مہمان نوازی
اسلام نے مہمان نوازی کے جن بہترین اصول و آداب کا ہمیں پابند بنایا ہے، دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی
لاہور:
مہمان کے آنے پر اس کا پرتپاک استقبال کرنا، اسے خوش آمدید کہنا اور اس کی خاطر مدارات کرنے کا رواج روزِ اوّل سے ہی دنیا کی تمام مہذب قوموں کا شعار رہا ہے۔
ہر ملک، علاقے اور ہر قوم میں گو کہ مہمان نوازی کے انداز و اطوار اور اس کے طور طریقے مختلف ضرور ہیں لیکن اس بات میں کسی قوم کا بھی اختلاف نہیں کہ آنے والے مہمان کے اعزاز و اکرام میں اس کا پرتپاک استقبال کرنا، اسے خوش آمدید کہنا اور اس کی اپنی حیثیت کے مطابق بڑھ چڑھ کر ہر ممکنہ خدمت سر انجام دینا اس کا بنیادی حق ہے۔ اس لیے کہ دنیا کی ہر مہذب قوم کے نزدیک مہمان کی عزت و توقیر خود اپنی عزت و توقیر اور مہمان کی ذلت و توہین خود اپنی ذلت و توہین کے مترادف سمجھی جاتی ہے۔
لیکن ہمارے دینِ اسلام نے مہمان نوازی کے متعلق جو بہترین اصول و قواعد مقرر کیے ہیں یا جس خوب صورت انداز سے اسلام نے ہمیں مہمان نوازی کے آداب و ضوابط کا پابند بنایا ہے، دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ آپ اندازہ لگائیں کہ جو مذہب مہمان کے اعزاز و اکرام کا تقابل میزبان کی ایمان جیسی عظیم دولت سے کر رہا ہو، اس نے اس کی مہمان نوازی کے متعلق کتنے کڑیل اور سخت اصول و آداب مقرر کر رکھے ہوں گے۔۔۔ ؟ اس کا اندازہ درجِ ذیل احادیث مبارکہ سے بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے۔
حضور اقدسؐ کے ارشاد گرامی کا مفہوم: ''جو شخص اﷲ جل شانہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے۔ مہمان کا جائزہ (خصوصی اعزاز و اکرام) ایک دن ایک رات ہے، اور مہمانی تین دن تین رات ہے۔ اور مہمان کے لیے یہ بات جائز نہیں کہ وہ اتنا طویل قیام کرے کہ جس سے میزبان مشقت میں پڑجائے۔'' ( بخاری، مسلم )
حضرت ابوشریح ؓ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں: '' میرے ان کانوں نے سنا ہے اور میری ان آنکھوں نے دیکھا ہے، جب رسول اﷲ ﷺ یہ ارشاد فرما رہے تھے، مفہوم: ''جو شخص اﷲ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے ہم سایہ کی تکریم کرے۔ اور جو شخص اﷲ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کی جائزہ بھر ( یعنی پہلے دن خوب اعزاز و اکرام کے ساتھ ) تکریم کرے۔ کسی پوچھا: ''یارسول اﷲ ﷺ! ''جائزہ'' کیا ہے۔'' آپؐ نے فرمایا: ایک دن رات (مہمان کا خصوصی) اعزاز و اکرام کرنا، مہمان نوازی تین دن تین رات تک ہوتی ہے اور جو ان کے بعد ہو وہ صدقہ شمار ہوتی ہے۔ اور جو شخص اﷲ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اس کو چاہیے کہ اچھی بات کرے ورنہ خاموش رہے۔'' ( الادب المفرد )
حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے مروی ہے کہ رسولِ اکرمؐ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''جو شخص مہمان نوازی نہ کرے اس میں کوئی خیر نہیں۔''
حضرت سمرۃؓ فرماتے ہیں، مفہوم: ''حضورِ اقدس ﷺ مہمان کی ضیافت کا حکم فرمایا کرتے تھے۔ '' (مجمع الزوائد)
حضرت ابوکریمہ السامیؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''مہمان کی رات کو خاطر داری کرنا ہر ایک مسلمان پر واجب ہے۔ جس نے کسی کے گھر میں رات گزاری وہ شخص اس گھر والے پر ایک قسم کا قرض ہے اگر چاہے تو اسی دن اس قرض کو ادا کرے (یعنی وہاں رات گزار ے) اور اگر نہ چاہے تو اسے چھوڑ دے۔'' (اور وہاں رات نہ گزارے)۔ (الادب المفرد)
بعض جگہوں اور بعض لوگوں کی یہ بھی عادت دیکھنے کو ملی ہے کہ مہمان بھلا کتنا ہی دور دراز کا سفر طے کرکے کیوں نہ آیا ہو یا مہمان کتنا ہی عزیز اور قریبی کیوں نہ ہو، اس کی مہمان نوازی اور اس کی خاطر مدارات کی طرف قطعاً کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ اس کا حل بھی رسولِ اکرم ؐ نے اپنی امت کے سامنے خوب اچھی طرح پیش فرمایا ہے۔ چناں چہ حضرت عقبہ بن عامرؓ فرماتے ہیں: ''میں نے رسول اﷲ ﷺ سے عرض کیا: ''یارسول اﷲ ﷺ! (اگر) آپؐ ہمیں کسی قوم کے پاس بھیجیں اور وہ لوگ ہماری ضیافت نہ کریں تو آپ کی رائے میں ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟ آپؐ نے فرمایا، مفہوم: ''میں بتاتا ہوں کہ مہمان کو کیا کرنا چاہیے؟ جب تم کسی قوم کے پاس جاؤ تو تم انہیں (اپنی مہمان نوازی کی طرف) متوجہ کرو، اگر وہ مہمان نوازی نہ کریں تو اس قدر لے لو جتنا کہ ایک مہمان کو لے لینا چاہیے۔'' (الادب المفرد)
مہمان کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کہیں جاکر اس قدر طویل قیام نہ کرے کہ جس سے میزبان کو تنگی اور دقت پیش آنے لگے اور وہ کوئی ایسی حرکت کرنے لگ جائے کہ جس سے مہمان کو اذیت کا سامنا کرنا پڑے۔ مثال کے طور پر میزبان، مہمان کی غیبت کرنے لگ جائے یا اس کے بارے میں کسی غلط فہمی کا شکار ہونے لگ جائے کہ یہ سب امور میزبان کو گناہ گار بنانے والے ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ اُس صورت میں ہے کہ میزبان کی طرف سے مہمان کے قیام پر اصرار اور تقاضا نہ ہو، یا اُس کے انداز و اطوار سے غالب گمان یہ ہو کہ مہمان کا زیادہ قیام میزبان پر گراں نہیں ہے تو اُس صورت میں زیادہ طویل ٹھہرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔
اسی طرح مہمان کا میزبان سے ایسی فرمائشیں کرنا کہ جو وہ پوری نہ کرسکتا ہو اور اس سے اس کو دقت اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہو تو یہ بھی میزبان کو تنگی میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ لہٰذا دوسروں کے گھر میں جاکر یہ چاہیے، وہ چاہیے کہنا، ہرگز مناسب نہیں۔ میزبان جو حاضر کر رہا ہے اس کو صبر و شکر سے بشاشت کے ساتھ لے لینا چاہیے۔ اس لیے کہ فرمائشیں کرنا بسا اوقات میزبان کی دقت اور تنگی کا سبب ہوتا ہے، البتہ اگر میزبان کے حال سے یہ اندازہ ہو کہ وہ فرمائش سے خوش ہوتا ہے، مثال کے طور پر فرمائش کرنے والا کوئی بہت قریبی عزیز یا دوست ہو اور جس سے فرمائش کی جائے وہ اس پر دل و جان سے جان نثار ہو تو پھر جو چاہے فرمائش کرسکتا ہے۔ (فضائل صدقات )
ایک مرتبہ امام شافعیؒ بغداد میں امام زعفرانیؒ کے مہمان بنے۔ امام زعفرانی ؒ روزانہ امام شافعیؒ کی خاطر اپنی ایک باندی کو ایک پرچا لکھا کرتے تھے، جس میں اس وقت کے کھانے کی تفصیل درج ہوتی تھی۔ امام شافعیؒ نے ایک وقت باندی سے پرچا لے کر دیکھا اور اس میں اپنے قلم سے ایک چیز کا اضافہ فرما دیا۔ دسترخوان پر جب امام زعفرانیؒ نے وہ چیز دیکھی تو باندی پر اعتراض کیا کہ میں نے اس کے پکانے کو نہیں لکھا تھا۔'' وہ پرچا لے کر آقا کے پاس آئی اور پرچا دکھا کر کہا: '' یہ چیز حضرت امام شافعیؒ نے خود اپنے قلم سے اضافہ فرمائی تھی۔'' امام زعفرانیؒ نے جب اس کو دیکھا اور حضرت امام شافعیؒ کے قلم سے اس میں اضافہ پر نظر پڑی تو خوشی سے باغ باغ ہوگئے اور اس خوشی میں اس باندی کو ہی آزاد فرما دیا۔ ( احیاء العلوم )
حاصل یہ کہ اگر ایسا کوئی خاص اور قریبی عزیز اور دوست ہو کہ جس کو میزبان بھی دل و جان سے خوب چاہتا ہو تو اُس صورت میں یقیناً ایسی فرمائش بھی بڑے لطف کی بات ہے۔