زمستاں کی بارش
سردیوں کے موسم کے لیے اردو زبان میں اس قدر خوبصور ت لفظ بھی ہے
RAWALPINDI:
بڑا مشکل نام ہے ، زمستاں! کیا مطلب ہے اس کا؟ اس نے مسکرا کر جواب دیا؛ سردیوں کا موسم، جاڑے کے دن۔ سردیوں کے موسم کے لیے اردو زبان میں اس قدر خوبصور ت لفظ بھی ہے۔ اس دوران وہ کتاب کے ٹائٹل کو دوبارہ دیکھنے لگا جیسے اس کتاب سے اس کا مکمل تعارف ابھی ابھی ہوا ہو۔ زمستاں کی بارش معروف مزاحیہ شاعر اور منفرد کالم نگار خالد مسعود خاں کی نئی کتاب کا عنوان ہے ۔
بیشتر لوگوں کے لیے سردیوں کے موسم میں بارش کے ساتھ ایک خاص طرح کی رومانویت اور نوسٹیلجیا کا احساس جڑا ہوتا ہے۔ اس کا احساس ہمیں خالد مسعود خان کی کتاب زمستاں کی بارش پڑھتے ہوئے بار بار ہوا۔ اپنے نام کی مناسبت سے یہ اپنے پیاروں ، مختلف رشتوں، کرداروں، شہروں اور جگہوں سے جڑی یادوں کی ایک مسلسل جھڑی ہے۔ ان میں سے بہت سی یادیں اور واقعات اب کسی اور زمانے کے معلوم ہوتے ہیں۔
ماں کے پائوں؛ میں نے یہ منظر دوسری بار دیکھا۔ جہاز کی درمیانی نشستوں پر ایک بزرگ خاتون کے ساتھ ایک نوجوان تھا، نہایت ہی خوش شکل اور اسمارٹ، اس نے ٹائی ڈھیلی کی، کوٹ اتار کر سیٹ پر رکھا اور زمین پر بیٹھ گیا۔ اپنی والدہ کے جوتے اتارے، جرابیں اتار کر سامنے رکھیں اور پاؤں کو ہاتھوں سے سہلانا شروع کر دیا۔ ۔ سارا راستہ اس نوجوان نے اپنی ماں کا ایسے خیال رکھا کہ صرف محسوس کیا جا سکتا تھا، بیان نہیں کیا جا سکتا۔
کبھی کمبل اوڑھاتا، کبھی اتارتا۔ کبھی تکیہ سر کے نیچے رکھتا اور کبھی بازو کے نیچے۔ لینڈنگ کے بعد جب وہ جوتا پہنا کر فارغ ہوا تو میں سیٹ سے اٹھا اور اس کے ہاتھوں کو پکڑ کر اپنی بھیگی آنکھوں سے لگا لیا۔ اس نے ہاتھ کھینچ کر کہا کہ میرے ہاتھ جوتے والے ہیں۔ میں نے کہا، ماں کے جوتوں کو لگنے والے ہاتھوں سے پاک ہاتھ اور کون سے ہو سکتے ہیں؟
زندگی کا سفر بڑا مشکل ہے اور آپ کی مرضی سے نہیں کٹتا ۔اس سفر کے دوران جب جب بارش ہوتی ہے تو یادوں کا ایک ریلا ملال کی صورت در آتا ہے۔ اور میں ہر بار ہی سوچتا ہوں کہ اب اس جگہ برآمدہ بنوا لوں جہاں ایک زمستاںکی بارش میں اس نے پورچ میں کھڑے ہو کر اشارہ کیا ا ور کہا کہ اس جگہ برآمدہ ہونا چاہیے، بھلا یہ کیا ہوا کہ سردیوں کی بارش ہو اور گھر میں برآمدہ ہی نہ ہو!اپنا یہ حال ہے کہ نو سال اسی کشمکش میں گزر گئے ہیں کہ برآمدہ بنوائوں یا نہ بنوائوں؟ بارش جس کی کمزوری تھی وہی نہ رہی تو برآمدہ کس کام کا !
بقول مصنف ؛ صرف برآمدے پر ہی کیا موقوف؟ اس کے علاوہ بھی بہت سے لوگ، ان کی باتیں، وعدے ، یادیں اور ملال سامانِِ ِسفر میں بندھے ہوئے ہیں۔ اس سفر میں کچھ خاص لوگ ہیں اور کچھ بالکل عام سے ہیں ، خاک نشین ، جیسے خورشید ہوٹل کے منے میاں، صادق حلوہ پوڑی والے غلام رسول، بوہڑ دروازے والے حکیم فیروز، مکول کلاں کے ماسٹر غلام حسن اور محلہ غریب آباد کے ماسٹر محمد اقبال عرف ماسٹر بالی۔ یہ افراد نہیں، یہ رشتے ہیں جو ہماری بے کیف اور بے رنگ زندگی کو محبت بخشتے ہیں۔
خالد مسعود خان کو دنیا ایک مزاحیہ شاعر کے طور پر جانتی ہے۔ ان کا دوسرا معروف حوالہ ان کے کالمز ہیں۔ دونوں میں وہ منفرد انداز اور مختلف آہنگ کے مالک ہیں۔ ہمارا باہمی تعارف کالج کے تقریری مقابلوں کے دوران ہوا جب ہم رحیم یار خان کے خواجہ فرید ڈگری کالج اور وہ ملتان سے ایمرسن کالج کی جانب سے شریک ہوتے، یوں دوستی کا مضبوط رشتہ ایسا بندھا کہ پینتالیس سال سے زائد ہونے کو آئے قائم و دائم ہے۔ اس دوستی میں ان کے ایک اور ہم مکتب منیر چوہدری بھی ساتھ تھے اور ہیں۔
کالج کے طرحی مشاعروں میں خالد مسعود خان اور منیر چوہدی سنجیدہ اشعار کے مقابلے میں مزاحیہ سخن آرائی کے بل پر اکثر مشاعرے لوٹ لیتے اور ٹرافی لے اڑتے۔ خالد مسعود خان پنجابی زبان کے تقریری مقابلوں کے بھی کامیاب شہسوار تھے۔ بہائوالدین زکریا یونی ورسٹی میں ہم ایم بی اے کی کلاسز میں ایک سال کے فرق سے اسی شعبے کے طالب علم تھے۔
یونی ورسٹی کے دنوں میں ان کی مزاحیہ شاعری کے خدو خال نمایاں ہوئے تو ایک منفرد مزاحیہ شاعر کے طور پر ان کی دھوم مچ گئی۔ اس دور کی ایک نظم مجبوری پر مجمعے کے واہ واہ کے مناظر آج بھی ہمیں یاد ہیں۔ اس کے بعد ان کی شاعری کے بقول شخصے وکھرے انداز اور منفرد لہجے نے بہت جلد اپنی ایک الگ شناخت بنا لی۔
کالم نگاری کی طرف وہ نوے کی دہائی کے وسط میں مائل ہوئے اور اس میدان میں اپنی امتیازی شناخت بنائی۔ ایک مزاحیہ شاعر اور شوخ گفتگو کے ماہر اس انسان کو زندگی میں بہت سے صدمات کا سامنا کرنا پڑا لیکن ہم نے اس دوران خال ہی اسے ڈگمگاتے اور حوصلہ ہارتے دیکھا۔
زمستاں کی بارش میں ایک طرف ان رشتوں اور اُن سے جڑی یادوں، ملتان اور لاہور کے عام سے گم نام کرداروں، کھابوں، بازاروں اور محلوں کا نوسٹیلجیا اپنی گرفت میں لے لیتا ہے تو دوسری طرف ان کے کھو جانے کا ملال دکھ کی ٹیس کا نشان چھوڑ جاتا ہے۔ جسے زندگی سے جڑے اپنے پرائے کرداروں، جگہوں اور ماحول کی یادوں کو تازہ کرنا ہو، اس کے لیے خالد مسعود خان کی کتاب زمستاں کی بارش (ناشر جہلم بک کارنر) خاصے کی شئے ہے۔ بقول معین نظامی
زمستاں
زمستاں کی بارش
زمستاں کی بارش میں خوشبو
زمستاں کی بارش میں خوشبو تمہاری
خدا جانے
یہ شام تم نے
کہاں اور کیسے گزاری
بڑا مشکل نام ہے ، زمستاں! کیا مطلب ہے اس کا؟ اس نے مسکرا کر جواب دیا؛ سردیوں کا موسم، جاڑے کے دن۔ سردیوں کے موسم کے لیے اردو زبان میں اس قدر خوبصور ت لفظ بھی ہے۔ اس دوران وہ کتاب کے ٹائٹل کو دوبارہ دیکھنے لگا جیسے اس کتاب سے اس کا مکمل تعارف ابھی ابھی ہوا ہو۔ زمستاں کی بارش معروف مزاحیہ شاعر اور منفرد کالم نگار خالد مسعود خاں کی نئی کتاب کا عنوان ہے ۔
بیشتر لوگوں کے لیے سردیوں کے موسم میں بارش کے ساتھ ایک خاص طرح کی رومانویت اور نوسٹیلجیا کا احساس جڑا ہوتا ہے۔ اس کا احساس ہمیں خالد مسعود خان کی کتاب زمستاں کی بارش پڑھتے ہوئے بار بار ہوا۔ اپنے نام کی مناسبت سے یہ اپنے پیاروں ، مختلف رشتوں، کرداروں، شہروں اور جگہوں سے جڑی یادوں کی ایک مسلسل جھڑی ہے۔ ان میں سے بہت سی یادیں اور واقعات اب کسی اور زمانے کے معلوم ہوتے ہیں۔
ماں کے پائوں؛ میں نے یہ منظر دوسری بار دیکھا۔ جہاز کی درمیانی نشستوں پر ایک بزرگ خاتون کے ساتھ ایک نوجوان تھا، نہایت ہی خوش شکل اور اسمارٹ، اس نے ٹائی ڈھیلی کی، کوٹ اتار کر سیٹ پر رکھا اور زمین پر بیٹھ گیا۔ اپنی والدہ کے جوتے اتارے، جرابیں اتار کر سامنے رکھیں اور پاؤں کو ہاتھوں سے سہلانا شروع کر دیا۔ ۔ سارا راستہ اس نوجوان نے اپنی ماں کا ایسے خیال رکھا کہ صرف محسوس کیا جا سکتا تھا، بیان نہیں کیا جا سکتا۔
کبھی کمبل اوڑھاتا، کبھی اتارتا۔ کبھی تکیہ سر کے نیچے رکھتا اور کبھی بازو کے نیچے۔ لینڈنگ کے بعد جب وہ جوتا پہنا کر فارغ ہوا تو میں سیٹ سے اٹھا اور اس کے ہاتھوں کو پکڑ کر اپنی بھیگی آنکھوں سے لگا لیا۔ اس نے ہاتھ کھینچ کر کہا کہ میرے ہاتھ جوتے والے ہیں۔ میں نے کہا، ماں کے جوتوں کو لگنے والے ہاتھوں سے پاک ہاتھ اور کون سے ہو سکتے ہیں؟
زندگی کا سفر بڑا مشکل ہے اور آپ کی مرضی سے نہیں کٹتا ۔اس سفر کے دوران جب جب بارش ہوتی ہے تو یادوں کا ایک ریلا ملال کی صورت در آتا ہے۔ اور میں ہر بار ہی سوچتا ہوں کہ اب اس جگہ برآمدہ بنوا لوں جہاں ایک زمستاںکی بارش میں اس نے پورچ میں کھڑے ہو کر اشارہ کیا ا ور کہا کہ اس جگہ برآمدہ ہونا چاہیے، بھلا یہ کیا ہوا کہ سردیوں کی بارش ہو اور گھر میں برآمدہ ہی نہ ہو!اپنا یہ حال ہے کہ نو سال اسی کشمکش میں گزر گئے ہیں کہ برآمدہ بنوائوں یا نہ بنوائوں؟ بارش جس کی کمزوری تھی وہی نہ رہی تو برآمدہ کس کام کا !
بقول مصنف ؛ صرف برآمدے پر ہی کیا موقوف؟ اس کے علاوہ بھی بہت سے لوگ، ان کی باتیں، وعدے ، یادیں اور ملال سامانِِ ِسفر میں بندھے ہوئے ہیں۔ اس سفر میں کچھ خاص لوگ ہیں اور کچھ بالکل عام سے ہیں ، خاک نشین ، جیسے خورشید ہوٹل کے منے میاں، صادق حلوہ پوڑی والے غلام رسول، بوہڑ دروازے والے حکیم فیروز، مکول کلاں کے ماسٹر غلام حسن اور محلہ غریب آباد کے ماسٹر محمد اقبال عرف ماسٹر بالی۔ یہ افراد نہیں، یہ رشتے ہیں جو ہماری بے کیف اور بے رنگ زندگی کو محبت بخشتے ہیں۔
خالد مسعود خان کو دنیا ایک مزاحیہ شاعر کے طور پر جانتی ہے۔ ان کا دوسرا معروف حوالہ ان کے کالمز ہیں۔ دونوں میں وہ منفرد انداز اور مختلف آہنگ کے مالک ہیں۔ ہمارا باہمی تعارف کالج کے تقریری مقابلوں کے دوران ہوا جب ہم رحیم یار خان کے خواجہ فرید ڈگری کالج اور وہ ملتان سے ایمرسن کالج کی جانب سے شریک ہوتے، یوں دوستی کا مضبوط رشتہ ایسا بندھا کہ پینتالیس سال سے زائد ہونے کو آئے قائم و دائم ہے۔ اس دوستی میں ان کے ایک اور ہم مکتب منیر چوہدری بھی ساتھ تھے اور ہیں۔
کالج کے طرحی مشاعروں میں خالد مسعود خان اور منیر چوہدی سنجیدہ اشعار کے مقابلے میں مزاحیہ سخن آرائی کے بل پر اکثر مشاعرے لوٹ لیتے اور ٹرافی لے اڑتے۔ خالد مسعود خان پنجابی زبان کے تقریری مقابلوں کے بھی کامیاب شہسوار تھے۔ بہائوالدین زکریا یونی ورسٹی میں ہم ایم بی اے کی کلاسز میں ایک سال کے فرق سے اسی شعبے کے طالب علم تھے۔
یونی ورسٹی کے دنوں میں ان کی مزاحیہ شاعری کے خدو خال نمایاں ہوئے تو ایک منفرد مزاحیہ شاعر کے طور پر ان کی دھوم مچ گئی۔ اس دور کی ایک نظم مجبوری پر مجمعے کے واہ واہ کے مناظر آج بھی ہمیں یاد ہیں۔ اس کے بعد ان کی شاعری کے بقول شخصے وکھرے انداز اور منفرد لہجے نے بہت جلد اپنی ایک الگ شناخت بنا لی۔
کالم نگاری کی طرف وہ نوے کی دہائی کے وسط میں مائل ہوئے اور اس میدان میں اپنی امتیازی شناخت بنائی۔ ایک مزاحیہ شاعر اور شوخ گفتگو کے ماہر اس انسان کو زندگی میں بہت سے صدمات کا سامنا کرنا پڑا لیکن ہم نے اس دوران خال ہی اسے ڈگمگاتے اور حوصلہ ہارتے دیکھا۔
زمستاں کی بارش میں ایک طرف ان رشتوں اور اُن سے جڑی یادوں، ملتان اور لاہور کے عام سے گم نام کرداروں، کھابوں، بازاروں اور محلوں کا نوسٹیلجیا اپنی گرفت میں لے لیتا ہے تو دوسری طرف ان کے کھو جانے کا ملال دکھ کی ٹیس کا نشان چھوڑ جاتا ہے۔ جسے زندگی سے جڑے اپنے پرائے کرداروں، جگہوں اور ماحول کی یادوں کو تازہ کرنا ہو، اس کے لیے خالد مسعود خان کی کتاب زمستاں کی بارش (ناشر جہلم بک کارنر) خاصے کی شئے ہے۔ بقول معین نظامی
زمستاں
زمستاں کی بارش
زمستاں کی بارش میں خوشبو
زمستاں کی بارش میں خوشبو تمہاری
خدا جانے
یہ شام تم نے
کہاں اور کیسے گزاری