کوے اور کلنگ
جب دو شخص آپس میں ملیں تو یقین کرنا چاہیے کہ ان میں کوئی مشترک نسبت موجود ہے
ISLAMABAD:
مولانا روم حکایت بیان کرتے ہیں کہ حکیم جالینوس نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ '' مجھ کو فلاں دوا نکال دو۔'' ایک شاگرد نے ان سے پوچھا کہ '' حضرت ! یہ دوا تو جنون میں دی جاتی ہے۔ آپ کی جان سے دور، بھلا یہ دوا آپ کیوں کھائیں گے؟'' حکیم جالینوس نے کہا کہ ہاں ! میں ہی کھاؤں گا، کیوں کہ میری طرف ایک دیوانہ متوجہ ہوا تھا، وہ تھوڑی دیر تک تو مجھے گھورتا رہا، پھر مجھے آنکھ ماری اور اس کے بعد میری آستین پھاڑ ڈالی، اگر وہ مجھ میں کوئی مشترکہ نسبت نہ پاتا تو میری طرف رخ ہی کیوں کرتا۔ جب دو شخص آپس میں ملیں تو یقین کرنا چاہیے کہ ان میں کوئی مشترک نسبت موجود ہے۔
کوئی پرندہ بغیر اپنے ہم جنس غول کے کب اڑتا ہے۔ اس کی تمثیل میں ایک شخص نے بیان کیا کہ میں نے ایک بیابان میں کوے اور کلنگ کو بڑے چاؤ سے پاس پاس بیٹھے دیکھا ہے، میں یہ صورت حال دیکھ کر اس فکر میں ڈوب گیا کہ ان میں مشترک تعلق کیا ہوگا۔ اسی حیرت میں جب میں ان کے نزدیک پہنچا تو میں نے دیکھا کہ وہ دونوں لنگڑے تھے۔
مولانا روم کی مذکورہ حکایت کی روشنی میں آپ ہماری آج کی قومی سیاسی زندگی کے کرداروں پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ حکومت سے لے کر اپوزیشن تک دونوں میں کون سی قدریں مشترک ہیں۔ ان کے قول و فعل میں کیا چیزیں یکساں ہیں۔ دونوں صبح سے شام تک اور شام سے صبح تک جمہوریت ، جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں۔
کیا یہ جمہوریت کی ابجد سے بھی واقف ہیں؟ کیا ہر دو فریق جمہوری اقدارکی پاس داری کرتے ہیں؟ کیا انھیں سیاسی اخلاقیات کا لحاظ ہے؟ کیا انھیں اصولوں کی سیاست کا اتا پتا ہے؟ کیا یہ اپنے نظریات پر ڈٹ کرکھڑے رہ سکتے ہیں؟ کیا انھیں قومی مفادات زیادہ عزیز ہیں یا ذاتی اور سیاسی مفادات؟ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری آج کی سیاسی قیادت جمہوری اصولوں، سیاسی اخلاقیات اور نظریاتی روایات کی پاس داری کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ مقامی حکومتوں سے لے کر صوبائی حکومتوں تک اور ایوان زیریں سے لے کر ایوان بالا تک ہر دو جگہ ان کا کردار تضادات کا شکار ہے۔
یہ کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں۔ نہ حکومت کی صفوں میں یگانگت ہے نہ ہی اپوزیشن کی صفیں درست ہیں ہر دو جگہ خلا ہی خلا ہے اور دعویٰ اتحاد کا ہے۔ ایک دوسرے کے مقابل آنے کا ہے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا ہے۔ بعینہ شکوہ ہے کہ پس پردہ ڈوریاں ہلائی جاتی ہیں، ٹیلی فون کھڑکھڑائے جاتے ہیں اور ''کہیں اور'' سے ہدایات جاری ہوتی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا آپ کا سیاسی کردار اس قدر شفاف، پختہ اور جان دار ہے کہ ''کوئی'' آپ کو ''املا'' لکھوانے اور ''راستہ بدلنے'' کا حکم صادر کرنے کی جرأت ہی نہ کرسکے؟ یہ نوبت ہی آئے، ''کہیں اور'' ایسی سوچ پروان ہی چڑھے۔ کیا کبھی ہمارے اکابرین سیاست نے ایسا باوقار کردار پیش کیا ہے؟ افسوس کہ اس سوال کا جواب ایک واضح نفی میں ہے۔آپ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں حکومت اور اپوزیشن ہر دو فریق کے کردار کا جائزہ لے لیں تو معلوم ہوگا کہ مختلف مواقعوں پر حکومت کو ''ٹف ٹائم'' دینے کے دعوؤں کے باوجود آج تک اپوزیشن اس پر پورا نہ اتر سکی۔
کسی بل کی منظوری سے لے کر چیئرمین سینیٹ کے انتخاب تک جب کبھی بھی ووٹنگ کا مرحلہ آیا تو اپوزیشن کے عددی برتری اور اتحاد سے حکومت کو کامیاب نہ ہونے دینے کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ اپوزیشن کی اپنی صفوں میں انتشار برپا ہوا اور حکومت بجٹ سے لے کر اسٹیٹ بینک خود مختاری بل تک ہر مرحلے پر ہونے والی ووٹنگ میں کامیاب ٹھہری اور اپوزیشن کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ آئی ایم ایف کی شرائط کی تکمیل کے لیے حکومت کو ضمنی بجٹ کی منظوری کا مسئلہ درپیش تھا۔ اپوزیشن نے بلند و بانگ دعوے کیے کہ ضمنی بجٹ کی منظوری سے مہنگائی کا طوفان آجائے گا ہم یہ ضمنی بجٹ ہرگز منظور نہیں ہونے دیں گے۔ لیکن پھر ہوا کیا، ضمنی بجٹ نہ صرف قومی اسمبلی بلکہ سینیٹ، جہاں اپوزیشن کو واضح طور پر عددی برتری حاصل ہے، سے بھی منظور ہو گیا۔
اسٹیٹ بینک خود مختاری بل پر اپوزیشن نے ایک طوفان برپا کیے رکھا کہ حکومت ملک کی خودمختاری کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھنا چاہتی ہے ہم کسی صورت یہ نہیں ہونے دیں گے اور سینیٹ سے تو یہ بل پاس ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا وہاں ہماری اکثریت ہے حکومت کو شرمندگی اور ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ اس حوالے سے حکومت بھی جزبز اور سینیٹ میں اپنی عددی کم تری کے باعث خاصی متفکر تھی لیکن پھر کیا ہوا؟ پوری قوم نے کھلی آنکھوں سے دیکھا کہ جب یہ مسودہ قانون سینیٹ میں پیش ہوا اور چیئرمین سینیٹ نے ووٹنگ کرائی تو معلوم ہوا کہ اپوزیشن کے 8 سینیٹرز غائب ہیں، خود قائد حزب اختلاف پی پی پی کے یوسف رضاگیلانی کی غیر حاضری نے سب کو ششدرکردیا، حکومت 42 کے مقابلے میں 43 ووٹ سے یہ بل پاس کرانے میں کامیاب ہو گئی۔
مذکورہ بل کی ایک ووٹ سے حکومت کی جیت اور اپوزیشن کی شکست کا سارا ملبہ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف و پی پی پی کے سابق وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی پر گرایا جا رہا ہے، حکومتی وزرا طنزاً گیلانی صاحب کا شکریہ ادا کر رہے ہیں کہ انھوں نے بالواسطہ طور پر سینیٹ میں عین ووٹنگ کے وقت اپنی غیر موجودگی سے حکومت کو سپورٹ کرکے بل پاس کرانے میں مدد دی۔ مبصرین و تجزیہ نگار بھی گیلانی صاحب کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان کی پی پی پی سے وفاداری پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ خود پی پی پی کے ممتاز رہنما قمرالزماں کائرہ نے بھی گیلانی صاحب کی غیر حاضری پر سوال اٹھایا ہے۔
چاروں جانب سے ہدف تنقید بننے کے باعث یوسف رضا گیلانی سخت دل برداشتہ ہوئے اور انھوں نے قائد حزب اختلاف کے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے اپنا استعفیٰ پارٹی قیادت کو بھجوا دیا۔ تاہم بلاول بھٹو نے ان کا استعفیٰ منظور نہیں کیا۔ گیلانی صاحب نے سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کبھی ایک اور کبھی دوسری پارٹی میں جانے والے لوگ مجھے سبق نہ سکھائیں۔ جناب! یہی تو ہماری قومی سیاست کا المیہ ہے۔ نہ کوئی نظریہ اور نہ ہی کوئی اصول صرف اور صرف مفادات عزیز ہوتے ہیں اور جب اپوزیشن اور حکومت کے ممبران دونوں کے مفادات ایک جیسے ہوں تو پھر کوے اور کلنگ کی طرح ایک ہی شاخ پر بیٹھ کر سیاست کرتے ہیں۔ ہر دو فریق میں مفادات کی قدر مشترک ہے۔ اسی باعث یہ اصولوں، نظریے اور قومی مفادات کو بھی داؤ پر لگا دیتے ہیں۔