کشمیر کے سلگتے چنار

بھارتی محاصروں اور ناکہ بندیوں نے کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل میں تبدیل کردیا ہے


آصفہ ادریس February 05, 2022
مقبوضہ کشمیر کے باسی انصاف کےلیے دنیا کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD: جنت نظیر وادی کہلانے والے کشمیر کا بے مثال حسن جبر، گھٹن اور ظلم کی مسلسل سیاہ رات نے کچھ اس طرح گہنایا ہے کہ کشمیرکی دھرتی لہو رنگ اور کشمیر کے چنار سلگ رہے ہیں۔

یہ صدیوں پر پھیلا قصہ ہے، دو چار برس کی بات نہیں۔ کشمیر کو اپنی جاگیر سمجھ کر غاصبوں کے حوالے کرنے کا جو سلسلہ ڈوگرہ راج میں شروع ہوا تھا وہ آج بھی اپنی مکروہ ترین شکل میں موجود ہے۔

کبھی چنار کے درخت، زعفران کے کھیت اور جھیل ڈل میں تیرتے شکارے کشمیر کے حسن میں چار چاند لگاتے تھے اور دنیا بھر کو کشمیر کی کشش کھینچ لاتی تھی۔ لیکن بھارت کے غاصبانہ قبضے نے مقبوضہ وادی کا حسن صرف ماند ہی نہیں کیا بلکہ اسے بری طرح پامال بھی کردیا ہے۔

بھارت کے طاقت کے زور پر کشمیریوں کو غلام بنانے کے جنون نے کشمیریوں سے معمول کی زندگی گزارنے کا حق بھی چھین لیا ہے۔ بھارتی محاصروں اور ناکہ بندیوں نے کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل میں تبدیل کردیا ہے جس میں 80 لاکھ پر مشتمل پوری کی پوری آبادی محصور ہے۔

عالمی قوانین اور قاعدوں کو اپنے پیروں تلے روندنے والے بھارت کو اگر عالمی غنڈے سے تشبیہ دی جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ بھارت کو ظلم سے روکنے والا کوئی نہیں۔ عالمی اور انسانی حقوق کے چمپئین بننے والوں کا ضمیر لاکھوں کشمیریوں کی شہادتیں بھی جھنجھوڑنے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔

مقبوضہ کشمیر کے باسی انصاف کےلیے دنیا کی طرف دیکھ رہے ہیں لیکن تجارت کی منڈی میں انسانوں کو تولنے والی سرمایہ دار عالمی برادری کو مقبوضہ کشمیر میں نہ انسانی حقوق کی پامالی دکھائی دیتی ہے اور نہ چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرتے بھارتی فوج کے درندے۔

اقوام متحدہ کی قراردادوں میں مقبوضہ کشمیر کو متنازع علاقہ تو تسلیم کرلیا گیا لیکن کسی میں یہ جرأت آج تک نہ ہوسکی کہ بھارت سے ان قراردادوں پر عمل کروا کے کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت دلا سکے۔

مقبوضہ کشمیر کا کوئی محلہ، گلی اور گھر ایسا نہیں جس میں کوئی شہید نہ ہو۔ منظم انداز میں کشمیری نوجوانوں کے قتل عام کی مہم جاری ہے۔ نوجوانوں کی گرفتاریاں اور انسانیت سوز مظالم مقبوضہ کشمیر میں روز کا معمول ہیں۔

بھارت کے جبر اور قبضے کے خلاف کشمیریوں کی تاریخی جدوجہد جرات، بہادری اور آزادی کےلیے جان کی بازی لگانے والوں کی روشن مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ ہر دور میں کشمیری نوجوانوں نے اپنے عزم و حوصلے سے بھارت کے ناپاک عزائم کو شکست دی ہے اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔

جرم ضعیفی کی سزا 1984 میں مقبول بٹ نے دلی کی تہاڑ جیل میں پھانسی کی شکل میں بھگتی تو 2013 میں افضل گرو بھی اسی تہاڑ جیل میں کشمیرکی آزادی کی جدوجہد میں اپنے لہو کا رنگ بھرتے ہوئے پھانسی کے تختے پر جھول گئے۔

ان بے گناہ کشمیری نوجوانوں کا صرف ایک جرم تھا اور وہ تھا بھارتی تسلط کے خلاف آواز بلند کرنا، جس کی پاداش میں انہیں مرنے کے بعد اپنی دھرتی کی مٹی بھی نصیب نہ ہوئی اور غاصب بھارت نے دلی کی تہاڑ جیل میں ہی انہیں دفن کردیا۔

بلاشبہ مقبول بٹ اور افضل گرو تو شہید ہوگئے لیکن انہوں نے اپنے لہو سے آزادی کے جو چراغ روشن کیے ان کی لو ماند پڑنے کے بجائے دن بہ دن بڑھتی چلی گئی۔

نوجوان برہان وانی کی 2016 میں بھارتی فورسز کے ہاتھوں شہادت نے ایک بار پھر آزادی کی جدوجہد کو تیز کردیا اور اب تک نہ جانے کتنے نوجوان اس راہ میں جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔

کشمیر کی بھارت سے آزادی کی جدوجہد صرف نوجوانوں تک محدود نہیں بلکہ بزرگ اور خواتین بھی اس راہ شوق کے مسافروں میں شامل ہیں۔ ایک طرف تو آسیہ اندرابی ہیں جو ناکردہ گناہ کی پاداش میں آج تک بھارتی قید میں ہیں تو دوسری جانب سید علی گیلانی ہیں جن کی تقریباً ساری عمر بھارتی قید اور نظربندی میں کٹی۔

بھارت نہتے کمزور بزرگ علی گیلانی سے اس قدر خوف زدہ تھا کہ علی گیلانی کے انتقال پر کسی کو ان کے جنازے میں شرکت کی اجازت نہیں دی اور ان کی تدفین رات کے اندھیرے میں کردی۔ بات ان چند مثالوں تک محدود نہیں بلکہ سیکڑوں بزرگ، نوجوان، بچے اور خواتین آزادی کےلیے قربانیاں دے رہے ہیں۔

پاکستان سے محبت کشمیریوں کے خون میں شامل ہے جس کا اظہار کرنے سے نہ وہ چوکتے ہیں اور نہ ہی ہچکچاتے ہیں۔

کرکٹ میچ میں پاکستان کی جیت ہو تو سری نگر کی گلیاں بھارتی بندوق برداروں کے سائے میں بھی پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھتی ہیں اور بھارت کی ریاستی دہشتگردی کے ہاتھوں جام شہادت نوش کرنے والے کا جنازہ ہو تو شہید کی میت کو پاکستان کے پرچم میں لپیٹا جاتا ہے۔ یہ وہ جذبہ ہے جسے بھارت آٹھ لاکھ فوج لگا کر اور طاقت کا وحشیانہ استعمال کرکے بھی دبا نہیں سکا۔

انتہاپسند مسلمان دشمن بی جے پی کے نمائندے اور گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کی وجہ سے دنیا بھر میں گجرات کے قصائی کے نام سے مشہور نریندر مودی نے بھارت میں اقتدار سنبھالتے ہی کشمیریوں کی زندگی مزید تنگ کردی۔

بھارتی فورسز کے نام نہاد سیکیورٹی آپریشن کے دوران کشمیری نوجوانوں کو شہید کرنا اور انہیں گرفتار کرکے مقبوضہ کشمیر کے بجائے بھارتی جیلوں میں لے جاکر قید کرنا وہ حربے ہیں جو مودی سرکار کشمیریوں کا حوصلہ توڑنے کےلیے مسلسل استعمال کررہی ہے لیکن اسے منہ کی کھانا پڑرہی ہے۔

مقبوضہ کشمیرکا خصوصی ریاست کا درجہ بھی مودی سرکار نے ختم کرکے غیر کشمیریوں کو مقبوضہ کشمیر میں زمین خریدنے کی اجازت دے دی۔ یہ سب بھارت اس لیے کررہا ہے کہ کشمیری مسلمانوں کو اقلیت میں تبدیل کرسکے اور ہندو انتہاپسندوں کو مقبوضہ کشمیر میں آباد کرسکے۔

کشمیریوں کی جدوجہد آزادی ایک ایسی داستان ہے جس کا ہر زاویہ قربانی کے سنہرے رنگ سے چمک رہا ہے۔ آزادی کےلیے مر مٹنے اور اپنے سے کہیں زیادہ طاقتور دشمن کے ظلم کے سامنے ہتھیار نہ ڈالنے کی جو روایت کشمیریوں نے قائم کردی ہے اس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔

پاکستان کشمیریوں پر بھارتی مظالم کے خلاف ہر فورم پر آواز اٹھاتا رہا ہے۔ یوم یکجہتی کشمیر منانے کا مقصد بھی عالمی برادری کی توجہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی طرف مبذول کروانا ہے اور کشمیریوں کو یہ یقین دلانا بھی ہے کہ ہم تمہارے ساتھ کھڑے ہیں۔

کہتے ہیں جب صبح ہونے والی ہو تو اندھیرا گہرا ہوجاتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھی ظلم کی رات گہری ہونا اس بات کی علامت ہے کہ سورج طلوع ہونے میں اب زیادہ دیر نہیں۔

کشمیریوں کی کئی نسلوں کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی۔ بھارت آج بھی مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں سے شکست کھا رہا ہے اور آئندہ بھی پسپائی ہی بھارت کا مقدر ہے۔ جس نے سر پر کفن باندھ لیا ہو اسے ٹینکوں اور بندوقوں سے شکست نہیں دی جاسکتی، ہاں رسوائی ضرور سمیٹی جاسکتی ہے اور یہی کچھ بھارت کے ساتھ بھی ہورہا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں