھی معاشرہ ان پر اس پختگی کے ساتھ عمل پیرا ہے کہ ان کو چھوڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
اسلام میں زندگی کے ہر پہلو کے لیے ایک بہترین لائحہ عمل موجود ہے، اگر اس لائحہ عمل پر چلا جائے تو زندگی پرسکون رہے اور کسی قسم کی مشکل کا سامنا بھی نہ کرنا پڑے، مگر ہم خود ہی اپنی زندگیوں کو پیچیدہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ لوگوں کو خوش کرنے کی خاطر ہم نے اپنی زندگیوں کو بے سکون کردیا ہے۔ برسوں سے فضول رسوم و رواج کی اندھی تقلید کر رہے اور اپنے لیے مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ رواجوں کی بے جا پابندی دیکھ کر لگتا ہے انسان ان رسومات اور رواجوں کے لیے تخلیق کیا گیا ہے۔
ہم سب زندگی کے تمام معاملات میں رسوم و رواج کے اسیر بن چکے ہیں۔ رسوم و رواج معاشروں میں ایک جبری پابندی کی علامت ہیں۔ کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کچھ باشعور اور تعلیم یافتہ افراد کسی موقع پر جمع ہوتے ہیں ، کسی پروگرام میں بولنے کا موقع ملتا ہے۔ معاشرے میں رائج رسوم و رواج کی وہ کھل کر مخالفت کرتے ہیں۔ ان رسوم و رواج پر تنقید کرتے ہیں اور انھیں جاہلانہ رسوم بھی بتلاتے ہیں، کیونکہ ان کا کوئی فائدہ نہیں ہے، لیکن اس سب کچھ کے باوجود یہ سب افراد خود بھی ان رسموں اور رواجوں پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ انھیں چھوڑ نہیں سکتے، کیونکہ یہ معاشرے کی رگوں میں رچ بس گئی ہیں۔ معاشرے کا حصہ بن گئی ہیں۔ اگر کوئی انھیں چھوڑنے کی ہمت کرتا ہے تو اسے معاشرے کے لوگوں کی باتیں سننا پڑتی ہیں۔ کئی لوگوں کی مخالفت مول لینا پڑتی ہے۔
بہت سے لوگوں سے طعنے سننا پڑتے ہیں۔ کئی بار خاندان کے بڑے بھی بہت سی رسومات سے نفرت کرتے ہیں۔ وہ بھی ان رواجوں کو انتہائی لغو اور فضول قرار دیتے ہیں، لیکن معاشرے کے افراد کے طعنوں کے خوف سے چھوڑنے کی ہمت وہ بھی نہیں کرتے۔ اپنی رائے اور اپنی سوچ کو زیر کر لینا قبول کرلیتے ہیں ، لیکن رسم و رواج کو چھوڑنے کی ہمت نہیں کرتے ، اگر ہم سب شمار کریں تو قدم قدم پر بہت سی ایسی رسوم و رواج ہماری زندگیوں میں شامل ہیں، جنھیں ہم اچھا نہیں سمجھتے۔ زبان سے ان کی ہم مخالفت کرتے ہیں، لیکن عمل سے ہم ان کی تائید کرتے ہیں۔ یہ تائید کرنا ہماری مجبوری ہوتی ہے۔ چاہتے ہوئے بھی ہم ان رسوم کو چھوڑ نہیں سکتے، کیونکہ ہمارا سماج ، ہمارا معاشرہ ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا اور ہم سماج کے سامنے ڈھیر ہوجاتے ہیں۔
معاشرے میں بیشتر رسوم و رواج نمود و نمائش اور لوگوں کو خوش کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ بہت سے لوگ نمود و نمائش کو زندگی میں سہولت ، سکون و آرام اور بہترین طرز زندگی کی علامت و معیار اور بہت سے مسائل کا حل خیال کرتے ہیں۔ نمود و نمائش اور دکھاوا بہت سے لوگوں کی زندگی کا محور بن چکا ہے۔ یہ لوگ نمود و نمائش کی زندگی کو ترجیح دیتے ہیں۔
اس کے ذریعے خود کی دوسروں پر برتری ثابت کرتے ہیں۔ بعض رسم و رواج ایسے ہیں جنھیں اگر سادگی اور وقار کو ملحوظ رکھتے ہوئے اختیار کیا جائے تو زندگی میں حسن کا احساس ہوتا ہے، لیکن اس کے برعکس اگر یہی نمود و نمائش اور مقابلے کی دوڑ میں آگے بڑھ جانے کا ذریعہ بن جائیں تو معاشرے کے لیے وبال بن جاتی ہیں۔ ہمارے سماج میں ان رسوم کو اپنانے کے لیے ایک نہیں کئی ایک توجیہات اور توضیحات موجود ہیں، لیکن اس کے لیے اسراف ضروری تو نہیں ہے۔ آج کل خوشی کے مواقع پر ہم کھل کر اسراف کرتے ہیں۔
شادیاں اسراف، دھن اور دولت کی نمائش بن کر رہ گئی ہیں۔ عروسی سوٹ سے لے کر ولیمے تک کا سفر اپنے اندر ان گنت نئی رسمیں سمیٹے ہوئے ہے۔ لوگ شادی بیاہ او دیگر تقریبات پر فضول رسم و رواج وغیرہ میں نمود و نمائش کی غرض سے اسراف کرتے ہیں۔ جہیز، ملبوسات، زیورات اور نہ جانے کتنی ہی فضول اور غیر ضروری رسوم پر پانی کی طرح پیسہ بہایا جاتا ہے۔ لوگ نمود و نمائش کے لیے اپنی بساط سے بڑھ کر کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے بھاری رقوم بھی ادھار لیتے ہیں، جسے ساری زندگی چکانے میں گزار دیتے ہیں۔ شادی بیاہ سے جڑی ان کے علاوہ بھی بہت سی فضول رسوم ہیں، جن کی کسی طور بھی تائید نہیں کی جاسکتی۔ اچھا کھانے پینے، پہننے اوڑھنے کی اسلام میں ممانعت نہیں ہے، لیکن اس سب میں بے جا اسراف اور نمود و نمائش کی اجازت نہیں ہے۔
ہر وقت دکھاوے کی زندگی انسان کے اصل کو چھین لیتی ہے اور منافقت کی زندگی بن جاتی ہے۔ انسان کو حقیقت پسند ہونا چاہیے۔ آج کل سوشل میڈیا پر لوگ اپنے آپ کو اچھا ثابت کرنے، اپنی خوبیاں بڑھا چڑھا کر بیان کرنے، اپنے کمالات دنیا کو بتانے اور اپنی امارات ظاہر کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ سب بہت کھوکھلا اور بناوٹی سا لگتا ہے۔
لوگ نمود و نمائش میں اس حد تک آگے جا چکے ہیں کہ عبادتوں کے دکھاوے سے بھی باز نہیں آتے۔ کوئی اچھا کام کریں یا کسی غریب کی مدد کریں تو تشہیر کی جاتی ہے۔ کئی جنازوں میں بہت سے لوگ میت کے لیے دعا کرنے نہیں، بلکہ لواحقین کو صرف اپنا چہرہ دکھانے جاتے ہیں، تاکہ کوئی یہ نہ کہہ دے کہ فلاں شخص جنازے میں شریک نہیں ہوا تھا۔ علاقے کے کسی بااثر شخص کا کوئی عزیز فوت ہوجائے تو اس وقت تعزیت کرنے والوں کی اکثریت اسی قبیل کے لوگوں کی ہوتی ہے۔
اگر اسلامی تعلیمات پر عمل کیا جائے تو نہ کوئی صرف لوگوں کو خوش کرنے کے لیے کوئی نیک عمل کرے اور نہ ہی کوئی ایسا عمل نہ کرنے پر اعتراض کرے، جسے شریعت نے ضروری قرار نہیں دیا۔ اب وقت بدل جانا چاہیے۔ اب ایسے رسوم و رواج سے نجات حاصل کرنی چاہیے جو فائدے کے بجائے معاشرے کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ جو زندگی کو آسان بنانے کے بجائے مشکل بنا رہے ہیں۔ اگر کوئی اچھا عمل کرنا بھی ہے تو اپنے اور دوسروں کے فائدے کی نیت سے کرنا چاہیے۔ زندگی کو مصنوعی کے بجائے حقیقت میں جینا چاہیے۔ اپنی استطاعت اور سہولت کے مطابق جینا چاہیے۔ زندگی کو لوگوں کو دکھانے کے بجائے اپنے لیے جینا چاہیے۔
کسی بھی معاشرے کے رسم و رواج اس کے تہذیب و اخلاق، مذہبی عقائد اور طرز معاشرت پر گہرا اثر ڈالتے اور قوموں کے عروج و زوال کا سبب بنتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کے باعث وجود میں آنے والے سماج میں ایک خاص قسم کی پاکیزگی، عمدگی، نفاست اور مقصدیت پائی جاتی ہے۔
زندگی گزارنے کا مکمل ضابطہ، سلیقہ اور تعلیمات موجود ہوتی ہیں۔ اسلام کی تعلیمات کا ایک بڑا حصہ سماجی اور معاشرتی زندگی کے درخشاں اصولوں پر مبنی ہے۔ برصغیر میں کئی تہذیبیں اور قومیں جمع تھیں ، بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ان کی کئی جاہلانہ رسوم رواج پا گئیں۔ پاکستان میں سماجی عادات اور علاقائی روایات کا مطالعہ کیا جائے تو رسوم و رواج کے حوالے سے عجیب صورت حال دکھائی دیتی ہے۔ پیدائش سے لے کر شادی بیاہ تک اور شادی سے موت تک کے مواقعے پر آج بھی برصغیر کی مختلف اقوام سے مستعار لیے گئے ،کئی رواج رائج ہیں، لیکن ان کو ناپسند کرتے ہوئے بھی معاشرہ ان پر اس پختگی کے ساتھ عمل پیرا ہے کہ ان کو چھوڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
اسلام میں زندگی کے ہر پہلو کے لیے ایک بہترین لائحہ عمل موجود ہے، اگر اس لائحہ عمل پر چلا جائے تو زندگی پرسکون رہے اور کسی قسم کی مشکل کا سامنا بھی نہ کرنا پڑے، مگر ہم خود ہی اپنی زندگیوں کو پیچیدہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ لوگوں کو خوش کرنے کی خاطر ہم نے اپنی زندگیوں کو بے سکون کردیا ہے۔ برسوں سے فضول رسوم و رواج کی اندھی تقلید کر رہے اور اپنے لیے مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ رواجوں کی بے جا پابندی دیکھ کر لگتا ہے انسان ان رسومات اور رواجوں کے لیے تخلیق کیا گیا ہے۔
ہم سب زندگی کے تمام معاملات میں رسوم و رواج کے اسیر بن چکے ہیں۔ رسوم و رواج معاشروں میں ایک جبری پابندی کی علامت ہیں۔ کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کچھ باشعور اور تعلیم یافتہ افراد کسی موقع پر جمع ہوتے ہیں ، کسی پروگرام میں بولنے کا موقع ملتا ہے۔ معاشرے میں رائج رسوم و رواج کی وہ کھل کر مخالفت کرتے ہیں۔ ان رسوم و رواج پر تنقید کرتے ہیں اور انھیں جاہلانہ رسوم بھی بتلاتے ہیں، کیونکہ ان کا کوئی فائدہ نہیں ہے، لیکن اس سب کچھ کے باوجود یہ سب افراد خود بھی ان رسموں اور رواجوں پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ انھیں چھوڑ نہیں سکتے، کیونکہ یہ معاشرے کی رگوں میں رچ بس گئی ہیں۔ معاشرے کا حصہ بن گئی ہیں۔ اگر کوئی انھیں چھوڑنے کی ہمت کرتا ہے تو اسے معاشرے کے لوگوں کی باتیں سننا پڑتی ہیں۔ کئی لوگوں کی مخالفت مول لینا پڑتی ہے۔
بہت سے لوگوں سے طعنے سننا پڑتے ہیں۔ کئی بار خاندان کے بڑے بھی بہت سی رسومات سے نفرت کرتے ہیں۔ وہ بھی ان رواجوں کو انتہائی لغو اور فضول قرار دیتے ہیں، لیکن معاشرے کے افراد کے طعنوں کے خوف سے چھوڑنے کی ہمت وہ بھی نہیں کرتے۔ اپنی رائے اور اپنی سوچ کو زیر کر لینا قبول کرلیتے ہیں ، لیکن رسم و رواج کو چھوڑنے کی ہمت نہیں کرتے ، اگر ہم سب شمار کریں تو قدم قدم پر بہت سی ایسی رسوم و رواج ہماری زندگیوں میں شامل ہیں، جنھیں ہم اچھا نہیں سمجھتے۔ زبان سے ان کی ہم مخالفت کرتے ہیں، لیکن عمل سے ہم ان کی تائید کرتے ہیں۔ یہ تائید کرنا ہماری مجبوری ہوتی ہے۔ چاہتے ہوئے بھی ہم ان رسوم کو چھوڑ نہیں سکتے، کیونکہ ہمارا سماج ، ہمارا معاشرہ ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا اور ہم سماج کے سامنے ڈھیر ہوجاتے ہیں۔
معاشرے میں بیشتر رسوم و رواج نمود و نمائش اور لوگوں کو خوش کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ بہت سے لوگ نمود و نمائش کو زندگی میں سہولت ، سکون و آرام اور بہترین طرز زندگی کی علامت و معیار اور بہت سے مسائل کا حل خیال کرتے ہیں۔ نمود و نمائش اور دکھاوا بہت سے لوگوں کی زندگی کا محور بن چکا ہے۔ یہ لوگ نمود و نمائش کی زندگی کو ترجیح دیتے ہیں۔
اس کے ذریعے خود کی دوسروں پر برتری ثابت کرتے ہیں۔ بعض رسم و رواج ایسے ہیں جنھیں اگر سادگی اور وقار کو ملحوظ رکھتے ہوئے اختیار کیا جائے تو زندگی میں حسن کا احساس ہوتا ہے، لیکن اس کے برعکس اگر یہی نمود و نمائش اور مقابلے کی دوڑ میں آگے بڑھ جانے کا ذریعہ بن جائیں تو معاشرے کے لیے وبال بن جاتی ہیں۔ ہمارے سماج میں ان رسوم کو اپنانے کے لیے ایک نہیں کئی ایک توجیہات اور توضیحات موجود ہیں، لیکن اس کے لیے اسراف ضروری تو نہیں ہے۔ آج کل خوشی کے مواقع پر ہم کھل کر اسراف کرتے ہیں۔
شادیاں اسراف، دھن اور دولت کی نمائش بن کر رہ گئی ہیں۔ عروسی سوٹ سے لے کر ولیمے تک کا سفر اپنے اندر ان گنت نئی رسمیں سمیٹے ہوئے ہے۔ لوگ شادی بیاہ او دیگر تقریبات پر فضول رسم و رواج وغیرہ میں نمود و نمائش کی غرض سے اسراف کرتے ہیں۔ جہیز، ملبوسات، زیورات اور نہ جانے کتنی ہی فضول اور غیر ضروری رسوم پر پانی کی طرح پیسہ بہایا جاتا ہے۔ لوگ نمود و نمائش کے لیے اپنی بساط سے بڑھ کر کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے بھاری رقوم بھی ادھار لیتے ہیں، جسے ساری زندگی چکانے میں گزار دیتے ہیں۔ شادی بیاہ سے جڑی ان کے علاوہ بھی بہت سی فضول رسوم ہیں، جن کی کسی طور بھی تائید نہیں کی جاسکتی۔ اچھا کھانے پینے، پہننے اوڑھنے کی اسلام میں ممانعت نہیں ہے، لیکن اس سب میں بے جا اسراف اور نمود و نمائش کی اجازت نہیں ہے۔
ہر وقت دکھاوے کی زندگی انسان کے اصل کو چھین لیتی ہے اور منافقت کی زندگی بن جاتی ہے۔ انسان کو حقیقت پسند ہونا چاہیے۔ آج کل سوشل میڈیا پر لوگ اپنے آپ کو اچھا ثابت کرنے، اپنی خوبیاں بڑھا چڑھا کر بیان کرنے، اپنے کمالات دنیا کو بتانے اور اپنی امارات ظاہر کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ سب بہت کھوکھلا اور بناوٹی سا لگتا ہے۔
لوگ نمود و نمائش میں اس حد تک آگے جا چکے ہیں کہ عبادتوں کے دکھاوے سے بھی باز نہیں آتے۔ کوئی اچھا کام کریں یا کسی غریب کی مدد کریں تو تشہیر کی جاتی ہے۔ کئی جنازوں میں بہت سے لوگ میت کے لیے دعا کرنے نہیں، بلکہ لواحقین کو صرف اپنا چہرہ دکھانے جاتے ہیں، تاکہ کوئی یہ نہ کہہ دے کہ فلاں شخص جنازے میں شریک نہیں ہوا تھا۔ علاقے کے کسی بااثر شخص کا کوئی عزیز فوت ہوجائے تو اس وقت تعزیت کرنے والوں کی اکثریت اسی قبیل کے لوگوں کی ہوتی ہے۔
اگر اسلامی تعلیمات پر عمل کیا جائے تو نہ کوئی صرف لوگوں کو خوش کرنے کے لیے کوئی نیک عمل کرے اور نہ ہی کوئی ایسا عمل نہ کرنے پر اعتراض کرے، جسے شریعت نے ضروری قرار نہیں دیا۔ اب وقت بدل جانا چاہیے۔ اب ایسے رسوم و رواج سے نجات حاصل کرنی چاہیے جو فائدے کے بجائے معاشرے کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ جو زندگی کو آسان بنانے کے بجائے مشکل بنا رہے ہیں۔ اگر کوئی اچھا عمل کرنا بھی ہے تو اپنے اور دوسروں کے فائدے کی نیت سے کرنا چاہیے۔ زندگی کو مصنوعی کے بجائے حقیقت میں جینا چاہیے۔ اپنی استطاعت اور سہولت کے مطابق جینا چاہیے۔ زندگی کو لوگوں کو دکھانے کے بجائے اپنے لیے جینا چاہیے۔