سزا لوگوں کو نہیں لٹیروں کو دیں
سانحہ مری کے بعد مری کے بائیکاٹ کی مہم بھی چلائی جا رہی ہے
لاہور:
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سانحہ مری کی ذمے داری این ڈی ایم اے اور پوری ریاست پر عائد کرتے ہوئے وزیر اعظم کو اجلاس بلا کر ذمے داروں کے خلاف کارروائی کا کہا ہے اور واضح کیا ہے کہ کسی انکوائری کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
سانحہ مری کے بعد مری کے بائیکاٹ کی مہم بھی چلائی جا رہی ہے اور ہلاکتوں کے بعد مہنگے کرائے وصول کرنے والے 14 ہوٹلوں کو سیل کرنے اور جان بوجھ کر گاڑی پھنسا کر سڑک بند کرنے والے ایک ملزم کی گرفتاری کی خبر میڈیا پر آئی اور دوسرے روز ہی ملزم کو ضمانت پر رہائی مل گئی ۔
سانحہ مری کے سلسلے میں ریاست، حکومت اور این ڈی ایم اے کی نااہلی، غیر ذمے داری اور مجرمانہ غفلت اپنی جگہ ، حال تو یہ ہے کہ راولپنڈی میں تحقیقاتی کمیٹی کے مطابق محکمہ موسمیات کا دفتر ہی نہیں ہے اور ضلع انتظامیہ کا محکمہ موسمیات سے کوئی رابطہ ہی نہیں تھا جس کی وجہ سے برفانی طوفان کی پیش گوئی کے باوجود ٹریول ایڈوائزری جاری ہوئی نہ پیشگی اقدامات کیے جا سکے۔
سانحہ مری میں 23 جانیں گئیں اورکئی خاندان اجڑ گئے مگر حکومت یا ریاست کا کچھ بگڑا نہ این ڈی ایم اے کی صحت پر کچھ اثر پڑا نہ ہی کسی کے استعفیٰ کی خبر آئی۔ پنجاب حکومت فوت ہو جانے والوں کو آٹھ آٹھ لاکھ روپے دے کر مطمئن ہوگئی ، وزیر اعظم نے تعزیت کرلی اور کچھ دیر رنجیدہ رہے حکومت کے محکمے ایک دوسرے کو اور حکومت مری جانے والوں کو الزام دیتی رہی۔ ایک اے ایس آئی کے خاندان پر قیامت گزر گئی، کوئی اعلیٰ افسر متاثر ہوا نہ ٹریفک جام کے ذمے دار ملزم کو کوئی احساس ہوا۔ وقت گزر جائے گا اور سب کچھ معمول پر آجائے گا۔
مری کا عارضی بائیکاٹ بھی موثر ثابت نہیں ہوگا کیونکہ ایسے سنگ دل بھی برف باری کا مزہ لینے سے محروم ہوگئے جو سانحہ کے بعد مری جانے سے روکنے کے باوجود باز نہیں آ رہے تھے اور ضد کر رہے تھے کہ ہم برف باری دیکھنے دور سے آئے ہیں ہمیں مری جانے دیا جائے۔
شدید برف باری کی پیشگی اطلاع پر عمل کرانے والے برف ہٹانے والی 20 گاڑیاں ایک جگہ کھڑی کرکے بھول گئے کہ ان گاڑیوں کو استعمال بھی کرنا ہے جس کی وجہ سے گاڑیوں کے ڈرائیور بھی غائب ہوگئے جو صرف برف باری ہی میں اپنے فرائض ادا کرتے ہوں گے مگر اس بار لگتا ہے جان بوجھ کر غائب ہوئے تاکہ سڑکوں سے برف نہ ہٹائی جاسکے۔
فاریسٹ اہلکار بھی اپنی نااہلی کا کوئی جواب نہ دے سکے۔ ملک بھر کے تفریحی مقامات پر سیاحوں کے لیے بنائے گئے ہوٹلوں کی کہیں گریڈنگ نہیں یہ گریڈنگ صرف بڑے شہروں کے بڑے ہوٹلوں کی ہے جو مالکان نے سہولیات کے مطابق خود طے کر رکھے ہیں اور اسی حساب سے وہاں آنے والے امیروں یا وی آئی پیز سے کرایہ وصول کیا جاتا ہے اور ٹھہرنے والوں کو مقررہ رقم پر سہولتیں دی جاسکتی ہیں۔ ملک کے تفریحی مقامات بڑے امیروں کے آنے کے قابل نہیں وہ تو تفریح کے لیے بیرون ملک جاتے ہیں۔
ملکی تفریحی مقام صرف متوسط طبقے کے لیے ہیں جو پروگرام کے مطابق موسم کے لحاظ سے وہاں جاتے ہیں اور وہاں کے اخراجات ادا کرنے کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ ملک کے غریبوں کی قسمت میں تو اپنے ملک کے تفریحی مقامات دیکھنا ہی نہیں ہے۔ وہ سارا سال خود کو زندہ رکھنے اور اپنے بچوں کو پالنے کی جدوجہد میں ہی مصروف رہتے ہیں اور کہیں باہر جاکر تفریح کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ اکثر غریب علاقوں میں تو عام سے پارک بھی نہیں ہیں کہ وہ وہاں جانے کا وقت نکال سکیں۔ کراچی کے کروڑوں لوگوں کو تو سمندر کی تفریح کا بھی وقت ملتا ہے نہ وہ وہاں جانے کے اخراجات برداشت کر پاتے ہیں البتہ ملک بھر سے سمندر دیکھنے والے ہی وہاں آتے ہیں۔
غریبوں کو مجبوری میں ریلوے سفر ضرور کرنا پڑتا ہے جہاں ریلوے اسٹیشنوں پر مسافروں کو لوٹا جاتا ہے۔ پلیٹ فارموں پر ہر چیز مہنگی اور مضر صحت خوراک کھلے عام سرکاری نگرانی میں فروخت ہوتی ہے۔ حکومت ریلوے اسٹیشنوں پر مہنگائی نہیں روکتی تو یہ ملک کے تفریحی مقامات پر جاری لوٹ مار کیوں روکے گی؟ ریلوے اسٹیشنوں، شاہراہوں پر قائم ہوٹل، ہوائی اڈے اور تفریحی مقامات صرف وہاں آنے والوں کو لوٹنے کے لیے مختص ہیں۔ مری کے غریب مال روڈ سے دور دراز علاقوں میں اور لٹیرے دکاندار ہوٹل مالکان مری میں رہتے ہیں۔
مری بائیکاٹ ہوگا نہیں کیونکہ مری عام لوگوں کی پہنچ میں ہے۔ دور دراز وہ بہت کم لوگ جاتے ہیں سانحہ مری کی سزا وہاں کے عام لوگوں کو نہیں لٹیروں کو دی جانی چاہیے اور عوام سے مجبوری میں لی گئی اضافی رقم واپس کرائی جائے اور لٹیروں پر بھاری جرمانے کیے جائیں اور آیندہ ایسی ظالمانہ لوٹ مار بلکہ ڈکیتی نہ کرنے کا انھیں پابند کیا جائے مگر ایسا ہوگا نہیں کیونکہ حکومت خود ایسا نہیں کرے گی۔