عفریت کا عالمی دن
کینسر عموماً ایک ایسا خاموش عفریت ہے کہ جس کی وجہ سے آپ کو زیادہ تر درد بھی نہیں ہوتا
کراچی:
چار فروری، جمعہ کے دن دنیا بھر میں کینسر کے بارے میں آگاہی کا عالمی دن تھا، بہت کم دن عالمی طور پر ایسے منائے جاتے ہیں، کیونکہ کینسر کو ایک عفریت سمجھا جاتا ہے اور کوئی ایسا دن کیسے منا سکتا ہے جس سے خوف کا نام منسلک ہو۔ مگر یہ دن کینسر سے آگاہی کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس ایک دن کو کینسر سے آگاہی کے لیے مخصوص کر دینا کافی نہیں۔
کینسر، جس کا چند برس قبل تک نام سن کر ہی خوف آتا تھا کیونکہ اس وقت اس کے بارے میں لوگوں کو زیادہ علم نہیں ہوتا تھا اور سب سے پہلا تاثر یہی ہوتا تھاکہ مریض کی زندگی کے دن گنے جا چکے ہیں۔ سب سے پہلی کوشس یہی ہوتی تھی کہ خود مریض کوعلم نہ ہوکہ اسے کینسر ہے ورنہ مریض سن کر اسی وقت آدھا ختم ہو جاتا ہے ۔کینسر کو اردو میں سرطان کہتے ہیں لیکن لفظ کینسر عمومی رائج ہے اس لیے میں یہی استعمال کر رہی ہوں۔
گھر والے چھپ چھپ کر روتے تھے اور مریض کے سامنے ہنس ہنس کر باتیں کرتے کہ اسے علم نہ ہو کہ وہ پریشان ہیں اورکیوں پریشان ہیں۔ باہر کے ممالک کے بارے میں یہی شنید تھا کہ وہاں جو بھی بیماری مریض کو لاحق ہوتی ہے، چھوٹی یا بڑی، سب سے پہلے ڈاکٹر مریض کو اس کے بارے میں بتاتے اور یہاں تک کہ مریض کو یہ بھی بتا دیتے تھے کہ کس علاج کی صورت میںاس کے پاس زندگی کی کتنی مہلت باقی ہے۔
اس وقت ہم ایسی باتیں سن کر سوچتے تھے کہ ان ممالک کے ڈاکٹر کتنے سفاک ہیں کہ مریض کو اس کی عفریت نما بیماری کے بارے میں بتا کر اس کی ہمت توڑ دیتے ہیں، اس کی قوت مدافعت کو کمزور کر دیتے ہیں ۔ ہم یہی سنتے آئے تھے کہ لاعلمی بھی ایک بڑی نعمت ہے۔ شکر ہے کہ ہمارے ہاں کے ڈاکٹر سفاک نہیں اور ہمارے ہاں کسی بھی مہلک بیماری کا مریض، علاج کے تکلیف دہ مسائل سے گزر کر بھی بالآخر ایک دن اسی لاعلمی میں دنیا سے چلا جاتا ہے۔ زندگی کا کیا بھروسہ ہے کہ کس کے پاس کتنی ہے، اگلی سانس بھی ہے کہ نہیں، اس کا کسی کو علم نہیں۔
ممکن ہے کہ ایک کینسر کا مریض... اپنے ارد گرد کے ہزاروں لوگوں کی نسبت زیادہ وقت جی لے۔ علاج کروا لے تو اس کی بیماری کبھی پلٹ کر واپس ہی نہ آئے یا کوئی کینسر سے لڑ کر اسے اللہ کی مرضی سے ہرا دے مگر اگلے ہی روز کسی حادثے میں اس کی موت واقع ہو جائے۔ اب یہ تھیوری بدل گئی ہے کہ ہر قسم کا کینسر، جلد موت پر منتج ہوتا ہے۔ اب کینسر کی کئی اقسام ہیں، کئی اسٹیج اور کئی گریڈ ہیں۔ ایسے ایسے کینسر ہیں کہ ہم نے اس سے پہلے جسم میں ان اعضاء کے نام بھی نہیں سنے ہوتے۔
کینسر عموماً ایک ایسا خاموش عفریت ہے کہ جس کی وجہ سے آپ کو زیادہ تر درد بھی نہیں ہوتا۔ جب تک آپ کو کوئی واضع علامت نظر آتی ہے یا محسوس ہوتی ہے، اس وقت تک یہ موذی مرض آپ کے وجود میں اپنی جڑیں گہری گاڑ چکا ہوتا ہے۔ اس لیے ہمارے لیے اس کے بارے میں جاننا بہت اہم ہے، جسم میں جب کینسر پیدا ہونا شروع ہوتا ہے ، اسی وقت سے کوئی نہ کوئی تبدیلی رونما ہونا شروع ہو جاتی ہے، خواہ وہ تبدیلی کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو۔ جسم میں ظاہر ہونے والی معمولی سے معمولی تبدیلی کو نظر انداز نہ کریں بلکہ اس کا باقاعدگی سے جائزہ لیتے رہیں۔
ہر تبدیلی کینسر نہیں ہوتی مگر کینسر کی وجہ سے کچھ نہ کچھ ایسا ضرور ہوتا ہے جو معمول سے ہٹ کر ہوتا ہے۔ اب آپ کسی اسپتال میں چلے جائیں، وہاں آپ کو کینسر کے وارڈز میں لوگوں کا یوں ہجوم نظر آتا ہے جیسے کہ میلہ لگا ہوا ہو۔ اب کینسر اس قدر عام ہو گیا ہے کہ اسے لوگ جان گئے ہیں اور سمجھ گئے ہیں کہ مریض کا اپنی بیماری سے آگاہ ہونا اہم ہے، اس سے اس کے جسم میں بیماری سے لڑنے کی طاقت پیدا ہوتی ہے، اسے اپنے علاج کے سارے مراحل اور ان کے فوائد اور نقصانات کا علم ہونا اہم ہے۔ اسی سے اس میں صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔
اب مریض اپنے طریقۂ علاج کے چناؤ کا حق بھی رکھتے ہیںاور فہم بھی۔ڈبلیو ایچ او، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کیمطابق، صرف سال 2020 میں دنیا بھر میں ایک کروڑکے لگ بھگ لوگوں کی اموات ہوئیں، ان میں سے سب سے زیادہ اموات کا سبب بننے والی وجہ کینسر ہی تھا۔ اسی سال کے اعداد وشمار کی تفصیل کے مطابق اس طرح سے ہے ۔
چھاتی کا کینسر۔ .26ملین،پھیپھڑوں کا کینسر۔ 2.21ملین،بڑی آنت کا کینسر۔ 1.93 ملین،مثانے کا کینسر۔ 1.41 ملین،جلد کا کینسر۔ 1.20 ملین،معدے کا کینسر۔ 1.09 ملین
اس کے علاوہ جگر، ہڈیوں، ہڈیوں کے گودے، دماغ، اور لبلبہ کا کینسر بھی کافی عام ہے۔ نہ صرف بڑے بلکہ ہر سال بچوں میں بھی لاکھوں میں نئے کیسز سامنے آتے ہیں۔ پاکستان میں بھی روز بروز کینسر کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان میںجو کینسر سب سے عام ہیں، وہ جگر ، چھاتی، پھیپھڑوں، مثانے اور بڑی آنت کا کینسر ہیں۔ اگر چہ چھاتی کا کینسر صرف عورتوں ہی میں نہیں بلکہ مردوں میں بھی پایا جاتا ہے، اس کی شرح بہت کم ہے۔
عورتوں میں کینسر تیزی سے بڑھنے کے اسباب میں سب سے اہم ہے کہ عورتیں اپنے جسم کے ان اعضاء کے بارے میں بات کرتے ہوئے جھجک کے باعث، اپنے قریبی لوگوں کو بھی نہیں بتاتیں ۔ ان کے لیے چھاتی، بچہ دانی یا بڑی آنت کا کینسر ہو جانا اور اس کا ناقابل علاج ہو جانا اسی لیے سب سے زیادہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر نو میں سے ایک عورت چھاتی کے کینسر کا شکار ہوتی ہے اورلگ بھگ چالیس فیصد خواتین علاج نہ ہونے یا دیر سے ہونے کے باعث موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔
سال کے ایک دن کو ، کینسر سے آگاہی کا دن منا لینے سے بات نہیں بنتی، ہمارے ہاں سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر جہاں ہر وقت فضول اور بے معانی چیزیں پوسٹ کی جاتی ہیں، اس میڈیم کو استعمال کر کے اپنی بچیوں اور عورتوں کو بتایا جانا چاہیے کہ انھیں خود کو ہر ماہ باقاعدگی سے کس طرح چیک کرنا چاہیے۔
جسم کے کسی بھی حصے میں، بالخصوص چھاتی میں گلٹی محسوس ہو تو اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، اس کے بارے میں ان لوگوں کو بتانا چاہیے جو کہ آپ کو کسی ماہر ڈاکٹر کے پاس لے کر جا سکتے ہیں ۔ آپ کے جسم کے کسی بھی حصے میںبیماری ہو جانا، آپ کے لیے شرمندگی کا باعث نہیں ہونا چاہیے۔ ہر بیماری اور تکلیف اللہ تعالی کی طرف سے ہے اور اس کی شفا بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ دنیا میں اس کے لیے جو قابل ڈاکٹر ہیں، ان کا وسیلہ بننا بھی اللہ کے کرم سے ہے۔
ہمیں یہ بھی علم ہے کہ ہماری آبادی کے لحاظ سے ملک میں علاج کی سہولیات کافی کم ہیں اور یہ بھی ایک سبب ہے بہت سے لوگوں میں بیماری کے بڑھ جانے یا علاج نہ ہونے کی۔ اگر لوگوں میں آگاہی ہو تو بیماری کو شروع کی اسٹیج پر پکڑا جا سکتاہے اور اس وقت اس کا علاج بھی ممکن ہوتا ہے۔
اگر آپ باشعور ہیں یا ان مراحل سے گزر چکی ہیں تو اپنے ارد گرد کی بچیوں اور عورتوں کو جلد تشخیص کے بارے میں مطلع کریں، ان کی مدد کریں اور ان کی رسائی ماہر ڈاکٹر تک ممکن بنا دیں۔ آپ کسی کو زندگی دے سکتے ہیںاور نہ صحت لیکن درست سمت کا تعین کر کے ان کی مدد ضرور کر سکتے ہیں۔