جدید کراچی کا معمار زیڈ اے نظامی

جدید کراچی کے معمار زیڈ اے نظامی 25 مئی 1931کو امروہہ ضلع مراد آباد، صوبہ اتر پردیش میں پیدا ہوئے


فوٹوفائل

جدید کراچی کے معمار زیڈ اے نظامی 25 مئی 1931کو امروہہ ضلع مراد آباد، صوبہ اتر پردیش میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم میرٹھ سے حاصل کی،1951 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے سول انجینئرنگ میں گریجویشن کیا۔ اسی سال حکومت پاکستان نے ایک پالیسی کا اعلان کیا جس کے تحت ایسے افراد کو پاکستان آنے کی دعوت دی گئی جو انجینئرنگ یا ٹیکنیکل شعبے سے منسلک ہوں ، جس کے نتیجے میں دیگر کئی اشخاص کے ساتھ ظلِ احمد نظامی اپنے والدین کے ہمراہ ہجرت کرکے کراچی پہنچے اور 1953 میں آپ کراچی امپروومنٹ ٹرسٹ میں شامل ہوگئے۔

کراچی کے دو اداروں کراچی امپروومنٹ ٹرسٹ اور کراچی جوائنٹ واٹر بورڈ کو ملا کر1957 میں کراچی ڈپویلمپنٹ اتھارٹی قائم کردی گئی اور پھر آپ اس سے وابستہ ہوگئے ، وہ کراچی شہر جس کی آبادی 1941 کی مردم شماری میں تین لاکھ 86ہزار پر مشتمل تھی ، جو کھارادر یا کیماڑی سے شروع ہو کر گرومندر پر ختم ہوجاتا تھا وہ آپ کی ریٹائرمنٹ تک ڈیڑھ کروڑ سے زائد کی آبادی کا شہر بن چکا تھا۔ پچاس کی دہائی کے بعد تمام نئی آبادیوں میں اہم ترین کردار آپ کا رہا ، جن میں پی ای سی ایچ ایس، نارتھ ناظم آباد ، گلشن اقبال ، گلستان جوہر، لانڈھی ،کورنگی ، ملیر ، شاہ فیصل کالونی سمیت دیگر تمام آبادیاں نظامی صاحب کی پلاننگ کا نتیجہ ہیں، اس عظیم روشنیوں کے شہر کی ستر فیصد آبادی اسی پلان شدہ کراچی میں رہ رہی ہے۔

قیام پاکستان کے بعد جب جدید کراچی وجود میں آرہا تھا تو وہ تمام ادارے جو کراچی کی ترقی اور خوشحالی پر مامور تھے۔ ان کے اعلیٰ افسران اور ماتحت ملازمین میں ستر فیصد مہاجرین تھے جنہوں نے کراچی شہر کو میگاسٹی بنانے میں بہت اہم کردار ادا کیا ، جیسے جیسے وقت گزرتا گیا لوگ آتے گئے بلوچ ، پختون اور پنجابی بھائی بھی شریک ہوتے گئے جس کی اساس پر ہم یہ واضح طور پر کہہ سکتے ہیں کہ یہ جفاکش لوگ تھے کہ جن کی وجہ سے آج کا کراچی بطور ایک میگا شہر وجود میں آیا۔ دورِ حاضر میں شہری سہولیات سے وابستہ اداروں کے افسران کروڑ پتی ہوتے ہیں، بنگلوں میں رہتے ہیں اور نئی نئی گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں جبکہ 60، 70، 80 کے دہائی کے اعلیٰ افسران بسوں میں سفر کرکے آتے جن میں اکثریت کے پاس بنگلے توکیا اپنے خود کے ذاتی مکان بھی نہ تھے۔

ایک سے ایک اعلیٰ افسر نے 50سے 90کی دہائی تک میں مارٹن کوارٹر ،ایف سی ایریا میں دو کمروں کے سرکاری فلیٹوں میں پوری زندگی گزار دی اور اس شہر کو بنا گئے کیونکہ ان کے دلوں میں خدا خوفی، خدا ترسی رسول خداﷺ سے محبت روز جزاو سزا پر ایمان کہ ایک دن وہ سب پر آئے گا جس میں اپنے ہر ہر کیے کا حساب دینا ہوگا ، وطن عزیز اور اس میں بسنے والی خلق خدا کے لیے ان کے دلوں میں درد تھا، اگر وہ بھی آج کے ان چند اہم افسران کی طرح بدعنوان ہوتے تو کراچی بہت پہلے ہی غیر قانونی تعمیرات اور کچرے کا ڈھیر بن چکا ہوتا، جہاں جمعداروں کی تنخواہیں بھی زور آور افراد ہڑپ کرلیتے ہیں اور آج کے اس پر فتن اور مہنگائی کے شر سے لبریز دور میں کوئی اس دور کے عظیم لوگوں کی طرح بناء کسی لالچ حرص کے اپنی توانائیاں مادر وطن کے نام کرے اور خدا ئے بزرگ سے صلے اور اجر کی امید لگائے ، آج کا مسلمان گزرے ہوئے وقت کے لوگوں کی طرح کی ایمانی قوت بھی نہیں رکھتا ، جس سے صرف و صرف اپنے خالق پر بھروسہ ہو۔

زیڈ اے نظامی صاحب 70کی دہائی میں ڈائریکٹر کے ڈی اے اور 1988 میں ڈائریکٹر جنرل کے ڈی اے رہے ، آپ نے 1974 میں حکومت پاکستان کی زیر نگرانی کراچی کا ایک ماسٹر پلان ترتیب دیا اس میں شہر کراچی کے شہری سہولیات کے تمام ادارے اور تمام اہل افراد شامل کیے، آپ اس کمیٹی کے سربراہ تھے یہ چار سو گیارہ صفحات پر مشتمل کراچی کا مکمل ماسٹر پلان ہے (جامع ترقیاتی منصویہ1974-85 برائے عروس البلاد کراچی)۔ اس پلاننگ میں شہری سہولت کا کوئی ایسا شعبہ نہ تھا جو اس میں شامل نہ کیا گیا ہو۔ آج بھی کوئی اس سے پڑھے گا تو حیران رہ جائے گا کہ کیسے کیسے لائق افسران تھے۔

1979 میں کراچی کی وسعت دیکھتے ہوئے اور روشنیوں کے اس شہر کی بہتر پلاننگ کے لیے دو ادارے قائم کیے گئے ایک کے بی سی اےKarachi Building Control Authorityاور دوسرا کے ڈبلیوایس بی(Karachi Water and Sewerage Board)۔ آپ ورلڈ بینک اور سعودی حکومت کے مشیر بھی رہے ، آپ موجودہ خانہ کعبہ کی توسیع کمیٹی میں بھی شامل تھے اور اس سلسلے میں بہت اہم تجاویز بھی آپ نے دیں۔ نظامی صاحب اس ٹیم کا حصہ تھے۔

جنہوں نے دوران طواف مطاف کے فرش کو گرمی میں ٹھنڈا رکھنے کے لیے ایک مخصوص ٹائل لگانے کا مشورہ دیا۔ آپ نے اسی دور میں عازمین حج و عمرہ کے لیے ٹرانسپورٹ کا نظام سعودی حکومت کو مرتب کرکے دیا۔ سوک سینٹر کی عمارت بھی زیڈ اے نظامی کا شاہکار ہے۔

آپ نے کراچی میں شہر کراچی اور پورے ملک کے نوجوانوں کے لیے ایک شاندار یونیورسٹی سرسید انجینئرنگ یونیورسٹی قائم کی اس کے پہلے بیج میں دو سو بائیس طالب علموں نے داخلہ لیا اور بعد کے آنے والے ادوار میں جامعہ کے طالب علموں کی تعداد حیران کن حد تک بڑھتی گئی۔ کراچی شہر کی اس عظیم جامعہ کی تخلیق علی گڑھ اولڈ بوائز کا تاریخ سا ز کارنامہ ہے جس کی قیادت اس وقت ظل احمد نظامی اور ذاکر علی خان (ایم ڈی واٹر بورڈ) کر رہے تھے۔ نظامی صاحب علی گڑھ اولڈ بوائز کے صدر ہونے کی وجہ سے جامعہ کے بانی چانسلر بنے جن کی سربراہی میں سرسید یونیورسٹی نے دن دگنی رات چوگنی ترقی کی اور ذاکر علی خان اولڈ بوائز کے طویل عرصے تک جنرل سیکریٹری رہے۔

دور حاضر میں جاوید انور علی گڑھ اولڈ بوائز کے صدر ہونے کی وجہ سے جامعہ کے چانسلر اور ارشد خان اولڈ بوائز کے جنرل سیکریٹری ہیں جو شب و روز اس ادارے کی ترقی کے لیے کوشاں ہیں اللہ کریم ان کا حامی و مددگار ہو۔ (آمین) تمام فارغ التحصیل جو اس جامعہ سے نکلے وہ شہر کراچی اور مادر وطن کے لیے معاون و مددگار ثابت ہوئے اور ہورہے ہیں اور بیرون ملک جاکر بھی ملک کا نام روشن کررہے ہیں۔ آپ نے تقریبا پینتالیس ہاؤسنگ اسکیموں کا آغازکیا۔ آپ کسی بھی اسکول ، کالج ، فلاحی ادارے ، مسجد ، امام بارگاہ الغرض کسی بھی حقدار کو زمین دینے کے لیے اپنی تمام صلاحیتوں کو استعمال میں لاتے اور انھیں زمین دے دیا کرتے۔ آج جو سپر ہائی وے پر ایدھی سینٹر کا بہت بڑا فلاحی کام ہم دیکھتے ہیں وہ نظامی صاحب ہی کی الاٹ کی ہوئی زمین ہے۔

ایسے دیگر تمام نیک کام آج انشاء اللہ ان کے لیے باعث رحمت ہونگے۔ آپ کا دور کراچی کی منصوبہ سازی اور ترقی کا سب سے سنہرا دور تھا ، کراچی میں نئی نئی رہائشی اسکیموں کا آغاز ہوا جن کی تکمیل آپ کی وجہ سے ممکن ہو پائی۔ پاکستان میں آپ سے بڑا کوئی ٹاؤن پلانر نہیں پیدا ہوا اپنے دور میںآپ نے سستے فلیٹ تعمیر کرنے کا شعور پیدا کیا۔ زیڈ اے نظامی نے7 اپریل 2013 کو بیاسی برس کی عمر میں اس عارضی دنیا سے ابدی دنیا کی راہ لی۔

بلاشبہ جب بھی کراچی کی ترقی اور بہتری کا سوچا جائے گا تو سب سے پہلے ظل احمد نظامی کا نام اور کام یاد کیا جائے گا۔ راقم کا اس کالم کو لکھنے کا منشاء اور مقصد یہ ہے کہ اہل کراچی کو یہ معلوم ہوسکے کہ آج جس کراچی میں وہ رہ رہے ہیں ، وہ روشنیوں کا شہر جو علم کی اساس اور میراث لیے کبھی وطنِ عزیز کا دارالخلافہ بھی تھا اور مادرِ وطن کا سب سے زیادہ منافع دینے والا شہر کیسے بنا اور کن کن محسنوں کی شب و روز محنت سے آج شہر کراچی ہمیں جدید سہولتوں سے آراستہ ایک میگا سٹی کے طور پر ملا ، کیونکہ کراچی شہر ایک ایسا نظر انداز کیا جانے والا شہر ہے جو اپنی تمام تر رعنائیوں اور مادرانہ شفقت کے باوجود جو اندورن ملک اور بیرون ملک سے آئی ہوئی اپنی تمام اولادوں کو اپنی مامتا کے آنچل میں سمیٹ لیتی ہے اور وہی جو ایک ماں کی سب سے بڑی صفت یعنی ایثار اور قربانی سے کام لے کراپنی محبت کے پھول ان پر نچھاور کرتی رہتی ہے لیکن جب اس کی عظمتوں کے اعتراف کا وقت آتا ہے تو وہی معاشرہ کا نوحہ کہ نا فرمان اولاد نظریں پھیر لیتی ہے ۔ خدا ان کی خدمات کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنا دے اور ان کی قبر کو جنت کا ایک باغ بنا دے (آمین)۔

ہمارے شہر میں بے چہرہ لوگ رہتے ہیں

کبھی کبھی کوئی چہرہ دکھائی دیتا ہے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں