کم ازکم اجرت اور محنت کش

کثرت آبادی کے باعث محنت کش کم اجرت پر بھی کام کرنے پر رضا مند ہیں

لاہور:
ایک سروے کے مطابق پاکستان میں بے روزگاروں کی کل تعداد میں سے 18 تا 29 سال کی عمر کے افراد زیادہ تعداد میں بے روزگار ہیں اور یہی وہ افرادی قوت ہے ، جس کی ملک کی ترقی کے لیے سخت ضرورت ہے ، لیکن مشینوں اور ٹیکنالوجی کی جدت اور نت نئی تکنیک کے باعث محنت کشوں کی طلب میں کمی واقع ہو رہی ہے۔

کثرت آبادی کے باعث محنت کش کم اجرت پر بھی کام کرنے پر رضا مند ہیں، جس کا بھرپور فائدہ صنعت کار اٹھا رہے ہیں۔ پاکستان میں پھیلتی ہوئی غربت کے باعث چائلڈ لیبرز کی تعداد مسلسل بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق لیبر فورس کا ایک چوتھائی حصہ بچوں پر مشتمل ہے۔ چھ سات سال کے معصوم بچوں کو بھی پاکستان کے طول و عرض میں محنت مزدوری کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

ہنر سیکھنے کی غرض سے بچپن کے کئی سال گزار دیتے ہیں۔ پھر خال خال کوئی ہنرمند بنتا ہے۔ قیام پاکستان کے وقت سے محنت کشوں کے مسائل بہت زیادہ اور اجرت نہایت ہی کم کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ پاکستان میں کئی معاشی منصوبے بنائے گئے ان پر عمل درآمد بھی ہوا۔ ہزاروں صنعتیں وجود میں آئیں ان میں مجموعی طور پرکروڑوں کی تعداد میں مزدور محنت کش وابستہ ہوئے ، لیکن ہر منصوبے نے نتیجتاً محنت کشوں کی بیخ کنی کی اور سرمایہ داروں کی آبیاری کی ، ان کا منافع بڑھتا ہی چلا گیا۔

مہنگائی کے اس دور میں جب روپے کی قدر بے حیثیت ہوکر رہ گئی ہے اور تنخواہیں اتنی کم ہیں کہ اب گزارا نا ممکن ہے۔ لہٰذا اس صورت حال کو مدنظررکھتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان نے معروف صنعت کاروں اور تاجروں سے ملاقات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت عالمی منڈی میں مہنگائی اور اس کی وجہ سے عوام پر بوجھ کا احساس رکھتی ہے۔ اس موقع پر حکومت اور صنعتکاروں نے کم ازکم ماہانہ اجرت بڑھانے پر اتفاق کیا۔

اس موقع پر یہ بھی معلوم ہوا کہ حکومت کی کاروبار دوست پالیسی کی بدولت ملک کی 10بڑی کمپنیوں نے 990 ارب روپے منافع کمایا ہے۔ ٹیکسٹائل سیکٹر کی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ سال کی کل برآمدات کی مالیت 17 ارب 67 کروڑ ڈالرز کی رہیں۔توقع کی جا رہی ہے کہ برآمدات 28 ارب ڈالرز تک پہنچ جائیں گی۔


لہٰذا یہ بات درست ہے کہ انڈسٹری نے منافع کمایا ہے لہٰذا ثمرات مزدوروں کو بھی ملنے چاہئیں۔ اگرچہ حکومت اور تاجروں صنعتکاروں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ مزدوروں کی کم ازکم ماہانہ اجرت بڑھائی جائے گی۔ اس پر عملدرآمد کے لیے حکومت کو فوری ایسی پالیسی لانے کی ضرورت ہے جس کے ذریعے اجرت میں جلداز جلد اضافہ یقینی ہو۔ ہر وہ شخص جسے کہیں سے بھی کوئی ماہانہ، کوئی مشاہرہ، کوئی اعزازیہ یا کسی بھی طرح کا معاوضہ مل رہا ہو اس میں اضافہ اور یہ اضافہ معقول ہونا چاہیے تاکہ معاشرے کے تمام افراد مہنگائی کا مقابلہ کرسکیں۔

اس وقت پاکستان کے غریب، محنت کش عوام شدید ترین مہنگائی کے باعث بہت سی اشیائے ضروریہ خریدنے کی سکت نہیں رکھتے، کیونکہ خریدنے کے لیے ان کے پاس رقم نہیں بچتی۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ ان کی آمدن کم ہے، کم تنخواہ پر گزارا کر رہے ہیں، کم اجرت پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔

ہر طرح کا محنت کش طبقہ جو ملکی آبادی کا 98 فیصد ہے اس کی غالب ترین اکثریت کم آمدن کے باعث زندگی کی مختلف ضروریات سے محروم ہے۔ سرمایہ کار یا صنعت کار کا منافع بڑھتا ہے تو اضافی آمدن کا استعمال اشیائے تعیش، درآمدی سامان، لگژری گاڑیوں اور دیگر پر کرتا ہے ، جب کہ محنت کش طبقہ اس اضافی تنخواہ یا اجرت یا آمدن سے ضرورت کی میڈ ان پاکستان اشیا و مصنوعات ہی استعمال کرتا ہے جس سے ملکی صنعتی و زرعی پیداوار کی طلب بڑھ جاتی ہے۔ 1950 اور 60 کی دہائی میں ملک میں صنعتوں کا قیام تیزی سے عمل میں آیا تھا۔

جس کی ایک وجہ اس وقت کی بہتر معاشی منصوبہ بندی تھی ، لیکن اس میں ایک خامی یہ تھی کہ امیروں کی تجوریاں بھرتی چلی گئیں جب کہ مزدور کو اتنی مزدوری ملی جس سے وہ تن و جان کا رشتہ بہ مشکل برقرار رکھتا۔ بہرحال جیسے ہی معاشرے کے ان افراد کی آمدن میں اضافہ ہوگا ملکی مجموعی طلب بڑھے گی جس کے باعث مجموعی رسد بڑھانے کی ضرورت پیش آئے گی ، جہاں ملکی پیداوار میں اضافہ ہوگا۔

ساتھ ہی معاشی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوگا ، اس کے نتیجے میں معاشی ترقی میں اضافہ ہوگا۔ اس طرح جن افراد یا بچوں کو قلت خوراک کا سامنا تھا اسے کنٹرول کیا جاسکے گا۔ اس طرح دولت کی تقسیم عدم مساوات کو بہتر بنایا جاسکے گا اور یوں پورا پاکستان خوشحالی کی جانب گامزن ہوگا۔
Load Next Story