بچوں کی تربیت
حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا اندازِ تربیت رہتی دنیا تک کے لیے مینارۂ نور ہے
RAWALPINDI:
اسلام نے معاشرے کے ہر طبقے کی ہدایت و راہ نمائی کے جو اصول و ضوابط مقرر کیے ہیں، ان میں بچوں کی تعلیم و تربیت اور پرورش کے اصول بھی شامل ہیں۔ بچوں کی تربیت کے حوالے سے قرآن و سنت میں واضح تعلیمات موجود ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا اندازِ تربیت رہتی دنیا تک کے لیے مینارۂ نور ہے۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ''کسی باپ نے اپنی اولاد کو کوئی عطیہ اور تحفہ حسن ادب اور اچھی سیرت سے بہتر نہیں دیا۔'' (ترمذی)
حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق اپنی اولاد کی بہترین تربیت کرنا اور انہیں اچھی سیرت کا پیکر بنانا والدین کے لیے ضروری اور فرض ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضور نبی رحمت صلی اﷲ علیہ وسلم بچوں کی غلطیوں پر نہایت حکیمانہ انداز میں گرفت فرما کر ان کی اصلاح فرماتے تھے۔
اور بعض اوقات والدین کو بھی خصوصی ہدایات فرماتے تھے کہ بچوں کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھنا چاہیے اور ان کے ساتھ کس طرح پیش آنا چاہیے۔ کتب احادیث میں بچوں کے ساتھ جھوٹ نہ بولنے اور انہیں دھوکا نہ دینے کے متعلق ایک انتہائی اہم روایت ملتی ہے۔
حضرت عبداﷲ بن عامر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہمارے گھر میں تشریف لائے، میں اس وقت بچہ تھا۔ جب میں کھیلنے کے لیے نکلنے لگا تو میری ماں نے کہا: اے عبداﷲ! ادھر آؤ! میں تمہیں کوئی چیز دیتی ہوں۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اسے کیا دینا چاہتی ہو؟ میری ماں نے کہا: میں اسے کھجور دوں گی۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: خبردار! اگر تم اسے کچھ نہ دیتیں تو یہ تمہارے نامۂ اعمال میں جھوٹ لکھا جاتا۔ (کنزالعمال)
یہ روایت بچوں کی تربیت کا بہترین انداز پیش کرتی ہے کہ بچوں کے ساتھ جھوٹ نہیں بولنا چاہیے۔ حالاں کہ چھوٹے بچوں میں جھوٹ اور سچ کو پرکھنے اور سمجھنے کی اتنی صلاحیت نہیں ہوتی مگر پیارے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بچوں کے سامنے جھوٹ بولنے اور انہیں دھوکا دینے سے ان کے شعور میں بچپن سے یہ بات آجاتی ہے کہ جھوٹ بولنا اور وعدہ خلافی کرنا کوئی ایسی بُری بات نہیں ہوتی۔ لہٰذا مذکورہ بالا روایت کی روشنی میں والدین پر ضروری ہے کہ عام طور پر بھی اور بچوں کے سامنے تو بالخصوص جھوٹ بولنے سے گریز کریں کہیں ان کی اس غلطی سے بچوں کے فکری تربیت میں خرابی پیدا نہ ہو۔
اسی طرح بچوں کو کسی غلط کام پر بار بار ڈانٹنا ان کی طبیعت میں مزید سختی پیدا کرسکتا ہے۔ لہٰذا کسی غلط کام پر روکنے اور ٹوکنے کا انداز حکمت آمیز ہونا چاہیے۔ والدین کو چاہیے کہ غلطی کی نوعیت دیکھ کر فیصلہ کریں کہ بچوں کو سزا دینی ہے یا صرف ڈانٹنا یا اس غلطی پر پیار سے سمجھانا ہے۔ ہر بچہ ایک جیسی طبیعت کا حامل نہیں ہوتا۔ بعض بچے محض پیار سے سمجھ جاتے ہیں اور بعض کچھ ڈانٹ ڈپٹ سے سمجھتے ہیں۔ ال غرض اس حوالے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا انداز مبارک انتہائی شفقت آمیز ہوتا تھا۔ آپ ؐ بچے کی غلطی دیکھ کر اسے نہایت محبت آمیز لہجہ میں تربیت فرماتے تھے اور بچہ آپ کی بات سمجھ کر اس کام کو چھوڑ دیتا۔
حضرت ابُو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ کے پیارے نواسے حضرت حسن رضی اﷲ عنہ ابھی بچے تھے، انہوں نے صدقے (زکوٰۃ) کی کھجوروں کے ڈھیر سے ایک کھجور اٹھا کر اپنے منہ میں رکھ لی تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: چھی، چھی! نکالو اسے۔ پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہم لوگ صدقے کا مال نہیں کھاتے۔ (صحیح بخاری)
اس روایت سے بھی حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا اندازِ تربیت معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے کس انداز سے کھجور منہ سے نکلوائی اور فرمایا کہ یہ ہماری چیز نہیں۔ اس سے ہمیں بھی اصول ملتا ہے کہ اگر بچہ کوئی ایسی چیز منہ میں رکھ لے جو نقصان دہ ہو تو اسے مار پیٹ اور ڈانٹ ڈپٹ کرنے کے بہ جائے اس کے سامنے ایسا انداز اپنائیں کہ اسے محسوس ہو کہ یہ چیز گندی اور نقصان دہ ہے۔ بچے کے سامنے اس چیز کے متعلق نفرت آمیز رویہ رکھیں تاکہ بچہ آئندہ ان چیزوں سے خود اجتناب کرے۔
اس سلسلے میں کتبِ احادیث میں ایک اور روایت ملتی ہے۔ ایک مرتبہ عمر ابن ابی سلمہ رضی اﷲ عنہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ کھانا تناول کر رہے تھے۔ ان کے کھانے کا انداز غیر مناسب تھا ، کبھی ہاتھ پلیٹ کے کسی حصہ میں پڑتا اور کبھی کسی حصہ میں۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ منظر دیکھا تو نہایت دل سوزی کے ساتھ فرمایا: پیارے بچے! جب تم کھانا کھاؤ تو پہلے بسم اﷲ پڑھ لیا کرو، اپنے سیدھے ہاتھ سے کھاؤ اور اپنی طرف سے کھایا کرو۔ (صحیح بخاری)
جب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے زیر تربیت بچے کو غیر مناسب انداز سے کھاتے ہوئے دیکھا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیشانی پر کوئی بل نہیں آیا اور نہ ہی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے سخت اور کرخت لہجہ اختیار فرمایا بل کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے محبت بھر ے انداز میں کھانے کے آداب بتائے کہ اس کے بعد عمر بن ابی سلمہؓ نے ہمیشہ ان آداب کی پابندی فرمائی۔
حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا اندازِ تربیت نہایت حکیمانہ ہوتا۔ جن بچوں اور بڑوں کی تربیت آپؐ کو مقصود ہوتی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ان کی جسمانی اور روحانی کیفیت، ذہنی بلوغت، فطری صلاحیت اور مزاج کو ملحوظ خاطر رکھ کر تربیت فرماتے۔ اندازِ تربیت کے متعلق ملنے والی احادیثِ مبارکہ رہتی دنیا تک کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ بلاشبہ حکمت و دانائی کے ساتھ ان کے مطابق عمل کرکے بچوں کی بہترین تربیت کی جاسکتی ہے اور انہیں معاشرے کا بہترین، ذمے دار اور فرماں براد فرد بنایا جاسکتا ہے۔
اسلام نے معاشرے کے ہر طبقے کی ہدایت و راہ نمائی کے جو اصول و ضوابط مقرر کیے ہیں، ان میں بچوں کی تعلیم و تربیت اور پرورش کے اصول بھی شامل ہیں۔ بچوں کی تربیت کے حوالے سے قرآن و سنت میں واضح تعلیمات موجود ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا اندازِ تربیت رہتی دنیا تک کے لیے مینارۂ نور ہے۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ''کسی باپ نے اپنی اولاد کو کوئی عطیہ اور تحفہ حسن ادب اور اچھی سیرت سے بہتر نہیں دیا۔'' (ترمذی)
حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق اپنی اولاد کی بہترین تربیت کرنا اور انہیں اچھی سیرت کا پیکر بنانا والدین کے لیے ضروری اور فرض ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضور نبی رحمت صلی اﷲ علیہ وسلم بچوں کی غلطیوں پر نہایت حکیمانہ انداز میں گرفت فرما کر ان کی اصلاح فرماتے تھے۔
اور بعض اوقات والدین کو بھی خصوصی ہدایات فرماتے تھے کہ بچوں کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھنا چاہیے اور ان کے ساتھ کس طرح پیش آنا چاہیے۔ کتب احادیث میں بچوں کے ساتھ جھوٹ نہ بولنے اور انہیں دھوکا نہ دینے کے متعلق ایک انتہائی اہم روایت ملتی ہے۔
حضرت عبداﷲ بن عامر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہمارے گھر میں تشریف لائے، میں اس وقت بچہ تھا۔ جب میں کھیلنے کے لیے نکلنے لگا تو میری ماں نے کہا: اے عبداﷲ! ادھر آؤ! میں تمہیں کوئی چیز دیتی ہوں۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اسے کیا دینا چاہتی ہو؟ میری ماں نے کہا: میں اسے کھجور دوں گی۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: خبردار! اگر تم اسے کچھ نہ دیتیں تو یہ تمہارے نامۂ اعمال میں جھوٹ لکھا جاتا۔ (کنزالعمال)
یہ روایت بچوں کی تربیت کا بہترین انداز پیش کرتی ہے کہ بچوں کے ساتھ جھوٹ نہیں بولنا چاہیے۔ حالاں کہ چھوٹے بچوں میں جھوٹ اور سچ کو پرکھنے اور سمجھنے کی اتنی صلاحیت نہیں ہوتی مگر پیارے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بچوں کے سامنے جھوٹ بولنے اور انہیں دھوکا دینے سے ان کے شعور میں بچپن سے یہ بات آجاتی ہے کہ جھوٹ بولنا اور وعدہ خلافی کرنا کوئی ایسی بُری بات نہیں ہوتی۔ لہٰذا مذکورہ بالا روایت کی روشنی میں والدین پر ضروری ہے کہ عام طور پر بھی اور بچوں کے سامنے تو بالخصوص جھوٹ بولنے سے گریز کریں کہیں ان کی اس غلطی سے بچوں کے فکری تربیت میں خرابی پیدا نہ ہو۔
اسی طرح بچوں کو کسی غلط کام پر بار بار ڈانٹنا ان کی طبیعت میں مزید سختی پیدا کرسکتا ہے۔ لہٰذا کسی غلط کام پر روکنے اور ٹوکنے کا انداز حکمت آمیز ہونا چاہیے۔ والدین کو چاہیے کہ غلطی کی نوعیت دیکھ کر فیصلہ کریں کہ بچوں کو سزا دینی ہے یا صرف ڈانٹنا یا اس غلطی پر پیار سے سمجھانا ہے۔ ہر بچہ ایک جیسی طبیعت کا حامل نہیں ہوتا۔ بعض بچے محض پیار سے سمجھ جاتے ہیں اور بعض کچھ ڈانٹ ڈپٹ سے سمجھتے ہیں۔ ال غرض اس حوالے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا انداز مبارک انتہائی شفقت آمیز ہوتا تھا۔ آپ ؐ بچے کی غلطی دیکھ کر اسے نہایت محبت آمیز لہجہ میں تربیت فرماتے تھے اور بچہ آپ کی بات سمجھ کر اس کام کو چھوڑ دیتا۔
حضرت ابُو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ کے پیارے نواسے حضرت حسن رضی اﷲ عنہ ابھی بچے تھے، انہوں نے صدقے (زکوٰۃ) کی کھجوروں کے ڈھیر سے ایک کھجور اٹھا کر اپنے منہ میں رکھ لی تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: چھی، چھی! نکالو اسے۔ پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہم لوگ صدقے کا مال نہیں کھاتے۔ (صحیح بخاری)
اس روایت سے بھی حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا اندازِ تربیت معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے کس انداز سے کھجور منہ سے نکلوائی اور فرمایا کہ یہ ہماری چیز نہیں۔ اس سے ہمیں بھی اصول ملتا ہے کہ اگر بچہ کوئی ایسی چیز منہ میں رکھ لے جو نقصان دہ ہو تو اسے مار پیٹ اور ڈانٹ ڈپٹ کرنے کے بہ جائے اس کے سامنے ایسا انداز اپنائیں کہ اسے محسوس ہو کہ یہ چیز گندی اور نقصان دہ ہے۔ بچے کے سامنے اس چیز کے متعلق نفرت آمیز رویہ رکھیں تاکہ بچہ آئندہ ان چیزوں سے خود اجتناب کرے۔
اس سلسلے میں کتبِ احادیث میں ایک اور روایت ملتی ہے۔ ایک مرتبہ عمر ابن ابی سلمہ رضی اﷲ عنہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ کھانا تناول کر رہے تھے۔ ان کے کھانے کا انداز غیر مناسب تھا ، کبھی ہاتھ پلیٹ کے کسی حصہ میں پڑتا اور کبھی کسی حصہ میں۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ منظر دیکھا تو نہایت دل سوزی کے ساتھ فرمایا: پیارے بچے! جب تم کھانا کھاؤ تو پہلے بسم اﷲ پڑھ لیا کرو، اپنے سیدھے ہاتھ سے کھاؤ اور اپنی طرف سے کھایا کرو۔ (صحیح بخاری)
جب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے زیر تربیت بچے کو غیر مناسب انداز سے کھاتے ہوئے دیکھا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیشانی پر کوئی بل نہیں آیا اور نہ ہی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے سخت اور کرخت لہجہ اختیار فرمایا بل کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے محبت بھر ے انداز میں کھانے کے آداب بتائے کہ اس کے بعد عمر بن ابی سلمہؓ نے ہمیشہ ان آداب کی پابندی فرمائی۔
حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا اندازِ تربیت نہایت حکیمانہ ہوتا۔ جن بچوں اور بڑوں کی تربیت آپؐ کو مقصود ہوتی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ان کی جسمانی اور روحانی کیفیت، ذہنی بلوغت، فطری صلاحیت اور مزاج کو ملحوظ خاطر رکھ کر تربیت فرماتے۔ اندازِ تربیت کے متعلق ملنے والی احادیثِ مبارکہ رہتی دنیا تک کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ بلاشبہ حکمت و دانائی کے ساتھ ان کے مطابق عمل کرکے بچوں کی بہترین تربیت کی جاسکتی ہے اور انہیں معاشرے کا بہترین، ذمے دار اور فرماں براد فرد بنایا جاسکتا ہے۔