قابل ستائش فیصلہ
اگر کسی عدالت سے کوئی اچھا اور صائب فیصلہ آجائے تو اُس کی تعریف اور توصیف کرنا بھی ہمارا فرض بنتا ہے
ہمارے لوگ جہاں اپنے ملک کی عدالتوں کے اکثر فیصلوں پر تنقید کرتے ہوئے انھیں متنازعہ قرار دیتے ہیں وہاں اگر کسی عدالت سے کوئی اچھا اور صائب فیصلہ آجائے تو اُس کی تعریف اور توصیف کرنا بھی ہمارا فرض بنتا ہے۔
اسلام آباد عدالت نے دیکھا گیا ہے کہ اہم ملکی معاملات میں سو موٹو لے کر عدل و انصاف کے تقاضوں کو نہ صرف پورا کیا ہے بلکہ انھیں منطقی انجام تک بھی پہنچایا ہے۔
ابھی حال میں ججوں ، بیوروکریٹس اور سرکاری افسران کو دارالحکومت کے چار سیکٹروں میں بہت ہی ارزاں قیمت پر پلاٹس الاٹ کرنے کی اسکیم کو مسترد کرتے ہوئے اُسے پھرکابینہ کے سامنے رکھنے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ یقینا دور رس نتائج کا حامل ایک تاریخی فیصلہ ہے۔62 صفحات پر مشتمل فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ ریاست کی زمین اشرافیہ کے لیے نہیں بلکہ عوامی مفاد کے لیے ہے۔
چند ججز، بیوروکریٹس اور گروپوں کو مارکیٹ سے بہت ہی کم قیمت پر پلاٹ کی الاٹمنٹ سے ملکی خزانے کو ایک کھرب روپے کا نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ عدالت نے سیکریٹری ہاؤسنگ کو فیصلہ دو ہفتوں میں کابینہ کے سامنے رکھنے کی ہدایت جاری کرتے ہوئے یہ توقع بھی کی ہے کہ وزیراعظم اور کابینہ مفاد عامہ کے تحت پالیسی بنائیںگے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سیکٹر ایف 12، جی 12، ایف 14اور 15 کی یہ اسکیم غیر قانونی اور غیرآئینی بھی ہے اور عوامی مفاد کے خلاف بھی۔ سیکٹر ایف 14اور 15 کی قرعہ اندازی میں شفافیت نہیں تھی۔ پبلک آفس ہولڈرز عوام کی فلاح وبہبود کے خلاف کسی اسکیم میں کوئی مفاد حاصل نہیں کرسکتے ہیں۔ نظر ثانی شدہ اس اسکیم کے تحت سپریم کورٹ کے ججز اور ملازمین ، اسلام آباد ہائیکورٹ اور ڈسٹرکٹ جوڈیشری کو اہل قرار دیاگیا جب کہ صحافیوں، وکلاء ہائی کورٹس اور فیڈرل شریعت کورٹ اوراس کے ملازمین کو اس میں سے نکال دیا گیا ہے۔
عدالت نے اس نظر ثانی شدہ اسکیم کو مخصوص ایلیٹ کے مفاد کے لیے ایک غیر شفاف پالیسی قرار دیا ہے۔ نظر ثانی پالیسی انھوں نے تیار کی ہے جن کے اپنے مفادات تھے۔ عدالت نے احتیاط کا دامن تھامے رکھتے ہوئے یہ خیال بھی ظاہر کیا کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ ساری بے ضابطگیاں وزیراعظم اور کابینہ کے سامنے نہیں رکھی گئیں۔ عدالت کے خیال میں اس نظر ثانی پالیسی کا مقصد مخصوص افراد کو فائدہ پہنچانا تھا۔ پالیسی میں تبدیلی اور کچھ ممبرز کو ترجیح دینا غیر قانونی تھا۔ اشرافیہ کا عوام اور قومی خزانے کو نقصان پہنچا کر امیر ہونا ایک آئینی معاشرے میں ناقابل قبول سمجھاجاتا ہے۔
لگتا ہے وزیراعظم اور کابینہ کو اس کے مضر اثرات سے اندھیرے میں رکھا گیا۔ پلاٹس کی تقسیم کا طریقہ کار کابینہ کے سامنے نہیں رکھا گیا۔ اس پالیسی میں کچھ ایسے ججز کو بھی شامل کر لیا گیا ، جنھوں نے پلاٹس کی درخواست دی بھی نہیں۔ یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ سرکاری ملازمت کے قوانین میں کبھی یہ کہیں نہیں لکھا گیا کہ کم قیمت پر پلاٹس کی تقسیم ملازم کا کوئی قانونی حق ہے۔
پی ٹی آئی کی یہ حکومت اقتدار میں آئی ہی اس مقصد سے تھی کہ معاشرے میں اب تک ہونے والی ایسی تمام بے ضابطگیوں اور ناانصافیوں کا وہ قلع قمع کرے گی اور پلاٹوں اور زمینوں کی ان بندر بانٹوں کا خاتمہ کریگی۔ مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ اس کے دور میں ایسی تمام سرگرمیوں کا خاتمہ تو کجا بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ عوام کے حق پر جتنے ڈاکے اس دور میں ڈالے گئے ہیں اس سے پہلے نہیں ڈالے گئے۔ چینی آٹے اور دوائیوں کے دام جو راتوں رات یکدم بڑھا دیے گئے اُس سے اربوں روپے عوام کی جیبوں سے نکل کر کس طرح مافیاز کے خزانوں میں منتقل ہوئے یہ سب کیا حکومت کے علم میں نہیں ہے ۔
حکومت وقت کی ذمے داری تھی کہ عوام پر ہونے والے اس ظلم سے اُسے بچایا جاتا۔ صرف تحقیقات کرکے خاموش ہوجانا یا اس سے نظریں چرا لینا اس کی ذمے داری نہیں تھا۔ اُسے تو ریاست کے تمام اختیارات کا منبع حاصل ہے۔ وہ چاہتے تو اس جرم میں ملوث تمام افراد کوگرفتارکر کے سزا دلوا سکتے تھے۔ سب کچھ دیکھتے ہوئے اور اختیار اور قدرت بھی رکھتے ہوئے بھی خاموش ہوجانا جرم میں شامل ہونے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ حکمران طبقے کی ایمانداری اور سچائی تو اس وقت مستند قرار پاتی جب ایسے لوگوں کو پکڑ کر عوام کا لوٹا ہوا پیسہ وصول کیا جاتا۔
اسلام آبادہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ لکھا ہے کہ ججزاور بیوروکریٹس کو نوازنے کی اس اسکیم میں شاید تمام حقائق وزیراعظم اور ان کے کابینہ کے سامنے نہیں رکھے گئے ، دیکھا گیا ہے کہ ایسی اسکیمیں تمام غور و فکر کے بعد اور وزیر اعظم اورکابینہ کی منظوری کے بعد ہی منظر عام پر لائی جاتی ہیں۔ موجودہ حکمران جو خود کو ایماندار حکمران کے طور پر پیش کرتے ہیں تو انھیں تو ایسی چیزوں کا اور بھی زیادہ خیال رکھناچاہیے
۔ عوام اُن سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ معاشرے کی تمام ناانصافیوں اورحق تلفیوں کا خاتمہ کرکے ایک صاف ستھرا معاشرہ ترتیب دینگے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک سنہری اور تاریخی فیصلہ لکھ کے معاملہ وزیراعظم اور کابینہ کے روبرو پیش کر دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس فیصلے کے مندرجات پر غور کرکے اور اس پر من وعن عمل کرکے اس اسکیم کو واپس لے لیتی ہے یا پھر اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ چلی جاتی ہے۔
یہ ملک اس لیے نہیں بنا تھا کہ یہاں اشرافیہ کو ساری مراعات اور فوائد حاصل ہوں اور غریب عوام کو صرف بھوک اور ننگ۔ یہ بجلی ، گیس کے نرخ خواہ کتنے ہی بڑھ جائیں اشرافیہ کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اُن کے تمام یوٹیلٹی بلز کے ادائیگی بھی قومی خزانوں سے پوری ہوتی ہیں۔ انھیں بھاری بھرکم تنخواہوں کے علاوہ جن جن سہولتوں اور مراعاتوں سے نوازا جاتاہے اس کا صحیح طور پر اندازہ کر لیا جائے تو ایک ایک وزیر ، جج اور بیورو کریٹ ہمیں ہر ماہ کروڑوں میں پڑتاہے۔ صرف اُن کی حفاظت کی مد میں بھی اس ملک اور قوم کا اربوں روپیہ خرچ ہورہا ہے جب کہ غریب کا یہاں کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
اُسے دو وقت کی روٹی ہی نصیب ہوجائے تو بڑی بات ہے۔ اس پر ستم یہ کہ ایک طرف کسی کو اپنا سر چھپانے کے لیے بھی کوئی چھت یا سائباں تک نصیب نہیں ہے اور دوسری جانب جس اشرافیہ کو تمام سہولتیں اور مراعات حاصل ہیں وہ کروڑوں کی زمین بہت ہی سستے داموں خرید کر امیر سے مزید امیر تر ہوتے جارہے ہیں اور کوئی روکنے والا نہیں بلکہ جنھیں روکنا چاہیے وہی ان کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں۔
اسلام آباد عدالت نے دیکھا گیا ہے کہ اہم ملکی معاملات میں سو موٹو لے کر عدل و انصاف کے تقاضوں کو نہ صرف پورا کیا ہے بلکہ انھیں منطقی انجام تک بھی پہنچایا ہے۔
ابھی حال میں ججوں ، بیوروکریٹس اور سرکاری افسران کو دارالحکومت کے چار سیکٹروں میں بہت ہی ارزاں قیمت پر پلاٹس الاٹ کرنے کی اسکیم کو مسترد کرتے ہوئے اُسے پھرکابینہ کے سامنے رکھنے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ یقینا دور رس نتائج کا حامل ایک تاریخی فیصلہ ہے۔62 صفحات پر مشتمل فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ ریاست کی زمین اشرافیہ کے لیے نہیں بلکہ عوامی مفاد کے لیے ہے۔
چند ججز، بیوروکریٹس اور گروپوں کو مارکیٹ سے بہت ہی کم قیمت پر پلاٹ کی الاٹمنٹ سے ملکی خزانے کو ایک کھرب روپے کا نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ عدالت نے سیکریٹری ہاؤسنگ کو فیصلہ دو ہفتوں میں کابینہ کے سامنے رکھنے کی ہدایت جاری کرتے ہوئے یہ توقع بھی کی ہے کہ وزیراعظم اور کابینہ مفاد عامہ کے تحت پالیسی بنائیںگے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سیکٹر ایف 12، جی 12، ایف 14اور 15 کی یہ اسکیم غیر قانونی اور غیرآئینی بھی ہے اور عوامی مفاد کے خلاف بھی۔ سیکٹر ایف 14اور 15 کی قرعہ اندازی میں شفافیت نہیں تھی۔ پبلک آفس ہولڈرز عوام کی فلاح وبہبود کے خلاف کسی اسکیم میں کوئی مفاد حاصل نہیں کرسکتے ہیں۔ نظر ثانی شدہ اس اسکیم کے تحت سپریم کورٹ کے ججز اور ملازمین ، اسلام آباد ہائیکورٹ اور ڈسٹرکٹ جوڈیشری کو اہل قرار دیاگیا جب کہ صحافیوں، وکلاء ہائی کورٹس اور فیڈرل شریعت کورٹ اوراس کے ملازمین کو اس میں سے نکال دیا گیا ہے۔
عدالت نے اس نظر ثانی شدہ اسکیم کو مخصوص ایلیٹ کے مفاد کے لیے ایک غیر شفاف پالیسی قرار دیا ہے۔ نظر ثانی پالیسی انھوں نے تیار کی ہے جن کے اپنے مفادات تھے۔ عدالت نے احتیاط کا دامن تھامے رکھتے ہوئے یہ خیال بھی ظاہر کیا کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ ساری بے ضابطگیاں وزیراعظم اور کابینہ کے سامنے نہیں رکھی گئیں۔ عدالت کے خیال میں اس نظر ثانی پالیسی کا مقصد مخصوص افراد کو فائدہ پہنچانا تھا۔ پالیسی میں تبدیلی اور کچھ ممبرز کو ترجیح دینا غیر قانونی تھا۔ اشرافیہ کا عوام اور قومی خزانے کو نقصان پہنچا کر امیر ہونا ایک آئینی معاشرے میں ناقابل قبول سمجھاجاتا ہے۔
لگتا ہے وزیراعظم اور کابینہ کو اس کے مضر اثرات سے اندھیرے میں رکھا گیا۔ پلاٹس کی تقسیم کا طریقہ کار کابینہ کے سامنے نہیں رکھا گیا۔ اس پالیسی میں کچھ ایسے ججز کو بھی شامل کر لیا گیا ، جنھوں نے پلاٹس کی درخواست دی بھی نہیں۔ یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ سرکاری ملازمت کے قوانین میں کبھی یہ کہیں نہیں لکھا گیا کہ کم قیمت پر پلاٹس کی تقسیم ملازم کا کوئی قانونی حق ہے۔
پی ٹی آئی کی یہ حکومت اقتدار میں آئی ہی اس مقصد سے تھی کہ معاشرے میں اب تک ہونے والی ایسی تمام بے ضابطگیوں اور ناانصافیوں کا وہ قلع قمع کرے گی اور پلاٹوں اور زمینوں کی ان بندر بانٹوں کا خاتمہ کریگی۔ مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ اس کے دور میں ایسی تمام سرگرمیوں کا خاتمہ تو کجا بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ عوام کے حق پر جتنے ڈاکے اس دور میں ڈالے گئے ہیں اس سے پہلے نہیں ڈالے گئے۔ چینی آٹے اور دوائیوں کے دام جو راتوں رات یکدم بڑھا دیے گئے اُس سے اربوں روپے عوام کی جیبوں سے نکل کر کس طرح مافیاز کے خزانوں میں منتقل ہوئے یہ سب کیا حکومت کے علم میں نہیں ہے ۔
حکومت وقت کی ذمے داری تھی کہ عوام پر ہونے والے اس ظلم سے اُسے بچایا جاتا۔ صرف تحقیقات کرکے خاموش ہوجانا یا اس سے نظریں چرا لینا اس کی ذمے داری نہیں تھا۔ اُسے تو ریاست کے تمام اختیارات کا منبع حاصل ہے۔ وہ چاہتے تو اس جرم میں ملوث تمام افراد کوگرفتارکر کے سزا دلوا سکتے تھے۔ سب کچھ دیکھتے ہوئے اور اختیار اور قدرت بھی رکھتے ہوئے بھی خاموش ہوجانا جرم میں شامل ہونے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ حکمران طبقے کی ایمانداری اور سچائی تو اس وقت مستند قرار پاتی جب ایسے لوگوں کو پکڑ کر عوام کا لوٹا ہوا پیسہ وصول کیا جاتا۔
اسلام آبادہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ لکھا ہے کہ ججزاور بیوروکریٹس کو نوازنے کی اس اسکیم میں شاید تمام حقائق وزیراعظم اور ان کے کابینہ کے سامنے نہیں رکھے گئے ، دیکھا گیا ہے کہ ایسی اسکیمیں تمام غور و فکر کے بعد اور وزیر اعظم اورکابینہ کی منظوری کے بعد ہی منظر عام پر لائی جاتی ہیں۔ موجودہ حکمران جو خود کو ایماندار حکمران کے طور پر پیش کرتے ہیں تو انھیں تو ایسی چیزوں کا اور بھی زیادہ خیال رکھناچاہیے
۔ عوام اُن سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ معاشرے کی تمام ناانصافیوں اورحق تلفیوں کا خاتمہ کرکے ایک صاف ستھرا معاشرہ ترتیب دینگے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک سنہری اور تاریخی فیصلہ لکھ کے معاملہ وزیراعظم اور کابینہ کے روبرو پیش کر دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس فیصلے کے مندرجات پر غور کرکے اور اس پر من وعن عمل کرکے اس اسکیم کو واپس لے لیتی ہے یا پھر اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ چلی جاتی ہے۔
یہ ملک اس لیے نہیں بنا تھا کہ یہاں اشرافیہ کو ساری مراعات اور فوائد حاصل ہوں اور غریب عوام کو صرف بھوک اور ننگ۔ یہ بجلی ، گیس کے نرخ خواہ کتنے ہی بڑھ جائیں اشرافیہ کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اُن کے تمام یوٹیلٹی بلز کے ادائیگی بھی قومی خزانوں سے پوری ہوتی ہیں۔ انھیں بھاری بھرکم تنخواہوں کے علاوہ جن جن سہولتوں اور مراعاتوں سے نوازا جاتاہے اس کا صحیح طور پر اندازہ کر لیا جائے تو ایک ایک وزیر ، جج اور بیورو کریٹ ہمیں ہر ماہ کروڑوں میں پڑتاہے۔ صرف اُن کی حفاظت کی مد میں بھی اس ملک اور قوم کا اربوں روپیہ خرچ ہورہا ہے جب کہ غریب کا یہاں کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
اُسے دو وقت کی روٹی ہی نصیب ہوجائے تو بڑی بات ہے۔ اس پر ستم یہ کہ ایک طرف کسی کو اپنا سر چھپانے کے لیے بھی کوئی چھت یا سائباں تک نصیب نہیں ہے اور دوسری جانب جس اشرافیہ کو تمام سہولتیں اور مراعات حاصل ہیں وہ کروڑوں کی زمین بہت ہی سستے داموں خرید کر امیر سے مزید امیر تر ہوتے جارہے ہیں اور کوئی روکنے والا نہیں بلکہ جنھیں روکنا چاہیے وہی ان کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں۔