دہشت گردی کی نئی لہر …
کابل میں طالبان حکومت نے پاکستان کے خلاف اپنی سرزمین استعمال نہ کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے
SYDNEY:
ملک میں دہشت گردی کی نئی لہر نے ان تمام تر پاکستانی ماہرین کے دعوے غلط ثابت کر دیے جن کا خیال تھا کہ کابل میں طالبان حکومت آنے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کا ناسور ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔
طالبان کی حکومت سے قبل ہماری حکومت افغانستان میں بیٹھے پاکستانی طالبان اور بلوچ علیحدگی پسند جنھوں نے افغانستان میں جا کر پناہ حاصل کی تھی کو اکثر و بیشتر ملک کے اندر دہشت گردی کی کارروائیوں کا ذمے دار ٹھہراتے اور ساتھ ساتھ افغانستان کی حکومت کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے کہ ان کی خفیہ ایجنسی بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کو عدم استحکام سے دو چار کرنے والے عناصر کی پناہ گیری، مدد اور مالی امداد کے ساتھ ساتھ منصوبہ بندی اور ٹیکنالوجی کے ذریعے بھی مدد کرتے ہیں۔ لیکن آج صورتحال بالکل مختلف ہے۔
پاکستان نے پچھلے سال سے طالبان کے آنے کے بعد ان سے بات چیت کا سلسلہ شروع کیا۔ طالبان کے اہم ذمے داران نے مذاکرات کے لیے ضمانت دی لیکن معاملے اپنے منطقی انجام تک نہ پہنچ سکے۔ طالبان کے کئی قیدیوں کو بھی چھوڑا گیا۔ افغانستان جانے والے درجنوں پاکستانی قبائل خاندانوں کی واپسی بھی ہوئی لیکن مذاکرات کا عمل تعطل کا شکار ہو گیا اور تحریک طالبان پاکستان نے 9 دسمبر کو پاکستانی حکومت کے ساتھ اعلان کردہ سیز فائر ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ مذاکرات کے آغاز پر ہی سے کچھ ٹی ٹی پی کے رہنماؤں نے اس حوالے سے اختلافی رائے کا اظہار کیا اور بیان بھی دیے۔
اگرچہ مذاکرات کے باقاعدہ ختم کیے جانے کا اعلان پاکستان کی طرف نہیں ہوا جس طرح مذاکرات کے آغاز پر پاکستان کے صدر اور وزیراعظم نے تحریک طالبان کو مذاکرات کی دعوت دی اور ساتھ ہی صدر عارف علوی نے معافی کی پیش کش بھی کی تھی لیکن طالبان کے سیز فائر کے ختم کیے جانے کے اعلان پر پاکستانی وزیر داخلہ نے بھی بیان داغا کہ ہماری طرف سے بھی سیز فائر ختم۔ یہی وجہ ہے شاید ہمارے وزیر داخلہ شیخ رشید کے اس بیان کی وجہ بھی ہو جس میں انھوںنے واضح طور پر کہا کہ تحریک طالبان پاکستان اور بلوچ علیحدگی پسند اب مل کر کارروائیاں کرتے ہیں اور ان کا یہ انتہائی اہم بیان نوشکی اور پنجگور کے حملوں کے بعد سامنے آیا۔
مطلب اب تحریک طالبان پاکستان اور بلوچ علیحدگی پسند مل کر پاکستان کو عدم استحکام سے دو چار کرنا چاہتے ہیں اور شاید اسی لیے سال کے آغاز پر لاہور میں کیے جانے والے حملے کی ذمے داری بلوچ تنظیم نے قبول کی اور کہا کہ ان کا نشانہ بینک میں کام کرنے والا ایک اہلکار تھا۔
بلوچستان کے اندر دہشت گرد کارروائیوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور نوشکی و پنجگور میں باقاعدہ منظم منصوبہ بندی کے ذریعے پاکستان سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا گیا یہ کوئی معمولی کارروائی یا جھڑپ نہیں بلکہ ایک باقاعدہ حملہ تھا جس کو پاکستانی فورسز نے اپنی جانیں دے کر ناکام بنایا اور انتظامیہ کو تین دن کرفیو لگا کر شہر کی کلیئرنس کرنا پڑی۔
بلوچستان کی طرح خیبرپختونخوا میں بھی پولیس اور سیکیورٹی اہلکاروں پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ جس میں سے اکثر کی ذمے داری افغانستان میں ابھرنے والی داعش نے قبول کیے ہیں۔ جو پہلے ہی سے پاکستان، ایران اور افغانستان کے خلاف جنگ کا اعلان کر چکی ہے۔ پچھلے 3 چار سالوں سے داعش نے خصوصی طور پر خیبرپختونخوا میں ابھرنے کی کافی کوشش کی۔
متعدد کارروائیاں کیں لیکن پاکستانی انٹیلی جینس حکام نے ان کے سیل ڈھونڈ کر انھیں ختم کیا۔ اسی دوران داعش کے لوگوں نے سیکیورٹی فورسز خصوصاً پولیس کے افسروں اور جوانوں کو نشانہ بنایا۔ سیکیورٹی حکام کے مطابق داعش افغانستان کے اندر تیزی سے مضبوط ہو رہی ہے۔ طالبان کے کچھ ناراض جنگجو بھی ان سے مل کر ان کی حمایت کر رہے ہیں۔
اسی لیے پاکستان کے اندر بھی اس تنظیم کی کارروائیاں بڑھ رہی ہیں۔ داعش خطے میں اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے برسرپیکار ہے اور یہ دیگر جنگجو تنظیموں سے اس لیے بھی مختلف ہے کہ اس میں پڑھے لکھے لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو مذہب سے وابستگی کی وجہ سے اس تنظیم میں شامل ہوئے۔ داعش کے پاس عقل بھی اور ٹیکنالوجی بھی، ماہرین کا خیال ہے کہ ٹیکنالوجی اور وہ بھی مہنگی ٹیکنالوجی کے استعمال کے ساتھ داعش کو دیگر جنگجو تنظیموں پر فوقیت حاصل ہے۔
ٹیکنالوجی کی وجہ سے بھی پاکستانی انٹیلی جینس اداروں کو داعش کے ساتھ لڑنے میں مشکلات پیش آئیں۔ داعش نے گزشتہ دنوں میں شہید کیے جانے والوں میں اکثر پولیس اہلکاروں کی ذمے داری قبول کی۔ سیکیورٹی حکام کے خیال میں اب کی بار داعش نے کسی مخصوص ہدف کو نشانہ بنانے کے بجائے صرف وردی والوں کے خلاف کارروائیاں شروع کی ہیں لیکن داعش خود ہی ساری کارروائیاں کر رہی ہے۔
تحریک طالبان اور بلوچ علیحدگی پسندوں کی طرح انھیں کسی کی مدد فی الحال حاصل نہیں۔ اس وقت اگر دیکھا جائے تو داعش نے خیبرپختونخوا کو اپنی ہدف بنا رکھا ہے تو تحریک طالبان نے پختونخوا کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں بھی کارروائیاں شروع کر دی ہیں اور اگر شیخ رشید کا بیان حقیقت پر مبنی ہے اور صرف ایک الزام نہیں تو پاکستان کے لیے بلوچ علیحدگی پسندوں کا تحریک طالبان کے ساتھ اتحاد انتہائی تشویشناک ہے۔ یہ عناصر تاحال افغانستان میں موجود ہیں اور کارروائیاں پاکستان کے اندر کر رہے ہیں۔
کابل میں طالبان حکومت نے پاکستان کے خلاف اپنی سرزمین استعمال نہ کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے لیکن اس دعوی کو پورا کرنے کے لیے اب عمل کا وقت آگیا ہے۔ پاکستان کے اندر کارروائیوں سے اگر اسلام آباد پر دباؤ بڑھ رہا ہے تو اسی طرح کابل میں طالبان حکومت پر بھی پاکستانی دباؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات شروع کیے جانے کی ایک بڑی وجہ افغان طالبان کی جانب سے ٹی ٹی پی کے لیے نرم گوشہ تھا اور افغان طالبان اس معاملے کو پرامن طریقے سے حل کرنا چاہتے تھے۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ افغان طالبان اور پاکستان کے مابین تعلقات صرف ایک ہی وجہ سے خراب ہو سکتے ہیں اور وہ ٹی ٹی پی ہے۔ اس لیے افغانستان کے اندر شکست کھانے والی طاقتیں اب افغان طالبان اور اسلام آباد کے تعلقات پر نظر گاڑھے ہوئے ہیں کہ کس طرح سے پھر دونوں ہمسایوں کے تعلقات خراب کر دیے جائیں جیسے ماضی میں کیے گئے تھے۔
اگر دیکھا جائے تو افغان صدر حامد کرزئی پاکستان کے تعاون سے صدر بنے تھے ان کے پہلے عارضی انتخاب اور بعد ازاں مستقل انتخاب میں پاکستان کا ایک اہم کردار تھا۔ افغان صدارتی انتخابات میں پاکستان کے اندر رہنے والے افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد نے بھی صدر کرزئی کو ووٹ دیا تھا لیکن یہ تعلقات اس وقت خراب ہوئے جب کابل میں بھارتی اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا اور این ڈی ایس نے پاکستان میں عدم استحکام کی کوششیں کیں جس کے نتیجے میں تحریک طالبان پاکستان جیسی تنظیمیں پاکستان میں قائم ہوئیں اور کافی نقصان پہنچایا پاکستان کو۔ اب یہ ذمے داری افغان طالبان پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنا فیصلہ کن کردار ادا کریں کیونکہ پاکستان مسلسل صبر و تحمل کا اظہار کر رہا ہے۔
پاکستان نے افغانستان کے اندر پاکستانی پرچم کی بے حرمتی سمیت سرحدی باڑ کے حوالے سے مکمل صبر و تحمل کا مظاہرہ کرکے افغان طالبان پر اپنا اعتماد ظاہر کیا ہے۔