چین سپر پاور کی دوڑ میں سب سے آگے

اپنی جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے پاکستان کی اہمیت بڑھتی چلی جائے گی


اپنی جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے پاکستان کی اہمیت بڑھتی چلی جائے گی۔ فوٹو : فائل

آخری قسط

1990-91ء میں سوویت یونین میں گورباچوف کی اقتصادی، جمہوری اصلاحات ، پرسٹرئیکا اور گلاسناٹ کے نفا ذ کے بعد سوویت یونین کے مجموعی رقبے 22307815 مربع کلومیٹر رقبے پر 292610734 کی آبادی پر مشتمل روس سمیت یوکرائن، بلا روس، ازبکستان، قازقستان، جارجیا، آذربا ئیجان، لیتھویا، مولدوا، لٹویا،کرغیزستان، تاجکستان، آرمینیا، ترکمانستان اور اسٹونیا کو آزاد کر دیا۔

یوں ان ریاستوں کی آزادی اور خودمختا ری کے بعد رو س کا کل رقبہ 17098242 مربع کلومیٹر اور کل آبادی 146880432 رہ گئی۔ اگرچہ اس موقع پر روس کو ہی باقی ریا ستوں کے مقابلے میں سوویت یونین کی وراثت ملی اور پھر اس بنیاد پر روس نے نہ صرف تما م افواج اور جدید ایٹمی ہتھیاروں کو مرکزی حیثیت میں جمع اور محفوظ کیا بلکہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں ویٹو کا جانشین بھی روس ہی ٹھہرا مگر اب روس اپنی تاریخ کے بدترین سیاسی اقتصادی، عسکری بحران سے گزر رہا تھا گوربا چوف کے بعد بورس یلسن روس کے سربراہ بننے ، یہ وہ دور ہے جب مشرقی یورپ میں سابق وارسا گروپ کے اشتراکی ملکوں میں بھی اشتراکیت کا خاتمہ ہو گیا ، مشرقی اور مغربی جرمنی کے درمیان حائل دیوار برلن گر گئی۔

تعریف کی بات یہ ہے کہ اُس وقت مشرقی جرمنی میں تقریباً 45 ہزار روسی فوج کے سینئر کمانڈر پیوٹن تھے جو یہاں KGB کے جی بی ہیڈ تھے، پوٹن نے بہت فہم و فراست کا مظاہر ہ کرتے ہوئے بغیر کسی تصادم کے جرمنی سے روسی افواج کا انخلا کیا، دنیا میںجہاں کہیں سابق سوویت یونین کے سفارت خانے تھے وہ سب روس کے سفارت خانے ہو گئے۔

1990 ء سے پہلے سوویت یونین اور روسی کرنسی روبل کی قیمت امریکی ڈالر کے برابر تھی۔ 1992 ء میں ایک ڈالر کی قیمت 419 روبل ہو گئی۔ 1996-97 ء تک ڈالر 5900 روبل کا ہو گیا، اس موقع پر امریکہ بھی گھبرا گیا کہ اتنی بڑی فوج اور ایٹمی قوت کا حامل ملک روس اگر بدترین اقتصادی بحران کا شکار ہوا تو پوری دنیاکا امن دائو پر لگ سکتا ہے۔

اس موقع پر امریکی صدر بل کلنٹن کی حمایت سے روس کو آئی ایم ایف نے 1998 ء میں 23.6 بلین ڈالرکے ایمرجنسی قرضے جاری کئے تو روسی روبل کی قیمت 20 ڈالر ہوگئی ۔ یہاں 1990-91 ء میں انسانی تاریخ میں گورباچوف نے اہم کردار ادا کیا کہ سوویت یونین جیسے بڑی ایٹمی قوت کے حامل ملک کو بہت پُرامن انداز میں اشتراکیت سے سرمایہ دارانہ اور اُو پن مارکیٹ کے نظام اور آزادی اظہار رائے کے ساتھ تبدیل کیا اور پندرہ ریاستوں کو آزاد اور خود مختار بنایا اسی وجہ سے مائیکل ہارٹ نے اپنی کتاب 'دی ہینڈر' دنیا کی سو عظیم شخصیات کے نئے ایڈیشن میں انھیں شامل کیا تھا ، گورباچوف کو امن کا نوبل انعام بھی دیا گیا۔

اِن کے بعد روس کے پہلے سر براہ بورس یلسن نے نہ صر ف چار روزہ فوجی بغاوت کی ایک کوشش کو ناکام کیا بلکہ روس کو سیاسی اقتصادی بحران سے نکالنے کی بنیاد رکھی، بورس یلسن کے بعد 1952 ء میں پیدا ہو نے والے Vladimir Putin ولادیمر پیوٹن 1999 ء میں روس کے وزیر اعظم منتخب ہوئے ۔

2000 ء میں وہ روس کے صدر ہو گئے ، واضح رہے کہ 1990-91 ء میں سابق سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد امریکہ جس کو 1945 ء کے بعد سے دنیا کے اکثر ملک سپر پاور تسلیم کر تے تھے، اب دنیا کی واحد سپر پاور بن گیا اور اس کی اس حیثیت کو دنیا کے سب ہی ممالک نے تسلیم کر لیا تھا۔

1991 ء کے بعد دنیا کی صورتحال یہ تھی کہ ایک جانب سابق سوویت یونین کے ٹوٹنے سے 15 نئے ملک تشکیل پائے تھے تو ساتھ ہی مشرقی یورپ کے اشتراکی ممالک بھی اشتراکیت سے دستبردار ہو گئے تھے، پھر مشرق وسطیٰ، مشرقِ بعید اور شمالی امریکہ کے وہ ممالک تھے جہاں سابق سوویت یونین کا سیاسی عسکری غلبہ تھا وہ بھی اب تنہا تھے اور امر یکہ کی واحد سپرپاور کی کشش اِن سب کو کھینچ رہی تھی۔ نیو ورلڈ آرڈر اور تہذیبوں کے تصادم کی گونج تھی۔

ایسے میں چین خاموشی سے اپنے معاشرے میں مرحلہ وار سیاسی اقتصادی اصلاحات کے ساتھ ترقی کر رہا تھا، یہ وہی چین تھا جس نے امریکہ سے تعلقات استوار کر نے کے بعد خود کو مستحکم کیا تھا ۔ 1980 ء کی دہائی میں ون چائلڈ پالیسی کے تحت آبادی پر کنٹرول کر کے چین نے ترقی اور خوشحال کی رفتار کو کئی گنا تیز کر دیا۔

11 ستمبر 2001 ء کے سانحے کے بعد امریکہ نے اسامہ بن لادن اور القاعدہ پر اس کا الزام عائد کر تے ہو ئے، اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل سے صرف پانچ منٹ میں اپنے دفاع کے لیے دنیا میں کسی بھی مقام پر فوجی کاروائی کر نے کا اجازت نامہ حاصل کر لیا تھا،افغانستان پر کاروائی کے بعد امریکہ نے نیٹو ممالک سے مل کر عراق، شام ، لیبیا سمیت ہر اُس جگہ کا روائی کی جہاں اُس کے مطابق اُس کے مفادات کو خطرات تھے، فوجی کاروائیاں

2020 ء تک دنیا بھر میں جاری رکھیں اور اب بھی کسی سطح پر جا ری ہیں ۔اس دوران چین اور روس دنیا کی دو بڑی قوتیں بن کر سامنے آگئے، اِس وقت روس دوبارہ جدید اسلحہ سازی خلائی ٹیکنالوجی میں امریکہ کے مقابل کھڑا ہے اور اس کا میزائل دفاعی نظام S400 امریکہ اور اسرائیل میزائل ڈیفنس سسٹم سے بہتر ہے۔

چین نہ صرف اپنی صنعتی اقتصادی ترقی میں امریکہ کے بعد دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر ہے بلکہ پوری دنیا کے ماہرین اقتصادیات اس پر متفق ہیں کہ چین 2030 ء سے پہلے یعنی آئندہ چھ سے سات برسوں میں دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی قوت ہو گا، مگر حیرت انگیز طور پر چین نے ساوتھ چائنہ سی میں امریکہ،آسٹریلیا، کینیڈا، انڈیا کے چار رکنی اتحاد کو نہ صرف چیلنج کیا بلکہ امریکی بحریہ کو کئی بار یہاں اپنی ٹیکنالوجی کی بنیاد پر پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا اور اب یعنی 2021 ء میں بعض مصدقہ اطلاعات کے مطابق ہائپر سانک میزائل کاکامیاب تجربہ بھی کر لیا ہے۔ واضح رہے کہ اس طرح کے میزائل کے لیے امریکہ اور روس گذشتہ 50 برسوں سے تحقیق اور تجربات کر رہے ہیں مگر اِن کو کامیابی نہیں ملی، اگر واقعی چین جدید ہائپر

سانک میزائل تیار کر لیتا ہے تو یہ امریکہ ، روس سمیت سب پر سبقت لے جا ئے گا، یہ سب کووڈ 19 یا کورونا کی عالمی وبائی بیماری کے دوران یا فوراً بعد سامنے آیا جب پوری دنیا کی معیشت کورونا کی وجہ سے شدید متاثر ہوئی اور 1945 ء سے نوآبادیاتی نظام کی جگہ اقتصادی نوآبادیاتی نظام کے نفاذ اور اس پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی اجارہ داری اقوام متحدہ ، آئی ایم ایف ، عالمی بنک اور دیگر اداروں پر امریکہ اور اس کے اتحادیوںکے دبائوکو بھی چین اور روس کی ترقی نے اب متاثر کیا ہے۔

جب کہ 2017 ء میںامریکہ میں صدر ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد امریکہ میں نہ صرف قومیت رنگ ونسل اورمذاہب کی بنیادوں پر معاشرتی تضادات شدت اختیار کر تے ہو ئے تصادم کا سبب بنے بلکہ جمہوری اقدار بھی متاثر ہوئیں یہا ں تک کہ جب 6 جنوری 2021 ء میں ٹرمپ نے ا نتخابات ہارنے کے بعد شکست تسلیم کر نے سے انکار کر دیا اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کہنے پر اُس کے ہزاروں حامیوں نے یو ایس کیپیٹل پر چڑھائی کر دی جو مضبوط امریکی جمہوریت کی علامت ہے اور اس حملے کے دوران پانچ امریکی ہلاک اور بہت سے زخمی ہوئے۔ یوں امریکہ جو اپنی آزاد معاشی جمہوری اقدار پر ہمیشہ نازاں تھا خود سیاسی ، جمہوری اور اوُپن مارکیٹ اکانومی ''آزاد معیشت'' کے اعتبار سے بحران کا شکار ہو گیا ہے۔

ٹرمپ نے اپنے دورِ اقتدار میں ایک جانب زلمے خلیل زاد کے ذریعے افغانستان میں طالبا ن سے مذاکرات کئے اور افغانستان سے فوجوں کے انخلا کا ٹائم ٹیبل طے کیا تو دوسری جانب ایران سے JCPOA جرمنی، فرانس، روس، چین، امریکہ اور ایران کے ا یٹمی ہتھیار نہ بنانے کا جو معاہدہ صدر اوبامہ نے کیا تھا، اُس کو اسرائیل کے کہنے پر منسوخ کر دیا اور ایران پر سے اقتصادی پابندیاں اٹھانے کی بجائے مزید پابندیاں عائد کر دیں۔ یوں ایران، اسرائیل، امریکہ بحران میں شدت آئی۔

سابق صدر ٹرمپ نے تمام سیاسی اخلاقی اقدار کو بھی پا مال کیا اور ایک جانب تو مشرق ِ وسطیٰ اور عرب ملکوں کے سربراہان سے عموماً سیاسی اقدار کا خیال رکھے بغیر بات کی تو دوسری جانب اسرائیل کی بھر پور حمایت کرتے ہوئے امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کے ساتھ ہی متحدہ عرب امارات سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک سے ابراہم معاہدہ کر وایا اور یہاں بہت سے عرب ملکوں نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں