شوبز کی دنیا پر بہار آنے لگی
کیچ لائن تھیٹر فیسٹول بھر پور توجہ کا مرکز، فیض امن میلے کی تیاریاں
HYDERABAD:
دنیا میں پہلی بار جب ایک انسان نے اپنے جیسے دوسرے انسان تک اپنی بات پہنچانے کے لیے ہاتھ، آنکھ، چہرے، زبان سے جو اشارے کنائے کیے، جو حرکات اور آوازیں استعمال کیں وہی دراصل دنیا کا پہلا تھیٹر تھا۔ تھیٹرسوچ، خیال، حرکت اور مکالمے کا نام ہے اور خیال، حرکت اور مکالمہ، انسانی تہذیب و ثقافت کے ارتقا کی نرسری ہے۔
گلی محلوں میں پھل، سبزیاں، چھولے، قلفی بیچنے والا شخص بھی اس بات کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہے کہ جب تک وہ کسی مخصوص انداز اور آواز کے ترنم کے ساتھ اپنی شے کو متعارف نہیں کرائے گا، اس کی چیز لوگوں کی توجہ حاصل نہیں کرسکے گی۔ گولے گنڈے والا اپنی صراحی دار گھنٹی کی ڈور ہلا کر لوگوں کو اپنی آمد سے آگاہ کرتا ہے، تو وہیں سبزیاں اور دیگر اشیاء فروخت کرنے والے اپنی مخصوص آوازوں اور مکالموں سے اپنی شے کو متعارف کراتے ہیں۔
اسی طریقے سے صنعتکار و تاجر اپنی مصنوعات کو مارکیٹ میں متعارف کرانے کے لیے اشتہارات میں مختلف چہروں کے ساتھ جدید اور نت نئے انداز و آہنگ سے اپنی مصنوعات کو صارف کے سامنے متعارف کراتے ہیں، گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اشتہار بھی تھیٹر ہی کی ایک توسیع ہے۔ تھیٹر فنون لطیفہ کے اس سنگم کا نام ہے جہاں تمام اصناف ادب یکجا ہوجاتی ہیں، نثر، شاعری، مصوری، مجسمہ سازی، موسیقی، صوت و ادا، یہ سب اصناف، اسکرپٹ، مکالمے، اداکاری، سیٹ ڈیزائن، نوری و صوتی اثرات کے توازن و تناسب سے تھیٹر میں آشکار، عیاں اور زندہ نظر آتے ہیں۔
برصغیرپاک و ہند میں ڈرامہ اور رقص کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ یورپی اقوام ڈچ، فرانسیسی، پرتگالی اور انگریزوں کی برصغیر آمد نے ڈرامے پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ مغرب میں ڈرامہ دراصل یونانی دیومالا سے متاثر ہے۔ یورپی اقوام نے برصغیر کے ڈرامے کو حسن، عشق اور جذبات کی دیومالا سے ہم آہنگ کیا۔ یورپی اقوام نے ڈرامے کو اسٹیج، پردے، میک اپ، ملبوسات وغیرہ کی نئی اور جدید شکلوں اور ضرورتوں سے آشنا کیا۔
بمبئی میں انگریز نے 1750 میں بمبئی تھیٹر قائم کیا جس میں ابتدا میں انگریزی ڈرامے، بعد ازاں مرہٹی ڈرامے وغیرہ بھی اسٹیج کیے گئے۔ نومبر 1853 میں ڈاکٹر بھاؤ داجی لاڈکا اردو ڈرامہ ''راجہ گوپی چند اور جالندھر'' پہلی بار بمبئی تھیٹر میں پیش کیا گیا۔ برصغیر پاک و ہند میں پہلا سٹیج ڈرامہ نواب واجد علی شاہ کے دور میں پیش کیا گیا جسے آغا حسن امانت نے 1953 میں اندر سبھا کے نام سے تحریر کیا۔ اس سے قبل سنسکرت میں ہندو دھرم سے موسوم کہانیوں پر مبنی رامائن، مہابھارت اور کالی داس جیسے کھیل اسٹیج پر دکھائے جاتے تھے۔
اردو سٹیج ڈرامہ پیش کرنے میں پارسی سب سے آگے تھے۔شیکسپیئر کو سٹیج ڈراموں کے حوالے سے جو عروج حاصل ہوا وہ آج تک کوئی حاصل نہ کر سکا۔ ان کے ڈرامے آج بھی شائقین شوق سے دیکھتے ہیں۔ برصغیر میں آغا حشر کو اردو زبان کا شیکسپئر کہا جاتا ہے۔ آغا حشر ایک بڑے کہانی کار اور ڈرامہ نگار تھے۔ انہوں نے 1929 میں اپنا شاہکار ڈرامہ ''رستم و سہراب'' لکھا جس نے مقبولیت کے ریکارڈ بنائے۔ اس کے علاوہ مرزا قلیج بیگ، مولانا ظفر علی خان، سعادت حسن منٹو اور عبدالحلیم شررنے بہترین ادبی ڈرامے تحریر کیے۔
اردو ڈراموں میں امتیاز علی تاج بھی اہم مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے کالج کے زمانے سے شیکسپیئر سمیت بلند پایہ انگریزی ڈراموں کے اردو میں ترجمے کیے اور بھر انہیں سٹیج پر پیش کیا۔ 1929 میں انارکلی کے نام سے ایک کھیل پیش کیا گیا جو اردو سٹیج ڈراموں میں ایک سنگ میل کی حثیت رکھتا ہے۔اسی کھیل نے آگے چل کر مغل اعظم جیسی کامیاب فلم بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
پاکستان جنوبی ایشیا کا حصہ ہے، اس کی تاریخ و ثقافت پر انگریز نوآبادیاتی دَور کے اثرات ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ یہ اسلامی ریاست کی پہچان رکھتا ہے، ان تینوں جہتوں جس کا اثر اس کے تھیٹر، ڈرامہ اور دوسری اصنافِ فن پر بھی رہا ہے۔ تقسیم برصغیر کے بعد بائیں بازو کی تحریک نے 1960ء کے نظریات کو جنم دیا، جس کے نتیجے میں ایک متحرک طلبا تحریک نے ایوب حکومت کا خاتمہ کیا۔
آنے والے برسوں میں پاکستان دو لخت ہونے کے سانحے سے گزرا۔ پھر جمہوریت کا زمانہ آیا جس میں ذوالفقار علی بھٹو نے عوام الناس کو ایک نئے پاکستان کا تصور دیا۔ تھیٹر کا یہ زمانہ ڈرائنگ روم کلچر کا حصہ تھا نہ ہی پارسی تھیٹر کی باقیات، یہ عوامی کلچر تھا۔ تازہ سیاسی حالات نے تھیٹر، فنون اور موسیقی میں عوامی تحریک کو جنم دیا۔ اس عرصے میں پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس اور اکیڈمی آف لیٹرز جیسے ثقافتی اور ادبی ادارے قائم کیے گئے۔ الحمرا آرٹس کونسل کو نئی عمارت دی گئی۔ تھیٹر میں غیر ملکی ادب سے ڈرامے ماخوذ کیے گئے۔ سٹوڈنٹ تھیٹر کو فروغ ملا۔
زمانہ حال کا ذکر کریں تو لاہور آرٹس کونسل کے زیر اہتمام سات روزہ تھیٹر فیسٹیول کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے، جنون، داستان حضرت انسان، میڈا عشق وی تو اور سانوری سمیت دیگر ڈراموں میں آرٹسٹ جہاں اپنی اداکاری کے بھر پور جوہر دکھا رہے ہیں وہیں شائقین بھی ان ڈراموں سے خوب لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ پہلے روز عکس تھیٹر کی طرف سے جنون ڈرامہ پیش کیا گیا جس میں ڈرامے میں موجود تمام اداکاروں نے اپنی جاندار اداکاری سے دل موہ لئے۔
غیور تھیٹر کاڈرامہ ''داستان حضرت انسان'' پیش کیاگیا۔ منفرد کہانی کو ڈرامہ میں موضوع بنایا گیا ،ڈرامہ ڈاکٹر عارف متین نے تحریر کیاجبکہ حمزہ غیور اختر کی ہدایات تھیں۔ ڈرامہ کا موضوع وقت کے بہتے دھارے کے ساتھ تبدیل ہوتے تقاضوں کے گرد گھومتا ہے۔ نوجوان معروف آرٹسٹوں مرزا عمیر اور حمزہ غیور اختر نے اپنی شاندار پرفارمنس سے دیکھنے والوں کومتاثر کیا۔
ڈرامہ میں نامور آرٹسٹوں افضال نبی، سفیرہ راجپوت، ظہیر تاج، محمد اعظم، ندا منیر، کرن منیز، رائے علی، رضا اور محمد نظام کی پرفارم کیا۔ سلامت پروڈکشن کا پنجابی ڈرامہ 'ہور دا ہور' پیش کیا گیا۔ ڈرامہ سعادت حسن منٹو کے ریڈیائی ڈرامے تلون سے ماخوذ ہے،جسے تنویر حسن نے تحریر کیا۔ کہانی تین رومانیوی کرداروں کے گرد گھومتی ہے، دیکھنے والا ڈرامہ کا اثر لئے بغیر نہیں رہ سکتا یہی ڈرامہ کی اصل ہے۔
نامور آرٹسٹوں ذیشان حیدر، عثمان چوہدری اور شیزا خان نے اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ کریٹو پروڈکش تھیٹرکا ڈرامہ ''میڈا عشق وی تو'' پیش کیا گیا۔ خواجہ فرید کی کافی ''میڈا عشق وی تو''کے نام پر مبنی ڈرامہ اپنی شاندار کہانی و اداکاری کا حامل ڈرامہ دیکھنے والوں کو مدتوں یاد رہے گا۔ ڈرامہ میں خواجہ فرید کے کلام پیش کیا گیا جس پر دیکھنے پر سرور ومستی کی کیفیت طاری ہوگئی۔ نامور آرٹسٹوں اقرا پریت، عثمان ریحان، عمر قریشی، انیق احمد، بلال احمد، اویس نے اپنا متاثر کن رول نبھایا۔ ڈاکٹر تبسم، علی حیدر، عمران ارمانی، عابد علی کا کردار بھی اپنی مثال آپ تھا۔
نورتن تھیٹر گروپ نے اپنا ڈرامہ سانوری پیش کیا۔ ٹھنڈے پانیوں کے دیس کے سب ٹائٹل کے ساتھ ڈرامہ سانوری کے لکھاری و ڈائریکٹر شاہد پاشا تھے۔کہانی میں چولستان کے لوگوں کو مختلف مسائل میں دلیری کے ساتھ زندگی گزارتے دیکھایا گیا ہے۔ نامور آرٹسٹوں سہیل طارق، میرا سہیل، فرح فاروقی، جاوید حسین، منصور بھٹی، شاہ رلعلی، ارسلان لوہار،راؤ محسن کریم، عدیل جاوید، ماروی، عمران ساحل اور نشا ملک بھی ڈرامے کے اہم کردار تھے۔
بات صرف تھیٹر ڈرامہ تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ موسم بہار کے موقع پر بھر پور رنگا رنگ پروگراموں کا سلسلہ شروع کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے، اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ الحمراء میں مارچ کا مہینہ فیسٹیول کی بہار لے کر آئے گا۔ فیض فیسٹیول مارچ کے پہلے ہفتے منعقد ہوگا۔
ایگزیکٹو ڈائریکٹر الحمراء ذوالفقار علی زلفی کے مطابق بہار کی آمد پر عوام کے لئے الحمراء نت نئے پروگراموں کے ذریعے ثقافت کو بھرپور اجاگر کرے گا،ایل ایل ایف اور ڈاکٹر علامہ محمد اقبال پر ایک بین الاقومی کانفرنس سمیت متعدد پروگرامز بھی مارچ کے مہینے میں شیڈول ہیں۔ان پروگراموں کے ذریعے نہ صرف شہریوں کو بھر پور تفریح کے مواقع میسر آئیں گے بلکہ دنیا بھر میں پاکستان کے مثبت امیج کو اجاگر کرنے میں بھی مدد ملے گی۔
دنیا میں پہلی بار جب ایک انسان نے اپنے جیسے دوسرے انسان تک اپنی بات پہنچانے کے لیے ہاتھ، آنکھ، چہرے، زبان سے جو اشارے کنائے کیے، جو حرکات اور آوازیں استعمال کیں وہی دراصل دنیا کا پہلا تھیٹر تھا۔ تھیٹرسوچ، خیال، حرکت اور مکالمے کا نام ہے اور خیال، حرکت اور مکالمہ، انسانی تہذیب و ثقافت کے ارتقا کی نرسری ہے۔
گلی محلوں میں پھل، سبزیاں، چھولے، قلفی بیچنے والا شخص بھی اس بات کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہے کہ جب تک وہ کسی مخصوص انداز اور آواز کے ترنم کے ساتھ اپنی شے کو متعارف نہیں کرائے گا، اس کی چیز لوگوں کی توجہ حاصل نہیں کرسکے گی۔ گولے گنڈے والا اپنی صراحی دار گھنٹی کی ڈور ہلا کر لوگوں کو اپنی آمد سے آگاہ کرتا ہے، تو وہیں سبزیاں اور دیگر اشیاء فروخت کرنے والے اپنی مخصوص آوازوں اور مکالموں سے اپنی شے کو متعارف کراتے ہیں۔
اسی طریقے سے صنعتکار و تاجر اپنی مصنوعات کو مارکیٹ میں متعارف کرانے کے لیے اشتہارات میں مختلف چہروں کے ساتھ جدید اور نت نئے انداز و آہنگ سے اپنی مصنوعات کو صارف کے سامنے متعارف کراتے ہیں، گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اشتہار بھی تھیٹر ہی کی ایک توسیع ہے۔ تھیٹر فنون لطیفہ کے اس سنگم کا نام ہے جہاں تمام اصناف ادب یکجا ہوجاتی ہیں، نثر، شاعری، مصوری، مجسمہ سازی، موسیقی، صوت و ادا، یہ سب اصناف، اسکرپٹ، مکالمے، اداکاری، سیٹ ڈیزائن، نوری و صوتی اثرات کے توازن و تناسب سے تھیٹر میں آشکار، عیاں اور زندہ نظر آتے ہیں۔
برصغیرپاک و ہند میں ڈرامہ اور رقص کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ یورپی اقوام ڈچ، فرانسیسی، پرتگالی اور انگریزوں کی برصغیر آمد نے ڈرامے پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ مغرب میں ڈرامہ دراصل یونانی دیومالا سے متاثر ہے۔ یورپی اقوام نے برصغیر کے ڈرامے کو حسن، عشق اور جذبات کی دیومالا سے ہم آہنگ کیا۔ یورپی اقوام نے ڈرامے کو اسٹیج، پردے، میک اپ، ملبوسات وغیرہ کی نئی اور جدید شکلوں اور ضرورتوں سے آشنا کیا۔
بمبئی میں انگریز نے 1750 میں بمبئی تھیٹر قائم کیا جس میں ابتدا میں انگریزی ڈرامے، بعد ازاں مرہٹی ڈرامے وغیرہ بھی اسٹیج کیے گئے۔ نومبر 1853 میں ڈاکٹر بھاؤ داجی لاڈکا اردو ڈرامہ ''راجہ گوپی چند اور جالندھر'' پہلی بار بمبئی تھیٹر میں پیش کیا گیا۔ برصغیر پاک و ہند میں پہلا سٹیج ڈرامہ نواب واجد علی شاہ کے دور میں پیش کیا گیا جسے آغا حسن امانت نے 1953 میں اندر سبھا کے نام سے تحریر کیا۔ اس سے قبل سنسکرت میں ہندو دھرم سے موسوم کہانیوں پر مبنی رامائن، مہابھارت اور کالی داس جیسے کھیل اسٹیج پر دکھائے جاتے تھے۔
اردو سٹیج ڈرامہ پیش کرنے میں پارسی سب سے آگے تھے۔شیکسپیئر کو سٹیج ڈراموں کے حوالے سے جو عروج حاصل ہوا وہ آج تک کوئی حاصل نہ کر سکا۔ ان کے ڈرامے آج بھی شائقین شوق سے دیکھتے ہیں۔ برصغیر میں آغا حشر کو اردو زبان کا شیکسپئر کہا جاتا ہے۔ آغا حشر ایک بڑے کہانی کار اور ڈرامہ نگار تھے۔ انہوں نے 1929 میں اپنا شاہکار ڈرامہ ''رستم و سہراب'' لکھا جس نے مقبولیت کے ریکارڈ بنائے۔ اس کے علاوہ مرزا قلیج بیگ، مولانا ظفر علی خان، سعادت حسن منٹو اور عبدالحلیم شررنے بہترین ادبی ڈرامے تحریر کیے۔
اردو ڈراموں میں امتیاز علی تاج بھی اہم مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے کالج کے زمانے سے شیکسپیئر سمیت بلند پایہ انگریزی ڈراموں کے اردو میں ترجمے کیے اور بھر انہیں سٹیج پر پیش کیا۔ 1929 میں انارکلی کے نام سے ایک کھیل پیش کیا گیا جو اردو سٹیج ڈراموں میں ایک سنگ میل کی حثیت رکھتا ہے۔اسی کھیل نے آگے چل کر مغل اعظم جیسی کامیاب فلم بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
پاکستان جنوبی ایشیا کا حصہ ہے، اس کی تاریخ و ثقافت پر انگریز نوآبادیاتی دَور کے اثرات ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ یہ اسلامی ریاست کی پہچان رکھتا ہے، ان تینوں جہتوں جس کا اثر اس کے تھیٹر، ڈرامہ اور دوسری اصنافِ فن پر بھی رہا ہے۔ تقسیم برصغیر کے بعد بائیں بازو کی تحریک نے 1960ء کے نظریات کو جنم دیا، جس کے نتیجے میں ایک متحرک طلبا تحریک نے ایوب حکومت کا خاتمہ کیا۔
آنے والے برسوں میں پاکستان دو لخت ہونے کے سانحے سے گزرا۔ پھر جمہوریت کا زمانہ آیا جس میں ذوالفقار علی بھٹو نے عوام الناس کو ایک نئے پاکستان کا تصور دیا۔ تھیٹر کا یہ زمانہ ڈرائنگ روم کلچر کا حصہ تھا نہ ہی پارسی تھیٹر کی باقیات، یہ عوامی کلچر تھا۔ تازہ سیاسی حالات نے تھیٹر، فنون اور موسیقی میں عوامی تحریک کو جنم دیا۔ اس عرصے میں پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس اور اکیڈمی آف لیٹرز جیسے ثقافتی اور ادبی ادارے قائم کیے گئے۔ الحمرا آرٹس کونسل کو نئی عمارت دی گئی۔ تھیٹر میں غیر ملکی ادب سے ڈرامے ماخوذ کیے گئے۔ سٹوڈنٹ تھیٹر کو فروغ ملا۔
زمانہ حال کا ذکر کریں تو لاہور آرٹس کونسل کے زیر اہتمام سات روزہ تھیٹر فیسٹیول کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے، جنون، داستان حضرت انسان، میڈا عشق وی تو اور سانوری سمیت دیگر ڈراموں میں آرٹسٹ جہاں اپنی اداکاری کے بھر پور جوہر دکھا رہے ہیں وہیں شائقین بھی ان ڈراموں سے خوب لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ پہلے روز عکس تھیٹر کی طرف سے جنون ڈرامہ پیش کیا گیا جس میں ڈرامے میں موجود تمام اداکاروں نے اپنی جاندار اداکاری سے دل موہ لئے۔
غیور تھیٹر کاڈرامہ ''داستان حضرت انسان'' پیش کیاگیا۔ منفرد کہانی کو ڈرامہ میں موضوع بنایا گیا ،ڈرامہ ڈاکٹر عارف متین نے تحریر کیاجبکہ حمزہ غیور اختر کی ہدایات تھیں۔ ڈرامہ کا موضوع وقت کے بہتے دھارے کے ساتھ تبدیل ہوتے تقاضوں کے گرد گھومتا ہے۔ نوجوان معروف آرٹسٹوں مرزا عمیر اور حمزہ غیور اختر نے اپنی شاندار پرفارمنس سے دیکھنے والوں کومتاثر کیا۔
ڈرامہ میں نامور آرٹسٹوں افضال نبی، سفیرہ راجپوت، ظہیر تاج، محمد اعظم، ندا منیر، کرن منیز، رائے علی، رضا اور محمد نظام کی پرفارم کیا۔ سلامت پروڈکشن کا پنجابی ڈرامہ 'ہور دا ہور' پیش کیا گیا۔ ڈرامہ سعادت حسن منٹو کے ریڈیائی ڈرامے تلون سے ماخوذ ہے،جسے تنویر حسن نے تحریر کیا۔ کہانی تین رومانیوی کرداروں کے گرد گھومتی ہے، دیکھنے والا ڈرامہ کا اثر لئے بغیر نہیں رہ سکتا یہی ڈرامہ کی اصل ہے۔
نامور آرٹسٹوں ذیشان حیدر، عثمان چوہدری اور شیزا خان نے اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ کریٹو پروڈکش تھیٹرکا ڈرامہ ''میڈا عشق وی تو'' پیش کیا گیا۔ خواجہ فرید کی کافی ''میڈا عشق وی تو''کے نام پر مبنی ڈرامہ اپنی شاندار کہانی و اداکاری کا حامل ڈرامہ دیکھنے والوں کو مدتوں یاد رہے گا۔ ڈرامہ میں خواجہ فرید کے کلام پیش کیا گیا جس پر دیکھنے پر سرور ومستی کی کیفیت طاری ہوگئی۔ نامور آرٹسٹوں اقرا پریت، عثمان ریحان، عمر قریشی، انیق احمد، بلال احمد، اویس نے اپنا متاثر کن رول نبھایا۔ ڈاکٹر تبسم، علی حیدر، عمران ارمانی، عابد علی کا کردار بھی اپنی مثال آپ تھا۔
نورتن تھیٹر گروپ نے اپنا ڈرامہ سانوری پیش کیا۔ ٹھنڈے پانیوں کے دیس کے سب ٹائٹل کے ساتھ ڈرامہ سانوری کے لکھاری و ڈائریکٹر شاہد پاشا تھے۔کہانی میں چولستان کے لوگوں کو مختلف مسائل میں دلیری کے ساتھ زندگی گزارتے دیکھایا گیا ہے۔ نامور آرٹسٹوں سہیل طارق، میرا سہیل، فرح فاروقی، جاوید حسین، منصور بھٹی، شاہ رلعلی، ارسلان لوہار،راؤ محسن کریم، عدیل جاوید، ماروی، عمران ساحل اور نشا ملک بھی ڈرامے کے اہم کردار تھے۔
بات صرف تھیٹر ڈرامہ تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ موسم بہار کے موقع پر بھر پور رنگا رنگ پروگراموں کا سلسلہ شروع کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے، اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ الحمراء میں مارچ کا مہینہ فیسٹیول کی بہار لے کر آئے گا۔ فیض فیسٹیول مارچ کے پہلے ہفتے منعقد ہوگا۔
ایگزیکٹو ڈائریکٹر الحمراء ذوالفقار علی زلفی کے مطابق بہار کی آمد پر عوام کے لئے الحمراء نت نئے پروگراموں کے ذریعے ثقافت کو بھرپور اجاگر کرے گا،ایل ایل ایف اور ڈاکٹر علامہ محمد اقبال پر ایک بین الاقومی کانفرنس سمیت متعدد پروگرامز بھی مارچ کے مہینے میں شیڈول ہیں۔ان پروگراموں کے ذریعے نہ صرف شہریوں کو بھر پور تفریح کے مواقع میسر آئیں گے بلکہ دنیا بھر میں پاکستان کے مثبت امیج کو اجاگر کرنے میں بھی مدد ملے گی۔